پیارے بچو! کیسے ہیں آپ ؟ اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔ماہِ نومبر کا شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس ماہ کی9تاریخ کو قومی شاعر ، حکیم الامت اور مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس حوالے سے خصوصی تقاریب منعقد ہوتی ہیں جن میں آپؒ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ آپؒ کے پیغام کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
علامہ محمد اقبالؒ کی پیدائش سیالکوٹ میں ہوئی۔ چلیں! اسی حوالے سے آپ کو ایک قصہ سناتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کی پیدائش سے قبل اُن کے والد شیخ نُو رمحمد نے ایک خواب دیکھاکہ ایک میدان میں بہت سے لوگ جمع ہیں۔وہ سب ایک سفید کبوتر پکڑنے کی کوشش کررہے ہیں، جو اُن کے اُوپر چکر لگا رہا ہے۔ اچانک وہ کبوتر ایک تیز غوطہ لگاتے ہوئے ان کی گود میں آگرتا ہے۔ شیخ نُور محمد نے اِس خواب کی تعبیر یوں کی کہ اللہ تعالیٰ اُنھیں ایک ایسا قابل بیٹا عطا کرے گا جو اسلام کی خدمت کرے گا۔
اللہ تعالیٰ نے جب شیخ نور محمد کو بیٹا عطا کیا تو اُنھوں نے اُس کا نام محمد اقبال ؒ رکھا ۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی ۔ یہ علامہ اقبال ؒ کی خوش قسمتی تھی کہ اُنھیں اپنے والدِمحترم کی خاص توجہ کے ساتھ ساتھ بچپن ہی سے مولوی سید میر حسن جیسے قابل اُستاد کی رہنمائی میّسر آئی۔مولوی میر حسن ان دنوں اپنے مدرسہ میں پڑھاتے تھے، جب وہ سکاچ مشن سکول میں استاد مقرر ہوئے تو علامہ اقبال نے بھی اِسی سکول میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سے آپ نے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد آپ لاہورچلے گئے،جہاں پنجاب یونیورسٹی سے گریجوایشن اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔یہاں آپ کوپروفیسر آرنلڈ جیسے قابل استاد کی رہنمائی ملی۔علامہ اقبال نے کیمبرج یونیورسٹی انگلستان سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔بعدازاں لندن سے بیرسٹری کا امتحان بھی پاس کیا۔یوں اپنے طویل علمی سفر میں مختلف اساتذہ کی نگرانی میں علم وحکمت کا یہ پوداپروان چڑھتے ہوئے ایک تناور درخت بن گیا۔
علامہ محمد اقبالؒ اپنے اساتذہ کا بے حداحترام کرتے تھےاور اپنی کامیابی میں ان کے ناقابل فراموش کردار کا اقرار کرتے ہوئے انہیں اکثر یاد کرتے۔
نفس سے جس کے،کھلی میری آرزو کی کلی
بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو
ساتھیو! اُستاد کا یہی ادب واحترام علامہ محمد اقبالؒ کو نکتہ داں بنا گیا۔انہوں نے نہ صرف ملت اسلامیہ کو اس کا اعلیٰ مقام یاد دلایا بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کو اس وقت اُمید کی روشنی دکھائی جب وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ آپؒ نے یہاں کے نوجوانوں کو مسلمانوں کا شاندار ماضی یاد دلاتے ہوئے اُن کے دِل میں آزادی کی تڑپ پیدا کی۔ آپ نے اُنھیں بتایا کہ اپنے دِل میں اُمید کے چراغ کو ہمیشہ جلائے رکھیں کیونکہ اُمید ہی وہ شمع ہے جس سے آرزو کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ آپ نے بتایا کہ نااُمیدی زہر قاتل ہے،انسان کتنا ہی مضبوط ہو،نااُمیدی موت کی گھاٹ اُتاردیتی ہے۔ زندگی کو مضبوط اورمستحکم بنانے کاوسیلہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بشارت لاتقنطوا کو سامنے رکھتے ہوئے کبھی مایوس نہ ہو۔برصغیر کے مسلمان امید کی اسی شمع کی روشنی میں منزل پاکستان پر پہنچے۔
ساتھیو! آج بھی ہمیں حضرتِ علامہ اقبالؒ کا پیغام یاد رکھتے ہوئے اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ امید ہی وہ روشنی ہے جو ہمیں ہر مشکل کا مقابلہ کرنا سکھاتی ہے۔ اس شمارے میں شامل ’’شمع اُمید ‘‘ ایسی ہی کہانی ہے جو آپ کے دلوں میں امید کی روشنی بھردے گی۔’’حکایت الماس وزغال ‘‘میں آپ ایک ہیرے کی عظمت اور کوئلے کی ذلت کا راز جان سکیں گے۔ ایک کہانی آپ کو سیالکوٹ میں واقع علامہ محمد اقبال ؒ کے آبائی گھر ’’اقبال منزل ‘‘ کی سیر کرائے گی۔جس میں آپ علامہ اقبالؒ کی اولین درسگاہوں کے ساتھ ساتھ ان کے اساتذہ کے بارے میں جان سکیں گے ۔
اَب اجازت دیجیے۔ ہمیں آپ کی ای میلز اور خطوط کا انتظار رہے گا۔ اللہ نگہبان!
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
اُمیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں(علامہ اقبالؒ)
تبصرے