اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 11:36
Advertisements

ہلال کڈز اردو

طلحہ اور درخت

دسمبر 2023

شیشے اور پلاسٹک کا کچرا زندگی کے لیے خطرناک:  زیروویسٹ لائف اسٹائل کے ـذریعے ہم اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں
طلحہ کراچی کے ایک خوبصورت اور جدید سہولیات سے مزین اسکول میں زیر تعلیم تھا۔وہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ ذمہ دار بھی تھا، اسی لیے اساتذہ اوروالدین دونوں ہی کے لیےباعث فخر تھا۔
طلحہ کی ایک عادت تھی۔وہ اسکول میں بریک کے وقت اپنے پسندیدہ درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا اور سکون سے لنچ باکس سے امی کے ہاتھ کے بنے پراٹھے، تو کبھی برگر کھایا کرتا تھا۔ 
وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا، طلحہ درخت کے تنے سے ٹیک لگائے لنچ باکس کے بجائے ہاتھ میں چپس اور بسکٹ کا پیکٹ پکڑے خیالوں میں گم تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آج دوسرا دن ہوگیا ہے اسے چپس اور بسکٹ کھاتے ہوئے۔ اصل میں دو دن سے اس کی امی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ طلحہ کو گھر کا بنا لنچ دینے سے قاصرتھیں۔ طلحہ نے بے دلی سے چپس کا پیکٹ کھولاہی تھا کہ ایک آواز نے اسے چونکا دیا۔ 
’’طلحہ!‘‘ 
طلحہ نے دائیں بائیں سرگھما کردیکھا لیکن اسے کوئی نظر نہ آیا۔ وہ سرجھٹک کر پھر سے چپس کے پیکٹ کی جانب متوجہ ہوگیا۔ 
’’طلحہ! یہ میں ہوں۔ وہی درخت جس سے تم ٹیک لگائے بیٹھے ہو۔‘‘ 
اب کے طلحہ کے حواس یکدم ہی بیدار ہوگئے۔ وہ تیزی سے سیدھا ہوکر درخت کو دیکھنے لگا۔ اسے ایسے لگا جیسے درخت کے تنے پر آنکھیں اور ہونٹ ظاہرہوچکے ہیں اور وہ اس کی جانب بہت سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے ۔ 
’’تم بول بھی سکتے ہو؟‘‘ طلحہ نے اٹک اٹک کر پوچھا۔ 
’’ آج خاص تم سے بات کرنے کے لیے میں یہ بولنے والی سپر پاورمانگ کرلایا ہوں کیونکہ تم سے بات کرنا بہت ضروری ہوگیا تھا۔‘‘ درخت نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔ 
’’ایسی کیا خاص بات کرنی ہے مجھ سے؟‘‘ طلحہ کو کچھ خوف سا محسوس ہوا۔ 
’’طلحہ! تمہیں شاید معلوم نہیں کہ تم سے کیا غلطی سرزد ہوگئی ہے۔ تم ہمیشہ یہاں بیٹھ کر اپنا لنچ کرتے ہو۔میرےدرخت پر رہنے والے پرندے تمہارے آس پاس اڑتے رہتے ہیں اور تمہارے لنچ کے گرے ہوئے ذرات سے پیٹ بھرتے ہیں۔ کبھی کبھی تم ان کی جانب پراٹھے کے ٹکڑے اچھال دیتے ہو۔ لیکن کل تم پلاسٹک کے پیکٹ میں چپس اور بسکٹ کھا کر اس کا ریپر یہیں پھینک کر چلے گئے۔ معصوم پرندے اس خالی پیکٹ کو کھانے کی شے سمجھ کر اپنی چونچوں سے کرید کر گھونسلوں میں لے گئےجسے وہ خود بھی نگل گئے اور ان کے بےبال و پَر بچوں نے بھی وہ پلاسٹک چونچوں میں لے لیا۔ جس سے انہیں سانس لینا محال ہوگیا۔ راتوں رات ایمرجنسی میں سیانے طوطے کو بلانا پڑا۔جس نے اپنی مڑی ہوئی چونچ سے ریپر کے وہ ٹکڑے نکالے تو ان سب کی جان بچ گئی۔ میں نہیں چاہتا کہ دوبارہ ایسا کچھ بھی ہو۔‘‘ 
درخت اپنی بات کہہ کر چپ ہوگیا جب کہ طلحہ اپنی جگہ ساکت سا ہوگیا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ انجانے میں اس کی وجہ سے پرندوں پر مصیبت آن پڑی تھی۔ پلاسٹک کتنا خطرناک ہوسکتا ہے اسے آج ہی اندازہ ہوا تھا۔ 
’’مجھے معاف کردو پیارے درخت! میں خیال رکھوں گا کہ آئندہ ایسا کچھ بھی نہ ہو لیکن مجھے اس بات کی بہت پریشانی ہے کہ چپس ، بسکٹ اور جانے کتنی ہی اشیاء پلاسٹک کے لفافوں میں مارکیٹ سے ملتی ہیں۔ اس کا کیا حل ہے؟‘‘ 
درخت کے تنے پر طمانیت بھری مسکان پھیل گئی،وہ بولا: ’’ مجھے خوشی ہے کہ تم نے اس کے حل کے بارے میں بھی سوچنا شروع کردیا ہے۔اگر یہ ساری چیزیں پلاسٹک کے بجائے کاغذی لفافوں میں مہیا ہونے لگیں تو ہم پلاسٹک کے نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچرے کو کوڑے دان میں ہی ڈالا جائے اور ساتھ ساتھ اسے ری سائیکل بھی کیا جائے تب ہی ہم آلودگی سے پاک ماحول میں رہ سکتےہیں۔ “ 
طلحہ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے سوچا کہ اس کے بارے میں مہم چلانی چاہیے اور یہ بہت ضروری امر ہے۔ 
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ بریک ختم ہونے کی گھنٹی بجی۔ طلحہ نے درخت کی جانب دیکھا جس کا تنا اسے دیکھ کرمسکرارہاتھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے درخت کے تنے پر سے آنکھیں اور ہونٹ غائب ہوگئے۔ 
درخت کی ایک ڈالی سے سفید رنگ کا پھول طلحہ کے پیروں کے پاس گر گیا۔ طلحہ نے خوشی سے وہ پھول اٹھایا اور چل دیا۔ راستے میں اسے کچرا ڈالنے کے لیے کوڑا دان نظر آئے، اس نے خالی پیکٹوں کو مخصوص کچرے دان میں پھینکا اور کلاس روم میں چلا آیا۔آج اسے زیروویسٹ لائف اسٹائل کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا تھا۔