پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع جغرافیائی اہمیت کے حامل قبائلی علاقوں کو ماضی میں سیاسی سرگرمیوں اور بنیادی انفراسٹرکچر سے محروم رکھ کر بنیادی حقوق اور سہولیات سے محروم رکھا گیا۔اسی کا نتیجہ تھا کہ جب نائن الیون کے بعد افغانستان میں طالبان کی پہلی حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو مختلف تنظیمیں اور ہزاروں کی تعداد میں حملہ آور ان علاقوں کے کمزور انتظامی ڈھانچے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں گھس آئے اور بعد میں وزیرستان میں سال 2007 کے دوران تحریک طالبان پاکستان نامی اس گروپ کی بنیاد رکھی گئی جس نے پاکستان کو بدترین حملوں کا نشانہ بناتے ہوئے سکیورٹی چیلنجز میں بے پناہ اضافہ کیا۔ یہ تنظیم لمبا عرصہ گزرنے اور متعدد فوجی آپریشنز کے باوجود نہ صرف قائم رہی بلکہ سال 2023 کے دوران اس نے پاکستان کے مختلف علاقوں بالخصوص خیبر پختون خوا اور بلوچستان کو ریکارڈ حملوں کا نشانہ بھی بنایا۔
سال 2010 کے دوران پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے سابق فاٹا میں بڑے پیمانے پر اصلاحات لانے کی کوششیں شروع کیں تاکہ اس جنگ زدہ پٹی کو مین سٹریم پالیٹکس اور ڈویلپمنٹ کا حصہ بنایا جائے۔یہ ایک مشکل اور صبر آزما کام تھا تاہم سال 2018 کے دوران فاٹا کا مخصوص سٹیٹس ختم کرکے ایک ترمیم کے تحت اسے خیبر پختون خوا میں ضم کردیا گیا۔پاکستان کے عام قوانین اور اداروں کو فاٹا تک توسیع دینے کے عمل کا آغاز کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ ہر برس اسے این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے کے تحت 3 فی صد حصہ دیا جائے گا۔
فاٹا کو پہلی بار خیبر پختون خوا اسمبلی اور کابینہ میں نمائندگی دی گئی اور اس پسماندہ علاقے کی تعمیر نو اور ترقی کے مختلف منصوبوں پر کام کا آغاز کیا گیا۔یہ ایک مشکل ٹاسک تھا کیونکہ سات اضلاع اور متعدد ایف آرز پر مشتمل تقریباً 60 لاکھ سے زائد آبادی رکھنے والے اس علاقے کو اب بھی دہشت گردی کا سامنا تھا اور سول اداروں کی توسیع کا کام اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا۔
چونکہ یہ علاقہ سول اداروں کے فقدان کے باعث انتظامی طور پر دیوالیہ تھا اس لیے سکیورٹی پر مامور پاک فوج کے مختلف اداروں نے ہی یہاں تعمیر نو کے منصوبے شروع کیے اور ایک مربوط مگر بتدریج حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنے کی کوششیں شروع کردی گئیں۔فاٹا نہ صرف بدامنی کا شکار تھا بلکہ نوآبادیاتی نظام کے تحت چلنے کی وجہ سے انتہائی پسماندگی کا بھی سامنا کررہا تھا۔کوشش کی گئی کہ نئے اضلاع میں عوامی نمائندوں اور عوامی حلقوں کی مشاورت سے یہاں تعلیم، صحت، عدالتوں اور سڑکوں کی بحالی و ترقی پر توجہ دی جائے اور اس مقصد کے لیے بڑے پیمانے پر مختلف منصوبوں کی بنیاد رکھی گئی،مختلف اضلاع میں کیڈٹ کالجز سمیت دیگر تعلیمی اداروں کی تعمیر کا آغاز کیا گیا اور سال 2023 کے دوران سات میں سے تقریباً چھ اضلاع میں کیڈٹ کالجز قائم کیے گئے۔وزیرستان میں پہلی ماڈل یونیورسٹی کی بنیاد رکھیجاچکی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سال 2024-25 تک باقاعدہ کام کا آغاز بھی کرسکے گی۔
اس کے علاوہ تقریباً 70 کے لگ بھگ بنیادی صحت کے مراکز اورہسپتالوں کی تعمیر شروع کی گئی یا ان کی اپ گریڈیشن کی گئی، وزیرستان کے اضلاع میں ایک اور ضلع کا اضافہ کیا گیا چونکہ یہ علاقہ جنگ اور دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا اس لیے اس کی تعمیر نو اور ترقی پر سب سے زیادہ توجہ دی گئی۔افغانستان کے ساتھ شمالی وزیرستان کے سرحدی کراسنگ پوائنٹ غلام خان تک نہ صرف یہ کہ جدید ترین شاہراہ تعمیر کی گئی بلکہ افغانستان اور سنٹرل ایشیا کی تجارت کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں دیگر سہولیات بھی فراہم کی گئیں۔اسی طرح جنوبی وزیرستان کے کراسنگ پوائنٹ انگور اڈہ کی سڑک اور دیگر سہولیات کی فراہمی پر بھی توجہ دی گئی۔یہ علاقہ چونکہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اس لیے قدرتی ذخائر سے فائدہ اٹھانے کے لیے متعدد منصوبوں پر کام شروع کردیا گیا جن میں قدرتی گیس کی پائپ لائن، ایک کوئلہ کان کی دریافت اور چلغوزوں کی اربوں کی پیداوار میں اضافے کے منصوبے شامل ہیں۔ایک طریقہ کار کے مطابق مقامی آبادی کو ان تمام وسائل اور ذخائر سے مستفید ہونے کا ایک فارمولا بھی وضع کیا گیا جس کو مقامی آبادی کی معاونت حاصل ہوئی۔
سال 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق انضمام کے بعد ان سات قبائلی اضلاع میں مجموعی طور تقریباً ساڑھے تین سو کلومیٹر کی سڑکیں یا تو مکمل کی گئی تھیں یا زیر تعمیر تھیں۔
افغانستان کے ساتھ آمدورفت اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے پشاور سے طورخم بارڈر تک جانے والی سڑک کو اربوں کی لاگت سے شاہراہ میں تبدیل کیا گیا جبکہ ضلع خیبر سے گزرنے والی اس شاہراہ کو محفوظ بنانے کے لیے سکیورٹی کا ایک مؤثر نظام بھی تشکیل دیا گیا۔طورخم میں ایک جدید ٹریڈ ٹرمینل کی بنیاد رکھی گئی جو کہ اس خطے میں اپنی نوعیت کا پہلا وسیع ترین منصوبہ سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح افغانستان کے ساتھ آمدورفت اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے پشاور سے طورخم بارڈر تک جانے والی سڑک کو اربوں کی لاگت سے شاہراہ میں تبدیل کیا گیا جبکہ ضلع خیبر سے گزرنے والی اس شاہراہ کو محفوظ بنانے کے لیے سکیورٹی کا ایک مؤثر نظام بھی تشکیل دیا گیا۔طورخم میں ایک جدید ٹریڈ ٹرمینل کی بنیاد رکھی گئی جو کہ اس خطے میں اپنی نوعیت کا پہلا وسیع ترین منصوبہ سمجھا جاتا ہے۔اسی طرح خرلاچی اور نوا پاس کے کراسنگ پوائنٹس کی اَپ گریڈیشن بھی کی گئی۔اسی دوران سکیورٹی کے انتظامات پر خصوصی توجہ دی گئی اور سرحد پر سیکڑوں نئی چیک پوسٹیں قائم کی گئیں۔ 1122 سروس کو متعدد قبائلی علاقوں تک توسیع دی گئی تو دوسری طرف قبائلی علاقوں کے سٹوڈنٹس کو نہ صرف دوسرے شہروں میں تعلیم، روزگار کے مواقع فراہم کیے گئے بلکہ پشاور سمیت تقریباً تمام اضلاع میں ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کے لیے سپورٹس ایونٹس اور ثقافتی سرگرمیوں کا انعقاد بھی کیا گیا۔پاکستان کے سول حکمرانوں کے برعکس عسکری قیادت نے ان جنگ زدہ علاقوں کے امن، تعمیر نو اور ترقی پرہمیشہ خصوصی توجہ دی۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جب سال 2022 میں چارج سنبھالا تو لائن آف کنٹرول کے فوراً بعد اپنا دوسرا دورہ وادیٔ تیراہ اور پشاور کا رکھا جہاں انہوں نے پختون خوا، بالخصوص قبائلی علاقوں کی سکیورٹی اور ترقی کے بارے میں خصوصی ہدایات جاری کیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان قبائلی علاقوں کی ماضی کی محرومی اور مسائل کے تناظر میں اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے تاہم اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ریاست نے اپنے اہداف اور مقاصد کا تعین کرلیا ہے اور مزید توجہ دینے کی صورت میں یہاں بہت سی تبدیلیاں رونما ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ||
مضمون نگارپاکافغان امور کے ماہر ، ممتاز صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔
[email protected]
تبصرے