جموں و کشمیر کی تاریخ میں 27 اکتوبر کا دن یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 1947 میں اس روز منصوبہ بندی کے تحت بھارت کی افواج سری نگر ایئرپورٹ پر اتریں۔ اگرچہ اس وقت بھارت نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کی افواج جموں و کشمیر میںقیام ِامن کے لیے داخل ہوئیں اورریاست کشمیر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ریاستی باشندے آزادانہ رائے شماری کے ذریعے کریں گے لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ یہ وعدہ محض فریب تھا۔ ریاست جموں و کشمیرکے سیاسی مستقبل کے تناظر میں پاکستان کے مؤقف کی وضاحت بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے اس بیان سے ہوتی ہے، جو انہوں نے 11جولائی1947 کو شاہی ریاستوں بالخصوص ریاست کشمیر کے متعلق اپنے نقطۂ نظر کے اظہار کے لیے حسب ذیل الفاظ میں جاری کیا تھا:
''میں نے کئی مرتبہ یہ واضح کیا ہے کہبھارتی ریاستیں حسبِ منشا پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں یا بھارت کی دستور ساز اسمبلی میں شامل ہوسکتی ہیں یا چاہیں تو آزاد رہ سکتی ہیں۔ مجھے کوئی شبہ نہیں کہ مہاراجہ اور کشمیر کی حکومت اس معاملے پر باریک بینی سے توجہ دیں گے، غور کریں گے اور نہ صرف حکمران بلکہ عوام کے مفادات کا بھی خیال رکھیں گے''(جناح پیپرز، جلد ہشتم، ص308)
قائد اعظم ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کے فیصلے پر اثرانداز نہیں ہونا چاہتے تھے۔ اس کی معقول وجہ بھی تھی چونکہ ریاست کشمیر کا قدرتی طور پر رسل و رسائل اور آمدورفت کا دارو مدار پاکستان پر تھا۔ مزید برآں ریاست کی اکثریتی آبادی بھی مسلمان تھی۔اس صورت حال میں اگر مہاراجہ الحاق کے لیے پاکستان و بھارت میں سے کسی ایک مملکت کا انتخاب کرتے تو امکانی طور پروہ پاکستان ہی ہوتا۔ قائد اعظم کو امید تھی کہ مہاراجہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کرتے وقت اپنی رعایا کے مفاد کو مدنظر رکھیں گے۔ اگر مہاراجہ ریاست کی خودمختاری کو مقدم رکھتے تواس صورت میں بھی ریاست جموں و کشمیر مذہبی و جغرافیائی دونوں لحاظ سے پاکستان سے لاتعلق نہیں رہ سکتی تھی۔ لیکن اس کے برعکس بھارت یا کانگریسی رہنما جغرافیائی اہمیت کی حامل ریاست جموں و کشمیر کو خود مختار یا پاکستان سے ملحق دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔وہ مہاراجہ کشمیر سے گٹھ جوڑ کرکے کشمیر حکومت کے فیصلوں پراثر انداز ہوئے۔
تاریخ کے تسلسل اور رونما واقعات کے باہمی ربط کو جوڑنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ تقسیمِ ہند کے بعد جموں و کشمیر میں مسلح مزاحمت کا آغاز اگست1947 کے آخری ہفتے میں جموں کے مسلم اکثریتی ضلع پونچھ سے ہوا۔ مقامی مسلمان باشندوں کی جانب سے ڈوگرہ فوج کے خلاف مسلح مزاحمت کی اس روداد کوتاریخِ کشمیر میں بغاوتِ پونچھ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس کا محرک وہ اجتماع تھا، جو باغ میں دھیرکوٹ کی بلند چوٹی نیلا بٹ کے مقام پر 23 اگست کو مقامی رہنمائوں نے منعقد کیا تھا۔ اجتماع کے ارکان میں سردار عبدالقیوم خان کا نام نمایاں ہے۔ شرکائے اجتماع نے مقامی مسلمان باشندوں پر ڈوگرہ فوج کے مظالم کی مذمت کی اور پاکستان سے الحاقِ کشمیر کی حمایت کرتے ہوئے مہاراجہ کو متنبہ کیا کہ اگر بھارت سے الحاق کیا گیاتو اس کے نتائج سنگین ہوں گے۔ جسٹس یوسف صراف کے مطابق اس اجتماع کی خاص اہمیت یہ تھی کہ اس کے بعد الحاقِ پاکستان کی تحریک کو مسلح مزاحمت کی صورت میں ایک نیا رخ ملا۔
پونچھ، باغ کے مزاحمت کاروں نے جس مسلح تحریک کا آغاز کیا، اس نے بہت جلدجنوب میں میرپور تک وسعت اختیار کرلی۔ یہ دراصل مہاراجہ کی فوج کی جانب سے پونچھ میں مسلمانوں پر روا رکھے گئے مظالم کا ردعمل تھا۔ گویا کہ ریاستی جبر سے تنگ اور اپنے مستقبل کے لیے فکرمند کشمیریوں نے ڈوگرہ فوج کے خلاف مسلح مزاحمت کو ذریعہ نجات سمجھتے ہوئے اس کٹھن راہ کا انتخاب کیا۔ واضح رہے پونچھ کے باشندے فوجی ملازمت کا تجربہ رکھتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں یہاں کے ہزاروں سپاہی برطانیہ کی جانب سے جنگ میں شامل رہے۔ انہی سابق فوجیوں نے مہاراجہ کے خلاف بغاوت میں کلیدی کردار ادا کیا۔مزاحمت کار جوش و جذبے سے مامور تھے۔ دوسری جانب مہاراجہ کی فوج پسپائی کی راہ پر گامزن تھی اورپے در پے ناکامیوں کا سامنا کر رہی تھی۔ خود جموں و کشمیر کی ریاستی افواج کے سربراہ میجر جنرل اسکاٹ نے سبک دوشی سے قبل 22ستمبر1947 کو اپنی حتمی رپورٹ میں مہاراجہ پر واضح کیا کہ ریاستی افواج صورت حال پر قابو پانے کی امید نہیں رکھتیں۔(Alastair Lamb, Birth of a Tragedy: Kashmir 1947, p63)
کشمیریوں کی مسلح بغاوت سے مہاراجہ کا اقتدار دائو پر لگ گیا تھا۔ ان حالات میں آزادی پسندوں کا راستہ روکناریاستی حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا، ورنہ مہاراجہ جموں و کشمیر کے باقی ماندہ علاقوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا۔ حالات کے پیش نظر ریاستی حکومت نے محض اپنی افواج پر تکیہ نہیں کیا، بلکہ ہندو اور سکھ شہریوں کو بھی مسلح کیا گیا۔ شیخ عبداللہ کا اعتراف ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم مہر چند مہاجن اور ان کے نائب رام لال بترہ نے کشمیری پنڈت رہنمائوں کو بلاکر انہیں بندوقیں اور دیگر اسلحہ جات کی پیش کش کی تاکہ وہ اپنی حفاظت کرسکیں۔(آتش چنار، ص400 )بیشتر مصنفین نے لکھا ہے کہ جموں میں غیر ریاستی ہندوئوں اور سکھوں کے مسلح گروہ بھی داخل ہوئے تھے اور انہوں نے مسلمانانِ جموں کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین بھی کیا۔ اس ضمن میں راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ(RSS)اور اکالی دل کے مسلح جتھوں کا ذکر متواتر ملتا ہے۔یوسف صراف نے مشرقی پنجاب کی ریاست پٹیالہ کی افواج کے داخلے کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
A few days before the entry of tribesmen, the Maharaja of Patiala had sent an Infantry battalion and a Mountain Battery of the Patiala State forces. The former was posted at Jammu while the latter took up position on the Badami Bagh side of the air-field in Srinagar. The Infantry battalion collaborated with the Dogra army and local non-Muslims in the genocide at Jammu (Kashmiris Fight-For Freedom: 1947-1978, Vol-2, p909)
ترجمہ:قبائلی افراد کی آمد سے چند دن قبل، پٹیالہ کے مہاراجہ نے پٹیالہ کی ریاستی افواج کا ایک پیادہ دستہ اور ایک پہاڑی توپ خانہ بھیجا۔ اول الذکر جموں میں تعینات ہوا اور مخرالذکر نے سری نگر میں ہوائی اڈے کے بادامی باغ کی طرف پوزیشن سنبھالی۔ پیادہ دستے نے ڈوگرہ فوج اور مقامی غیر مسلموں کے ساتھ جموں میں مسلمانوں کی نسل کشی میں حصہ لیا۔
الیسٹیئر لیمب کے بیان سے بھی اس امر کی تائید ملتی ہے۔ وہ ریاست پٹیالہ کی فوج کو ہند یونین کی افواج کا حصہ قرار دیتے ہوئے اسے جموں وکشمیر میں بھارت کی فوجی مداخلت کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ جموں و کشمیر میں ریاست پٹیالہ کی فوج نے 18اکتوبر1947تک اپنی نقل و حرکت مکمل کرلی تھی۔(Birth of a Tragedy: Kashmir 1947, p71) گویا کہ کشمیر میں پاکستانی قبائل کے ورود سے قبل مہاراجہ کے معاون بیرونی فوجی دستے یا غیر ریاستی مسلح جتھے ریاست کی خودمختاری پامال کرچکے تھے۔ پاکستان کے قبائلی اکتوبر1947 کے چوتھے ہفتے کے آغاز میں مظفر آباد کے محاذ پر مسلح مزاحمت میں شریک ہوئے۔ قبائلیوں کی یلغار اس قدر شدید تھی کہ اس کے سامنے ڈوگرہ فوج ٹھہر نہ سکی اور راہ فرار اختیار کرگئی۔ اسی اثنا میں مہاراجہ کو بھی جان کے لالے پڑگئے اور وہ سری نگر چھوڑ کر جموں بھاگ نکلے۔)شہاب نامہ، ص(385-387
قبائلی حملے کے متعلق یہ تاثرعام ہے کہ ریاست کشمیر میں پہلی مداخلت ان کی جانب سے ہوئی اور یہی وہ مداخلت تھی جس نے مہاراجہ کو بھارت سے الحاق کے فیصلے پر مجبور کیا اور بھارتی افواج کو کشمیر میں داخلے کا موقع ملا۔ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ قبائلیوں کا حملہ کشمیر میں بیرونی مداخلت کا آغاز نہیں تھا۔ اس سے قبل ریاست پٹیالہ کے فوجی دستے اور سخت گیر ہندو ئوں و سکھوں کے مسلح جتھے ریاست میں داخل ہوچکے تھے۔ لہٰذا یہ بیانیہ حقائق کے برعکس ہے کہ مہاراجہ نے قبائلی حملے کے پیش نظر بحالت مجبوری بھارت کے ساتھ الحاق کیا۔ بھارت کشمیر سے کبھی لاتعلق نہیں رہا۔ کانگریسی رہنمامہاراجہ کشمیر کو اپنی جانب راغب کرچکے تھے اور الحاق کی راہ ہموار کرنے کے لیے من پسند فیصلے کروانے میں بھی کامیاب ہوگئے تھے۔ ریاست جموں و کشمیر میں کانگریس نواز وزیراعظم مہرچند مہاجن کی تقرری اور بغاوت کے مقدمے میں قید اپنے سیاسی حلیف شیخ عبداللہ کی رہائی اس کے بین ثبوت ہیں۔
مذکورہ پس منظر میں یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ کیا ان حالات میں قبائلیوں کا حملہ دانش مندانہ اقدام تھا؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس وقت کشمیری کن حالات سے دوچار تھے۔ چونکہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ جس طرح پونچھ میں کشمیریوں کی بغاوت ڈوگرہ افواج کے مظالم کا ردعمل تھا۔ اسی طرح قبائلی حملہ بھی بلاوجہ کی کارروائی نہیں تھی، بلکہ یہ حملہ ان واقعات کا ردعمل تھا جو اس وقت کشمیر میں پیش آئے تھے یا وہ خدشات جن کا آئندہ دنوں امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔ یوسف صراف کے مطابق مظفرآباد کے مسلمان متفق ہیں کہ اگرعید،25اکتوبر، سے قبل قبائلی باشندے قصبے میں داخل نہ ہوتے تو ہندو اور سکھ ان کے خاتمے کا منصوبہ سرانجام دینے میں کامیاب ہوجاتے۔ (Kashmiris Fight-For Freedom: 1947-1978, Vol-2, p897)
تقسیمِ ہند کے بعد جس نوعیت کے مسلم کش فسادات نے جموں کے اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے پاس دو راستے تھے،یا تو جموں و کشمیر کے مسلمانوں کوحالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا یا پھر ان کی مدد کرکے ان کو درپیش صورت حال سے نکالا جاتا۔ پاکستان نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا لیکن رضاکارانہ بنیادوں پر۔ پاکستان سے کشمیر میں داخل ہونے والے قبائلی باشندوں سے کشمیری باغیوں کو حوصلہ ملا اور ڈوگرہ فوج کا مورال زمین بوس ہوگیا۔ قبائلی لشکر آئندہ چند دنوں میں سری نگر کے نواح تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔ اسی اثنا میں مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ کشمیر کا متنازع الحاق کیا اور بھارتی افواج 27اکتوبر کی صبح سری نگر ایئرپورٹ پر اتر گئیں۔
جب جموں و کشمیر میں جنگ کے شعلے انتہا کو چھو رہے تھے، تو گلگت و شمالی علاقہ جات بھی اس کے اثرات سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ وہاں گلگت سکائوٹس، ڈوگرہ فوج کے مسلمان اہلکاروں اور مقامی باشندوں نے یکم نومبر کو بغاوت کرکے ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کرلیا۔ اس طرح گلگت کا علاقہ بھی آزاد ہوکر مہاراجہ کی عمل داری سے نکل گیا۔تقسیمِ ہند کے بعد ریاست جموں وکشمیر کے تمام آزاد کردہ علاقے مقامی باغیوں یا پاکستانی رضاکاروں کی جدوجہد کے نتیجے میں آزاد ہوئے۔ پاکستانی فوج چھ ماہ بعد اپریل1948کے آخر میں اس وقت کشمیر میں داخل ہوئی، جب موسم سرما کے اختتام پر بھارت کی جانب سے بڑے حملے کی اطلاعات تھیں۔اس طرح پاکستانی افواج نے محاذ کشمیر پرصرف دفاع کے پیش نظر جنگ میں شمولیت اختیار کی۔ موسم بہار کے جھڑپوں کے دوران پاکستانی افواج نے تمام تر توجہ بھارتی افواج کو اڑی، پونچھ اور نوشہرہ کی عام لائن سے آگے بڑھنے سے روکنے پر مرکوز رکھی۔دوسری جانب بھارت نے کثیر افواج اور بھاری اسلحے کا سہارا لینے کے ساتھ ساتھ فضائیہ کا استعمال بھی کیا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب آٹھ ماہ بعد دسمبر1948 کے آخر میں اقوام متحدہ کمیشن کی کوششوں سے جنگ بندی عمل میں آئی تو بھارت کارگل اور مینڈھر سمیت ریاست کے خاصے بڑے حصے پر قبضہ کرچکا تھا۔
(قرطاس ابیض:تنازعہ جموں و کشمیر، وزارت امورِ خارجہ حکومت پاکستان، ص15 )
تقسیمِ ہند کے بعد سال 1947-48 کے ان دو برسوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ بھارت نے منصوبہ بندی کے تحت ریاست جموں و کشمیر میں فوج کشی کی اور اس کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کیا۔ کیونکہ وہ اس ریاست کا الحاق،پاکستان کے ساتھ کسی صورت نہیں چاہتا تھا۔ راقم نے اپنی کتاب ''کشمیر: تاریخ، تحریک اور امکانی حل کا جائزہ ''میں ان حالات و واقعات کا احاطہ کیا ہے، تفصیل کے لیے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ 1948-49 میں جنگ بندی کے بعد ریاست جموں و کشمیر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ، جو رائے شماری کی صورت میں ہونا ہے، اس کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور افواج کی مرحلہ وار واپسی کے سلسلے میں مختلف حیلوں بہانوں سے کام لیا گیا۔ اگست2019 میں بھارت نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ہی ختم کردی اور اب وہاں آبادی کا تناسب بگاڑنے کے منصوبوں پر عمل کیا جا رہاہے۔یاد رہے جب تک پاکستان و بھارت کے مابین جموں و کشمیر کا بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوتا، اس وقت تک خطے میں پائیدار امن کا قیام محض خواب ہے۔ ||
مضمون نگار تصنیف، تحقیق اور صحافت کے شعبوں سے وابستہ ہیں، جامعہ کراچی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
[email protected]
تبصرے