جو خون جذب ہے سرحد کے ذرے ذرے میں
سحر کے نور میں ڈھل کر افق پہ ابھرا ہے
قافلہ اسلام آباد سے روانہ ہو چکا تھا۔ منزل خطہ پوٹھوہار کا گائوں سنگھوڑی تھی۔
’’سڑک کنارے لگا بورڈ بتا رہا ہے کہ ہم روات پہنچ چکے ہیں۔ ‘‘عبیرہ نے چہکتے ہوئے کہا۔
’’جی! ہم واقعی روات پہنچ چکے ہیں اور کچھ فاصلے(distance) پر ایک سڑک سنگھوڑی گائوں کی جانب مڑ جائے گی اورتھوڑی ہی دیر میں ہم اپنے میزبان دلاور جدون کے پاس ہوں گے۔ ‘‘فرنٹ سیٹ پر بیٹھے عبیرہ کے ابو نے گردن گھما کر کہا۔
وہ سب سیر کے لیے مری جارہےتھے۔ اسی دوران ابو کے ایک دوست انکل دلاور کا ٹیلی فون پر رابطہ ہوا اور انہوں نے انہیں اپنے گائوں آنے کی دعوت دے دی۔
’’انکل ہم نے مری جانا تھا لیکن پھر اچانک یہ کہاں جارہے ہیں؟ ‘‘مہد نے تذبذب (doubt)کے عالم میں پوچھا۔
’’پیارے بچو! میں نے کب کہا کہ ہم مری نہیں جائیں گے۔ بھئی! آپ کے لیے اس گائوں میں ایک سرپرائز ہے، اسی کو سوچتے ہوئے میں نے ’ہاں‘ کردی اور یہ سرپرائز کیا ہے یہ وہاں جا کر ہی معلوم ہوگا۔‘‘
’’لو بھئی ہماری منزل(destination) آ گئی۔ وہ دیکھو گائوں جس کے گرد فصلیں لہلا رہی ہیں، یہ ہے سنگھوڑی۔‘‘ چاچو شکیل گاڑی جی ٹی روڈ سے اتارکر ایک چھوٹی سڑک پر لے آئے تھے ۔ اس کے دونوں اطراف چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیاں (trails)لہلاتے کھیتوں میں دور دور تک جاتی نظر آ رہی تھی ۔ یہاں کی زمین ملتان کی طرح ریتلی نہیں بلکہ پتھریلی اور ناہموار تھی ۔ ’’شاید اسی لیے اسے خطہ پوٹھوہار کہتے ہیں ‘‘۔ عبیرہ نے زمین کی ساخت (structure)دیکھتے ہوئے پوچھا۔
اس سے پہلے کہ کوئی اس کے سوال کا جواب دیتا، دلاورانکل کی پھر کال آگئی۔ وہ راستہ سمجھا رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں گاڑی اپنے میزبان کے پاس موجود تھی۔ ابو اور دلاور انکل ایک دوسرے سے ایسے ملے جیسے صدیوں سے بچھڑے ہوں۔
...
پرتکلف کھانا کھانے کے بعد انکل دلاورنے پوچھا:’’جی تو بچو!کیسا لگا ہمارا گائوں؟‘‘
’’انکل ابھی تو ہم نے صرف آپ کا گھر ہی دیکھا ہے، ویسے اس گائوں میں ایسی کیا بات ہے جسے بابا ہمارے لیے سرپرائز کہہ رہے تھے؟ ‘‘عبیرہ کو جیسے کچھ یاد آگیا ہو۔
’’ہونہہ! تو آپ کو اس گائوں کی خاص بات چاہیے تو ہم ابھی اسے دکھاتے ہیں۔‘‘انکل دلاور نے جوش سے کہا تو بچوں کا جیسے تجسس بڑھ گیا ہو۔
وہ ایک بار پھر پیدل ہی آڑھی ترچھی گلیوں میں سے گزرتے ہوئے ایک جگہ پہنچے جہاں سرسبز درختوں کے درمیان ایک خوبصورت یادگار موجود تھی۔ پاکستان کا سرسبزہلالی پرچم بڑی شان سے اس ہر لہرا رہا تھا۔
’’یہ کیپٹن محمد سرور شہید، نشان حیدر کی یادگار ہے۔ ‘‘عبیرہ کو یقین نہیں آرہا تھا۔ اس کی کتاب میں ان کی بہادری کا قصہ موجود تھا، جسے وہ کئی بار پڑھ چکی تھی اور آج وہ اپنی آنکھوں سے ان کی یادگار اور گائوں کا نظارہ کررہی ہے۔
’’یہ ہمارے پہلے نشان حیدر پانے والے بہادر ہیں ؟ ‘‘عبیرہ بے تابی سے بولی۔
’’ واقعی یہ بہت بڑا سرپرائز ہے۔ یہ وہ مٹی ہے جہاں کیپٹن سرور شہید جیسا بہادرانسان بچپن میں ان گلیوں میں کھیلتا ہوگا۔‘‘عبیرہ کے لہجے میں جذبات تھے۔ اسی دوران انکل دلاور بولے: ’’ہم نے اپنے بزرگوں سے ان کے قصے سن رکھے ہیں۔ کیپٹن سرور ایک درد دل رکھنے والے انسان تھے ۔ غریب پروراور سب کے کام آنے والے ۔ سخی (generous)اتنے کہ گائوں میں ’سخی سرور‘کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ‘‘دلاور انکل کی بات ختم ہوئی تو سب نے فاتحہ خوانی کے لیے ہاتھ اُٹھا دیے۔
’’عبیرہ! آپ تو جانتی ہیں کیپٹن سرور شہید کی بہادری کا کارنامہ، مجھے بھی بتانا۔‘‘ مزار سے واپسی پر افرا نے عبیرہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
....
کچن میں چائے تیار ہورہی تھی اور بچے انکل دلاور کے ارد گرد بیٹھے تھےجو آنکھیں بند کیے کسی سوچ میں گم تھے۔ پھر اچانک انہوں نے آنکھیں کھولیں جن میں ایک عجیب سی چمک تھی جیسے وہ فخر کر رہے ہوں ۔ انہیں فخر کرنا بھی چاہیے تھا کیونکہ وہ اس دھرتی کی خاطراپنی جان قربان کرنے والے بہادر سپاہی کے گائوں سے تعلق رکھتے تھے۔
’’کیپٹن محمد سرور10 نومبر 1910کو سنگھوڑی (راولپنڈی) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد حیات خان فوج میں حوالدار تھے۔‘‘انکل دلاور نے کیپٹن سرور شہید کے بارے میں بتانا شروع کیا۔
’’ محمد سرور جب 6 برس کے ہوئے تو ان کے والد نے انہیں ضلع لائل پور فیصل آباد کے گورنمنٹ مسلم ہائی اسکول طارق آباد میں داخل کروایا، جہاں رہ کر انہوں نے پرائمری امتیازی نمبروںdistinction))سے پاس کی اور پھر 1925 ء میں تاندلیا نوالہ مڈل سکول سے مڈل پاس کیا۔ 1927 ء میں انہوں نے دسویں جماعت میں اوّل پوزیشن حاصل کی، اس وقت ان کی عمر 17 برس تھی۔
انہیں اپنے والد کی طرح فوج میں جانے کا شوق تھا۔1929ء میں وہ ایک سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوگئے۔ 1941 ء میں حوالدار بن گئے۔ان کی بہادری اور سپاہیانہ صلاحیتوں کی بدولت 1942ء میں انہیں کمیشن کے لیے منتخب (select)کرلیا گیا۔ 1946ء میں انہیں کیپٹن کے عہدے پر ترقی (promotion)ملی اور 1947 ء میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو انہوں نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔
27 جولائی 1948 ء کو انہیں اوڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پرحملے حکم ملا۔ انہوں نے فوراَ اس پوسٹ کی جانب پیش قدمی (advance)شروع کردی۔
یہ تلپترا پہاڑی پر موجود ایک مضبوط بھارتی دفاعی پوزیشن تھی۔جب وہ مطلوبہ ہدف سے صرف 30 گز کے فاصلے پر تھے تو دشمن نے ان پر بھاری مشین گن، دستی بموں اور مارٹر گنوں سے فائرنگ شروع کر دی۔اس حملے میں ان کے ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوئی۔ جوں جوں ان کی تعداد میں کمی آتی گئی ان کا جوش و جذبہ مزیدبڑھتا چلا گیا۔ پھر کیپٹن محمد سرور نے ایک توپچی کی گن کو خود سنبھالا اور دشمن پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اب دشمن کا مورچہ صرف 20 گز کے فاصلے پر تھا۔ اس موقع پر انہیں معلوم ہوا کہ دشمن نے اپنے مورچوں کو خاردار تاروں سے محفوظ کر لیا ہے۔وہ اس صورت حال سے بالکل پریشان نہ ہوئے اور برابر دشمن پر فائرنگ کرتے رہے۔ انہوں نے اپنا دستی بم ایسا ٹھیک نشانے پر پھینکا کہ دشمن کی ایک میڈیم مشین گن کے پرخچے اڑ گئے مگر اس حملے میں ان کا دایاں بازوبھی شدید زخمی ہوگیا۔ اس کے باوجود وہ مسلسل حملے کرتے رہے۔انہوں نے ایک ایسی برین گن کا چارج لیا جس کا جوان شہید ہو چکا تھا چنانچہ اپنے زخموں کی پروا کیے بغیر چھ ساتھیوں کی مدد سے خاردار تاروں کو عبور(cross) کرکے دشمن کے مورچے پر آخری حملہ کیا، وہ گولیوں کی بارش برساتے ہوئے بہت دور تک نکل گئے۔‘‘
’’ دشمن نے اس اچانک حملے کے بعد ان پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔یوں ایک گولی کیپٹن سرور کے سینے میں لگی، اس طرح یہ بہادر سپاہی27جولائی 1948ء کوآزاد کشمیر کے محاذ پرمادر ِوطن کی حفاظت اور غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہوگیا۔ ان کے ساتھیوں نے جب انہیں شہید ہوتے دیکھا تو دشمن پر ایسا بھرپور حملہ کیا کہ اس کے سپاہی مورچہ چھوڑ کر بھاگ نکلے۔تھوڑی ہی دیر میں ان کا مشن مکمل ہوچکا تھا۔ یوں کیپٹن محمد سرور شہید نے اپنی جان دے کر اپنے فرض کو پورا کردیا۔‘‘
’’ کیپٹن صاحب بہت بہادر تھے۔ ‘‘انابیہ کی آنکھوں میں نمی تھی ۔
’’ بیٹی! شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے ۔ ‘‘ انکل دلاور نے انابیہ کو پیار کرتے ہوئے کہا اور پھر بولے:’’1956 ء میں جب پاکستان میں باقاعدہ عسکری اور شہری اعزازات کا آغاز ہوا تو وطن کے اس بہادر بیٹے کو اس کی عظیم بہادری اور قربانی کے صلے میں پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز’ نشان حیدر‘ عطا کیا گیا۔‘‘
کیپٹن محمد سرور شہید کی داستان جرأت بھلائی نہ جاسکے گی۔ ایسے بہادروں کا قصہ سنتے ہوئے جسم و روح میں جوش و جذبہ بھر جاتا ہے۔
وہ خون داغ بھی اب جس کے ہوچکے معدوم
نشانِ حیدر کرار بن کر ابھرا ہے
جو خون جذب ہے سرحد کے ذرے ذرے میں
سحر کے نور میں ڈھل کر افق پہ ابھرا ہے (اشعار:رابعہ فخری)
تبصرے