پاکستان کی سیاست ، جمہوریت ،معیشت ،قومی سلامتی یا سکیورٹی کی کامیابی ،ترقی وخوشحالی کی ایک بڑی کنجی اعلیٰ طرز و شفافیت پر مبنی حکمرانی کے نظام سے جڑی ہوئی ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں مضبوط ریاستیں ہیں یا جہاں حکمرانی کے نظام میں شفافیت اور عوامی اعتماد کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ اعلیٰ حکمرانی کا نظام ہوتا ہے۔ اچھی او ربہتر و شفاف حکمرانی کے نظام سے مراد ایسی حکمرانی جو عام آدمی کی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بناتی ہے اور لوگوں میں یہ اعتماد ہوتا ہے کہ یہاں پر حکمرانی کے نظام کا براہ راست تعلق ان کے روزمرہ کے مسائل کے حل کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔جہاں جہاں حکمرانی کا نظام عام لوگوں کی سیاسی ، سماجی، انتظامی، قانونی او رمعاشی اور فیصلہ سازی میں ان کی مؤثر شمولیت کے ساتھ جڑا ہوگا یا عام لوگوں میں حکمرانی کے نظام کی ملکیت ہوگی وہی نظام اپنی سیاسی ساکھ بھی قائم کرتا ہے ۔ اچھی حکمرانی سے جڑا نظام ریاست ، حکومت، اداروں او رشہریوں کے درمیا ن موجود خلیج کو کم کرتا ہے او رلوگوں میں اس احسا س کو نمایاں کرتا ہے کہ ریاستی نظام ان کے ساتھ کھڑا ہے ۔
اگر ہم اپنی موجودہ نیشنل سکیورٹی پالیسی کو دیکھیں جو ایک جامع دستاویز ہے ۔ اس دستاویز میں بھی ہمیں قومی سکیورٹی پالیسی او رحکمرانی کے نظام یعنی گورننس کے باہمی تعلق کا بیانیہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی دستاویز میں زور دیا گیا ہے کہ ہمیں قومی سلامتی اور سکیورٹی کو تحفظ دینے کے لیے گورننس کے نظام کی بہتری کے امکانات کو پیدا کرنا ہے او راسی کو بنیاد بنا کر عام طبقات کو تحفظ دینا ہے تاکہ لوگ خود کو عملاً مضبوط سمجھ سکیں۔
عمومی طور پر معاشرے کے کمزور او رمحروم طبقات جو سیاسی ، سماجی او رمعاشی طو رپر مستحکم نہیں ہوتے، ان کے لیے اچھی او رمنصفانہ حکمرانی سے جڑا نظام زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ عام افراد کا انحصار ہی مشکل وقت میں اپنے حکمرانی کے نظام سے جڑا ہوتا ہے او ران کو یقین ہوتا ہے کہ ان کا نظام ا ن کے لیے ہر سطح پر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے گا ۔جہاں جہاں حکمرانی کے نظام میں خامیاں ہونگی یا حکمرانی کے نظام کو ہم ایک مخصوص طاقت ور طبقات کے مفادات کے گرد گھومتا دیکھتے ہیں وہاں ہمیں حکمرانی کے بحران میں بداعتمادی او رمختلف نوعیت کے عملًا انتشار کے پہلوؤں کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے ۔جب عمومی طو رپر یہاں قومی سلامتی یا قومی سکیورٹی پر توجہ دی جاتی ہے یا اس پر جو بھی بیانیہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس تجزیہ میں '' اعلی حکمرانی کے نظام '' کو ہی فوقیت دی جاتی ہے ۔کیونکہ قومی سکیورٹی او راچھی طرز حکمرانی کا ہمیں براہ راست تعلق دیکھنے کو ملتا ہے اور اس امر کو یقینی بنائے بغیر قومی سکیورٹی کو یقینی بنانا بھی ممکن نہیں ہوسکتا۔
ہمارے سامنے دو اہم قانونی یا سیاسی پہلو ہیں ۔ اول ہم نے 2010میں 18ویں ترمیم کی مدد سے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے لیے یہ حکمت عملی اختیا رکی کہ وفاق اپنے اختیارت صوبوں کو اور صوبے اپنے اختیارات ضلعی حکومتی نظام کو دیں گے۔ سیاسی ، انتظامی او رمالی سطح کے اختیارات کی منصفانہ تقسیم ہی وفاق، صوبوں اور ضلعو ں کے درمیان سیاسی ، سماجی او رمعاشی ہم آہنگی کو پیدا کرسکتی ہے ۔صوبائی خود مختاری کی بات بھی اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے جب ہم صوبائی خود مختاری کو بنیاد بنا کر ضلعی خود مختاری پر توجہ دیں ۔1973کے آئین کو ہم دیکھیں توشق140-Aکے مطابق ہر صوبائی حکومت پابند ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں ایک مضبوط ، مربوط اور شفاف سمیت خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام کو یقینی بنا کر ان کو سیاسی ، انتظامی او رمالی اختیارات دے۔یہ عمل صوبائی حکومتوں کے لیے سیاسی سمیت آئینی تقاضہ یا ذمہ داری بھی ہے۔ دوئم اگر ہم اپنی موجودہ نیشنل سکیورٹی پالیسی کو دیکھیں جو ایک جامع دستاویز ہے ۔ اس دستاویز میں بھی ہمیں قومی سکیورٹی پالیسی او رحکمرانی کے نظام یعنی گورننس کے باہمی تعلق کا بیانیہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی دستاویز میں زور دیا گیا ہے کہ ہمیں قومی سلامتی اور سکیورٹی کو تحفظ دینے کے لیے گورننس کے نظام کی بہتری کے امکانات کو پیدا کرنا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر عام طبقات کو تحفظ دینا ہے تاکہ لوگ خود کو عملاً مضبوط سمجھ سکیں۔
دنیا بھر میں جو بھی حکمرانی کے تجربات ہورہے ہیں یا جن تجربات نے عملاً اچھے اور مثبت نتائج دیے ہیں ان میں ایک بڑا تجربہ ہمیں سیاسی سطح کے نظام میں Decenterlization and Devoluation کا عمل نظر آتا ہے ۔ اس عمل میں بنیادی کنجی کا بڑا انحصار ہمیں عملی سطح پر '' خود مختار مقامی حکومتوں '' کے نظام سے جڑا نظر آتا ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے جمہوری نظام میں مقامی حکومتوں کے نظام کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی اور اسی بنیاد پر ہمیں اپنے سیاسی نظام میں مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی یا عدم ترجیحات کا تسلسل نظر آتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا مقامی جمہوری حکمرانی کا نظام غیر مؤثر بھی ہے اور اپنی افادیت بھی کھوچکا ہے ۔ مجموعی طور پر ہم مرکزیت کے نظام میں موجود ہیں او رہمارا کمزور سا یقین عدم مرکزیت کے نظام پر ہے۔ اختیارات کو ایک ہی سطح تک محدود کرنے یا اسے دیگر طبقات یا دیگر اداروں تک نہ لے جانے کی پالیسی نے بھی ہمارے حکمرانی کے نظام پر سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں ۔ کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم مرکز اسلام آباد میں بیٹھ کر یا صوبائی ہیڈ کواٹر لاہور ، پشاور، کوئٹہ ، کراچی میں بیٹھ کر پورے ملک یا پورے صوبوں کے نظام کو شفافیت کی بنیاد پر چلاسکتے ہیں ۔اعلیٰ گورننس یا اعلیٰ حکمرانی کے جدید اصولوں یا دنیا میں ہونے والے اچھے تجربات سے ہم فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں اور اس میں بڑی رکاوٹ صوبائی حکومتیں ہیں جو سمجھتی ہے کہ مقامی حکمرانی یا سیاسی نظام میں مقامی حکومتوں کے نظام کو تیسری بااختیار حکومت کا درجہ دینے سے ان کی سیاسی طاقت مقامی سطح پر کم ہوگی ۔بنیادی طو رپر مقامی حکومتوں کا یہ نظام جہاں لوگوں کے مقامی اہم مسائل کا حل پیش کرے گا وہیں مقامی مسائل کی شفاف ترجیحات ، مقامی منصوبہ بندی سے جڑے فیصلوں یا مقامی سطح پر ہونے والے ترقیاتی عمل کی نگرانی و جوابدہی میں عام لوگوں کی شمولیت کو یقینی بنائے گا ۔اسی عمل سے مقامی سطح پر وسائل کی منصفانہ تقسیم کے فارمولے کو بھی اہمیت ملے گی او رلوگوں کا حکمرانی کے نظام پر اعتماد بڑھے گا۔یہی نظام اصولی طور پر وفاق اور صوبوں میں حکمرانی کے نظام کے سیاسی بوجھ کو بھی کم کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔
ہمیں اچھی حکمرانی کے اصول کو اختیا ر کرتے ہوئے وفاق، صوبوں او راضلاع کے درمیان ایک تواز ن پر مبنی پالیسی درکار ہے جہاں سب ہی فریقین کا دائرہ کار واضح ہو اور ایک دوسرے سے مختلف ہو ۔ اسی طرح سے بیوروکریسی او رارکان اسمبلی میں موجود بداعتمادی کے ماحول کو ختم کرنا اور ایک دوسرے پر ایک دوسرے کی بالادستی کے مقابلے میں آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہوگا۔عمومی طور پر وزیر اعظم ہوں یا وزیر اعلیٰ یا وفاقی و صوبائی وزرا سب ہی وہ کام کررہے ہیں جو مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑا نظر آتا ہے ۔ جب تک ہم اپنی ترجیحات میں مقامی حکومتوں کے نظام کو شامل نہیں کریں گے حکمرانی کا بحران موجود رہے گا۔ ہمیں آگے کی طرف بڑھنا ہے اور دیکھنا ہے کہ دنیا نے عملاً کیسے حکمرانی کے بحران سے مقابلہ کیا ہے او راسی کو بنیاد بنا کر ہمیں جدید حکمرانی کے نظام کو فوقیت دینا ہوگی ۔اس نظام کو فوقیت دیے بغیر ہم جو بھی پالیسیاں یا قانون سازی کرلیں ہمارے مسئلے کا حل نہیں ۔ ہمیں اپنے قومی مرض کی درست تشخیص کرنی ہے او راسی تشخیص کی بنیاد پر اپنی قومی سطح کی حکمرانی کے بحران سے نمٹنا بھی ہے ۔
یہ جو ہمیں قومی سطح پر انتشار، اتنہا پسندی ، دہشت گردی ،لاقانونیت ، ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنا او رلوگوں میں بڑی تیزی سے غصے اور نفرت کی سیاست کا سامنے آنا بنیادی طور پر ہمارے حکمرانی کے بحران سے جڑے معاملات ہیں ۔انتہا پسندی اور دہشت گردی یا ریاستی رٹ کو چیلنج اسی وقت کیا جاتا ہے جب لوگوں میں احساس محرومی کی سیاست غالب ہوتی ہے ۔ جب عام لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوںگے تو ان میں غصے اور نفرت کی سیاست یا ریاست سے بغاوت کا جذبہ پیدا ہونا فطری ہوتا ہے۔ جب لوگوں کے مقامی مسائل مقامی سطح پر حل ہورہے ہوںگے اور لوگوں کو سیاسی، سماجی ،قانونی او رمعاشی ترقی کے امکانات نظر آرہے ہوں گے او ر لوگ ان امکانات اور مواقعوں سے فائدہ اٹھارہے ہونگے تو وہ کیونکر انتہا پسندی یا پرتشدد رجحانات کے ساتھ خود کو جوڑیں گے ۔جب لوگوں کو اپنے ہی نظام میں انصاف اور ریلیف نہیں ملے گا تو اس کا خاص ردعمل ہمیں منفی بنیادوں پر ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔اعلیٰ گورننس میں سب سے مضبوط کنجی یا حکمت عملی ریاستی یا حکومتی سطح پر موجود ریگولیٹری اتھارٹیاں ہوتی ہیں۔ یہی اتھارٹیاں حکمرانی کے نظام کی شفاف نگرانی اور جوابدہی کو یقینی بناتی ہے او رانفرادی سطح پر کسی کو بھی کسی بھی سطح پر من مانی کی اجازت نہیں ہوتی ۔ جو لوگ بھی ریاستی یا حکومتی قوانین یا پالیسیوں یا اقدامات پر عملدرآمد سے گریز کریں گے تو ان کو ان ہی ریگولیٹ اتھارٹیوں کے سامنے جوابدہ ہونا ہوگا۔
جہاں جہاں حکمرانی کا نظام عام لوگوں کی سیاسی ، سماجی، انتظامی، قانونی او رمعاشی اور فیصلہ سازی میں ان کی مؤثر شمولیت کے ساتھ جڑا ہوگا یا عام لوگوں میں حکمرانی کے نظام کی ملکیت ہوگی وہی نظام اپنی سیاسی ساکھ بھی قائم کرتا ہے ۔ اچھی حکمرانی سے جڑا نظام ریاست ، حکومت، اداروں او رشہریوں کے درمیا ن موجود خلیج کو کم کرتا ہے او رلوگوں میں اس احسا س کو نمایاں کرتا ہے کہ ریاستی نظام ان کے ساتھ کھڑا ہے ۔
پاکستان کا قومی سکیورٹی کا بحران اگر سمجھنا ہے تو اس کا بھی ایک براہ راست تعلق گورننس کے نظام کی ناکامی یا عدم فعالیت سے جڑا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں انتہا پسندانہ اور شدت پسندی پر مبنی رجحانات میں اضافہ ہورہا ہے ۔اسی بنیاد پر قومی سطح پر سکیورٹی سے جڑے مسائل کو بھی ہم دیکھ رہے ہیں اور اس میں جو اضافہ ہورہا ہے وہ بھی سنگین مسئلہ ہے ۔اصولی طور پر اچھی حکمرانی یا گورننس کے نظام کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں سخت گیر اصلاحات کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ لیکن اول تو ہم اصلاحات کے قائل ہی نہیں اور اگر کسی کے دباؤ میں اصلاحات کرتے بھی ہیں تو ا ن کی حیثیت نمائشی ہوتی ہے ۔پولیس ، بیوروکریسی ، ایف بی آر، سیاسی ، انتظامی بنیادوں پر عدم اصلاحات کی پالیسی نے ہمارے قومی حکمرانی کے بحرا ن کو مشکل میں ڈال دیا ہے ۔جب ہمارا حکمرانی کے نظام میں نگرانی ، جوابدہی اور شفافیت سمیت احتسابی نظام نہیں ہوگا تو ہم اس مرض کا علاج بھی تلاش نہیں کرسکیںگے ۔ہم نے تو اپنے حکمرانی کے نظام سے عا م لوگوں کو مستحکم کرنا تھا مگر ہمارا نظام تو لوگوں کو کمزور کررہا ہے جو ہمیں سنجید گی سے غوروفکر کی دعوت دیتا ہے ۔مرکز سے لے کر صوبوں تک اور صوبو ں سے لے کر اضلاع تک ہمیں اپنے حکمرانی کے نظام میں موجود اضافی بوجھ سے جان چھڑانا ہوگی تاکہ معاملات کو زیادہ شفافیت کے ساتھ پرکھا اور دیکھا جاسکے ۔یہ جو ہمیں اپنے گورننس کے نظام میں پہلے سے موجود متبادل نظا م بنانے کا شوق ہے جن میں کمپنیوں او راتھارٹیوں کا قیام ہے وہ بھی مسائل کو حل کرنے کے بجائے اور زیادہ خرابی کو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے ۔
قومی سکیورٹی کا علا ج ہمیں اوپر کے اقدامات کے بجائے نچلی سطح پر اپنے اقدامات او رمربوط نظام حکومت کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا چاہیے کیونکہ جب تک مقامی سطح پر گورننس کے نظام کو شفاف نہیں بنایا جائے گا ہمارا اوپر کا نظام بھی اپنے مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے گا ۔ دہشت گردی ہو یا انتہاپسندی پر مبنی رجحانات ان سب کا علاج بھی مقامی نظام کے ساتھ جوڑ کر تلاش کیا جاسکتا ہے ۔لوگوں پر گورننس کا نظام زبردستی مسلط کرنے کے بجائے ان کو مشاورت کا حصہ بنایا جائے او رلوگو ں کی مؤثر شمولیت کی مدد سے حکومت پر لوگوں کی ملکیت کے احسا س کو بڑھانا ہوگا تاکہ ہم آگے کی طرف بڑھ سکیں ۔ ہمیں ایک مضبوط ، مربوط ، شفاف او رجدیدیت کی بنیاد پر اپنے حکمرانی کے نظام کی اصلاح بھی کرنی ہے اور سخت گیر اقدامات یا غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی مدد سے عملاً ایک نئے انتظامی ، سیاسی فریم ورک کی ضرورت ہے ۔تمام سیاسی ، انتظامی اور قانونی فریقین کو مل بیٹھ کر موجودہ حکمرانی کے بحران کا تجزیہ او راس کی مدد سے مستقبل میں ان سے نمٹنے کا علاج تلاش کرنا ہے ۔کیونکہ موجودہ گورننس کا نظام اپنی مدت پوری کرچکا ہے اور اس پر خود کو قائم رکھنے یا بضد رہنے کا مطلب ہم حکمرانی کے معاملات کی درستی میں آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں ۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ قومی سکیورٹی ، سلامتی اور ملک کی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں گورننس کے نظام میں Out of Box سوچ کر مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔ ||
مضمون نگار معروف تجزیہ نگار اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ایک معروف روزنامہ میں کالم بھی لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے