میں جب 9مئی کے دل گرفتہ مناظر ٹی وی پر دیکھ رہی تھی تومیرے ذہن میں سلمان کا بچپن،لڑکپن اور نوجوانی گھوم رہی تھی، وہ کیسے سکول،کالج،کھیلنے جاتا تھا،کس طرح پاکستان ملٹری اکیڈمی گیا،کیسے پاس آؤٹ ہوا،سب لمحات میرے ذہن میں چل رہے تھے ،ویسے تو گذشتہ دس سال سے میرا اور سلمان کے بابا کا یہی معمول ہے، ہم دونوں میاں بیوی روزانہ اپنے جوان کو دن میں نہ جانے کتنی بار یاد کرکے روتے ہیں ،پھر ایک دوسرے کو تسلی دیتے ہیں ،کبھی اس کیa شہادت پر خوش ہوکر اپنے دل کو تسلی دیتے ہیں کہ ہم شہید کے والدین ہیں ،جس نے پشت پر نہیں بلکہ سینے پر تین گولیاں کھائی ہیں۔9 مئی کو جب شرپسندوں نے یادگارِ شہدا کی بے حرمتی کی، میرے ذہن میں اپنا27 سالہ سلمان سرور کا سراپا گھوم گیا ،کوئی ان شرپسندوں کو بتائے کہ تمہاری سلامتی کے ضامن بھی یہی غیور جوان ہیں۔یہ کہتے ہوئے شہید کیپٹن سلمان سرور کی والدہ نے اپنی آنکھوں کو صاف کیا اور گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سلمان 11 جولائی 1986 ء کو لاہور میں پیدا ہوا ،اللہ نے ہمیں ایک بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا تھا ،ہم بہت مطمئن زندگی بسر کر رہے تھے ۔سلمان کے والد امتیاز سرور پولیس میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف تھے جبکہ میں خانہ داری اور بچوں کی پرورش میں مگن تھی ،سلمان بہت ہونہار بچہ تھا ،ہم اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے ،اس نے میڈیکل ٹیسٹ بھی کلیئر کر لیا تھا ،مگر چونکہ وہ آئی ایس ایس بی کا ٹیسٹ بھی دے چکا تھا اور وہاں بھی اس کی سلیکشن ہوگئی تھی، لہٰذااس نے فوج میں بھرتی ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔اس کے والد نے کہا بیٹا ویسے تو جو آپ کی مرضی لیکن اگر میڈیکل کا ہی شعبہ رکھو تو کیسا ہے ،جس پر سلمان نے کہا نہیں ابو میں فوج میں ہی جانا چاہوں گا ۔اس کی اس خواہش کا ہم سب نے خیر مقدم کیا اور اس نے کاکول کی راہ لی ،سلمان نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کے 115 لانگ کورس سے پاس آئوٹ کیا بعد ازاں وہ 42 لانسرز آرمرڈ یونٹ بہاولپور میں تعینات ہوا۔بہادری اور سرفروشی کی وجہ سے اس کو اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) میں شامل ہونے کا اعزاز ملا ،ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے تقریباً دوسال ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا میں اے ڈی سی کے عہدے پر بھی تعینات رہا۔
ان کی والدہ نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ اسلحہ چلانے اور اس کے بارے معلومات پر کیپٹن سلمان سرور کے ساتھی،دوست،ماتحت اور افسران اس کے گرویدہ تھے,وہ چھٹی پر جب بھی گھر آتا تھا ،رونق سی لگ جاتی تھی ،بہن سے دوستی ہونے کی بنا پر گھنٹوں اس کے کمرے میں بیٹھا رہتا تھا,کھانے پینے کا شوقین تھا ،ناشتہ بہت شوق اور اہتمام سے کرتا تھا۔ شہادت سے قبل کیپٹن سلمان سرور شہید تقریباً ایک ماہ تک اپنے اہل ِخانہ کے ساتھ رہے ،ان کی والدہ نے بتایا کہ ایک دن وہ میری گود میں سر رکھ کر لیٹا تھا ،میں نے کہا بیٹا کب شادی کر رہے ہو ،جس پر اس نے مجھے اپنی کہی نظم سنائی جس میں شہادت کی خواہش تھی۔ میں نے اس کا سر ہٹا کر کہا کہ جاؤ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی، یہ کہہ کر میں کچن میں چلی گئی ،وہ ہنس کر آیا اور مجھ سے لپٹ کر کہنے لگا، ارے ماں جی فوجیوں کی ماؤں کے دل بڑے ہوتے ہیں ،آپ پریشان مت ہوا کریں۔ اچھا جیسا چاہتی ہیں، ویسا کریں مگر آج شام میرے ساتھ قبرستان چلیے گا ،میں سمجھ گئی اسے اپنے بچپن کے دوست کی قبر پر جانا ہوگا جو چند ماہ قبل خیبر ایجنسی کے انگور اڈے پر شہید ہوا تھا ،ہم ماں بیٹے قبرستان گئے جہاں اسے اپنے دوست سے خوب باتیں کیں اور مجھے بتایا کہ وہ انگور اڈا جانے والا ہے ،میں نے گھبرا کر پوچھا کیوں بیٹا تم تو اپنے سب ہارڈ ایریاز کور کرچکے ہو اب یہ انگور اڈا جانے کی کیا وجہ ہے ،کہنے لگا امی ان ظالموں نے میرے بچپن کا دوست مجھ سے چھینا ہے ،انہیں سبق تو سکھانا ہوگا۔ اس نے آپریشن المیزان میں رضا کارانہ طور پر اپنا نام لکھوایا تھا ، اس ایک ماہ میں وہ ہر عزیز، رشتے دار اور دوستوں سب سے ملا ۔ اس کی شہادت کے بعد سب نے مجھے بتایا کہ وہ جب آخری بار ہم سے ملنے آیا تو کہہ رہا تھا ،یار یہ آخری ملاقات ہے ،کوئی بات بری لگی ہو تو معاف کردینا پلیز ،یعنی جیسے اسے پتہ تھا کہ اب وہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔ سلمان کے والد پولیس آفیسر تھے اور وہ اپنے والدسے بے حد متاثر تھا۔14 مئی 2013 کو میرے شوہر ایس پی امتیاز جو کہ ملتان میں پوسٹ تھے، کسی سرکاری کام کی غرض سے لاہور آئے ہوئے تھے ،اس دن انہیں ملتان واپس جانا تھا وہ جانے کی تیاری کر رہے تھے جبکہ میں نماز پڑھ رہی تھی ،اس دوران ٹیلی فون کی بیل بجی، پھر امتیاز کی آواز آئی ،کیا ،کب؟میرا دل زور سے دھڑکا ،میں نے بے ساختہ دعا کی,یا اللہ میرا بچہ خیریت سے ہو ،پھر میں نے خود کو تسلی دی شاید ان کے آفس سے کال ہوگئی ،میں نے لاوئج میں جاکر دیکھا تو امیتاز فکر مندی سے کسی کو کال کر رہے رہے تھے ،میرے پوچھنے پر کہنے لگے ،سلمان زخمی ہے ،اسے سی ایم ایچ پشاور منتقل کر رہے ہیں ،میں پشاور جا رہا ہوں ،میں نے کہا میں بھی چلتی ہوں انہوں نے کہا چلو ،ہم نکلنے ہی لگے تھے کہ سلمان کے آفیسر کی کال آئی ،جنہوں نے سلمان کی شہادت کی خبر سنائی ۔
انگور اڈا جو کہ جنوبی وزیرستان خیبر پختون خوا کا ایک علاقہ ہے اس چیک پوسٹ پر کیپٹن سلمان سرور اپنے تین ساتھیوں سمیت موجود تھے ،جس پر دہشتگردوں نے حملہ کیا ، جس کے نتیجے میں کیپٹن سرور سلمان کو تین گولیاں سینے پر لگیں۔ انہوں نے زخمی حالت میں اپنے ساتھیوں کا دفاع کیااور90 منٹ تک جان فشانی سے دہشتگردوں کا مقابلہ کیا ،اور تینوں حملہ آواروں کو واصل جہنم کرکے اپنی چیک پوسٹ کو دشمن سے محفوظ کیا ،زخمی حالت میں انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا ۔شہید کے آفیسر کے مطابق آخری وقت میں انہوں نے مسکرا کر وکٹری کا نشان بنا کر اپنی فتح کا جشن منایا ۔شہید کیپٹن کو ان کی جرأتمندانہ خدمات پر ستارۂ بسالت سمیت دیگر ایواڈرز سے نوازا گیا۔
شہید کی والدہ نے بتایا کہ میرا بیٹا شروع سے ہر کلاس میں اول رہا ہے ،اس کے سکول نے عمارت کا ایک بلاک اس کے نام سے منسوب کیا ہے جبکہ چھٹی جماعت کے نصاب میں اس کے نام سے ایک چیپٹر کتاب میں شامل کیا گیا ہے ،کیپٹن سلمان سرور شہید کی والدہ نے یہ بھی بتایا کہ ہم نے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے 2013 سے اب تک شہید ہونے والے فوجیوں کے اہلِ خانہ کی کمیونٹی بنا رکھی ہے، جس میں متاثرہ مائیں آپس میں رابطے میں رہتی ہیں ،اس کے علاوہ کسی کی برسی یا سالگرہ ہو تو ہم ملکر اسے مناتے ہیں۔ شہید کپٹین سلمان سرور کی والدہ اپنے بیٹے کی برسی کے موقع پر سیمینار کا انعقاد کرتی ہیں ،انہوں نے گلوگیر لہجے میں کہا ،بس سلمان کی یادیں ہی ہماری مصروفیت ہیں۔۔۔
کیپٹن سلمان سرور کے والد ایس پی(ر) امتیاز نے بتایا کہ سلمان نے آپریشنز کے دوران سو سے زیادہ دشمنوں کو ٹھکانے لگایا اور کئی کو گرفتار کیا، دہشت گردوں نے ان کا نام'لال شاہ'رکھا ہوا تھا او وہ ان کی ہٹ لسٹ پر تھے ۔ سلمان سے بچھڑے دس سال ہوگئے ہیں جو دس صدیاں معلوم ہوتی ہیں ،ہم دونوں میاں بیوی ہر لمحہ اسے یاد کرتے ہیں ،میں سارا دن سلمان کی تصاویر دیکھتا رہتا ہوں، جس سے دل کو سکون ملتا ہے۔
9 مئی کے پر سوز واقعے کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے نو مئی کی طوفان بدتمیزی پر شدید دکھ ہے ،ہم نے اپنا بچہ ملک و قوم کے دفاع پر قربان کیا ہے، میرا دوسرا بیٹا ہوتا تو میں وہ بھی مادر وطن پر قربان کر دیتا ،یہ چند لوگ قوم کے دل سے پاک فوج کی محبت نہیں نکال سکتے جو جوان سرحد پر بیٹھے ہیں۔ قوم ان سے اور اپنے شہداء سے بے پناہ محبت کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ ||
مضمون نگار صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں
[email protected]
تبصرے