صبح سویرے کا سہانا وقت تھا ۔ہوا میں ہلکی سی خنکی تھی ۔سورج کی نرم نرم کرنیں محبت سے زمین کو دیکھ رہی تھیں۔ لہلہاتے کھیت تھے جو نگاہوں کو تازگی بخش رہے تھے ۔کینو کے باغات اور پھلوں سے لدے ہوئےدرخت دیکھ کر آفاق منزل شکر خداوندی (gratitude)پر آ کھڑا ہوا۔ اس نے ارد گرد کے خوبصورت مناظر کو دیکھا اور پھر عمارت کے اندر داخل ہو گیا ۔کمرے میں اعجاز چند نوجوانوں کے ساتھ مصروف گفتگو تھا۔
” السلام علیکم دوستو! کیا ہو رہا ہے ؟“
” وعلیکم السلام.... اچھا ہوا تم آ گئے ۔یوم ِاقبال کی مناسبت سے یہ بینر اسکول کے گیٹ پر لگوا دو اور باقی انتظامات (arrangements)بھی دیکھ لینا ۔میں طاہر کو لینے جا رہا ہوں۔“اعجاز نے گاڑی کی چابی اٹھائی وہ جلدی میں تھا۔
” ٹھیک ہے تم جاؤ میں سب کروا لوں گا ۔ “آفاق نے اطمینان دلایا ۔
بینرز لگوا کر اُس نے طاہر کے لیے ناشتے کے انتظامات دیکھے۔ پھر کچھ کرسیاں ٹیوب ویل کے پاس لگے درختوں کے نیچے رکھوائیں اور ایک کرسی پر بیٹھ کر طاہر کا انتظار کرنے لگا ۔بے اختیار اُس کی نگاہوں کے سامنے چند سال پہلے کا منظر آ گیا :
” آفاق یہ میں کیا سن رہا ہوں تم اور اعجاز نے جاب چھوڑ دی ہے اور پاکستان واپس جا رہے ہو؟ “آفاق کے دوست طاہر نے کمرے میں آتے ہوئے پوچھا۔
” ٹھیک سنا ہے ۔ “آفاق نے جواب دیا ۔
” لیکن کیوں ۔“طاہر نے سوال کیا۔
” اپنے گھر کیوں جاتے ہیں؟“اعجاز نے سوال کا جواب سوال سے دیا۔
” پاکستان میں رکھا کیا ہے؟ ۔“ طاہرجھلا یا ۔
” پاکستان میں پاکستان ہے اس سے بڑھ کر ہمیں اور کیا چاہیے ؟ “آفاق کے لہجے میں محبت تھی ۔
” اس وقت پاکستان کے حالات بہت خراب ہیں ۔ لوگ وہاں سے باہر جانے کی تدبیریں کر رہے ہیں۔ وہ لاکھوں روپے بھی دیتے ہیں اور اپنی جان کا خطرہ بھی مول لیتے ہیں ۔ابھی چند دن پہلے ہی تو غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کرنے والوں کی کشتی الٹ(capsized) گئی تھی ۔کتنا جانی نقصان ہوا اور تم یہاں سے واپس جا رہے ہو۔“ طاہر حیران تھا۔
” ہم جانتے ہیں پاکستان کے حالات خراب ہیں اور اسی لیے واپس جا رہے ہیں کہ اس وقت پاکستان کو ہماری ضرورت ہے ۔ ہماری تعلیم کی، ہمارے ہنر کی ضرورت ہے ۔“آفاق نے کہا۔
” تم زرمبادلہ (foreign-exchange) پاکستان بھیجتے رہنا ۔ اس وقت پاکستان کی یہی بہترین خدمت ہے ۔ اور فیملی کی بھی۔ “ طاہر نے کہا ۔
” ہمارا خیال ہے کہ پاکستان کو اور فیملی کو ہماری ضرورت ہے پیسوں کی نہیں۔پیسے ہم وہاں بھی کما لیں گے ۔ “اعجاز پر سکون تھا ۔
” یہاں بہترین حال ہے، بہترین مستقبل تمہارا منتظر ہے۔“اعجاز نے کہا۔
“اور وہاں ہمارا دیس (country)ہماری دھرتی ہماری منتظر ہے ہم اس کا مستقبل ہیں نا ۔ “آفاق نے کہا
” میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ تم دونوں کو آخرہوا کیا ہے؟ “طاہر جھلایا۔
” ہم میں عقابی روح بیدار ہوگئی ہے علامہ اقبال کے شاہین ہیں ہم ۔ “آفاق کے لبوں پر مسکرا ہٹ تھی۔
” دوست بات یہ ہے کہ یہاں آتے ہوئے ہم پاکستان سے وعدہ کر کے آئے تھے کہ ہم واپس لوٹیں گے...سو اب وعدہ پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ “ اعجاز نے وضاحت کی ۔
” سوچو ذرا علامہ اقبال اور قائد اعظم بھی تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس آئے اوران حالات میں جب یہاں مایوسی ہی مایوسی تھی،انہوں نے یہاں کے لوگوں میں امید اوریقین کی قوت بھری اور ہمارے لیے ایک آزاد وطن حاصل کیا۔ کیا اب یہ ہمارا فرض نہیں کہ انہی کے نقشِ قدم(footsteps) پر چلتے ہوئے اس دیس کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں ۔“ آفاق نے کہا۔
” تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہاں حالات کیسے ہیں۔ تم وہاں کچھ نہیں کر سکتے۔“ طاہر نے ڈرایا۔
” اپنے حصے کا چراغ تو جلا سکتے ہیں نا ۔“اعجاز پر اُمید تھا ۔
” جل ہی نہ جائے تمہارے حصے کا چراغ ... “طاہر نے مذاق اڑایا ۔
” جانا تو ہمیں ہے خواہ کچھ بھی ہو ۔ “آفاق پُر عزم تھا۔
” ایک بار پھر سوچ لو یہاں تم اتنی اچھی نوکری کر رہے ہو اور وہاں اتنی بےروزگاری ہے۔ “ طاہر نے اب سمجھانے کی کوشش کی ۔
” ہمیں نوکری نہیں کرنی ۔“آفاق کے لہجے میں لا پروائی تھی ۔
”ہم نے یہاں جتنی نوکری کرلی وہی بہت ہے۔کبھی پاکستان آؤ گے تو دیکھ لینا، ہم کیا کررہے ہیں۔“ آفاق کی بات پر طاہر حیران رہ گیا۔
” چلیں دیکھتے ہیں...تم وہاں کیا کرتے ہو۔ “طاہر نے چیلنج کیا۔
اعجاز اور آفاق دونوں بچپن کے دوست تھے ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ دونوں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکالرشپ پر باہر پڑھنے گئے۔ تعلیم مکمل کر کے انہوں نے وہاں نوکریاں (jobs)بھی کیں تاکہ انہیں کچھ تجربہ ہو جائے۔ اب تجربہ بھی تھا اور کچھ پیسہ بھی جمع ہو گیا تھا سو وہ وطن واپس لوٹ آئے ۔
.....
آفاق اور اعجاز اپنے علاقے میں آئے جہاں ان دونوں کی آبائی زمینیں تھیں۔انہوں نے اپنے کام کا آغاز یہیں سے کرنے کا فیصلہ کیا ۔اُنہیں احساس ہوا کہ مسائل کا انبار ہے اور وسائل(resources) محدود ۔نوجوان اگرچہ پڑھے لکھے تھے لیکن ہنر سےعاری ۔ بیروزگاری عروج پر تھی ۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا یہ عالم تھا کہ گھنٹوں نہ آتی تھی ۔ نوجوانوں میں باہر جانے کا رجحان تھا۔وہ ہر ممکن طریقے سے ملک سے باہر جانا چاہتے تھے خواہ انہیں اس کے لئے اپنا گھر بار ہی کیوں نہ بیچنا پڑ جائے۔ آفاق اور اعجاز نے ان کی کاؤنسلنگ کی، انہیں سمجھایا کہ گھر کے حالات خراب ہو جائیں تو گھر نہیں چھوڑتے بلکہ حالات کو سدھارتے ہیں ۔
پھر انہوں نے اپنی بے آباد زمینوں پر توجہ مرکوز کی، کچھ پر کاشت شروع کی۔توانائی کے بحران (energy crisis)سے نمٹنے کے لیے بائیو گیس کے پلانٹ لگائے ۔شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل لگوائے تاکہ پانی کا مسئلہ حل ہو ۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے فلٹریشن پلانٹ لگوایا ۔ نوجوانوں کو ہنر مند(skilled) بنانے کے لیے ایک ادارہ بنایا جہاں نہ صرف یہ سکھایا جاتا کہ اپنا کاروبار کیسے کرنا ہے بلکہ پیشہ ورانہ تربیت بھی دی جاتی ۔ آئی ٹی میں مہارت کے لیے نوجوانوں کی رہنمائی کی۔
لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے نئے کاروباری آئیڈیاز پر کام شروع کیا ۔اُن کا علاقہ چونکہ کینو(orange) کی پیداوار کے لیے مشہور تھا اور ہر سال کینو کے چھلکے ضائع ہو جاتے تھے تو انہوں نے ان چھلکوں سے تیل نکال کر سٹریس آئل بنانے کا پلانٹ لگایا ۔
پھلوں کو خشک کرنے،اُن کا پاؤڈر بنانے کا پلانٹ لگایا ۔نوجوانوں کو وہاں کام دیا ۔ گھریلو صنعتوں کو فروغ (promote)دینے کے لیے تربیتی پروگرام شروع کیے ۔اس دوران بہت سے لوگوں نے انہیں مایوس کرنے اور ان کی حوصلہ شکنی(discouragement) کی کوشش بھی کی لیکن وہ ان کی باتوں کی پروا کیے بغیر اپنے کام میں جتے (busy)رہے۔
پانچ سال کے قلیل عرصے میں ان کے گاؤں کی حالت بدل گئی۔ خوشحال پاکستان کی طرف انہوں نے قدم بڑھا دیے تھے اور ثابت کر دیا تھا کہ وہ اقبال کے شاہیں اور ملت کے مقدر کا ستارہ ہیں!
....
آفاق نہ جانے کب تک ان سوچوں میں ہی گم رہتا کہ طاہر کی آواز سنائی دی: ” واہ ... واہ تم دونوں نے تو کمال کر دیا ہے۔“
” خوش آمدید دوست!“آفاق نے آگے بڑھ کر طاہر کو گلے لگایا۔
” میں تم دونوں کی ہمت کی داد (appreciate)دیتا ہوں مجھے یہ سب دیکھ کر بے حد خوشی ہو رہی ہے اور تم پر فخر ہو رہا ہے ۔“طاہر نے داد دی۔
”کہا تھا نا کہ محنت ،مہارت اور جدوجہد (struggle)سے ہر چیز حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہم نے بھی یہی کیا۔“ اعجاز نے کہا۔
” واقعی جو تم نے جو کہا تھا کر دکھایا ۔ “طاہر نے سراہا۔‘‘
’’کتنے عرصے کے لیے آئے ہو؟ “آفاق نے پوچھا
” ہمیشہ کےلیے ...مجھے بھی اپنے حصے کا چراغ جلانا ہے ۔ “طاہر نے جواب دیا اور اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھایا جسے اعجاز اور آفاق نے تھام لیا۔ ان کے چہرے چمک رہے تھے ۔قریبی سکول سے آواز آرہی تھی:
نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نَم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
تبصرے