اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2024 05:33
اداریہ نومبر 2023 تُو شاہیں ہے! نشان حیدر کیپٹن محمد سرور شہید  اپنے ناخنوں کا خیال رکھیں! گائوں کی سیر فیڈرل بورڈ کے زیر اہتمام انٹرمیڈیٹ امتحانات میں  قہقہے پہلی بات حیرت کا مجسمہ  قائداعظمؒ  قائد کا نوجوان ملت ہے جسم جاں ہے محمد علی جناحؒ پاک سر زمین شاد باد! پیاسے پرندے کی حکایت  طلحہ اور درخت اسٹیفن ہاکنگ ایمانداری کا انعام فاختہ اور شکاری چُن مُن کی کہانی قہقہے  اداریہ۔ جنوری 2024ء نئے سال کا پیغام! اُمیدِ صُبح    ہر فرد ہے  ملت کے مقدر کا ستارا ہے اپنا یہ عزم ! روشن ستارے علم کی جیت بچّےکی دعا ’بریل ‘کی روشنی اہل عِلم کی فضیلت پانی... زندگی ہے اچھی صحت کے ضامن صاف ستھرے دانت قہقہے اداریہ ۔ فروری 2024ء ہم آزادی کے متوالے میراکشمیر پُرعزم ہیں ہم ! سوچ کے گلاب کشمیری بچے کی پکار امتحانات کی فکر پیپر کیسے حل کریں ہم ہیں بھائی بھائی سیر بھی ، سبق بھی بوند بوند  زندگی کِکی ڈوبتے کو ’’گھڑی ‘‘ کا سہارا کراچی ایکسپو سنٹر  قہقہے اداریہ : مارچ 2024 یہ وطن امانت ہے  اور تم امیں لوگو!  وطن کے رنگ    جادوئی تاریخ مینارِپاکستان آپ کا تحفظ ہماری ذمہ داری پانی ایک نعمت  ماہِ رمضان انعامِ رمضان سفید شیراورہاتھی دانت ایک درویش اور لومڑی پُراسرار  لائبریری  مطالعہ کی عادت  کیسے پروان چڑھائیں کھیلنا بھی ہے ضروری! جوانوں کو مری آہِ سحر دے مئی 2024 یہ مائیں جو ہوتی ہیں بہت خاص ہوتی ہیں! میری پیاری ماں فیک نیوزکا سانپ  شمسی توانائی  پیڑ پودے ...ہمارے دوست نئی زندگی فائر فائٹرز مجھےبچالو! جرات و بہادری کا استعارہ ٹیپو سلطان اداریہ جون 2024 صاف ستھرا ماحول خوشگوار زندگی ہمارا ماحول اور زیروویسٹ لائف اسٹائل  سبز جنت پانی زندگی ہے! نیلی جل پری  آموں کے چھلکے میرے بکرے... عیدِ قرباں اچھا دوست چوری کا پھل  قہقہے حقیقی خوشی اداریہ۔جولائی 2024ء یادگار چھٹیاں آئوبچّو! سیر کو چلیں موسم گرما اور اِ ن ڈور گیمز  خیالی پلائو آئی کیوب قمر  امید کا سفر زندگی کا تحفہ سُرمئی چڑیا انوکھی بلی عبدالرحیم اور بوڑھا شیشم قہقہے اگست 2024 اداریہ بڑی قربانیوں سے ملا  پاکستان نیا سویرا   ہمدردی علم کی قدر ذرا سی نیکی قطرہ قطرہ سمندر ماحول دوستی کا سبق قہقہے  اداریہ ستمبر 2024 نشانِ حیدر 6 ستمبر ... قابل ِفخر دن  اے وطن کے سجیلے جوانو! عظیم قائدؒ قائد اعظم ؒ وطن کی خدمت  پاکستان کی جیت سوچ کو بدلو سیما کا خط پیاسا صحرا  صدقے کا ثواب قہقہے  اداریہ اکتوبر 2024 اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ﷺ حضرت محمد مصطفیٰﷺ حضرت محمد ﷺ ... اسمائے گرامی ’’شکریہ ٹیچر!‘‘ میرا دیس ہے  پاکستان استاد اور زندگی آنکھیں...بڑی نعمت ہیں سرپرائز خلائی سیرکاقصہ شجر دوستی بوڑھا بھالو قہقہے گلہری کا خواب اداریہ : نومبر 2024 اقبال  ؒ کا خواب اور اُمید کی روشنی پیغام اقبالؒ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی ! جلد بازی صبر روشنی ہے! کامیابی فلسطین کے بچوں کے نام پانی والا جن ماحول دوستی زیرو ویسٹ لائف اسٹائل داداجان کا ٹی وی ناں اداریہ دسمبر 2024 امید کے چراغ ملت کا پاسباں محمد علی جناح قائد اعظم راز کی بات پہاڑ ہمارے دوست مٹی کا تحفظ اسموگ ، پانی اور بڑھتی آبادی دل کا سکون عبدالستار ایدھی گوہر خاص سوچ کو بدلو قہقہے
Advertisements

ہلال کڈز اردو

کوئی بُرا نہیں قُدرت کے کارخانے میں

نومبر 2023

” بھائی جائیں یہاں سے “، زور سے چیخنے کے ساتھ اس نے عبداللہ کو پیچھے کی جانب زور سے دھکا دیا تھا۔ عبداللہ کا سر میز کے کونے سے جا ٹکرایا تھا اب وہ اپنا سر میز پر مارتے ہوئے منہ سے زور زور سے آوازیں نکال رہا تھا۔
عبداللہ کی آواز سن کر امی کمرے میں بھاگی ہوئی آئیں اور اسے پکڑ کر سیدھا کیا جو اب بھی اپنا سر لکڑی کی میز پر مار رہا تھا۔
” زید بیٹا! آپ نے مجھے بلایا کیوں نہیں اور کیا ہوا ہے عبداللہ کو؟“ انہوں نے عبداللہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا جو اب ان کے ساتھ لگا خاموشی سے دبکا بیٹھا تھا۔
” امی! بھائی ہمیشہ میرا کام خراب کردیتے ہیں۔ آپ انہیں میری چیزوں سے پلیز دور رکھا کریں“زید کا روکھا لہجہ انہیں پریشان کر گیا۔ نہ جانے کیوں وہ عبداللہ کے ساتھ ایسا رویہ(behaviour) رکھتا تھا۔
” بیٹا! بھائی ہیں آپ کے“ امی نے سخت لہجے میں تنبیہ(warning) کی۔
” جی امی! لیکن پھر بھی آپ انہیں میرے کمرے میں نہ آنے دیا کریں۔ اپنا ریکٹ ہر جگہ مار مار کر میری چیزیں خراب کرتے ہیں۔“
” بیٹا! آپ یہ بات انہیں پیار سے سمجھا دیتے۔“ زید کے انداز اور لب و لہجے پر وہ شدید پریشان ہوئی تھیں۔
 عبداللہ سے اس کی معمولی جھڑپ ہونا روز مرہ کا معمول تھا لیکن اس کا یہ رویہ انہیں شدید پریشانی میں مبتلا کر رہا تھا۔ وہ عبداللہ کو ساتھ لیے کمرے سے چلی آئیں۔ اسے پلیٹ میں کھانا نکال کر دیا اور وہیں بیٹھ کرزید کے رویے میں آنے والی تبدیلی پر غور کرنے لگیں۔
عبداللہ اورزید دو بھائی تھے۔ عبد اللہ سات سال کا جب کہ زید بارہ سال کا تھا۔ وہ اپنے امی ابو اور دادی جان کے ساتھ رہتے تھے۔ عبداللہ ایک آٹسٹک(Autistic) بچہ تھا جس کی بولنے سمجھنے اور کام کرنے کی صلاحیتیں عام بچوں جیسی نہیں تھیں، ایسے بچے عام بچوں سے تھوڑے مختلف ہوتے ہیں، لوگوں سے ملنے سے کتراتے (shy)ہیں، غصہ یا ضد کرتے ہیں، اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں، ایک ہی بات کو بار بار دہراتے ہیں۔ عبد اللہ بھی ایسا ہی تھا۔ زید ہمیشہ اس کا خیال رکھتا تھا اس کے ساتھ کھیلتا تھا۔ ان کے والدین نے کبھی اپنے دونوں بچوں میں فرق نہیں کیا تھا لیکن چند روز سے زید کا رویہ عبداللہ کے ساتھ بہت برا ہوتا جا رہا تھا۔ وہ اسے اپنے کمرے میں نہ آنے دیتا، اس سے بات چیت نہیں کرتا، یہاں تک کہ اس نے اس کے ساتھ کھیلنا تک چھوڑ دیا تھا اور یہی بات امی جان کو بے حد پریشان کر رہی تھی۔ وہ سب یہی چاہتے تھے کہ عبداللہ اورزید محبت سے ساتھ ساتھ رہیں۔ جیسے وہ سب عبداللہ کا خیال رکھتے ہیں ویسے ہی زید بھی اس کا خیال رکھے، اس سے محبت سے پیش آئے۔
امی جان نے اس حوالے سے ان کے بابا جان سے بات کرنے کے بارے میں سوچا تاکہ وہ زید کو سمجھا سکیں۔ امی جان نے جب ان کے بابا جان کو ساری بات بتائی تو وہ بھی قدرے پریشان ہوگئے۔ انہوں نے زید سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
آج شام کو وہ جلدی گھر آئے اور ان کے ہاتھ میں ایک کتاب بھی تھی۔ انہوں نے عبد اللہ اورزید کو اپنے پاس بلایا۔ بابا جان کی آواز پر وہ دونوں دوڑے چلے آئے۔
” جی بابا جان آپ نے بلایا؟ “انہوں نے دونوں کو صوفے پر بیٹھنے کو کہا اور ہاتھ میں پکڑی کتاب زید کی طرف بڑھائی۔
” یہ کیا ہے بابا؟ “زید نے کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے کہا۔
” یہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی کتاب ہے بانگِ درا۔ اس میں سے آج ہم آپ کو ایک بہت اچھی سی نظم سنائیں گے۔پہاڑ اور گلہری ۔ کیا آپ سننا چاہیں گے؟“
” جی بابا “، زید نے کہا۔
” اور عبداللہ بچے آپ نہیں سنیں گے؟ “عبد اللہ نے اپنے نام پر سر اٹھا کر انہیں اور جلدی جلدی گردن ہلائی۔
” تو چلیے پھر سناتے ہیں آپ کو...علامہ اقبال لکھتے ہیں:
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم، تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
ذرا سی چیز ہے، اس پر غرور! کیا کہنا!
یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور! کیا کہنا
خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں!
جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں!
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے؟
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے
جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں، جانور غریب کہاں!
کہا یہ سن کے گلہری نے، منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا!
جو میں بڑی نہیں تری طرح تو کیا پروا!
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، یہ اس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اُس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اُس نے
قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے! خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تُو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برُا نہیں قدرت کے کارخانے میں“
بابا جان نظم سنا کر خاموش ہوئے تو دیکھا دونوں غور سے انہیں ہی سن رہے تھے۔ اب دونوں کو دیکھا اور سمجھانا شروع کیا۔
” اس نظم میں ایک پہاڑ جو گلہری سے کہتا ہے کہ میں بلند و بالا (tall)ہوں، میرے سامنے تیری کیا حیثیت (status)ہے تو ایک ننھی (small)سی گلہری ہے۔ تجھے چاہیے کہ شرم کر اور ڈوب مر۔ تب گلہری کو غصہ آجاتا ہے اور وہ کہتی ہے کہ اگر تجھے بڑا اور بلند قامت میرے ربّ نے بنایا ہے تو اس میں بھی حکمت (wisdom)ہے اور مجھے چھوٹا بنایا ہے تو وہ بھی میرے ربّ کی مرضی ہے۔ تو بلند و بالا ہے لیکن اپنی جگہ سے ہل(move) تک نہیں سکتا۔ میں چھوٹی ہوں لیکن درختوں پر چڑھ سکتی ہوں۔ اپنی بلندی پر اتنا غرور نہ کر کہ قد میں بڑا ہونا کوئی بڑائی نہیں ہے اگر اتنا ہی طاقت ور ہے تو اس چھوٹی سی چھالیہ کے ٹکڑے کو ہی توڑ کر دکھادے ورنہ یہ سمجھ لے کہ قدرت کے اس کارخانے میں کوئی شے بیکار(useless) نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے جس چیز کو پیدا فرمایا ہے اس کا کوئی نہ کوئی مقصد(purpose) ضرور ہے چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی“، نظم کا مطلب سمجھا کر بابا جان ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔
” کیا آپ کو یہ بات سمجھ آئی؟ “بابا جان کے پوچھنے پر زید نے اثبات میں سر ہلایا اور کہنے لگا:”اللہ تعالی نے اس کائنات میں جس چیز کو بھی پیدا کیا ہے، بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ ہم سب اللہ تعالی کی مخلوق (creature)ہیں اور اللہ کے لیے سب برابر ہیں۔ کسی میں کوئی خوبی ہے تو کسی میں کوئی۔ اسی لیے ہمیں نہ کسی کو کم تر(inferior) سمجھنا چاہیے نہ ہی برتر(superior)۔“ زید کی بات سن کربابا جان مسکرادیے۔
چند دنوں بعد وہ دونوں بھائی پارک میں کھیل رہے تھے، زید درخت پر چڑھنے (climb)کی کوشش کر رہا تھا جب کہ بابا جان اور امی جان ہی قریب ہی بینچ پر بیٹھے دونوں کو دیکھ رہے تھے۔
تب ہی عبد اللہ نے درخت کے قریب کھڑے زید کو زور سے دھکا دے کر گرادیا۔ زیدشدید غصے کی حالت میں کھڑا ہوا، امی جان اور بابا جان بھی اٹھ کر ان دونوں کے پاس آئے تھے۔ عبداللہ وہیں درخت کے پاس بیٹھا اب اپنے ریکٹ سے سانپ کے چھوٹے سے بچے کو مار رہا تھا جو زیدکی ٹانگ سے گر کر بھاگ رہا تھا۔ بابا جان نے آگے بڑھ کر عبداللہ کو اٹھایا جب کہ زید حیرانی سے کھڑا دیکھتا رہا۔اسے احساس ہوگیا تھا کہ عبداللہ نے اس کی جان بچائی ہے۔
’’باباجان! عبداللہ نے میری ٹانگ پر اس سانپ کو دیکھا اور ریکٹ سے نیچے گرا کر اسے مارنے لگا۔ میرا بھائی کتنا بہادر(brave) ہے۔‘‘ زید کی آنکھوں میں آنسو تھے۔پھر وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا عبداللہ کے پاس آیا اور اس کو گلے سے لگا لیا۔عبداللہ نے سانپ کے خطرے کو محسوس کرکے اس پر وار کیا تھا اور اس سے اپنے بھائی کو بچا لیا تھا۔ عبداللہ کو سمجھ نہیں آیا کہ بھائی نے اسے کیوں گلے لگایا ہے لیکن امی جان اور بابا جان سمجھ چکے تھے کہ آج زید کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔