پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور یہ زرعی اجناس کی پیداواری صلاحیت کے حوالے سے ماضی میں بہت خودکفیل رہا ہے تاہم گزشتہ بیس پچیس سال سے متعلقہ حکومتی اداروں کی عدم توجہ کے باعث اس کی زرعی پیداواری صلاحیت میں غیرمعمولی کمی واقع ہوئی اور اس وقت حالت یہ ہے کہ پاکستان کو بعض دیگر ممالک کی طرح نہ صرف یہ کہ زرعی اجناس کی پیداوار کی مسلسل کمی کا سامنا ہے بلکہ یہ گندم سے لیکر سبزیوں تک عام استعمال کی تقریباً 54 فی صد اشیا دوسرے ممالک سے مہنگوں داموں خریدنے پر مجبور ہے.
ان مسائل اور مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک مربوط اور قابل عمل پلان کے قیام پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش شروع کی جس کے لیے متعلقہ اداروں کو سفارشات اور تجاویز کا ٹاسک دیا گیا جنہوں نے سنجیدگی کے ساتھ تمام امور کا جائزہ لے کر اپنا ہوم ورک مکمل کیا اور اس کے نتیجے میں''گرین پاکستان پراجیکٹ یا اینیشیٹیو،،کا آغاز کیا گیا جس کو ایک مؤثر زرعی انقلاب کا نقطہ آغاز کہا گیا۔
ماہرین کے مطابق 50 کی دہائی سے لے کر 90 کی دہائی تک پاکستان اپنے بہترین نہری نظام، پانی کی فراوانی اور زراعت سے وابستہ شعبوں کی دلچسپی کے باعث نہ صرف عام استعمال کے زرعی اجناس کی پیداوار میں خودکفیل تھا بلکہ پاکستان متعدد دیگر ممالک کو بہت سی اشیاء بھیجا بھی کرتا تھا. جن ممالک کو یہ اشیاء تسلسل کے ساتھ بھیجا کرتا تھا ان میں افغانستان، ایران، عمان، یو اے ای، سعودی عرب اور متعدد دیگرممالک شامل تھے۔
90 کی دہائی کے بعد پاکستان کی حکومتوں نے بوجوہ اس جانب توجہ نہیں دی جس کے باعث زرعی زمین سکڑتی گئی، کھاد اور دیگر سہولیات مہنگی ہوتی رہیں، نہری نظام زوال پذیر ہوا اور زیر کاشت زمینیں غیر قانونی طور پر ہاوسنگ سوسایٹیز میں تبدیل ہوتی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بڑھتی آبادی کی عام ضروریات کو بھی پورا کرنا ممکن نہیں رہا اور بے پناہ پیداواری صلاحیت کا حامل یہ ملک متعدد مسائل سے دوچار ہونے لگا۔
ان مسائل اور مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک مربوط اور قابل عمل پلان کے قیام پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش شروع کی جس کے لیے متعلقہ اداروں کو سفارشات اور تجاویز کا ٹاسک دیا گیا جنہوں نے سنجیدگی کے ساتھ تمام امور کا جائزہ لے کر اپنا ہوم ورک مکمل کیا اور اس کے نتیجے میں''گرین پاکستان پراجیکٹ یا اینیشیٹیو،،کا آغاز کیا گیا جس کو ایک مؤثر زرعی انقلاب کا نقطہ آغاز کہا گیا۔
اس ضمن میں 10 جولائی 2023 کو اسلام آباد میں ایک نمائندہ تقریب یا کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر کے ماہرین کو مدعو کیا گیا۔اس کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف اور افواج پاکستان کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے بطور خاص شرکت کی. دونوں اہم شخصیات نے پاکستان کو درپیش مسائل اور سکیورٹی چیلنجز پر کھل کر تبادلہ خیال کیا اور گرین پاکستان پراجیکٹ کی ضرورت اور اہمیت کے علاوہ فوڈ سکیورٹی سے متعلق ریاستی اقدامات سے شرکا کو اعتماد میں لیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان کو ایک خوشحال ملک بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی. دونوں شخصیات نے شرکا اور میڈیا کے ذریعے پوری قوم کو وہ تفصیلات فراہم کیں جو کہ گرین پاکستان پراجیکٹ میں شامل ہیں۔
جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق پاکستان کے نہری نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا اور بنجر زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے آبپاشی کے زیر تعمیر منصوبے نہ صرف ترجیحی بنیادوں پر مکمل کئے جائیں گے بلکہ درجنوں نئے منصوبے بھی ہنگامی بنیادوں پر شروع کئے جائیں گے۔یہ بھی بتایا گیا کہ زیر کاشت زمینوں کا قانون کے مطابق تحفظ کیا جائے گا اور ان کو مزید وسعت دی جائے گی۔یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ جنگلات کے تحفظ اور صاف پانی کی فراہمی پر بھی توجہ دی جائے گی اور ساتھ میں ان سہولیات میں اضافہ کیا جائے گا جن کے ذریعے زرعی شعبے کو مستقل بنیادوں پر فروغ حاصل ہوسکتا ہو۔
ان تمام اقدامات کی تکمیل کو یقینی بنانے کیلئے افواج پاکستان کو اہم کردار دیا گیا ہے اور پاک فوج اپنی روایتی ڈسپلن اور چابکدستی کے ذریعے متعلقہ سول اداروں کی معاونت کرے گی۔یہی وجہ ہے کہ عوام نے اس پراجیکٹ کا خیر مقدم کیا اور ماہرین نے اس فیصلے کو ایک بروقت اقدام قرار دیتے ہوئے اس سے بہت توقعات وابستہ کیں۔میڈیا کے علاوہ بعض دوست ممالک نے بھی نہ صرف یہ کہ اس فیصلے کو سراہا بلکہ بعض ممالک نے اس میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔
زرعی پیداوار میں اضافہ کے لئے جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی بھی اس پراجیکٹ میں شامل ہے جبکہ کسانوں اور زمینداروں کو تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ درکار سہولیات کی فراہمی بھی اس پراجیکٹ کا حصہ ہے۔
ان تمام اقدامات کی تکمیل کو یقینی بنانے کیلئے افواج پاکستان کو اہم کردار دیا گیا ہے اور پاک فوج اپنی روایتی ڈسپلن اور چابکدستی کے ذریعے متعلقہ سول اداروں کی معاونت کرے گی۔یہی وجہ ہے کہ عوام نے اس پراجیکٹ کا خیر مقدم کیا اور ماہرین نے اس فیصلے کو ایک بروقت اقدام قرار دیتے ہوئے اس سے بہت توقعات وابستہ کیں۔میڈیا کے علاوہ بعض دوست ممالک نے بھی نہ صرف یہ کہ اس فیصلے کو سراہا بلکہ بعض ممالک نے اس میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔
سینئر دفاعی تجزیہ نگار سینٹرلیفٹیننٹ جنرل (ر)عبدالقیوم کے مطابق یہ انتہائی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے اور اس کے بہترین نتائج اور اثرات مرتب ہوں گے۔
''پاکستان لمبے عرصے تک زرعی شعبے میں خودکفیل رہا ہے اور ہم ماضی میں اپنی ضرورت سے زیادہ اجناس پیدا کرکے دوسرے ممالک بھیجا کرتے تھے۔ناقص کارکردگی اور لاتعلقی پر مبنی رویہ کے باعث اب ہماری حالت یہ ہے کہ اب ہم اربوں ڈالرز کی اشیا امریکہ اور دوسرے ممالک سے منگوارہے ہیں اور ان میں گندم بھی شامل ہے حالانکہ ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ خیبر پختون خواکے جنوبی اضلاع اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں اتنی زمین پانی کی عدم فراہمی کے باعث ناقابل کاشت پڑی ہوئی ہے کہ اگر ان اضلاع کو پانی فراہم کیا جائے تو یہ نہ صرف پورے ملک کی گندم کی ضرورت پوری کرسکیں گے بلکہ ہم دوسروں کو بھی بھیجنے کے قابل بن جائیں گے۔''
ان کے مطابق پاک فوج کے متعین کردہ کردار اور آرمی چیف کی غیر معمولی دلچسپی کے بہت مثبت نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ متعلقہ فوجی ادارے اس قسم کے پراجیکٹس کی شروعات اور کامیابی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور اس تجربے سے اس پراجیکٹ کی یقینی کامیابی کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔
ماہرین کے مطابق اس پراجیکٹ کی مختلف شاخیں ہیں اس لیے بجا طور پر امید کی جاسکتی ہے کہ یہ پاکستان کو ایک سرسبز ملک بنانے کا تجربہ کامیاب ثابت ہوگا۔اس سے نہ صرف یہ کہ پاکستان کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور ہمیں ہر برس اربوں ڈالرز کی بچت ہوگی بلکہ پاکستان کو درپیش موسمی خطرات اور دیگر چیلنجز سے نمٹنے میں بھی آسانی رہے گی۔ ||
تبصرے