اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 11:20
Advertisements

ہلال کڈز اردو

قائد کا نوجوان

دسمبر 2023

 وہ دسمبر کی ایک خوبصورت دوپہر تھی۔ کلاس طلباء سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ پہلے پیریڈ کی گھنٹی بجی تو سبھی لڑکےبڑے شوق سے استاد محترم کا انتظار کر نے لگے۔آج آدھی چھٹی تھی اسی لیے سب بچے بہت خوش تھے۔اتنے میں سر عاصم کلاس میں داخل ہوئے۔انہوں نے طلباءپرایک نظر ڈالی اور پھر کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولے:’’ آج تلاوت کون کرے گا؟‘‘پچھلی نشستوں سے ایک ہاتھ بلند ہوا۔ ٹیچر کے اشارے پر اجمل نے تلاوت کی سعادت حاصل کی۔ سب نے مودبانہ انداز میں پوری یکسوئی اور خاموشی سے تلاوتِ کلامِ پاک سنی۔اس کے بعد سعد نے نعتِ رسول مقبول ﷺ پڑھی۔تلاوت اور نعت کے بعد طلباء ٹیچر کے اگلے اشارےکے منتظر تھے ۔ جمعہ کے روزپہلا پیریڈ ادبی اور تعمیری سرگرمیوں کے حوالے سے ہو تا تھاتاکہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ طلباء کی تعمیری اوراخلاقی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو سکے۔ یہ پیریڈ’’بزمِ ادب‘‘ کہلاتا تھا۔استادِمحترم کی کوشش تھی کہ سب بچے’’ بزم ادب‘‘ میں شرکت کریں۔اس سلسلے میں وہ بچوں کی خوب حوصلہ افزائی کرتے۔ جسے کوئی شعر آتا وہ سنادیتا ،جسے کوئی قطعہ، حکایت ، لطیفہ یاکوئی ضرب المثل یاد ہوتی ، وہ پیش کردیتا۔ کچھ بچے ملی نغمے بھی سنا دیتے اور کوئی چھوٹی سی تقریر کے ذریعے اس بزم میں شامل ہوجاتے۔ اس طرح یہ پیریڈ بچوں کے لیے سب سے پسندیدہ اور دلچسپ بن گیا۔ اس سے بچوں کے اعتماد میں اضافہ ہوتااور ان میں اظہاروبیان کی خوبیاں بھی اجاگرہوتیں۔اس بزم کا سب سے دلچسپ حصہ ٹیچر کی اختتامی بات چیت ہوتی جس میں وہ بڑی سبق آموز باتیں بتاتے۔ 25 دسمبرکی آمد آمد تھی، اسی لیے آج ان کی بات چیت کا موضوع بابائے قوم قائداعظمؒ کی شخصیت تھی۔’’بچو! کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ الفاظ کس شخصیت کے ہیں:’میں آپ کو مصروف عمل ہونے کی تلقین کرتا ہوں، کام، کام اور بس کام۔‘‘ 
 حمزہ فوراً اپنی نشست سے اٹھ کربولا: ’’قائداعظم محمد علی جناح کے۔‘‘
’’شاباش!... کیا آپ قائداعظم کے بچپن کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔‘‘ سر نے حمزہ سے پوچھا۔
حمزہ نے ہاں میں جواب دیا اور قائداعظم کے بچپن کے بارے میں کچھ معلومات دینے لگا۔
’’قائداعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876ءکو کراچی میں پیدا ہوئے۔آپ نےاپنی ابتدائی تعلیم سندھ مدرستہ الاسلام سے حاصل کی۔‘‘
حمزہ نے مختصر طورپر قائداعظم کی پیدائش، بچپن اور ابتدائی تعلیم کے بارے میں اپنے کلاس فیلوز کو بتایا جس کے بعد حماد کی باری تھی۔ وہ آگے بڑھا اور قائد اعظم کی نوجوانی اورہائی سکول کی تعلیم کے بارے میں بتانے لگا۔ 
علی نے ان کے انگلستان میں قیام اور تعلیم پر بات کی تو احسن نے ان کے لنکنزاِن میں داخلے کی وجہ بتائی کہ قائداعظم ؒ کا کہنا تھا کہ انہوں نے  لنکنزاِن میں صرف اس لیے داخلہ لیا کہ اس کے صدر دروازے پرحضرت محمدؐکا نام دنیا کے عظیم قانون دانوں کی فہرست میں سب سے اوپر تھا۔ کلاس فیلوز نے یہ سنا تو تالیاں بجا کر قائد اعظم کی شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کی۔ 
قائد کی شخصیت پر کہنے کو تو بہت کچھ تھا مگروقت بہت کم تھا۔ استاد محترم کافی دیر سے نوٹ کر رہے تھے کہ سب بچے ایک اہم پہلو بھول رہے ہیں۔آج کی بزم ادب میں وہ انہیں کوئی سبق دینا چاہتے تھے۔ پیریڈ ختم ہونے میں صرف دس منٹ باقی تھے۔ سرعاصم اپنی کرسی سے اٹھےاورکہنےلگے:’’مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے آج کی بزمِ ادب پر شاندار رسپانس دیا۔ مگر ایک چیز جسےآپ لوگ بھول رہے ہیں وہ ہمارے قائدکےاقوال اورخاص طورپرطلبا کے لیے فرمودات ہیں۔‘‘
سب بچے سر عاصم کی باتوں پر ہمہ تن گوش تھے۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظمؒ کونوجوانوں اورطلباء سےبہت سی امیدیں تھیں۔ اسی لیے جب بھی موقع ملتا وہ انہیں کوئی نہ کوئی نصیحت ضرور کرتے۔ 12 اپریل 1948 ء کواسلامیہ کالج پشاورمیں انہوں نے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا،وہ آپ سب کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس خطاب میں انہوں نے طلباء کو پابندی وقت کا درس دیا۔ نظم و ضبط قائم کرنے کی تلقین کی ۔ ساری توجہ تعلیم پرمرکوزکرنے کی تلقین کی۔ اتحاد و یکجہتی کی اہمیت پر زوردیا۔ انہوں نے طلباء کو سیاست سےدور رہنے کاحکم دیا۔پراپیگنڈے اور نوجوانوں کو استعمال کر کے ملک میں نفرت اورافراتفری پھیلانے والے شرپسند عناصر سے باخبر اور محتاط رہنے کی تلقین کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بدلتے ہوئے وقت اورحالات کےساتھ ساتھ آپ کو جدید طریقہ تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی سے بھرپوراستفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے آپ کو جدید علوم و سیکھنےپر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔انہوں نے آپ کو پرخلوص رہنے، بڑوں کا احترام کرنے اور ملک و قوم کی خدمت کرنے کی تلقین بھی کی۔قائد کا کہنا تھا کہ ایمان،اتحاداورتنظیم ایسےاصول ہیں جن کی پاسداری کرتے ہوئے آپ خود کو منظم کرسکتے ہیں اوردنیا میں ہرکامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کر لیتے ہیں تو پھر آپ ہی ’قائد کے نوجوان‘ ہیں۔ ‘‘
سر عاصم کی باتیں طلباء کو اچھی لگ رہی تھیں۔ وہ ابھی بہت کچھ بتانا چاہتے تھے کہ پیریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بج اٹھی۔ طلباءنے ان کا شکریہ اداکرتے ہوئے قائداعظمؒ کے اقوال پر عمل کرنے کا عزم کرلیا۔