اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2024 05:00
اداریہ نومبر 2023 تُو شاہیں ہے! نشان حیدر کیپٹن محمد سرور شہید  اپنے ناخنوں کا خیال رکھیں! گائوں کی سیر فیڈرل بورڈ کے زیر اہتمام انٹرمیڈیٹ امتحانات میں  قہقہے پہلی بات حیرت کا مجسمہ  قائداعظمؒ  قائد کا نوجوان ملت ہے جسم جاں ہے محمد علی جناحؒ پاک سر زمین شاد باد! پیاسے پرندے کی حکایت  طلحہ اور درخت اسٹیفن ہاکنگ ایمانداری کا انعام فاختہ اور شکاری چُن مُن کی کہانی قہقہے  اداریہ۔ جنوری 2024ء نئے سال کا پیغام! اُمیدِ صُبح    ہر فرد ہے  ملت کے مقدر کا ستارا ہے اپنا یہ عزم ! روشن ستارے علم کی جیت بچّےکی دعا ’بریل ‘کی روشنی اہل عِلم کی فضیلت پانی... زندگی ہے اچھی صحت کے ضامن صاف ستھرے دانت قہقہے اداریہ ۔ فروری 2024ء ہم آزادی کے متوالے میراکشمیر پُرعزم ہیں ہم ! سوچ کے گلاب کشمیری بچے کی پکار امتحانات کی فکر پیپر کیسے حل کریں ہم ہیں بھائی بھائی سیر بھی ، سبق بھی بوند بوند  زندگی کِکی ڈوبتے کو ’’گھڑی ‘‘ کا سہارا کراچی ایکسپو سنٹر  قہقہے اداریہ : مارچ 2024 یہ وطن امانت ہے  اور تم امیں لوگو!  وطن کے رنگ    جادوئی تاریخ مینارِپاکستان آپ کا تحفظ ہماری ذمہ داری پانی ایک نعمت  ماہِ رمضان انعامِ رمضان سفید شیراورہاتھی دانت ایک درویش اور لومڑی پُراسرار  لائبریری  مطالعہ کی عادت  کیسے پروان چڑھائیں کھیلنا بھی ہے ضروری! جوانوں کو مری آہِ سحر دے مئی 2024 یہ مائیں جو ہوتی ہیں بہت خاص ہوتی ہیں! میری پیاری ماں فیک نیوزکا سانپ  شمسی توانائی  پیڑ پودے ...ہمارے دوست نئی زندگی فائر فائٹرز مجھےبچالو! جرات و بہادری کا استعارہ ٹیپو سلطان اداریہ جون 2024 صاف ستھرا ماحول خوشگوار زندگی ہمارا ماحول اور زیروویسٹ لائف اسٹائل  سبز جنت پانی زندگی ہے! نیلی جل پری  آموں کے چھلکے میرے بکرے... عیدِ قرباں اچھا دوست چوری کا پھل  قہقہے حقیقی خوشی اداریہ۔جولائی 2024ء یادگار چھٹیاں آئوبچّو! سیر کو چلیں موسم گرما اور اِ ن ڈور گیمز  خیالی پلائو آئی کیوب قمر  امید کا سفر زندگی کا تحفہ سُرمئی چڑیا انوکھی بلی عبدالرحیم اور بوڑھا شیشم قہقہے اگست 2024 اداریہ بڑی قربانیوں سے ملا  پاکستان نیا سویرا   ہمدردی علم کی قدر ذرا سی نیکی قطرہ قطرہ سمندر ماحول دوستی کا سبق قہقہے  اداریہ ستمبر 2024 نشانِ حیدر 6 ستمبر ... قابل ِفخر دن  اے وطن کے سجیلے جوانو! عظیم قائدؒ قائد اعظم ؒ وطن کی خدمت  پاکستان کی جیت سوچ کو بدلو سیما کا خط پیاسا صحرا  صدقے کا ثواب قہقہے  اداریہ اکتوبر 2024 اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ﷺ حضرت محمد مصطفیٰﷺ حضرت محمد ﷺ ... اسمائے گرامی ’’شکریہ ٹیچر!‘‘ میرا دیس ہے  پاکستان استاد اور زندگی آنکھیں...بڑی نعمت ہیں سرپرائز خلائی سیرکاقصہ شجر دوستی بوڑھا بھالو قہقہے گلہری کا خواب اداریہ : نومبر 2024 اقبال  ؒ کا خواب اور اُمید کی روشنی پیغام اقبالؒ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی ! جلد بازی صبر روشنی ہے! کامیابی فلسطین کے بچوں کے نام پانی والا جن ماحول دوستی زیرو ویسٹ لائف اسٹائل داداجان کا ٹی وی ناں اداریہ دسمبر 2024 امید کے چراغ ملت کا پاسباں محمد علی جناح قائد اعظم راز کی بات پہاڑ ہمارے دوست مٹی کا تحفظ اسموگ ، پانی اور بڑھتی آبادی دل کا سکون عبدالستار ایدھی گوہر خاص سوچ کو بدلو قہقہے
Advertisements

Advertisements

ہلال کڈز اردو

تُو شاہیں ہے!

نومبر 2023

  صبح سویرے کا سہانا وقت تھا ۔ہوا میں ہلکی سی خنکی تھی ۔سورج کی نرم نرم کرنیں محبت سے زمین کو دیکھ رہی تھیں۔ لہلہاتے کھیت تھے جو نگاہوں کو تازگی بخش رہے تھے ۔کینو کے باغات اور پھلوں سے لدے ہوئےدرخت دیکھ کر آفاق منزل شکر خداوندی (gratitude)پر آ کھڑا ہوا۔ اس نے ارد گرد کے خوبصورت مناظر کو دیکھا اور پھر عمارت کے اندر داخل ہو گیا ۔کمرے میں اعجاز چند نوجوانوں کے ساتھ مصروف گفتگو تھا۔
” السلام علیکم دوستو! کیا ہو رہا ہے ؟“
” وعلیکم السلام.... اچھا ہوا تم آ گئے ۔یوم ِاقبال کی مناسبت سے یہ بینر اسکول کے گیٹ پر لگوا دو اور باقی انتظامات (arrangements)بھی دیکھ لینا ۔میں طاہر کو لینے جا رہا ہوں۔“اعجاز نے گاڑی کی چابی اٹھائی وہ جلدی میں تھا۔
” ٹھیک ہے تم جاؤ میں سب کروا لوں گا ۔ “آفاق نے اطمینان دلایا ۔
بینرز لگوا کر اُس نے طاہر کے لیے ناشتے کے انتظامات دیکھے۔ پھر کچھ کرسیاں ٹیوب ویل کے پاس لگے درختوں کے نیچے رکھوائیں اور ایک کرسی پر بیٹھ کر طاہر کا انتظار کرنے لگا ۔بے اختیار اُس کی نگاہوں کے سامنے چند سال پہلے کا منظر آ گیا :
” آفاق یہ میں کیا سن رہا ہوں تم اور اعجاز نے جاب چھوڑ دی ہے اور پاکستان واپس جا رہے ہو؟ “آفاق کے دوست طاہر نے کمرے میں آتے ہوئے پوچھا۔
” ٹھیک سنا ہے ۔ “آفاق نے جواب دیا ۔
” لیکن کیوں ۔“طاہر نے سوال کیا۔
” اپنے گھر کیوں جاتے ہیں؟“اعجاز نے سوال کا جواب سوال سے دیا۔
” پاکستان میں رکھا کیا ہے؟ ۔“ طاہرجھلا یا ۔
” پاکستان میں پاکستان ہے اس سے بڑھ کر ہمیں اور کیا چاہیے ؟ “آفاق کے لہجے میں محبت تھی ۔
” اس وقت پاکستان کے حالات بہت خراب ہیں ۔ لوگ وہاں سے باہر جانے کی تدبیریں کر رہے ہیں۔ وہ لاکھوں روپے بھی دیتے ہیں اور اپنی جان کا خطرہ بھی مول لیتے ہیں ۔ابھی چند دن پہلے ہی تو غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کرنے والوں کی کشتی الٹ(capsized) گئی تھی ۔کتنا جانی نقصان ہوا اور تم یہاں سے واپس جا رہے ہو۔“ طاہر حیران تھا۔
” ہم جانتے ہیں پاکستان کے حالات خراب ہیں اور اسی لیے واپس جا رہے ہیں کہ اس وقت پاکستان کو ہماری ضرورت ہے ۔ ہماری تعلیم کی، ہمارے ہنر کی ضرورت ہے ۔“آفاق نے کہا۔
” تم زرمبادلہ (foreign-exchange) پاکستان بھیجتے رہنا ۔ اس وقت پاکستان کی یہی بہترین خدمت ہے ۔ اور فیملی کی بھی۔ “ طاہر نے کہا ۔
” ہمارا خیال ہے کہ پاکستان کو اور فیملی کو ہماری ضرورت ہے پیسوں کی نہیں۔پیسے ہم وہاں بھی کما لیں گے ۔ “اعجاز پر سکون تھا ۔
” یہاں بہترین حال ہے، بہترین مستقبل تمہارا منتظر ہے۔“اعجاز نے کہا۔
“اور وہاں ہمارا دیس (country)ہماری دھرتی ہماری منتظر ہے ہم اس کا مستقبل ہیں نا ۔ “آفاق نے کہا
” میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ تم دونوں کو آخرہوا کیا ہے؟ “طاہر جھلایا۔
” ہم میں عقابی روح بیدار ہوگئی ہے علامہ اقبال کے شاہین ہیں ہم ۔ “آفاق کے لبوں پر مسکرا ہٹ تھی۔
” دوست بات یہ ہے کہ یہاں آتے ہوئے ہم پاکستان سے وعدہ کر کے آئے تھے کہ ہم واپس لوٹیں گے...سو اب وعدہ پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ “ اعجاز نے وضاحت کی ۔
” سوچو ذرا علامہ اقبال اور قائد اعظم بھی تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس آئے اوران حالات میں جب یہاں مایوسی ہی مایوسی تھی،انہوں نے یہاں کے لوگوں میں امید اوریقین کی قوت بھری اور ہمارے لیے ایک آزاد وطن حاصل کیا۔ کیا اب یہ ہمارا فرض نہیں کہ انہی کے نقشِ قدم(footsteps) پر چلتے ہوئے اس دیس کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں ۔“ آفاق نے کہا۔
” تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہاں حالات کیسے ہیں۔ تم وہاں کچھ نہیں کر سکتے۔“ طاہر نے ڈرایا۔
” اپنے حصے کا چراغ تو جلا سکتے ہیں نا ۔“اعجاز پر اُمید تھا ۔
” جل ہی نہ جائے تمہارے حصے کا چراغ ... “طاہر نے مذاق اڑایا ۔
” جانا تو ہمیں ہے خواہ کچھ بھی ہو ۔ “آفاق پُر عزم تھا۔
” ایک بار پھر سوچ لو یہاں تم اتنی اچھی نوکری کر رہے ہو اور وہاں اتنی بےروزگاری ہے۔ “ طاہر نے اب سمجھانے کی کوشش کی ۔
” ہمیں نوکری نہیں کرنی ۔“آفاق کے لہجے میں لا پروائی تھی ۔
”ہم نے یہاں جتنی نوکری کرلی وہی بہت ہے۔کبھی پاکستان آؤ گے تو دیکھ لینا، ہم کیا کررہے ہیں۔“ آفاق کی بات پر طاہر حیران رہ گیا۔
” چلیں دیکھتے ہیں...تم وہاں کیا کرتے ہو۔ “طاہر نے چیلنج کیا۔
  اعجاز اور آفاق دونوں بچپن کے دوست تھے ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ دونوں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکالرشپ پر باہر پڑھنے گئے۔ تعلیم مکمل کر کے انہوں نے وہاں نوکریاں (jobs)بھی کیں تاکہ انہیں کچھ تجربہ ہو جائے۔ اب تجربہ بھی تھا اور کچھ پیسہ بھی جمع ہو گیا تھا سو وہ وطن واپس لوٹ آئے ۔
                .....
آفاق اور اعجاز اپنے علاقے میں آئے جہاں ان دونوں کی آبائی زمینیں تھیں۔انہوں نے اپنے کام کا آغاز یہیں سے کرنے کا فیصلہ کیا ۔اُنہیں احساس ہوا کہ مسائل کا انبار ہے اور وسائل(resources) محدود ۔نوجوان اگرچہ پڑھے لکھے تھے لیکن ہنر سےعاری ۔ بیروزگاری عروج پر تھی ۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا یہ عالم تھا کہ گھنٹوں نہ آتی تھی ۔ نوجوانوں میں باہر جانے کا رجحان تھا۔وہ ہر ممکن طریقے سے ملک سے باہر جانا چاہتے تھے خواہ انہیں اس کے لئے اپنا گھر بار ہی کیوں نہ بیچنا پڑ جائے۔ آفاق اور اعجاز نے ان کی کاؤنسلنگ کی، انہیں سمجھایا کہ گھر کے حالات خراب ہو جائیں تو گھر نہیں چھوڑتے بلکہ حالات کو سدھارتے ہیں ۔
پھر انہوں نے اپنی بے آباد زمینوں پر توجہ مرکوز کی، کچھ پر کاشت شروع کی۔توانائی کے بحران (energy crisis)سے نمٹنے کے لیے بائیو گیس کے پلانٹ لگائے ۔شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل لگوائے تاکہ پانی کا مسئلہ حل ہو ۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے فلٹریشن پلانٹ لگوایا ۔ نوجوانوں کو   ہنر مند(skilled) بنانے کے لیے ایک ادارہ بنایا جہاں نہ صرف یہ سکھایا جاتا کہ اپنا کاروبار کیسے کرنا ہے بلکہ پیشہ ورانہ تربیت بھی دی جاتی ۔ آئی ٹی میں مہارت کے لیے نوجوانوں کی رہنمائی کی۔
لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے نئے کاروباری آئیڈیاز پر کام شروع کیا ۔اُن کا علاقہ چونکہ کینو(orange) کی پیداوار کے لیے مشہور تھا اور ہر سال کینو کے چھلکے ضائع ہو جاتے تھے تو انہوں نے ان چھلکوں سے تیل نکال کر سٹریس آئل بنانے کا پلانٹ لگایا ۔
پھلوں کو خشک کرنے،اُن کا پاؤڈر بنانے کا پلانٹ لگایا ۔نوجوانوں کو وہاں کام دیا ۔ گھریلو صنعتوں کو فروغ (promote)دینے کے لیے تربیتی پروگرام شروع کیے ۔اس دوران بہت سے لوگوں نے انہیں مایوس کرنے اور ان کی حوصلہ شکنی(discouragement) کی کوشش بھی کی لیکن وہ ان کی باتوں کی پروا کیے بغیر اپنے کام میں جتے (busy)رہے۔ 
پانچ سال کے قلیل عرصے میں ان کے گاؤں کی حالت بدل گئی۔ خوشحال پاکستان کی طرف انہوں نے قدم بڑھا دیے تھے اور ثابت کر دیا تھا کہ وہ اقبال کے شاہیں اور ملت کے مقدر کا ستارہ ہیں!
....
آفاق نہ جانے کب تک ان سوچوں میں ہی گم رہتا کہ طاہر کی آواز سنائی دی:      ” واہ ... واہ تم دونوں نے تو کمال کر دیا ہے۔“
” خوش آمدید دوست!“آفاق نے آگے بڑھ کر طاہر کو گلے لگایا۔
” میں تم دونوں کی ہمت کی داد (appreciate)دیتا ہوں مجھے یہ سب دیکھ کر بے حد خوشی ہو رہی ہے اور تم پر فخر ہو رہا ہے ۔“طاہر نے داد دی۔
”کہا تھا نا کہ محنت ،مہارت اور جدوجہد (struggle)سے ہر چیز حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہم نے بھی یہی کیا۔“ اعجاز نے کہا۔
” واقعی جو تم نے جو کہا تھا کر دکھایا ۔ “طاہر نے سراہا۔‘‘
’’کتنے عرصے کے لیے آئے ہو؟ “آفاق نے پوچھا
” ہمیشہ کےلیے ...مجھے بھی اپنے حصے کا چراغ جلانا ہے ۔ “طاہر نے جواب دیا اور اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھایا جسے اعجاز اور آفاق نے تھام لیا۔ ان کے چہرے چمک رہے تھے ۔قریبی سکول سے آواز آرہی تھی:
  نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
  ذرا نَم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی



 

Advertisements