میرے رب کے حضور میرا کون سا اشکِ ندامت منظور ہوا یا کسی کی دعا میرے حق میں قبول ہوئی یا ''حق''نے مجھے کسی حقیقت سے آشکار کرنا تھا کہ بیت اللہ کا جلال دیکھنے، ندامتوں سے بھاری جبین جھکانے، دل مردہ کوزندہ کرنے اور اعترافِ گناہ کرکے ان پاکیزہ فضائوں کے طفیل ہی ضیا ہدایت پانے کا قرعہ نکل آیا ۔
اللہ کے گھر کی شان دیکھنے کے لیے یہ مٹی کا وجود ایسے من بھر کا ہوا کہ سنبھل کے چلنا محال ہوا ۔ ایک طرف تو مقناطیس کی کشش تو دوسری طرف عاجز خاکی کا کمزور وجود۔ ندامتوں کے بوجھ سے گویا قدم اٹھتے ہی نہ تھے ۔
اس راستے کی طوالت (جو حقیقت میں نہ تھی) جو میرے ہیجان کے باعث کسی دلدل کی طرح محسوس ہو رہی تھی اور میں تو جیسے رینگ سی رہی تھی۔ ۔۔۔ میرے ''محرم''نے مجھے دھنسنے سے بچایا نہ ہوتا تو نہ جانے کتنی صدیاں لگ جاتیں وہ مختصر سا راستہ کاٹنے میں ۔
رشتے داروں ،قرابت داروں کی بے شمار ہدایتوں نے گویا ذہن میں جنگ لگا رکھی تھی ۔''نظر جھپکنے نہ دینا ۔۔۔ جو دعائیں آنکھ جھپکنے سے پہلے مانگو وہ تو ضرور قبول ہو جاتی ہیں۔'' سب نے اپنے اپنے یقین اعتقاد اور تجربے مجھ پر انڈیل دیے تھے ۔۔۔ اور میں اسی شور کے مدوجزر میں ڈوبنے کو تھی کہ اچانک ،بے حد اچانک ہی وہ مقناطیس اپنی پوری شان وشوکت، کشش اور جاہ و جلال کے ساتھ بقہ ٔ ِ نور بنا نظروں کے سامنے آ گیا ۔۔۔ اور اس سے نکلنے والی مقناطیسی لہروں نے کسی سحر میں جکڑ لیا اور میں ۔۔۔ میں خود تو بت بنی رہ گئی ۔۔۔ خاک کا بدن خاک ہو گیا ۔۔۔ ہر احساس مٹ گیا ۔۔ مگر یہ گنہگار آنکھیں ۔۔۔ ان بے وفا آنکھوں نے کسی قرابت دار کی، کسی رشتے دار کی بات کو یاد نہ رکھا ۔۔۔اور ۔۔۔ لمحے کے بھی ہزارویں حصے میں پلکیں جھپک گئیں ۔۔۔ اور زبان سے نکلا بھی فقط ایک لفظ 'اللہ'دوسرے ہی لمحے میرے وجود کے روئیں روئیں سے صرف ''اللہ اللہ'' کی صدا آنے لگی ۔۔۔ جیسے خاک پھر چاک پر آگئی ۔۔۔ اللہ اللہ کی گونج مجھے بھر بھری مٹی میں تبدیل کر رہی تھی ۔۔۔ مجھے کیا ہو گیا تھا ۔۔۔ اس کیفیت کا بیان الفاظ کی گرفت میں نہیں آ رہا تھا لیکن اس مقناطیس نے میرا دل دماغ میرا پورا وجود اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔۔۔ جیسے میں کسی مدار میں کسی حصار میں تھی، بے بس کٹھ پتلی کی مانند ۔۔۔ میرا وجود مجھ سے بیگانہ ہو گیا ۔۔۔ آنکھیں تھیں جنھوں نے اپنی
مرضی سے رونا شروع کر دیا تھا۔۔ ۔ کانوں نے اِرد گِرد کے شور کا داخلہ ممنوع کر دیا ۔۔۔ پھر ۔۔۔ پھر تو بس جیسے کسی مدار میں زندگی آگئی۔ میں کون ہوں، کیا ہوں کا احساس تک مٹ گیا ۔۔ دنیا !! دنیا کی سب خواہشیں ۔۔خواہشوں کا انبار سب مٹ گیا ۔۔۔ مقناطیس کے ہم رنگ چوغے میں وجد میں جوگی بنے اسی کے گرد چکر پہ چکر لگائے گئے ۔۔۔لگائے گئے ۔۔۔۔ جیسے اسی کا ٹوٹا ہوا جزو ہوں ۔۔ کہ کہیں جو ذرا جگہ ملے تو اسی سے جڑ جائیں، اسی میں ضم ہو جائیں، ہوا میں تحلیل ہو جائیں، وہیں کی خاک بن جائیں ۔۔۔ یہ کیا طواف کے سات چکر تھے کہ آٹھ، معلوم نہ ہو سکا، گنتی کا تو خیال بھی نہ تھا ۔۔۔ محرم نے کہیں چلنے کا کہا تو بجلی سی کوند گئی، میں اتنی دیر سے کہاں تھی؟ ایک بار بھی حجراسود تک جانے کا موقع نہ مل سکا ۔۔ آنکھوں سے پھر جھڑی رواں ہو گئی میں گڑگڑائے گئی روئے گئی روئے گئی ۔۔ کہ میری محبت کو میری سچی لگن کو بے پناہ عقیدت کو''مثبت جواب'' نہیں ملا تھا، مقناطیس پر سے چشمِ پُر نم بٹنے کو تیار نہ تھی ۔۔۔ معلوم نہیں کب اور کیسے برستی آنکھیں پر شکوہ ہو گئیں ۔۔۔ کیا میں اتنی گنہگار ہوں اللہ جی ؟؟ آنکھوں سے بہتا ہوا شکوہ زبان تک آیا ''ربّا ! مجھے اتنی دور اپنے گھر بلایا کیا تشنگی بڑھانے کو؟؟کیا تہی دامن واپس جانے کو؟؟ کیا صرف آزمانے کو ؟؟ اگر نہیں تو پھر اس قیمتی و مبارک پتھرتک جانے سے ،اسے چھونے اور چومنے سے کیوں محروم رکھا ؟؟'' اس سعادت کے حاصل کیے بنا اپنی عبادات کے قبول ہونے کا اور عمرہ مکمل نہ ہونے کا خدشہ بھی دامن گیر ہونے لگا ۔۔۔ میرے پائوں پھر سے من من بھر کے ہو گئے ۔محرم نے پھر مجھے کھینچا کہ عمرہ مکمل کرنا ہے ۔۔۔ نہیں میں نہیں چل سکتی مجھے یہیں رہنے دیں ۔۔۔ بچوں کی سی ضد چھوڑ، پھر مل جائے گا موقع ۔۔۔ نہیں مجھے حجرِ اسود تک جانا ہے ۔۔۔ انھیں کیسے بتاتی کہ خاک میں دراڑیں پڑ گئیں ہیں اور پائوں میں ان دیکھی بیڑیاں ہیں۔ ایک قدم بھی اٹھایا تو بکھر جائوں گی، یہیں فنا ہو جائوں گی، حسرتیں دل میں لیے۔ مانوس آواز پھر سماعت سے ٹکرائی ۔۔ ''اس وقت تو چلو''، محرم نے ہاتھ تھام لیا پھر کس طلسم میں باقی کے مناسک ادا کیے، کچھ پتہ ہی نہ چل سکا، دل دماغ مائوف، سارا وجود سوالی تھا ۔
کب عمرہ مکمل ہوا ،کب کون سی نماز ادا کی ،نہ کچھ سمجھ میں آیا ،نہ یاد رہا ،تہجد میں کتنی دیر سجدے میں گزاری ،کب مسجد عائشہ پہنچے دوسرے عمرے کی نیت کرکے نفل نماز ادا کی اور مقناطیس کی طرف دوڑے آئے۔ وجد میں گھومنے ،خود کو دنیا سے بیگانہ ہو کے دوسرے عمرے کا پہلا طواف، تہجد کا وقت اور اتنا جم غفیر کہ اپنے مرکز سے کافی دور آخری دائرے میں جہاں باہر کی سیڑھیاں شروع ہو جاتی تھیں، وہاں بھی کٹھ پتلیوں کی مانند جوگی بنے اس کے عاجز بندے مگن چل رہے تھے، چل رہے تھے کہ حجر اسود بالکل سامنے ناک کی سیدھ میں آگیا،محرم نے دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کر کے کچھ پڑھنا شروع کیا۔۔ دائیں بائیں جہاں تک نظر گئی باقی لوگ بھی ایسا ہی کچھ کر رہے تھے ۔۔۔ جانے کیا پڑھ رہے تھے ؟؟؟ میں نے ہاتھ نہیں اٹھائے ۔۔۔۔ کیوں ؟؟؟؟ اب اس کیوں کا کچھ علم نہیں لیکن ! دل نے تڑپ کے فریاد کی ۔۔۔ اسی لمحے نہ جانے کیا ہوا، شاید چکر سا آ گیا، میں نے سر جھٹکا ۔۔۔ لیکن ! مجھے نہ جانے کیا ہو رہا تھا، میرا وجود گویا تحلیل ہو رہا تھا، میرے پائوں جیسے پانی کی نرم لہروں پر تھے، زمین کی سختی محسوس نہ ہو رہی تھی ۔۔۔۔ مقناطیس سے نکلنے والی ان دیکھی کشش مجھے اپنی جانب کھینچ رہی تھی ۔۔۔ میں ۔۔ کیا میں خود چل رہی ہوں ؟؟؟ کیا یہ کوئی خواب ہے ؟؟؟ میں نے سر گھمایا کہ محرم کو دیکھوں لیکن پھر چکر سا آ گیا ۔ دھندلائی آنکھوں میں کوئی شناسا چہرہ دکھائی نہ دیا، حتی کہ قافلہ نمبر122 کے بہت سے لوگ ساتھ ہی چلے تھے ۔۔۔ طبیعت کو سنھبالنے کی بہت کوشش کی کہ چکر نہ آئیں مگر بے سود ۔۔۔لوگوں کے بیچ راستہ کیسے بن رہا تھا؟ مجھے کون سی غیر مرئی طاقت کھینچ رہی تھی ۔۔۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب ہو چکی تھیں اچانک ہی یہ کیفیت معدوم ہو گئی دیکھا تو کیا کہ میں حجرِ اسود کے عین سامنے ہوں۔ اللہ رب العزت کی اس خاص نوازش پر گرم جوشی اور فرطِ مسرت سے سرشار ہو کے سر پھر پیچھے گھمایا، شاید محرم بھی کہیں آس پاس ہی ہوں مگر نظر آیا تو فقط مٹی کے پتلوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہجوم ۔۔۔ اور!! جو منظر سامنے دکھائی دیا اس نے ایک لمحے کے لیے مجھے پھر سے چکرا دیا ۔۔۔ ساڑھے چھ ۔۔۔ سات فٹ کے لحیم شحیم جوان آپس میں گتھم گتھا تھے شاید حجر اسود کو بوسہ دینے میں پہل کرنے کے لیے ۔۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے حجرِ اسود کے بالکل سامنے ہونے کے باوجود قریب جانے کی کوئی سبیل دکھائی نہ دے رہی تھی ۔۔۔ لیکن اس لگن کا کیا کرتی جو روح کو لگی ہوئی تھی ۔۔ سو نزدیک کھڑے دربان سے کہا ''یا حارث مدد'' (حارث عربی زبان میں دربان / محافظ کو کہتے ہیں)جواب میں اس نے انتہائی حقارت سے دھتکارا' یعلی' خوف کی ایک لہر ریڑھ کی ہڈی میں کوند گئی ۔۔۔ استغفار یہ میں کیا کر رہی ہوں، اللہ کے گھر میں کھڑے ہو کر کسی انسان سے مدد طلب کرنا ۔ توبہ توبہ ۔۔۔ نبی ۖ کے واسطے دے کر اللہ پاک سے معافی طلب کی اور ساتھ ہی زیر لب کہا'' یا اللہ مدد'' ان الفاظ کے ادا کرتے ہی مجھے کپکپی سی آ گئی اور ان الفاظ کی جادوئی طاقت نے ان کتھم گتھا لحیم شحیم پتلوں کو فرشتہ بنا دیا، وہ ایسے ساکت ہو گئے گویا کبھی متحرک تھے ہی نہیں ۔ انھوں نے ایک دوسرے کے چوڑے سینوں پر ہاتھ رکھ کر نیم دائرے (ہاف سرکل)یعنی انگریزی کے حرف C کی شکل بنائی ، نیچی نگاہوں کے ساتھ ہی درمیان میں کھڑے ان میں سے ایک نے ہاتھ سے حجر اسود کے سامنے آنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ مجھ پر لرزہ طاری تھا، مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ اعزاز مجھے مل رہا ہے بغیر کسی دھکم پیل کے، میں گنہگار بندی حجر اسودکو بوسہ دے سکوں گی ۔۔۔ میں نے جیسے کسی سحر کے زیر اثر دو قدم بڑھائے اور ان فرشتہ نما پتلوں کے بنائے ہوئے نیم دائرے میں آ کھڑی ہوئی، میری گنہگار آنکھوں کے سامنے جنت کا یاقوت پوری آب و تاب کے ساتھ رونق افروز تھا، اس یاقوت کو غور سے دیکھا جسے محبوبِ خدامحمد مصطفی ۖ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے لگایا تھا ۔۔ جنت کے اس انمول موتی، عالی مرتبت،مقدس ومتبرک یاقوت کو دیکھ کے میں واقعی میں نہ رہی میرا وجود میرا نہ رہا ۔۔۔ وہاں میرے اور اس مبارک پتھر کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہا ۔۔۔
اس پتھر کی کشش اور مقناطیسی شعاعوں نے مجھے بھی بت بنا دیا، مجھے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اس مبارک پتھرسے نکلنے والی دودھیا شعاعوں نے میرا وجود گویا ہوائوں میں تحلیل کر دیا، مجھے اس مبارک پتھر کے درمیان سبزہ دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔ یہ میری آنکھیں مجھے کیا دکھا رہی ہیں، مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا ۔۔۔ یہ دھواں دھواں سا کیا ہے کیا یہ نور ہے، الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔۔۔کچھ نہیں مانگا، کوئی دعا نہیں کی، بس ہاتھوں سے چھوا لبوں نے بوسہ دینے کی جسارت اس سرشاری میں کی کہ یہ جنت کا پتھر ہے جس کو اللہ تبارک تعالی نے انسانوں کے گناہ جذب کرنے کی عجیب تاثیر عطا کر رکھی ہے۔ مجھ پر بھی حجرِ اسود کو بوسہ دیتے وقت عجب سی رقت وزاری طاری ہوئی، اللہ اللہ ۔
کہاں میں ایک حقیر فقیر، گنہگار بندی اور کہاں یہ سعادت ۔۔۔
معلوم نہیں کتنا وقت بیت گیا۔۔۔ مجھے زمین والوں کی کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی حجراسود کو چھونے کے بعد تو مجھے دائیں بائیں آگے پیچھے کسی کی بھی موجودگی کا احساس مٹ گیا ۔۔۔ مجھے واقعی کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ میں کہاں تھی ؟ لوگوں کا جم غفیر کہاں گیا ؟ وہ دعائوں کی لبیک کی صدائیں کہاں گئیں ۔ میں نے اسی عالم میں کئی بار اس جنتی یاقوت کو چھوا اپنی جائے نماز اور تسبیح بھی مس کر دی کہ اچانک ہی دل میں خیال آیا کہ اگلا طواف مکمل کر کے پھر آتی ہوں ۔۔۔ پتہ نہیں یہ میں نے کیسے سوچا یہ میری اپنی سوچ نہیں ہو سکتی تھی، شاید خیال دل میں ڈالا گیا تھا کیونکہ نہ تو کوئی مجھے وہاں سے ہٹا رہا تھا اور نہ ہی میں خود جانے کا ارادہ کر رہی تھی جو بھی ہوا مگر اس خیال کے آتے ہی میرے قدم خودبخود ایک طرف کو چلنے لگے وہ میرے تابع نہیں تھے میں نے کچھ حواس جمع کرنے کی سعی کی، کھلی آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کی، ڈھیروں مٹی کے پتلے دکھائی دیے مگر کوئی شناسا چہرہ نزدیک دکھائی نہ دیا ۔۔۔ دل مگر اطمینان سے بھر چکا تھا ۔۔۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہاں آنے کا مقصد پورا ہو گیا ہو ۔۔۔ اپنی سوچوں کی لگن میں مگن تھی کہ میرے محرم جو میرے شریک حیات ہیں کا آنسوئوں سے تر چہرہ میرے سامنے آ گیا " تم بہت خوش قسمت ہو جو یہ سعادت تمہیں نصیب ہوئی، تمھاری لگن اور تمھاری تڑپ سچی تھی۔ وہ یہ سب میرے لیے کہہ رہے تھے مگر میں نے دیکھا اگرچہ کہ اس وقت انھیں اِس سعادت کا موقع میسر نہیں آ سکا تھا لیکن ان کے چہرے کا اجلا پن بتا رہا تھا کہ ربِ کائنات ان کی بھی سن رہا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ مجھے اس دوسرے عمرے کے ہر طواف میں صحابی پتھر تک پہنچایا گیا۔ مجھ خاکسار نے ہر بار حجرِاسود کو بوسہ دیا چھو لیا اور آگے چل دی ۔۔۔
خالق ارض و سماوات کرم ہے تیرا
تونے بندی کو بلایا ہے جو اپنے در پر
حجرِ اسود و کعبہ کی زیارت کی ہے
اور دکھائے ہیں مدینہ کی زمیں کے اختر ||
مضمون نگار ماہر تعلیم، شاعرہ اور پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔ ان کی تین کتب بھی شائع ہوچکی ہیں۔
[email protected]
تبصرے