اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 11:43
Advertisements

کوکب علی

Advertisements

ہلال کڈز اردو

علامہ محمد اقبالؒ... شمعِ اُمید

نومبر 2023

یہ آتے ہوئے موسمِ خزاں کی ایک خوبصورت شام تھی ۔ درختوں سے بہترین رنگوں کے پتے زمین پر گر کر منظر کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے تھے۔دریائے نیکر کے قریب سرد ہوائیں چل رہی تھیں ۔ لہروں میں ٹھنڈک کا احساس تھا ۔ اور میرے لیے یہ انتہائی اعزاز(pride) کی بات تھی کہ آج میں اس دریا کے عین سامنے تھا، جہاں کبھی اقبال بھی ہوا کرتے تھے ۔ مجھے یقین ہے جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ کا دریائے نیکر شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کے نایاب عکس(rare reflection) کبھی فراموش نہ کر سکا ہو گا۔
میرا دل چاہ رہا تھا میں بھی دریائے نیکر کے قریب بیٹھ کر اقبال کی طرح ’’ ایک شام کے نام‘‘ سے نظم تحریر کروں ، جو آج کی اس قابلِ قدر اور حسین شام کے بارے میں ہو، سڑک کے اس جانب ڈاکٹر محمداقبال کی رہائش گاہ (residence) تھی ، جب اقبال نے جرمنی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے دوران ہائیڈل برگ میں دریائے نیکر کے قریب اس گھر میں قیام(stay) کیا تھا۔ انہوں نے یہاں جرمن زبان سیکھی ۔ اسی رہائش گاہ کے باہر ان کی لکھی گئی نظم ’’ایک شام‘‘ کو جرمن زبان میں ترجمہ کر کے یاد گاری کتبے طورپر نصب کیا گیا ہے۔
یہ شام میرے لیے اسرار سے بھری ہوئی ایک شام تھی۔ گویا اقبال شناسی  کے کسی پہلو سے آشنائی (Understanding)کی  شام تھی۔ میں ٹہلتے ٹہلتے سڑک کے اس پار گیا۔میں اقبال کی رہائش گاہ کے باہر ان کی موجودگی کو محسوس کر پا رہا تھا ۔ میں نے اس کتبے پر اپنی انگلیاں پھیریں ، ایسا لگ رہا تھا اقبال کے قلم کی خوشبو میرے پوروں میں اتر آئی ہے ۔ میں نے کچھ عرصہ قبل ہی اعلیٰ تعلیم کی غرض سے جرمنی کے شہر میونخ کا رُخ کیا تھا۔ چونکہ آج9 نومبر تھا ، علامہ اقبال کی پیدائش کا دن ،تو میں خصوصی طور پر دریائے نیکر کے قریب ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی رہائش گاہ دیکھنے چلا آیا تھا ۔
 اقبال کی رہائش گاہ کو شہر کی پارلیمنٹ نے قومی ورثہ(National Heritage) قرار دے رکھا ہے، میں شاعرِ مشرق کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے پھولوں کا گلدستہ لایا تھا ، مجھے یقین ہےجناب اقبالؒ نے میری طرف سے ان پھولوں کو ضرور قبول کیا ہو گا۔
مجھے جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ دریائے نیکرکے کنارےعلامہ اقبال کی نظم ایک شام اور اقبال کی اس رہائش گاہ سے محبت ہونے لگی مگر پتہ نہیں کیوں میری آنکھیں آنسوئوں سے تر ہو گئیں اور سوچ کے نئے در کھلنے لگے۔
علامہ اقبال کی محبت نے مجھے گوئٹے کی محبت میں بھی مبتلا کر دیا ۔ گوئٹے جرمن زبان کے مایہ ناز شاعر تھے ۔ انہوں نے آپﷺ کی محبت میں جرمن زبان میں نعت لکھی تھی ،جس کا علامہ اقبال نے فارسی زبان میں ترجمہ کیا ۔
میں ایک ایک قدم اٹھا رہا تھا اور دوبارہ اس پار دریائے نیکر کے کنارے آکر قریبی بنچ پر بیٹھ گیا۔ شام کے وقت برقی قمقمے جل اٹھے تھے ، سورج بس غروب ہونے ہی کو تھا کہ اچانک دریا کی لہریں ڈاکٹر روتھ فائو کے نقش بنانے لگیں ۔
اُف ... ہم اور ہماری قوم!
اُف ...ہم اور ہمارے ہاتھوں سے بچھڑے خزانے!
ڈاکٹر روتھ فائو کی زندگی مجھے علامہ اقبال کی نظم ’’ہمدردی‘‘ کا عکس لگی۔ڈاکٹر روتھ فائو کوڑھ(leprosy) کے مریضوں کی تاریک زندگی میں ’’جگنو ‘‘کی طرح امید کی ایک کرن تھیں۔آخر وہ کیا جذبہ تھا کہ جس نے جرمنی جیسے ملک کو چھوڑ کر ڈاکٹر روتھ فائو کو پاکستان میں رہنے پر مجبور کیا ۔
 ان کی سبز آنکھیں مریضوں کے لیے آسانیوں کا استعارہ(metaphor) تھیں، وہ آسانیاں جو دشوار فیصلوں کے بعد میسر آتی ہیں، کیا اتنا آسان ہے،چمک دمک کی زندگی چھوڑ کر کوڑھ کے مریضوں کے علاج کے لیے اپنا آپ وقف کر دینا، اور پھر مٹ 
جانا ۔آہ! ڈاکٹر روتھ فائو آپ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی ۔ 
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے 
آتے ہیں جو کام دوسروں کے 
آج جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا میرے دل میں کم مائیگی کا احساس مزید گہرا ہو رہا تھا ۔ ہمارے ملک کے کتنے نوجوان تھے جو اقبال کے ’’ شاہین‘‘ تھے اور ملک و ملت کے معنی سے آشنا تھے۔ جو اقبال کی شاعری میں چھپے پیغام کی تلاش میں علم و ہنر کا سفر طے کر رہے تھے ؟ ایک وقت تھا جب آدھی سے زیادہ دنیا مسلمانوں کے علمی کارناموں سے مغلوب تھی ۔
سمر قند و بخارا کیسی کیسی تہذیب کے مراکز گزرے ... کیسی کیسی شخصیات نے علم و ہنر کی شمع (candle of knowledge)فروزاں کی... جب خلافتِ عثمانیہ میں بغداد میں علم و فضل کے چشمے پھوٹا کرتے تھے۔ کیسے کیسے نامور پیاسے علم کے پیالے لبوں سے لگایا کرتے تھے۔ ان کے تراجم ، تحقیق اور سائنسی ایجادات نے دنیا کو مسخر(conquered) کر رکھا تھا۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا اور آگے بڑھتے رہنا ہی کامیاب زندگی کی علامت ہے ۔
میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔مجھے معلوم ہے ہمارے نوجوانوں کے لیے کتنا مشکل ہے اپنی زبان  اردو میں بات کرنا ، مضمون تحریر کرنا ، اور اشعار کی تشریح کرنا ، آج کے نوجوان کے مسائل ، گفتگو کے عنوان اور زاویۂ فکر و عمل...سب کچھ مستعار لیا گیا (borrowed)ہے۔اندھی تقلید نے تہذیب و ثقافت کا دامن چھوڑنے پر مجبور کر رکھا ہے ۔ 
کہاں کہاں ہمیں رہنما کی ضرورت پیش آئے گی ، کہاں کہاں ہمارا ہاتھ تھاما جائے گا۔ہم اپنی پہچان کے سفر سے کیوں بھٹک رہے ہیں ، اپنی مٹی پر قدم جمانا اور اپنے آسمان پر اڑان بھرنا ہمارے لیے کیوں اس قدر نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ حرص ، طمع اور لالچ کی بناء پر ایک دوسرے سے سبقت لے جانا ... کیا  بس یہی ہمارا حاصل وصول رہ گیا ہے ؟ہم کب با خبر ہوں گے اپنی صلاحیتوں کی پہچان سے ، اپنی قوم کی عظمت و رفعت سے اور ان مواقع (opportunities)سے جو ہماری زمیں سے ہی ہمیں میسر آسکتے ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ نے قوم کے نوجوانوں کی خاطر ہی مغرب کی زندگی کو خیر باد کہااوراپنے اشعار کے ذریعے ہر ہر شعبہ ہائے زندگی میں رہنما ئی(guidance) کے فرائض انجام دیے۔ تا کہ کسی طرح قوم کے نوجوان اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔اپنے بال و پر(abilities/skills) کو بروئے کار لا سکیں اور دین کی رسی کو تھام کر کامیاب ہو جائیں، مقصدِ حیات کو جان جائیں ۔
مہ و انجم کا یہ حیرت کدہ باقی نہ رہے 
تُو رہے اور تیرا  زمزمہ ء لا موجود 
میں نے مڑ کر اقبال کی رہائش گاہ کی جانب دیکھا گویا اقبال سے گفتگو کے ساتھ ساتھ قوم کی اس حالت ِ زار پر شرمندہ بھی 
تھا ۔
دریائے نیکر شاید ہر حساس(sensitive) دل کی دھڑکن کی رو میں بہتا ہے اور بہتا رہے گا۔عین اس لمحے مجھے لگا کہ  تیزہوائوں کے جھونکے دریا کے کناروں میں اتر کر اس کی لہروں میں پیام امید (Message of hope)بھر رہے ہیں اور وہ اچھل اچھل کر گویا کہہ رہی ہیں:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نو مید، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے
امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں!

کوکب علی

Advertisements