دوسری جنگ عظیم کی تباہی اور بربادی نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ انسانی ہاتھوں نے انسانیت پر قیامت ڈھا دی تھی۔ اس ٹھوکر نے دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کی سوچ کو جنم دیا۔ پچاس ممالک کے نمائندے سر جوڑ کر بیٹھے۔ یوں دو ماہ کے غور و فکر کے بعد اقوام متحدہ کا منشور تیار ہوا جسے26جون 1945 کو منظور کیا گیا۔ جبکہ اقوام متحدہ کا باقاعدہ قیام 24 اکتوبر 1945 کو عمل میں آیا۔
لیگ آف نیشنز کی جگہ لینے والے اس ادارے نے فوراً ہی دنیا میں جاری تنازعات کا حل تلاش کرنا شروع کردیا جس میں لیگ آف نیشنز ناکام ہوتی رہی تھی۔ 17 جنوری 1946 کو اقوام متحدہ کے ذیلی اداریسکیورٹی کونسل کے زیر اہتمام پہلا اجلاس منعقد کیا گیا تاکہ ممالک کے مابین جاری تنازعات کے حل میں اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرسکے۔
جہاں ایک طرف دنیا میں امن کی بات ہورہی تھی وہیں دنیا سے نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ بھی ہورہا تھا۔ قومیں جاگ رہی تھیں اور محکومی سے آزادی کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ اسی دوران برصغیر میں بھی حیرت انگیز حالات پیدا ہوچلے تھے۔ یہاں کے مسلمانوں نے اپنی گردنوں سے غلامی کا جوا اتار پھینکنے کا عزم کرلیا تھا۔14 اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک عظیم اسلامی مملکت بن کر ابھرا۔ لیکن آزادی کے اس چاند میں ہندو اور انگریز کی ملی بھگت نے اس وقت گرہن لگا دیا جب مسلم اکثریتی علاقوں کو سازش کے تحت انڈیا میں شامل کردیا گیا۔ حیدرآباد دکن اور جوناگڑھ کے علاوہ کشمیر کی ریاست بھی اسی سازش کا شکار ہوئی۔
برصغیر کی تقسیم کے ایجنڈے میں یہ بات شامل تھی کہ پرنسلی اسٹیٹ کے حکمران پاکستان یا بھارت کسی بھی ریاست سے الحاق کرنے میں آزاد ہوں گے لیکن یہ الحاق کرتے وقت اس ریاست کے جغرافیے اور نسلی، لسانی، مذہبی پہلو کو مدنظر رکھا جائے گا۔ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ خفیہ معاہدہ کرکے ریاست کشمیر کا الحاق بھارت سے کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ وہاں کی زیادہ آبادی مسلمان تھی پھر بھی ان کو نظرانداز کرکے کشمیر کی اقلیتی بدھ، ڈوگرہ اور سکھ آبادی کے جذبات اور خواہشات کو اہمیت دی گئی۔6 اکتوبر 1947 کو ہونے والی اس واردات کو کشمیری مسلمانوں نے ماننے سے انکار کردیا اور مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ لوگوں کے جذبات کو دبانے کے لیے بھارت نے وادی میں فوج اتار دی۔
اقوام متحدہ نے کشمیر پر آخری سنجیدہ کوشش1957 میں اس وقت کی تھی جب ایک بار پھر گراہم رپورٹ مرتب کرنے کا کام شروع کیا گیا اور قرارداد 122 میں اس امر پر شدید نا پسندیدگی کا اظہار کیا گیا کہ مسئلہ کشمیر پر پیش رفت کیوں نہیں ہورہی، ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ اس مسئلہ کا واحد حل کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے میں پوشیدہ ہے۔
اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے بھارت خودیکم جنوری 1948کو اس وقت اقوام متحدہ پہنچاجب وزیراعظم نہرو کی حکومت کی طرف سے اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب پی پی پلائی نے سکیورٹی کونسل کے نام خط لکھا کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کی وجہ سے جنگ شروع ہوچکی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مہاراجہ نے ریاست کی اکثریتی آبادی کی دلی منشا کو رد کرتے ہوئے زبردستی اس کا الحاق بھارت سے کردیا تھا۔ جب کہ اس الحاق میں ریاست کا جغرافیہ بھی نظرانداز کیا گیا تھا۔ اگر محض اس جغرافیائی پہلو کو ہی نظر میں رکھا جاتا تو کشمیر پاکستان کا قدرتی حصہ ہونا چاہیے تھا کیونکہ قدرتی سرحد کے علاوہ پاکستان کے دریاؤں کا منبع بھی کشمیر میں ہی ہے۔
اقوام متحدہ نے 1949 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کرواتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر میں لائن آف کنٹرول تو ضرور بنادی لیکن سکیورٹی کونسل نے کشمیر کو بھارت کا حصہ ماننے سے انکار کردیا بلکہ بھارت کو پابند کیا کہ وہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دے تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔ یہ تمام باتیں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاکستان اور بھارت (یو این سی آئی پی)کے تحت بھارت نے خود بھی مانیں۔ اس ضمن میں سکیورٹی کونسل میں قرارداد (1948-39) قرارداد (1948-47) منظور کی گئیں لیکن بھارتی حکمرانوں کے دلوں میں جو نفرت اور غصب کا جذبہ موجزن تھا اس نے نہ صرف بھارت کو ان قراردادوں پر عمل کرنے سے روکے رکھا بلکہ گاہے بگاہے پاکستان کے خلاف دھونس زبردستی کا رویہ بھی اپنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ 27 جولائی 1949 کا سیز فائر معاہدہ بھارت نے 1965 میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پامال کردیا۔ اس سے پہلے 1950 میں انڈیا کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اقوام متحدہ کے مقرر کردہ ثالث سر اوین ڈکسن کوئی بھی حل پیش کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اس کے بعد امریکی ثالث فرینک پورٹر گراہم کی گراہم رپورٹ کی صورت میں بھارتی ہٹ دھرمی کا ذکر سکیورٹی کونسل میں گونجتا رہا۔ یہ سراسر اقوام متحدہ کی ناکامی تھی کہ وہ بھارت کی ہر بے تکی ڈیمانڈ کو مانتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کے جذبات اور ان کی آزادی کو کچلتی رہی یا التوا میں ڈالتی رہی۔
اقوام متحدہ نے کشمیر پر آخری سنجیدہ کوشش1957 میں اس وقت کی تھی جب ایک بار پھر گراہم رپورٹ مرتب کرنے کا کام شروع کیا گیا اور قرارداد 122 میں اس امر پر شدید نا پسندیدگی کا اظہار کیا گیا کہ مسئلہ کشمیر پر پیش رفت کیوں نہیں ہورہی، ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ اس مسئلہ کا واحد حل کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے میں پوشیدہ ہے۔ اس دفعہ بھی بھارتی ضد آڑے آئی اور سکیورٹی کونسل نے اس کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے۔ 1958 کے بعد سے اقوام متحدہ خود اس معاملے پر سست روی کا شکار ہے۔ اکثریتی آبادی کا تناسب تو الگ یہاں تو کشمیر کے جغرافیائی حقائق کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔ اس حقیقت کو نظر انداز کرنا اقوام متحدہ کی غفلت میں ہی شمار کیا جاسکتا ہے اور کچھ نہیں۔ مزید یہ کہ حق خودارادیت کی جو تعریف نوآبادیوں کے لیے مخصوص ہے، انڈیا کی نظر میں وہ کشمیر پر لاگو نہیں ہوتی۔ جبکہ حق خودارادیت کے عناصر کشمیر پر پوری طرح لاگو ہوتے ہیں کیونکہ کشمیر ہمیشہ الگ حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ یہ کبھی بھی کسی بھی بھارتی حکومت کا حصہ نہیں تھا۔ کشمیریوں کی زبان، ثقافت طرز زندگی انڈیا سے الگ رہا ہے۔ بظاہر لگتا یہی ہے کہ اقوام متحدہ بھارت کی اس بے سروپا بات کو مانتی چلی آرہی ہے۔ تب ہی تو اس کے بعد1962، 1964دونوں سال سکیورٹی کونسل میں مسئلہ کشمیر زیر بحث ضرور آیا لیکن نہ کوئی قرارداد آئی نہ جامع حکمت عملی یا بڑی طاقتوں کی طرف سے کوئی مربوط پیغام بھارت کو دیا گیا۔ یوں کشمیر اقوام متحدہ کے سرد خانوں میں چلا گیا۔
اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کا حقیقی تصفیہ کروانا مشکل نہیں لیکن اس طرف سے جان بوجھ کر پہلو تہی کی جاتی ہے۔ صحافیوں کے حقوق پر آئے دن تشویش کا اظہار کرنے والوں کی زبانوں کو اس وقت تالے لگ جاتے ہیں جب کشمیر میں صحافیوں کو سچ دکھانے پر ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور بین الاقوامی صحافیوں کو باہر نکال دیا جاتا ہے۔
انڈیا نے ہمیشہ ہی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی تجاویز کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کی دھونس کی پالیسی ہمیشہ ان تجاویز کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی ہے۔ پہلے تو بھارت یہ راگ الاپا کرتا تھا کہ سکیورٹی کونسل پاکستان کی طرف جھکائو رکھتی ہے- جب اس غبارے سے ہوا نکل گئی اور کشمیریوں کی آزادی کی لگن نے بھارت کو باور کروادیا کہ کشمیر کے لوگ کسی قیمت پر انڈیا سے الحاق نہیں کریں گے تو اس نے جبر واستبداد کی پالیسی اپناتے ہوئے وادی کشمیر کو پولیس اسٹیٹ میں بدل دیا۔
بھارت نے اقوام متحدہ کی خاموشی اور گہری نیند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر کو انڈیا کا حصہ قرار دینے کی سازش کو عملی جامہ پہنانے کی ٹھانی۔2019 میں آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرکے مودی سرکار نے کشمیر کی امتیازی حیثیت بھی ختم کردی۔ اس گھنائونے قدم سے کشمیر بھارت کا حصہ بنادیا گیا ۔ اس وقت جو کرفیو نافذ کیا گیا تھا آج چار سال گزرنے کے باوجود جوں کا توں موجود ہے۔ کشمیریوں پرآج بھی آزادنہ گھومنے پھرنے پر پابندی ہے۔ وادی میں انٹریٹ پر پابندی ہے۔ گھر گھر تلاشی کے نام پر جبری گمشدگیاں، تشدد زدہ لاشوں کا ملنا اور خواتین کی عصمت دری معمول بن چکی ہے۔ کشمیر کی مسلم اکثریت آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے لاکھوں نئے گھر تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ سرکاری سکیم کے یہ گھر حاصل کرنے کے مجاز کشمیریوں کے علاوہ وہ لوگ بھی ہوں گے جو بھارت سے مستقل یا عارضی بنیادوں پر تعلیم یا روزگار کے سلسلے میں کشمیر میں آئے ہوں یا طویل مدتی سیاحتی ویزے پر وادی میں موجود ہوں۔ کوئی فاترالعقل ہی ہوگا جو مودی کی اس چال کو سمجھ نہ پائے کہ بظاہر عوامی فلاح کے اس منصوبے میں کشمیر کے اصل باشندوں کی کتنی فلاح چھپی ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ منصوبہ 2024 تک مکمل کرلیا جائے گا تاکہ رخصت ہوتی مودی سرکار اگلے الیکشن کا من چاہا انتظام کرسکے۔ کشمیریوں پران کی اپنی سر زمین میں ہی ملازمت اور معاش کے دروازے بند کئے جارہے ہیں۔ بغیر کوئی ٹھوس وجہ بتائے کشمیروں کو کشمیر میں ہی سرکاری نوکری سے فارغ کرنے کا چلن 2019 سے جاری ہے۔ آرٹیکل 370 کے تحت کشمیرمیں وہاں کے اپنے قوانین نافذ تھے ۔ اس کا اپنا آئین تھا۔ لیکن اب جموں و کشمیر براہ راست بھارتی آئین کے ماتحت آگیا۔ کشمیر کو عملًا ہندوا کثریتی جموں اور مسلم اکثریتی کشمیراور لداخ میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ لداخ کو مسلم آبادی کی اکثریت کے باوجود بدھ علاقہ مان کر الگ کیا گیا ہے۔ جموں و کشمیر میں ایک کٹھ پتلی اسمبلی ہے جس کی ڈوریں بھارتی حکومت کے ہاتھ میں ہیں جبکہ لداخ کو براہ راست گورنر کے ماتحت کردیا گیا ہے۔
انڈیا کے یہ اقدامات اقوام متحدہ کی قرارداوں کی صریحاً خلاف ورزی ہیں لیکن دنیا کے منصف اور سلامتی کے ضامن بنے بیٹھے اس ادارے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ روایتی زبانی جمع خرچ کے بعد یہاں سے انڈیا کے خلاف ایک آواز نہیں نکلی۔اقوام متحدہ کی اس تاریخی ناکامی کے بعد بھی کشمیریوں نے بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت کرنا نہیں چھوڑی ہے۔ وہ بھارتی حربوں کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں حالانکہ انسانی حقوق کی جو پامالی کشمیر میں ہو رہی ہے اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ خود اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھارتی فوج کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کا انکشاف اپنی رپورٹ میں کیا جسے حسب توقع بھارت نے مسترد کردیا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر اقوام متحدہ کشمیر میں ناکام کیوں ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید انڈیا اور امریکہ کی متعدد شعبوں میں وسیع شراکت داری ہے۔ اربوں افراد پر مشتمل جھلمل کرتی تجارتی منڈی کو ناراض کرنے کا رسک امریکہ لینا نہیں چاہتا لہذا وہ اقوام متحدہ میں کشمیر کے معاملے پر 'جو چل رہا ہے، چلنے دو' کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ کشمیر کی جغرافیائی افادیت بھی اب بڑی طاقتوں بالخصوص امریکہ کواپنی طرف نہیں کھینچتی کیونکہ نائن الیون کے بعد کی دنیا میں وسط ایشیا کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ نیز چین کو بھارت کے ذریعے قابو کرنے کی برسوں پر مشتمل پالیسی نے امریکہ کو بھارت کے ہر جرم سے پردہ پوشی اختیار کرنے پر مجبور کیا ہوا ہے اور اقوام متحدہ کے پیروں میں بھی بھارت کے تیس ملین ڈالر کی بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں۔اقوام متحدہ کے پیس کیپنگ مشن میں بھی بھارتی فوج کی بڑی تعداد خدمات انجام دے رہی ہے۔ اس سب کی قیمت نہتے بے گناہ کشمیری اپنے خون سے ادا کررہے ہیں۔ 2021 سے بھارت سیکورٹی کونسل میں اپنا اثر و رسوخ بڑھاتا جا رہا ہے اور غیر مستقل سے مستقل سیٹ کی طرف نظریں گاڑے بیٹھا ہے۔ اس ضمن میں بھی اسے امریکی صدر جو بائیڈن کی آشیرباد حاصل ہوتی نظر آرہی ہے۔ یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ امریکہ اقوام متحدہ کا سب سے زیادہ طاقتور رکن ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کئی معاملات میں امریکہ، اقوام متحدہ سے زیادہ طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس اثر ورسوخ کی وجہ سے امریکہ کے لیے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کا حقیقی تصفیہ کروانا مشکل نہیں لیکن اس طرف سے جان بوجھ کر پہلو تہی کی جاتی ہے۔ صحافیوں کے حقوق پر آئے دن تشویش کا اظہار کرنے والوں کی زبانوں کو اس وقت تالے لگ جاتے ہیں جب کشمیر میں صحافیوں کو سچ دکھانے پر ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور بین الاقوامی صحافیوں کو باہر نکال دیا جاتا ہے۔ روس نے پہلی بار اپنا مؤقف بدلتے ہوئے بھارت کی پشت پناہی چھوڑ کر 2019 کے اقدامات کی مذمت کی۔ جو یقینا قابل تعریف ہے لیکن کشمیر کے لوگوں کا ہر گزرتا دن ٹھوس اقدامات کا منتظر ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب اقوام متحدہ حق خودارادیت کی اپنی قراردادوں پر عمل کروانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی۔
اس منظرنامے میں اقوام متحدہ سے کوئی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے برابر ہے لیکن ایک ذمہ دار ملک ہونے کے ناطے پاکستان ہمیشہ اپنے کشمیری بھائیوں کے لیے آواز بلند کرتا رہے گا کہ شاید کبھی اقوام کے مابین تنازعات کا حل تلاش کرتے کرتے اقوام متحدہ کشمیر کی لہو لہو وادی کی طرف بھی آنکھ اٹھا کے دیکھے اور اپنے اندر اتنی قوت پیداکر سکے کہ بھارت جیسے عالمی دہشت گرد کے ہاتھ روک سکے۔ ||
مضمون نگار فری لانس صحافی ہیں۔ حالاتِ حاضرہ اور سماجی و معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے