ستمبر 1965 کی جنگ میں پاک فضائیہ کے نمبر 14 سکواڈرن کے مشرقی محاذ پر بھارتی ائیر فیلڈ پر کئی حملے ، نمبر 19 سکواڈرن کے پٹھان کوٹ، جموں اور سری نگری ریڈار پرحملے نمبر 32 اور 33 فلائنگ ونگز کے امرتسر ریڈار پر حملے، ہمارے لاجواب عقابوں کے جارحانہ کائونٹر آپریشز کی کچھ اعلیٰ مثالیں ہیں۔ اس مضمون میں تمام آپریشنز کا مختصراً تذکرہ کرنا امرِ محال ہے، اِس لیے 19 سکواڈرن کے واہگہ مشن سے لوٹنے کے بعد پٹھان کوٹ پر غروبِ آفتاب کے قریب 8 سیبر طیاروں کے دوسرے حملے کو بیان کیاجائے گا۔ ہمارے شاہینوں کی پیشہ ورانہ قابلیت کا اقرار دشمن بھی کچھ اس عالی شان انداز سے کرتے نظر آتے ہیں۔
بھارتی فضائیہ کے ایک فائٹر پائلٹ ائیر مارشل ایس رگھاو یندران جو اس حملے کے عینی شاہد ہیں، کہتے ہیں عجب افراتفری کا عالم تھا، ہر جانب گولیاں چل رہی تھیں، ہر کوئی قریب ترین خندق کی جانب بھاگتا اور اس میں چھلانگ لگاتا، حواس باختہ نظر آتا تھا، ہم کسی ترتیب میں بیٹھے ہوئے یا جھکے ہوئے نہیں تھے، بلکہ ایک دوسرے کے اوپر لیٹے ہوئے تھے، ہم پاک فضائیہ کے سیبر طیاروں کو اپنے اوپر بار بار چکر لگاتے سن سکتے تھے، لگتا تھا جیسے وہ فائرنگ رینج پر پریکٹس کر رہے ہوں۔ طیارہ شکن توپوں کی گولہ باری کے باوجود انہوں نے ہمارے تمام طیاروں کو جن میں دو عدد مگ21 بھی تھے ، تباہ کر دیا، باقی سب تاریخ کا حصہ ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ چار سیبر طیاروں نے حملہ کیا ہے۔ لیکن وہ تو بار بار چکر لگا رہے تھے، اِس لیے کئی بار خندق سے سر باہر نکالنے پر بھی ہم انہیں ٹھیک طرح سے گِن نہ سکے تھے۔ نمبر31 سکواڈرن کے Mysteresکو پاک فضائیہ نے پٹھان کوٹ کے حملے میں تباہ کر دیا تھا۔ایکMysteres اسی وقت پرواز سے واپس لوٹا تھا اور اسے سکواڈرن لیڈر Tony Mousinhoاڑا رہے تھے، نمبر 28 سکواڈرن کے چھ PF اور چار F-13(Type-74) تھے۔ 28 سکواڈرن کے دو MIG 21 PF جن پر دو ستمبر کو ونگ کمانڈر ایم ایس ڈی وولن (MSD Wollen) اورسکواڈرن لیڈر مکھر جی نے پرواز کی تھی، اس حملے کے دوران زمین پر کھڑے کھڑے ہی تباہ کردیے گئے تھے۔
مشہور بھارتی مصنفین پشپندر سنگھ چوپڑا اور روی رائیکی کے تجزیے کے مطابق جسے انہوں نے اپنی تصنیف
FIZA'YA Psyche of the Pakistan Air Force میں رقم کیا ہے، 6 اور 7 ستمبر کو 14 سکواڈرن کی مشرق میں کلائی کنڈا، باغ ڈوگرا اور پشاور سے نمبر 19 سکواڈرن کی پٹھان کوٹ میں شاندار کامیابیوں کوبے حد سراہا ہے۔
6ستمبر کو 19 سکواڈرن کے ہوا باز لاہور کا دفاع کرتے ہوئے واہگہ مشن سے کامیاب لوٹے ہی تھے کہ تقریباً دن کے ساڑھے بارہ بجے کے قریب سگنل ملا کہ نمبر 19 سکواڈرن کے 8 سیبر طیارے 6 گنزکے 800 رائونڈز کے ساتھ پٹھان کوٹ ائیر فیلڈ پر کھڑے جہازوں کو تباہ کر کے آئیں، جہاں طیارہ شکن توپیں نصب ہیں، حملے کا وقت 5:05شام ہو گا، سکواڈرن کے لیے یہ ایک نیا ہدف تھا، جس کے بارے میں معلومات نہ تھیں، سیبر کے ایندھن کے لحاظ سے اِدھر ادھر گھومنے اور نیچے موجود محلِ وقوع کو سمجھنے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر تھی۔ ہم نے 25 ہزار فٹ کی بلندی پر جانے کی حکمتِ عملی اپنائی تاکہ دشمن کا ریڈار دریائے چناب کے قریب ہمیں دیکھ لے، اس کے بعد ہم ہدف کی جانب مڑتے ہوئے عموداً غوطہ کھا کر دشمن کی ریڈار سکرین سے غائب ہو گئے۔ بھارت کا امرتسر ریڈار سمجھا کہ ہماری منزل ہلواڑہ ہے۔ہم پسرور کی ہوائی پٹی کی جانب مڑتے ہوئے تیزی سے اپنے ہدف پٹھان کوٹ کی جانب جھپٹے۔ یہاں بھارتی فضائیہ کے ائیر مارشل رگھاو یندران کے مضمونThe Day, The PAF Got Awayکا حوالہ دینا قارئین کے لیے انتہائی دلچسپ ہو گاکہ اس وقت وہ پٹھان کوٹ میں نیٹ لڑاکا طیارے کے سکواڈرن کمانڈر تھے اور اپنے بیس کمانڈر گروپ کیپٹن سوری کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ تاریکی چھا جانے سے پہلے ائیر فیلڈ کی حفاظت کے لیے حفاظتی پرواز کمبیٹ ائیر پٹرولنگ (CAP)کی اجازت دی جائے لیکن یقینا اللہ سبحانہ تعالیٰ زیمبوز (Zamboos)سیبر طیاروں کی فارمیشن کا کال سائن،پر مہربان تھا اسی وجہ سے گھبراہٹ میں گرفتار کمانڈر نے فلائنگ کی کوشش کو آئندہ کے لیے بچا رکھنے کی خاطر سی اے پی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ جو ہماری فارمیشن کے لیے خوش قسمتی کا باعث بنا۔
مجھے، سجاد حیدر نوزی کو انتہائی محددود فضا میں آٹھ طیاروں پر ایک ہی وقت میں نظر رکھنی تھی۔ حملے کے آغاز میں صرف 90 سیکنڈ باقی تھے۔ ہمیں اپنے لہو کی حرارت میں اضافہ ہوتا محسوس ہو رہا تھا کہ اچانک مجھے دشمن کے دو لڑاکا طیارے تقریباً چار میل کے فاصلے پر 2O,clockپوزیشن پر بائیں جانب مڑتے دِکھائی دیے، میں نے ربِ ذوالجلال سے دعا کی کہ وہ ہمیں بغیر دیکھے گزر جائیں اور پھر ایسا ہی ہوا ، لیڈر نے پہلی بار ریڈیو کی خاموشی کو توڑااور کہا کہ حملے میں صرف ایک منٹ باقی ہے، 30 سیکنڈ بعد میں نے کہاکہ سرکٹ بریکر INدوبارہ چیک کر لو اور گنز تیار کر لو، حملے میں صرف 30 سیکنڈ باقی ہیں۔ لیڈر نے حملے کی ابتدا کرتے ہوئے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔ منصوبے کے عین مطابق میرے بائیں جانب 2 میل کے فاصلے پر پٹھان کوٹ کی ائیر فیلڈ نظر آرہی تھی۔ ہم بڑی مہارت سے اپنے ہدف پر پہنچے تھے ، سامنے حسین منظر تھا۔ دو عدد MIG 21 او ر کئی Mysteres اپنے حفاظتی احاطوں میں شمال کی جانب آگے پیچھے کھڑے ہوئے بول بول کر ہمیں حملہ آور ہونے کی دعوت دے رہے تھے۔ میں نے پر جوش ہو کر آواز بلند کی یہاں MIG 21اور کئی دوسرے طیارے ہیں ،ہم نے سب کو تباہ کر کے جانا ہے۔ عباس خٹک جو نمبر 4 کی پوزیشن میں تھے ،نے بعد میں مجھے بتایا کہ وہ یہ سمجھے کہ MIG 21 فضا میں موجود ہیں، لہٰذا وہ اتنی تیزی سے مڑے کہ انہیں واپس اپنی پوزیشن میں آنے کے لیے 360 ڈگری کا چکر کاٹنا پڑا۔ میں نے فلائٹ لیفٹیننٹ مواکبر کو جو دیگر چار لڑاکا طیاروں کی قیادت کر رہے تھے، دائیں جانب اوپر7000 فٹ کی بلندی پر جانے اور 90-270 کا چکر لگانے کو کہا تاکہ ہم ایک وقت میں دو حملے کر سکیں اور یہ فیصلہ منصوبے سے ہٹ کر وقت کی مناسبت سے تھا اور حالتِ جنگ میں لیڈر کو ایسے ہی فیصلے صورتِ حال کو مد نظر رکھتے ہوئے کرنے پڑتے ہیں۔ میں نے پہلے MIG-21 کو نشانہ بنایا اور پھر جیسے ہی میں اپنا دوسرا حملہ مکمل کر کے اوپر اٹھا میں نے حکم جاری کیا کہ میرا یہ آخری حملہ ہے اس لیے موا ابھی تمہاری ٹکڑی حملہ نہ کرے جب تک کہ میں اپنا دوسرا حملہ مکمل نہ کر لوں۔ موا اکبر نے میرے دوسرے حملے کو دیکھتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں ہنستے ہوئے کہا سر یہ ٹھیک نہیں ہمیں حملہ کرنے دیں میں نے بھی مسکراتے ہوئے اسے پورا پورا موقع فراہم کرنے کا وعدہ کیا لیکن ساتھ ہی اپنا تیسرا حملہ بھی کر دیا۔ پیشہ ور ہواباز سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے حملے بڑی برق رفتاری کے ساتھ مسلسل 3 سے 4 ، Gsپیٹرن میں تھے۔ ہم ایک حملہ تیزی سے کرتے اور پھر سرعت رفتاری سے 90 ڈگری کی قوس بناتے ہوئے اگلے حملے کے لیے واپس آجاتے، میرا نمبر 2، ارشد چوہدری میرے دائیں جانب ایک ہزار فٹ کے فاصلے پر موجود تھا، واقعی یوںمحسوس ہورہا تھا جیسے ہم سب اپنی ہی جمروز رینج پر مشق کر رہے ہوں۔بالآخر جب ہم نے حملے ختم کئے اور 50 فٹ کے فاصلے پر اے ٹی سی عمارت کی جانب بڑھے تو مجھے ٹرانسپورٹ طیارہ دکھائی دیا اور جب میں نے اسے نشانہ بنانے کا ارادہ کیا تو میرے ونگ مین ارشد نے کہا سر ٹرانسپورٹ جہاز کو مجھے نشانہ بنانے دیں، میں نے فورًا جواب دیا ٹھیک ہے تم ٹارگٹ لے لو لیکن نشانہ خطا نہیں جانا چاہیے۔ ورنہ پھر مجھے ہی نشانہ لینا پڑے گا۔ اس کی گولیاں دائیں جانب میرے قریب سے گزریں اور اس نے C-119 کو بالکل ٹھیک نشانہ بنایا۔ میں نے شاباش دیتے ہوئے کہا بہترین شاٹ، ویل ڈن بوائے اب ہمیں واپس جانا ہے، جب ہم پٹھان کوٹ تباہ شدہ ائیر فیلڈ شعلوں کی لپیٹ میں چھوڑ کر پلٹ رہے تھے تو مجھے نمبر 6 IN کہتے ہوئے سنائی دیا۔ ایسکورٹ لیڈر، ونگ کمانڈر ایم جی ثواب پرجوش آواز میں بولاکہ زیمبو لیڈر شان دار نشانے بازی تھی، میں 14 جلتے ہوئے جہاز جہنم جیسی آگ میںبھڑکتیہوئے گن سکتا ہوں۔ میں نے 8 نمبر غنی اکبر کو دوسرا حملہ مکمل کرنے کے بعد ایندھن چیک کرنے کا کہا ،غنی اکبر نے دوسرا حملہ بغیر اجازت کے کیا۔ لیکن یہ جنگ تھی اور مجھے خداکی بے پناہ مہربانیوں کا احساس ہو رہا تھا کہ انتہائی تنگ سرکٹ میں موجود آٹھ جہازوں کو طیارہ شکن توپوں کے گولوں کی بوچھار سے ذرہ برابر بھی نقصان نہ پہنچا جبکہ صرف دو جہازوں پر ان گولوں کی وجہ سے ہلکی سی خراشیں آئیں تھیں۔
پشاور واپسی پر لوگوں نے اپنے ہوابازوں کا بڑی گرم جوشی سے والہانہ استقبال کیا۔ ائیر مین تمام پائلٹوں کی خیریت سے واپسی پر شکرانے کے نوافل ادا کر رہے تھے، لیڈ ر کے خیال کے مطابق خالد لطیف نے MIG-21کو نشانہ بنایا تھا باقی سب کے حصے میں Mystere ہی آئے تھے۔ موا اکبر، غنی اکبر ارشد، دلاور اور عباس خٹک نے اچھے نشانے لگائے تھے ۔ فارمیشن میں سے آٹھ ہوابازوں میں سے سات کی شوٹنگ اعلی پائے کی تھی صرف ایک کی کارکردگی بہترنہ تھی جو کہ مجموعی طور پر بہت قابل ستائش کارکردگی ہے۔
بھارتی مصنفین جگن موہن اور سمیرا چوپڑا نے 1965 جنگ کی تفصیلات اپنی کتاب India Pakistan Air War, 1965میں بیان کیں ہیں۔ یہ ایک تحقیق شدہ اعدادو شمار پر مشتمل تصنیف ہے جس میں دونوں طرف سے جانوں کا نقصان اور زمین پر کھڑے جہازوں کے تباہ ہونے سے متعلق اعدادو شمار بے حد قابل اعتماد ذرائع سے اکھٹے کیے گئے ہیں۔ قلم نگاروں نے پٹھان کوٹ کی تفصیلات تقریباً سات صفحوں پر بڑی وضاحت سے بیان کی ہیں کہ کس طرح زیمبور نے وہاں کھڑے ہوئے تما م جہازوں کو کس مہارت سے تباہ کر دیا دونوں مصنفین لکھتے ہیں کہ پٹھان کوٹ کے بیس کمانڈر گروپ کیپٹن سوری کو ویسٹرن ائیر کمانڈ کی میٹنگ کے دوران بتایا گیا تھا کہ بھارتی فوج بین الاقوامی سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہو گئی ہے اوراِس میں کوئی شک نہیں کہ بہت جلد بھارتی فضائیہ کا پاکستان کے خلاف بڑے پیمانے پر حملوں کا منصوبہ تھا۔ ونگ کمانڈر جو پٹھان کوٹ بیس کے او سی فلائنگ تھے، کو حملے کی اطلاع اس وقت ملی جب وہ اپنے گیراج کی جانب جارہا تھا۔ اس نے طیارہ شکن توپوں کی آوازیں سنیں اور ساتھ ہی آٹھ سیبر طیاروں کو حملہ کرتے دیکھا جس میں سے چار بے حد کم بلندی سے غوطہ لگا رہے تھے اور اپنی مشین گنوں سے فائرنگ کر رہے تھے جبکہ چار زیادہ بلند ی پر موجود تھے۔ طیارہ شکن توپیں مسلسل گولے اگل رہی تھیں جبکہ سیبر طیاروں کی گنوں نے بھی کان پھاڑ دینے والا شور برپاکر رکھا تھا۔ جہاز ہر سمت میں ٹیکسی کر رہے تھے اور کسی وقفے کے بغیر پاک فضائیہ کے ہوا باز حملہ پر حملہ کیے جارہے تھے۔ بقول بھارتی مصنفین، جب سیبر طیارے واپس پلٹے تو دھوئیں کے دس مینار بلند ہو گئے۔ وہ حملے بے حد کامیاب رہے جس کے نتیجے میں بھارتی فضائیہ کے 10 طیارے نمبر 3 سکوار ڈرن کے چھ Mysters نمبر 31 سکواڈرن کے دوMysters، ایک نیٹ طیارہ، ایک فیئر چائلڈ پیکٹ اور دو MIG-21 تباہ ہو گئے۔ تین دوسرے جہازوں کو نقصان پہنچااور وہ فلائنگ کے لیے ناکارہ ہو گئے۔ ||
تبصرے