جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے تو ریاست پاکستان نے قائد اعظم محمد علی جناح کے وژن کے تحت کبھی اسرائیل کی ریاست کے جابرانہ قیام کو تسلیم نہیں کیا اور ہر حکومت نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اسرائیل کی ریاست کو تب تک تسلیم نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ عالمی قوانین اور معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے ایک خود مختار اور آزاد فلسطینی ریاست کے وجود کو یقینی نہیں بناتا۔
فلسطینی تنظیم حماس کی جانب سے حالیہ حملے اور اس کے ردعمل میں اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی شدید ترین جوابی کارروائی کے حوالے سے جو خبریں اس وقت موصول ہورہی ہیں وہ انتہائی بھیانک منظر پیش کر رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک اسرائیل کی بہیمانہ بمباری سے لا تعداد نہتے فلسطینی شہید ہو چکے جن کی اصل تعداد کا اندازہ لگانا اس لیے بھی مشکل ہے کہ بہت سارے فلسطینی افراد کے جسد خاکی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ کے لیے بجلی، پانی، ادویات اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا داخلہ سب کچھ بند کر دیا گیا ہے یعنی دنیا کے سب سے بڑی جیل کواب باقاعدہ شمشان گھاٹ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں اسلامی ممالک کی جانب سے دیے جانے والے ردعمل کو اگر دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ فلسطین جیسے حساس معاملے پر بھی مسلم ممالک بدقسمتی سے کسی ایک نقطے پر یکجا نہیں ہیں۔
جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے تو ریاست پاکستان نے قائد اعظم محمد علی جناح کے وژن کے تحت کبھی اسرائیل کی ریاست کے جابرانہ قیام کو تسلیم نہیں کیا اور ہر حکومت نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اسرائیل کی ریاست کو تب تک تسلیم نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ عالمی قوانین اور معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے ایک خود مختار اور آزاد فلسطینی ریاست کے وجود کو یقینی نہیں بناتا۔ اس تازہ تصادم میں بھی انسانی ہمدردی کے تحت پاکستانی عوام اور حکومت غزہ کی نہتی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے اسرائیل کی طرف سے غزہ پر لگائی جانے والی انسانیت سوز پابندیوں کی پرزور مذمت کی گئی ہے۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے توفلسطین سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا تاہم پہلی جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد خطے کی سیاسی اور جغرافیائی صورتحال میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں جب فرانس اور برطانیہ نے مل کر مشرق وسطیٰ کی مختلف ریاستوں کو علاقائی عصبیت کی بنیاد پر تقسیم کر دیا ۔ اس دور میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت برطانیہ کی زیرسرپرستی یہودیوں کو یورپ سے فلسطین منتقل کیا گیا۔
جب صہیونی کافی تعداد میں فلسطین پہنچ گئے توانہوں نے اپنی عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا جن کا نشانہ نہتے فلسطینی لوگ تھے۔ان فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا، ان کی جائیدادوں پر قبضہ کیا گیا اور ان کے کاروباروں کو تباہ کر دیا گیا۔ اس کے ردعمل کے طور پر عرب قوم پسندوں نے مزاحمت کا آغاز کیا جوآج تک جاری ہے۔
1948ء میں جب برطانیہ نے فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی ریاست قائم کی تو یروشلم اس کا حصہ نہیں تھا۔ اقوام متحدہ نے علاقے کو فلسطین اور اسرائیل میں تقسیم کرنے کے لیے جو نقشہ بنایا اس میں بھی یروشلم کو بین الاقوامی کنٹرول میں دینے کی سفارش کی گئی تھی۔مگر فلسطینیوں نے یہ پلان تسلیم نہیں کیا اور اپنے پورے علاقے کی آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ 1948 ء کی جنگ میں اسرائیل نے مغربی یروشلم پر قبضہ کر لیا جب کہ مشرقی یروشلم اردن کے کنٹرول میں رہا۔
اقوام متحدہ نے 1947 ء میں اس معاملے میں 2 ریاستی حل پیش کیا جس میں ایک یہودی اور ایک عرب ریاست کا تصور پیش کیا گیا جبکہ بیت المقدس کو ایک آزاد بین الاقوامی شہر قرار دیا گیا۔ تاہم اگلے ہی سال ہونے والی عرب اسرائیل جنگ نے اس تجویز کو عملی جامہ پہننے سے پہلے ہی ختم کر دیا۔
1973ء کی "یوم کپور" کی جنگ میں مصر اور شام نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا کہ وہ 1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اپنے کھوئے ہوئے علاقوں یعنی مصر،غزہ کی پٹی اور سینائی کا صحرائی علاقہ، شام گولان کی پہاڑیاں اور اردن مشرقی یروشلم کو واپس لے سکیں۔ اسرائیل یہ جنگ تو جیت گیا مگر اس جنگ کے بعد اسرائیل کو اندازہ ہو گیا کہ وہ تمام عرب ممالک کے ساتھ ایک ساتھ نہیں لڑ سکتا اس لیے اس جنگ کے چھ سال بعد اسرائیل اور مصر نے امن معاہدہ کرلیا اورسینائی کا علاقہ مصر کو واپس لوٹا دیا گیا۔ اسی طرح اردن اور اسرائیل کے درمیان بھی امن معاہدہ طے پا گیا اور بعد میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے اپنی فوجوں کو نکال لیا تھا۔ مگر دوسری جانب اردن میں اسرائیل نے اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔ 86 فیصد فلسطینی آبادی کے حامل اس علاقے میں 1970ء سے شروع ہونے والی یہودی آباد کاری گزشتہ بیس برسوں میں دو گنا ہو چکی ہے ۔ یہاں آنے والے صیہونیوں سے مقامی عربوں کی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں جہاں اسرائیلی فوج ان قابض یہودیوں کا ساتھ دیتی ہے۔
1993ء میں طے پانے والے اوسلو معاہدے میں اس تنازعے کے دونوں فریقین یعنی فلسطین اور اسرائیل نے ایک دوسرے کا وجود تسلیم کیا،غزہ اور مغربی کنارے پر فلسطینی اتھارٹی کی حکومت قائم کی گئی اور نظر آ رہا تھا کہ عنقریب ایک خود مختار فلسطینی ریاست وجود میں آ جائے گی اور اسرائیل کے 1948ء سے جاری توسیع پسندانہ پالیسی کے آگے بند باندھا جا سکے گا مگر بدقسمتی سے اسرائیل کی داخلی سیاست پرحاوی انتہا پسند صیہونی سیاسی جماعتوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کسی بھی طریقے سے اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیاں جاری رہ سکیں اورفلسطینی اتھارٹی کو اوسلو معاہدے کے تحت دیے گئے علاقوں میں پوری دنیا سے لاکر یہودیوں کو آباد کیا جا سکے اور وہاں پہلے سے موجود فلسطینی عربوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا جائے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی مگر اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے اسرائیل کو نہ صرف ان توسیع پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لیے سیاسی حمایت فراہم کی بلکہ خطے میں اسرائیل کو سب سے طاقتور عسکری قوت میں ڈھالنے کے لیے سالانہ تین ارب ڈالراور جدید ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھی۔ امریکہ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی بھی عرب ملک عسکری طور پر اسرائیل سے زیادہ جدید ٹیکنالوجی کا حامل نہ ہوسکے۔
اپنی انہی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو آگے بڑھاتے ہوئے 2007ء میں اسرائیل نے بیت المقدس (یروشلم)کو اپنا دارالحکومت قرار دے دیا جو پہلے تل ابیب تھا۔ امریکہ نے اس معاملے پر بھی اپنی روایتی سیاسی منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کے اس اقدام کو بھی نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اس کی بھرپور حمایت بھی کی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر امریکہ نے یہ کیسے اخذ کر لیا کہ اس قسم کے اقدامات کے بعد خطے میں کسی بھی قسم کا کوئی امن قائم ہوگا؟ 2008ء سے لے کر آج تک اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان متعدد چھوٹی بڑی جھٹرپیں ہو چکی ہیں اور آئندہ کے لیے بھی دیر پا امن کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔
موجودہ جھڑپیں ماضی کے مقابلے میں اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ ان میں حماس نے جس پیمانے پر جنگی صورتحال پیدا کی اس کی مثال پچھلے پچاس سالوں میں نہیں ملتی۔ وجہ کچھ بھی ہو حقیقت یہی ہے کہ حماس کی کارروائیوں سے اسرائیل کو ان تمام کارروائیوں سے نہتے فلسطینیوں کے خلاف اپنی سفاکیت کے مظاہرے کے مزید مواقع ملتے ہیں جبکہ عالمی قوتوں کی جانب سے بھی ہمیشہ اسرائیل کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔ جیسا کہ حالیہ جھڑپوں کے دوران ہوا ہے جہاں امریکہ ،برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے بڑے ممالک نے کھل کر اسرائیل کو مظلوم قرار دیا ہے اور اسرائیلی فوج اور صیہونی آباد کاروں کی جانب سے فلسطینی مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی بہیمانہ کارروائیوں کا کہیں تذکرہ تک نہیں کیا ۔
ان تمام باتوں کے باوجود یہ بات قابل غور ہے کہ اس وقت اسرائیل میں انٹیلی جنس ایجنسی اور حکومت سے لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں آخر کیسے موساد جیسی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی کو چکمہ دے کر حماس اسرائیل میں داخل ہونے میں کامیاب ٹھہرا اور وہ بھی اس بڑے پیمانے پر؟ دریں اثناء اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتیرس نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری جنگ بندی کی اہمیت پر زور دیا تاکہ لوگوں کو درپیش بے پناہ مصائب کو کم کیا جاسکے ، امداد کی ترسیل کو آسان اور محفوظ بنایا جاسکے اور یرغمالیوں کی جلدرہائی کو یقینی بنایاجاسکے۔
اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس خطے میں امن کیسے واپس لایا جائے کیونکہ غزہ کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے خصوصاً جب اسرائیل کی جانب سے خوراک، پانی، ادویات کی فراہمی پر پابندی جیسے سخت ترین اقدامات سامنے آچکے ہیں۔ تمام فریقین کو ایک بڑے انسانی المیے کو ٹالنے کے لیے ہوش کے ناخن لینا ہوںگے کیونکہ وقت تیزی سے سب کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے!
گزشتہ دنوں پاکستان میں فلسطین کے سفیر احمد جواد رفیع نے جنرل ہیڈ کوارٹر میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر سے ملاقات کی۔ اس موقع پر آرمی چیف نے غزہ میں جاری جنگ میں فلسطینیوں کی جانوں کے ضیاع پر تعزیت کا اظہار کیا۔انہوں نے جنگ میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں کے بے لگام تشدد اور جان بوجھ کر، اندھا دھند قتل پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ شہری آبادی، سکولوں،یونیورسٹیوں، امدادی کارکنوں، ہسپتالوں پر مسلسل حملے اور غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کو انسانیت کے خلاف صریح جرائم قرار دیا۔ ||
مضمون نگار ایک مقامی یونیورسٹی سے اپنی پی ایچ ڈی مکمل کررہی ہیں ۔ آج کل وہ ایک ادارے میں پالیسی رسرچر کے طور پر کام کررہی ہیں۔ ان کے مضامین قومی و بین الاقوامی جرائد کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔[email protected]
تبصرے