” بھائی جائیں یہاں سے “، زور سے چیخنے کے ساتھ اس نے عبداللہ کو پیچھے کی جانب زور سے دھکا دیا تھا۔ عبداللہ کا سر میز کے کونے سے جا ٹکرایا تھا اب وہ اپنا سر میز پر مارتے ہوئے منہ سے زور زور سے آوازیں نکال رہا تھا۔
عبداللہ کی آواز سن کر امی کمرے میں بھاگی ہوئی آئیں اور اسے پکڑ کر سیدھا کیا جو اب بھی اپنا سر لکڑی کی میز پر مار رہا تھا۔
” زید بیٹا! آپ نے مجھے بلایا کیوں نہیں اور کیا ہوا ہے عبداللہ کو؟“ انہوں نے عبداللہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا جو اب ان کے ساتھ لگا خاموشی سے دبکا بیٹھا تھا۔
” امی! بھائی ہمیشہ میرا کام خراب کردیتے ہیں۔ آپ انہیں میری چیزوں سے پلیز دور رکھا کریں“زید کا روکھا لہجہ انہیں پریشان کر گیا۔ نہ جانے کیوں وہ عبداللہ کے ساتھ ایسا رویہ(behaviour) رکھتا تھا۔
” بیٹا! بھائی ہیں آپ کے“ امی نے سخت لہجے میں تنبیہ(warning) کی۔
” جی امی! لیکن پھر بھی آپ انہیں میرے کمرے میں نہ آنے دیا کریں۔ اپنا ریکٹ ہر جگہ مار مار کر میری چیزیں خراب کرتے ہیں۔“
” بیٹا! آپ یہ بات انہیں پیار سے سمجھا دیتے۔“ زید کے انداز اور لب و لہجے پر وہ شدید پریشان ہوئی تھیں۔
عبداللہ سے اس کی معمولی جھڑپ ہونا روز مرہ کا معمول تھا لیکن اس کا یہ رویہ انہیں شدید پریشانی میں مبتلا کر رہا تھا۔ وہ عبداللہ کو ساتھ لیے کمرے سے چلی آئیں۔ اسے پلیٹ میں کھانا نکال کر دیا اور وہیں بیٹھ کرزید کے رویے میں آنے والی تبدیلی پر غور کرنے لگیں۔
عبداللہ اورزید دو بھائی تھے۔ عبد اللہ سات سال کا جب کہ زید بارہ سال کا تھا۔ وہ اپنے امی ابو اور دادی جان کے ساتھ رہتے تھے۔ عبداللہ ایک آٹسٹک(Autistic) بچہ تھا جس کی بولنے سمجھنے اور کام کرنے کی صلاحیتیں عام بچوں جیسی نہیں تھیں، ایسے بچے عام بچوں سے تھوڑے مختلف ہوتے ہیں، لوگوں سے ملنے سے کتراتے (shy)ہیں، غصہ یا ضد کرتے ہیں، اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں، ایک ہی بات کو بار بار دہراتے ہیں۔ عبد اللہ بھی ایسا ہی تھا۔ زید ہمیشہ اس کا خیال رکھتا تھا اس کے ساتھ کھیلتا تھا۔ ان کے والدین نے کبھی اپنے دونوں بچوں میں فرق نہیں کیا تھا لیکن چند روز سے زید کا رویہ عبداللہ کے ساتھ بہت برا ہوتا جا رہا تھا۔ وہ اسے اپنے کمرے میں نہ آنے دیتا، اس سے بات چیت نہیں کرتا، یہاں تک کہ اس نے اس کے ساتھ کھیلنا تک چھوڑ دیا تھا اور یہی بات امی جان کو بے حد پریشان کر رہی تھی۔ وہ سب یہی چاہتے تھے کہ عبداللہ اورزید محبت سے ساتھ ساتھ رہیں۔ جیسے وہ سب عبداللہ کا خیال رکھتے ہیں ویسے ہی زید بھی اس کا خیال رکھے، اس سے محبت سے پیش آئے۔
امی جان نے اس حوالے سے ان کے بابا جان سے بات کرنے کے بارے میں سوچا تاکہ وہ زید کو سمجھا سکیں۔ امی جان نے جب ان کے بابا جان کو ساری بات بتائی تو وہ بھی قدرے پریشان ہوگئے۔ انہوں نے زید سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
آج شام کو وہ جلدی گھر آئے اور ان کے ہاتھ میں ایک کتاب بھی تھی۔ انہوں نے عبد اللہ اورزید کو اپنے پاس بلایا۔ بابا جان کی آواز پر وہ دونوں دوڑے چلے آئے۔
” جی بابا جان آپ نے بلایا؟ “انہوں نے دونوں کو صوفے پر بیٹھنے کو کہا اور ہاتھ میں پکڑی کتاب زید کی طرف بڑھائی۔
” یہ کیا ہے بابا؟ “زید نے کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے کہا۔
” یہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی کتاب ہے بانگِ درا۔ اس میں سے آج ہم آپ کو ایک بہت اچھی سی نظم سنائیں گے۔پہاڑ اور گلہری ۔ کیا آپ سننا چاہیں گے؟“
” جی بابا “، زید نے کہا۔
” اور عبداللہ بچے آپ نہیں سنیں گے؟ “عبد اللہ نے اپنے نام پر سر اٹھا کر انہیں اور جلدی جلدی گردن ہلائی۔
” تو چلیے پھر سناتے ہیں آپ کو...علامہ اقبال لکھتے ہیں:
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم، تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
ذرا سی چیز ہے، اس پر غرور! کیا کہنا!
یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور! کیا کہنا
خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں!
جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں!
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے؟
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے
جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں، جانور غریب کہاں!
کہا یہ سن کے گلہری نے، منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا!
جو میں بڑی نہیں تری طرح تو کیا پروا!
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، یہ اس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اُس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اُس نے
قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے! خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تُو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برُا نہیں قدرت کے کارخانے میں“
بابا جان نظم سنا کر خاموش ہوئے تو دیکھا دونوں غور سے انہیں ہی سن رہے تھے۔ اب دونوں کو دیکھا اور سمجھانا شروع کیا۔
” اس نظم میں ایک پہاڑ جو گلہری سے کہتا ہے کہ میں بلند و بالا (tall)ہوں، میرے سامنے تیری کیا حیثیت (status)ہے تو ایک ننھی (small)سی گلہری ہے۔ تجھے چاہیے کہ شرم کر اور ڈوب مر۔ تب گلہری کو غصہ آجاتا ہے اور وہ کہتی ہے کہ اگر تجھے بڑا اور بلند قامت میرے ربّ نے بنایا ہے تو اس میں بھی حکمت (wisdom)ہے اور مجھے چھوٹا بنایا ہے تو وہ بھی میرے ربّ کی مرضی ہے۔ تو بلند و بالا ہے لیکن اپنی جگہ سے ہل(move) تک نہیں سکتا۔ میں چھوٹی ہوں لیکن درختوں پر چڑھ سکتی ہوں۔ اپنی بلندی پر اتنا غرور نہ کر کہ قد میں بڑا ہونا کوئی بڑائی نہیں ہے اگر اتنا ہی طاقت ور ہے تو اس چھوٹی سی چھالیہ کے ٹکڑے کو ہی توڑ کر دکھادے ورنہ یہ سمجھ لے کہ قدرت کے اس کارخانے میں کوئی شے بیکار(useless) نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے جس چیز کو پیدا فرمایا ہے اس کا کوئی نہ کوئی مقصد(purpose) ضرور ہے چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی“، نظم کا مطلب سمجھا کر بابا جان ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔
” کیا آپ کو یہ بات سمجھ آئی؟ “بابا جان کے پوچھنے پر زید نے اثبات میں سر ہلایا اور کہنے لگا:”اللہ تعالی نے اس کائنات میں جس چیز کو بھی پیدا کیا ہے، بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ ہم سب اللہ تعالی کی مخلوق (creature)ہیں اور اللہ کے لیے سب برابر ہیں۔ کسی میں کوئی خوبی ہے تو کسی میں کوئی۔ اسی لیے ہمیں نہ کسی کو کم تر(inferior) سمجھنا چاہیے نہ ہی برتر(superior)۔“ زید کی بات سن کربابا جان مسکرادیے۔
چند دنوں بعد وہ دونوں بھائی پارک میں کھیل رہے تھے، زید درخت پر چڑھنے (climb)کی کوشش کر رہا تھا جب کہ بابا جان اور امی جان ہی قریب ہی بینچ پر بیٹھے دونوں کو دیکھ رہے تھے۔
تب ہی عبد اللہ نے درخت کے قریب کھڑے زید کو زور سے دھکا دے کر گرادیا۔ زیدشدید غصے کی حالت میں کھڑا ہوا، امی جان اور بابا جان بھی اٹھ کر ان دونوں کے پاس آئے تھے۔ عبداللہ وہیں درخت کے پاس بیٹھا اب اپنے ریکٹ سے سانپ کے چھوٹے سے بچے کو مار رہا تھا جو زیدکی ٹانگ سے گر کر بھاگ رہا تھا۔ بابا جان نے آگے بڑھ کر عبداللہ کو اٹھایا جب کہ زید حیرانی سے کھڑا دیکھتا رہا۔اسے احساس ہوگیا تھا کہ عبداللہ نے اس کی جان بچائی ہے۔
’’باباجان! عبداللہ نے میری ٹانگ پر اس سانپ کو دیکھا اور ریکٹ سے نیچے گرا کر اسے مارنے لگا۔ میرا بھائی کتنا بہادر(brave) ہے۔‘‘ زید کی آنکھوں میں آنسو تھے۔پھر وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا عبداللہ کے پاس آیا اور اس کو گلے سے لگا لیا۔عبداللہ نے سانپ کے خطرے کو محسوس کرکے اس پر وار کیا تھا اور اس سے اپنے بھائی کو بچا لیا تھا۔ عبداللہ کو سمجھ نہیں آیا کہ بھائی نے اسے کیوں گلے لگایا ہے لیکن امی جان اور بابا جان سمجھ چکے تھے کہ آج زید کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔
تبصرے