میری سرشت میں وحشت کا وہ عالم ہے کہ مجھے قیس کے مانند بہشت کے گلی کوچوں میں بھی صحرائی لینڈ سکیپ چاہیے۔وہ بھی دشت میں آبلہ پائی کے لیے کانٹوں بھرے راستوں پر چلنے کا عادی تھا اور میں بھی اسی قماش کا آدمی ہوں۔جب پاکستان بھر کے سیاح سورج کی تیکھی کرنوں سے زخمی ہوکر برف پوش پربتوں میں علاج ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔ میں اُس زخم کو گہرا کرنے کے لیے سورج سے جا لپٹتا ہوں۔
آفس کی میز پر پڑے لیپ ٹاپ پر نہ ختم ہونے والی اسائنمنٹس کی طرح بیزاری کا دورانیہ بڑھتا جارہا تھا۔ بدن کے باقی حصوں کی نسبت اعصابی سوزش کا احساس مجھے اپنے پائوں پر زیادہ محسوس ہوتا ہے۔پیدل چلنا ،نئی جگہوں پر شب بھر نت نئے ستارے دیکھنا اور بے کنار آسمان کو معصومانہ حیرت سے تکتے رہنا مجھے اچھا لگتا ہے۔یہ ضروری تو نہیں کہ خوابوں کے کردار پربتوں، کہساروں یا سر سبز وادیوں میں ملیں۔ بعض اوقات صحرائوں کی وسعتوں میں بھی ایسے دفینے مل جاتے ہیں جو دیدئہ حیرت کی پیاس بڑھانے کا باعث ہوتے ہیں۔انہی کرداروںکی تلاش میں ایک بار پھر تھکی ہوئی فاختہ نے اپنے پنکھ پھیلائے اوراُڑ کر ٹھٹھہ شہر کے قریب مکلی کے قبرستان کی ایک قدیم دیوار پر جا بیٹھی۔تاریک دالان، بے کیف فضائوں میں رسیلی سندھی بولنے والے نظر آرہے تھے اور وہ پہلا گورکن بھی جس نے پہلی مرتبہ دار القبور کی کھدائی کی۔
اگر بے ثباتی اور رائیگانی کی بے صورتی دیکھنی ہو تو مکلی کے اس دس کلومیٹر طویل قبرستان کو دیکھ لیجیے۔دور کسی قدیم جنڈ یا کریر تلے طنبورہ بجاتا ہوا ایک ملنگ عجیب راگ گاتا ہے۔جس کی تان میں صدیوں کا درد ،بے بس زمانوں کا بہلاوا،تنگ دستوں کی زندگی جیسی مُرکیاں ہیں اور وہ عبرت کے خیال ایک سوز میں پرو کر دنیا والوں کو اپنا گیت سناتا ہے۔مجھے محسوس ہورہا تھا تمام قبور کی رمیدگی اسی راگ پر طاری ہوچکی ہے۔ وہ دُکھ کی حالت میں کسی کیفیت کواُجاگر کررہا ہے۔آس پاس کہیں تانگے والا زائرین کو ان مقبروں کی شان و شوکت سے آگاہ کررہا ہے۔وہ کچھ مزاروں کے اوصاف بتاتے ہوئے داستان گوئی کرتا ہے۔لوگ ان مزاروں سے مرادیں مانگنے آتے ہیں۔ایک کیکر تلے یونان کا جوگی سانپ اور نیولے کا تماشا دکھاتا ہے۔ بوسیدہ سے تکیے پر تشریف رکھتے ہوئے نابینا جوگی عرصہ ہوا پہاڑوں سے اتر آیا ہے مگر اپنی آنکھیں کوہ قاف کی کسی شہزادی کو دے آیا ہوگا۔مقامیوں کی سُنی سنائی کہانیوں پر یقین کرلیا جائے تو مکلی نام کی وجہ تسمیہ کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں: '' قدیم زمانے میں ایک ولی اللہ حج کے لیے جارہے تھے تو راستے میں کچھ دیر سستانے کے لیے ٹھٹھہ کی اسی پہاڑی پر رُک گئے۔رات کو ایک خواب دیکھا، جس کے اثر سے وہ بیدار ہوئے اور بار بار کہنے لگے کہ یہ میرے لیے مکہ ہے۔وہ مکھ لی کا نام پکار رہے تھے۔اسی لیے لوگ اس پہاڑی کو مکھ لی کہنے لگے۔بعض کہتے ہیں کہ مسجد کے محراب کے پیچھے ایک ولی دفن ہیں جن کا نام بی بی مکلی تھا۔کچھ لوگوں نے یہاں مسجد کا نام مکلی یا چھوٹا مکہ رکھا پھر پوری پہاڑی کا نام اسی مسجد سے پڑ گیا''۔
مکلی کے اس قبرستان میں مٹی کی ڈھیریوں میں سے عبرتناک ماضی جھانکتا ہے۔متعدد قبروں پر وزراء اور جنگجوؤں کی تختیاں لگی ہوئی نظر آتی ہیں۔یہ ایک طرح سے اُجڑے ہوئے پھولوں کا باغ معلوم ہوتا ہے۔جس میں سُرخ اور سیاہ پھول اُگتے ہیں۔سرخ پھول اُن ولیوں اور صوفیوں کی قبروں پر اگتے ہیں جنہوں نے تاعمر انسانیت کو مقدم رکھا اور اپنے معبود کو راضی کیا۔جن حکمرانوں اورسرداروں نے رعایا سے ناروا سلوک رکھا، اُن کی قبروں پر سیاہ پھول اگتے ہیں۔تاریخ کو چڑاتے ہوئے منہ زور کردار آج اوندھے منہ گمنام پڑے ہیں۔اِن سب کے طمطراق دفن ہوچکے ہیں۔ان کا جاہ وجلال زمیں بوس ہوچکا ہے۔ دس لاکھ قبروں میں سمہ ،ارغون، ترخائن، مغل ادوار کے کتنے جنگجوؤں اور بادشاہوں کی باقیات دفن ہیں بلکہ یہاں چودھویں صدی عیسوی سے لے کر 17ویں صدی کے حکمرانوں اور سپاہیوں کی داستانیں دفن ہیں۔قومی شاہراہ کے دونوں اطراف پھیلا ہوا یہ قبرستان دھیرے دھیرے پورے سندھ تک پھیل سکتا ہے۔اگرچہ یونیسکو نے اسے 1981 میں عالمی ورثہ قرار دیا تھا مگر قبروں کی زبوں حالی سے لگ رہا ہے کہ تاریخ رفتہ رفتہ مٹی کی تہ در تہ گہرائیوں میں دفن ہوتی جا رہی ہے۔ شہرٹھٹھہ کی موجودہ حالت سے لگتا ہے کہ جلد اس شہر کو بھی ورثے کے طور پر محفوظ کرلیا جائے گا۔
لاکھوں قبروں اور بیس سے پچیس عظیم الشان مقبروں میں گِھرا یہ قبرستان انسانوں کے عروج و زوال کی منہ بولتی داستان ہے۔ ساموئی پہاڑی کی شمالی ڈھلوان کے نیچے جام تماچی محبت کے گیت گا کر مٹی میں دفن ہیں۔زردی کی چادر اوڑھے مرزا عیسیٰ خان ترخان ثانی کا مقبرہ اپنی الگ تاریخی شناحت رکھتا ہے۔وہی مرزا عیسیٰ جو مغل دربار کے چار ہزاری منصب پر رہنے کے بعد گورنر سندھ بھی رہے۔ سندھ کے ایک اور راجہ جام نظام الدین المعروف جام نِندو کا مقبرہ زرد پتھروں سے تعمیر کروایا گیا تھا۔سمہ ڈائنسٹی کے اس حکمران کا مقبرہ چوکور ہے اور اس پر چھت نہیں ہے۔مرزا باقی بیگ اور مرزا جان بابا کے مقبروں کی داستان الگ طرح سے بدن میں سراسیمگی پیدا کرتی ہے۔ان قبروں پر منقش عبارات سے سندھ کی تہذیبی قدامت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سندھ کا دائرہ مصری، سومیری اور ایرانی تہذیبوں سے وسیع تھا۔اسی لیے اکثر قبروں پر سندھی، فارسی اور عربی میں عبارات لکھی ہوئی ہیں۔ان مقابر کے ستون سندھی ٹائلوں اور سرخ اینٹوں سے بنے ہوئے ہیں۔مزارات میں سرخ اینٹوں سے گنبد بھی تعمیر کروائے گئے ہیں۔کاشی گری کے نمونے دیدہ زیب تو ہیں مگر عبرت ناک انجام سے دوچار ہونے والے حکمرانوں کی لاوارث قبروں میں سانپ بھی پائے جاتے ہیں۔
جنوب سے چلنے والی ہوائوں میں خنکی تھی اور میں ان مقبروں میں دفن ہونے والوں کی کہانیوں سے آشنا ہورہا تھا۔کس قدر بھیانک ماحول ہو گا جب محبت کرنے والوں کو زندان میں ڈال کر جدا کر دیا جاتاہوگا۔سندھ دھرتی کی لوک کتھائیں سنانے والوں کو بے موت مارا جاتا ہوگا۔ غریب کسانوں کی پکی ہوئی فصل چھین لی جاتی ہوگی۔اس فصل میں وہ جوان لڑکیاں بھی شامل ہیں جن کے لیے اْن کی مائوں نے چاندی کی بالیاں ٹرنک میں سنبھال رکھی تھیں۔یہ وقت کا پھیر ہے۔کوئی بھی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ ہمیشہ رہے گا۔سات صدیوں کے ان گنت راز میرے سینے میں اتر رہے تھے۔آج جن کو محسوس ہوتا ہے کہ دنیا اُن کے اشاروں پر رک سکتی ہے اُن کو ایک بار مکلی کے اس قبرستان سے ہو آنا چاہیے۔
سندھ میں سومرا قبیلے کے بعد سمہ خاندان کی حکومت کی ابتداء ہوئی۔ 1351ء میں جام اُنڑ سموں نامی وہ پہلا سمہ حاکم تھا جس نے سندھ کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔سندھ انسان پرستوں کی سرزمین ہے۔اس زرخیز مٹی کے دل پذیر اوصاف فقط ہزار برس قبل ہی نہیں تھے۔آج بھی سندھ دھرتی محبت اور تصوف کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔آسمان سے ابرِ رحمت برس جائے تو پیاسی زندگی کے لبوں پر نمی سج جاتی ہے۔تھر میں جب شام کو مور ناچتے ہیں اور گھنٹیاں بجاتے اونٹ واپس آتے ہیں تو فقیر مزاج سندھ باسی رب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ہمیں سندھ دھرتی کا بیٹا بنایا۔وہ مہمان نواز ہیں اور سندھ دھرتی پر تمام انسانوں اور جانوروں کے لیے ان دیکھی محبت میں گرفتار ہیں۔
مکلی قبرستان ایشیا ء کا سب سے بڑا قبرستان ہے۔یہ بات طے ہے کہ ٹھٹھہ کے گورکن قبریں کھود کھود اور درزی کفن سی سی کر تھک گئے مگر میتوں کی تعداد میں کمی نہیں ہورہی۔جنازے پڑھنے والوں کی تکبیریں فضائوں میں بلند ہوتی جارہی ہیں، مگر موت رک نہیں رہی۔مکلی میں دفن ان درجنوں بادشاہوں اور گورنروں، ہزاروں جنگجوؤں اور سپاہیوں کو موت نگل چکی ہے مگر پھر بھی تھم نہیں رہی ہے۔ ٹھٹھہ کبھی ترکھانوں کا دارالحکومت تھا مگر بعد میں ترکھانوں نے پلنگ، تابوت اور میت کی چارپائیاں بنا کر اسے دارالقبور بنا دیا۔
مکلی گورستان سے باہر کچھ ہی فاصلے پر چٹیل میدان ہے۔وہاں پکھی واسوں نے اپنی جھگیوں میں آگ جلائی ہوئی تھی۔جلتے ہوئے تندور جیسے دن کو مزید بھڑکانے کے لیے میں نے ان جھگیوں کا رخ کیا۔میں نے جھجک کی چِک ہٹا کر ایک بوڑھی اماں سے آگ تاپنے کی گزارش کی۔وہ حیرت انگیز نگاہوں سے مجھے دیکھ کر پاگل سمجھ رہی تھی۔میں اپنے زخم چھپا کر آگ کے گرد بیٹھ گیا اور جھگی والی مائی سے پوچھا '' اماں زندگی کی بلا اے؟ '' وہ بولتی ہے '' ہم مسافروں پر ازل سے بھوک، ٹْونہ منتر کرتی ہے اور افلاس کا ککر ہم پکھی واسوں کی چھتوں پر برستا ہے۔ہماری زندگی کے ماتھے پر موت کا کتبہ لگا ہوا ہے۔سماج فاتحہ پڑھنے آتا ہے۔زندگی ہماری چمڑی کو درد کے سندان پر فِکس کرتی ہے اور دکھ کے ہتھوڑے برساتی ہے پھر ہمیں ریزہ ریزہ کرتی ہے۔ ہم بکھری حیاتی کو اکٹھا کرکے پھر سفر کے بیل بن کر سمے کے کولھو کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ہمارے لیے مالکانہ حقوق کبھی نہیں ہوتے۔ہماری خوشیاں بھی کیلوں والے بکس میں دھری ہوتی ہیں جن کو ڈھونڈنا چاہیں تو ہاتھ زخمی ہوجاتے ہیں۔ہم موسموں کے عذر قبول کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے تابوت سروں پر اُٹھائے موت کے فرشتے سے بھاگتے ہیں اور بھاگتے بھاگتے کیڑوں مکوڑوں کی طرح مسل دیے جاتے ہیں۔ہمارے نقوش انسانوں کی فوٹو کاپی میں ظاہر ہوتے ہیں مگر پسِ تحریر جو اصل متن ہے وہ کوئی نہیں جان سکتا۔ہم مسافر ہیں اور لمبی مسافت کے لیے دربدر بھٹک رہے ہیں''۔پھر اماں نے سفر کا منتر میرے ماتھے پر پھونکا اور میں مکلی کی گمنام قبروں کی طرح لاپتہ ہوگیا۔ ||
مضموں نگار، شاعراور سفرانچہ نگاراور دو کتابوں کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے