اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 16:14
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد
Advertisements

ہلال اردو

14اگست 1947 سے14اگست 2023 تک

اگست 2023

14اگست 2023۔
ہم سب کو انتظار ہے۔ 77واں یوم آزادی۔ قیام پاکستان کی 76ویں سالگرہ۔
آج سے 76سال پہلے۔ 14اگست 1947۔
بر صغیر کے ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کو بے تابی سے اس عظیم دن کا انتظار ہے۔ ایک بے تابی ہے۔ بے قراری ہے۔ اشتیاق ہے۔ عشق کا ایک مرحلہ پورا ہونے والا ہے۔ لیکن خدشات بھی ہیں۔ اس دن کے آنے سے پہلے ہی بلوے فسادات شروع ہوگئے ہیں۔ ساتھ ساتھ رہتے انسان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔ آگ لگ رہی ہے ۔ خون بہہ رہا ہے۔
14اگست 1947



30 مسلّح ٹرکوں کی مشرقی پنجاب روانگی۔ مسلم لیگ کا امدادی کام
پنجاب مسلم لیگ۔ ریلیف کمیٹی لاہور نے 30 ٹرک مسلح محافظوں کے ساتھ امرتسر روانہ کیے ہیں۔ جہاں سے اور مشرقی پنجاب کے آس پاس کے علاقوں سے مہاجرین کا انخلا کیا جائے گا۔
انتظامات کیے گئے ہیں کہ لاہور کے ریلیف کیمپوں میں انہیں ٹھہرایا جائے گا۔ جہاں 20سے 25ہزار کے قیام کی گنجائش ہے۔
ڈپٹی کمشنر لاہور ظفر الاحسن بھی امرتسر روانہ ہوچکے ہیں۔ جو مشرقی پنجاب کی حکومت سے رابطہ آفیسر کی حیثیت سے مہاجرین کے مسئلے پر گفت و شنید کریں گے۔
مزید برآں مظفر احمد آئی سی ایس امرتسر میں ریلیف اور ریفیوجی افسر کی حیثیت سے تعینات کیے گئے ہیں۔
(پاکستان کی جانب سفر 1947کے مہاجرین پر ایک دستاویز۔ نیشنل ڈاکومینٹیشن سینٹر، اسلام آباد)
14اگست 1947۔
مشرقی پنجاب میں مہاجرین کی صورت حال۔ مسلم لیگ کا امدادی کام
مغربی پنجاب میں مہاجرین کا مسئلہ مختلف سمتوں میں شدت اختیار کررہا ہے۔ جہاں امرتسر، جالندھر، ہوشیارپور اور لدھیانہ کے فساد زدہ اضلاع سے روزانہ ہزاروں بے گھر اور خوف زدہ مہاجرین داخل ہورہے ہیں۔ پنجاب مسلم لیگ ریلیف کمیٹی لاہور کی سیکرٹری بیگم تصدق حسین ایم ایل اے مشرقی پنجاب سے آنے والے خانماں برباد افراد کی پناہ اور خوراک کے لیے دن رات مصروف ہیں۔ چند روز میں ان کی تعداد سات ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
مہاجرین کو مسلم لیگ کے سرکاری مراکز میں تقسیم کیا جارہا ہے جو شہر اور مضافات کے مختلف مقامات پر قائم کیے گئے ہیں۔ سیکڑوں مسلمانوں نے خود کو دس سے بیس افراد کی خدمت کے لیے رضاکارانہ طور پر پیش کیا ہے۔ سرکاری نگرانی میں قائم مہاجر کیمپ کے اپنے کچن اور ایک چھوٹی ڈسپنسری ہے اور ہر کیمپ میں ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی مہیا کی گئی ہے۔
والٹن ٹریننگ اسکول میں مشرقی پنجاب سے آنے والے مہاجرین کی بڑی تعداد کے لیے انتظامات کیے جارہے ہیں۔ مسلم لیگ کے اس اسکول کو تحویل میں لینے کے بعد اور ملحقہ عمارتوں میں 20ہزار افرادکے قیام کی گنجائش ہوگی۔ 1500 مہاجرین اس کیمپ میں پہلے سے ہی پہنچ چکے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز خان بہادر شیخ فضل الٰہی کو پنجاب لیگ کے رہنمائوں نے اس کیمپ کا انچارج مقررکیا ہے۔ باغبانپورہ اور سلطان پورہ مہاجر مراکز میں ایک ایک ہزار افراد کے قیام و طعام کا انتظام کیا گیا ہے۔
مسلم لیگ ریلیف کمیٹی کے تحت خیراتی فنڈز کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ان فنڈز  میں سے  مہاجرین کو خوراک فراہم کی جارہی ہے۔ ساتھ ساتھ حکومت پنجاب سے ان کیمپوں کی ذمہ داری لینے کے لیے مذاکرات ہورہے ہیں۔ اس سے پہلے مغربی پنجاب سے مارچ کے فسادات کے بعد ہزاروں غیر مسلم مہاجرین کو ناشتہ اور دو وقت کے کھانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ 
اب روزہ رکھنے والے مہاجرین کے لیے سحری اور افطار کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ لاہور میں پناہ گزیں مہاجروں کے لیے ماڈل ٹرانسپورٹ بس اسٹیشن کے قریب ایمپریس روڈ پر ایک خصوصی کلاتھ ڈپو قائم کیا گیا ہے جہاں سے مہاجرین کپڑے کا اپنا کوٹہ حاصل کرسکتے ہیں۔
جلد ہی مہاجر خواتین کے لیے ایک الگ کیمپ بھی قائم کیا جارہا ہے۔ جس کی نگرانی خاتون لیگ کی رضاکار کریں گی۔
( پاکستان کی جانب سفر۔ 1947کے مہاجرین پر ایک دستاویز۔ نیشنل ڈاکومینٹیشن سینٹر، اسلام آباد)
 میں خود بھی ان قافلوں میں شامل ہوں۔دھندلی دھندلی یادیں ہیں۔ لاہور کے کسی کیمپ میں اپنے ابو، امی اور بڑے بھائی کے ساتھ میں بھی اس میزبانی سے مستفید ہورہاہوں۔
یوم آزادی پر قائد اعظم کا خطاب
اسی روز قائم ہونے والے ریڈیو پاکستان سے قائد اعظم محمد علی جناح کی آواز گونج رہی ہے۔
''اس عظیم لمحے میں مجھے وہ بہادر یاد آتے ہیں جنہوں نے ہمارے مقصد کی خاطر داد شجاعت دی پاکستان ان کا ممنون رہے گا۔ نئی مملکت کی تخلیق کی وجہ سے پاکستان کے شہریوں پر زبردست ذمہ داری آن پڑی ہے۔ انہیں یہ موقع ملا ہے کہ وہ دنیا کو یہ دکھاسکیں کہ ایک قوم جو بہت سے عناصر پر مشتمل ہے کس طرح امن و آشتی کے ساتھ رہ سکتی ہے اور ذات پات اور عقیدے کی تمیز کے بغیر سارے شہریوں کی بہتری کے کام کرسکتی ہے۔
امن اندرون ملک اور امن بیرون ملک ہمارا مقصد ہونا چاہیے۔ ہم پُر امن رہنا چاہتے ہیں اور اپنے نزدیکی ہمسائیوں اور ساری دنیا سے مخلصانہ اور دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے۔ ہم اقوام متحدہ کے منشور کے حامی ہیں اور امن عالم اور اس کی خوشحالی کے لیے اپنا پورا کردار ادا کریں گے۔
مسلمانانِ ہند نے دنیا پر ثابت کردیا کہ وہ ایک متحد قوم ہیں۔ ان کا مقصد انصاف پر مبنی اور درست ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ آئیے، آج، ہم عاجزی سے خدائے بزرگ و برتر کا اس کی نوازشات کے لیے شکریہ ادا کریں اور دعا کریں کہ وہ ہمیں خود کو اس کا اہل ثابت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آج کا دن ہماری قومی تاریخ میں ایک سخت مرحلہ کی تکمیل کی علامت ہے اور یہ ایک نئے اور مقدس عہد کا آغاز بھی ہونا چاہیے۔ آئیے ہم اپنے قول، عمل اور افکار کے ذریعے یہ بات اقلیتوں کو ذہن نشین کرادیں کہ جب تک وہ پاکستان کے وفادار شہریوں کی حیثیت سے اپنے فرائض اور ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے انہیں کسی چیز سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
اپنی سرحدوں پر آباد حریت پسند قبائل اور اپنی سرحدوں سے پار مملکتوں کو ہم پیغام تہنیت بھیجتے ہیں اور یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان ان کے رتبے کا احترام کرے گا اور امن برقرار رکھنے کی ضمن میں ان کی طرف دوستانہ تعاون کا ہاتھ بڑھائے گا۔ ہماری اس سے زیادہ کوئی خواہش نہیں کہ خود بھی آبرومندانہ طریقے سے زندہ رہیں اور دوسروں کو بھی عزت مندانہ طور پر زندہ رہنے دیں۔
آج جمعة الوداع ہے، ہم سب کے لیے اور اس وسیع و عریض بر عظیم اور دنیا کے ہر گوشے میں جہاں کہیں بھی مسلمان ہوں رمضان المبارک کا آخری جمعہ، مسرت و انبساط کا دن ہے، تمام مساجد میں ہزاروں کے اجتماعات رب جلیل کے حضور بڑے عجز و انکسار سے سجدہ ریز ہوجائیں اور اس کی نوازشِ پیہم اور فیاضی کا شکریہ ادا کریں اور پاکستان کو ایک عظیم ملک اور خود کو اس کے شایان شان شہری بنانے کے کام میں اس قادر مطلق کی ہدایت اور اعانت طلب کریں۔
اے میرے ہم وطنو! آخر میں، میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان بیش بہا وسائل کی سر زمین ہے۔ لیکن اس کو ایک مسلم قوم کے شایان شان ملک بنانے کے لیے ہمیں اپنی تمام تر توانائیوں کی ضرورت ہوگی۔ مجھے پورا اعتماد ہے کہ یہ سب کی طرف سے اور فراوانی کے ساتھ ملیں گی… پاکستان زندہ باد۔''
پاکستان کے قیام کا پہلا سال مشرقی پاکستان ، مغربی پاکستان کے مسلمانوں، غیر مسلموں کے تحمل، برداشت اور اہلیت کے مظاہر پیش کرتا ہے۔ سب سے بڑا اور غالب مسئلہ مہاجرین کی میزبانی ہے۔ پاکستان کے مختلف مقامات پر ان کی مستقل رہائش کا بندوبست۔ مغربی پاکستان میں مہاجرین کی زیادہ بڑی تعداد مشرقی پنجاب سے آرہی تھی۔ پیدل بھی، بسوں کے ذریعے، فوجی ٹرکوں پر اور ٹرینوں پر۔ بہت سے لوگ راستے میں شہید کیے گئے۔ کچھ اندھیرے سے روشنی تک۔ غلامی سے آزادی تک پہنچ سکے۔ ایک بڑی تعداد منزل کے عین قریب دم توڑ گئی۔ نسیم حجازی نے ناول لکھے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہانیاں۔ سعادت حسن منٹو کے افسانے۔ دنیا نے ایثار بھی دیکھا۔ خوفناک سفاکی بھی۔ بھارت مستقل للکار رہا تھا کہ پاکستان تادیر قائم نہیں رہ سکے گا۔ اقتصادی طو رپر یہ مستحکم نہیں ہوسکے گا۔ دنیا کے آزاد ممالک پاکستان کی نئی مملکت کو تسلیم کررہے تھے۔ امریکہ اور دوسرے ممالک کے سفیر اپنی اسناد سفارت پاکستان کے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کو پیش کررہے تھے۔ یہ ایک سال مشرقی پاکستان، پنجاب، سندھ، سرحد اور، بلوچستان کے پاکستانیوں کی بے مثال صلاحیتوں، سرکاری افسروں کی خدمت عوام کے جذبے اور پاکستان کی مسلح افواج کی مہاجرین کی میزبانی کے ساتھ ساتھ سرحدوں کے دفاع کی عظیم نظیریں پیش کرتا ہے۔ کاش کوئی تحقیقی ادارہ، کوئی یونیورسٹی،14اگست 1947 سے 13اگست 1948کے ہنگامہ خیز سال پر الگ سے ایک کتاب مرتب کرے۔ اُردو میں انگریزی میں، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، براہوئی، کشمیری اور بلتی میں۔ اس ایک سال میں سب کی ایک سمت ہے۔ یہ ہماری بنیاد ہے جس پر پاکستان کی عمارت کی تا قیامت ایک مضبوط عمارت کھڑی کی جارہی ہے۔ کیا جذبات تھے کیا عزائم تھے۔ بزرگوں، نوجوانوں، بچوں، خواتین کی انتظامی صلاحیتیں سامنے آرہی تھیں۔مختلف تہذیبیں آپس میں مل رہی تھیں۔ ثقافتوں کے رنگوں کی قوس قزح دنیا دیکھ رہی تھی۔
میں پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر بانیٔ پاکستان کے قوم کے نام پیغام کا پورا متن یہاں دہرانا چاہوں گا۔ ایک عظیم لیڈر کے ایک عظیم مملکت کے قیام کے پہلے سال پر جذبات اس روح کو اس خوشبو کو الفاظ میں سمیٹ رہے ہیں۔
'' آج ہم اپنی آزادی کی پہلی سالگرہ منارہے ہیں۔ ایک سال قبل مکمل اقتدار پاکستان کے عوام کو منتقل کیا گیا اور حکومت پاکستان نے تصرف شدہ موجودہ آئین کے تحت کاروبار مملکت سنبھال لیے۔ یہ سال ہم نے حوصلے ، عزم اور ذہانت کے ساتھ گزارا ہے۔ دشمنوں کے حملوں کو پسپا کرنے کے ضمن میں جن کا پہلے بھی کتنی بار تذکرہ کیا جا چکا ہے، بالخصوص نسل کشی کی پہلے سے سوچی سمجھی سازش کچلنے کے سلسلے میں ہماری کامیابیوں کا ریکارڈ حیرت انگیز رہا اور ہم حقیقی تعمیری کام میں مصروف رہے۔ ہمارے تعمیری اور فلاحی کام کا نتیجہ ہمارے بہترین دوستوں کی تو قعات سے بہت بڑھ کر ظاہر ہوا۔ میں آپ سب کو مبارک باد دیتا ہوں یعنی وزیر اعظم کی زیر قیادت ، اپنے وزراء کو اراکین مجلس دستور ساز و مجالس قانون ساز کے مختلف انتظامی محکموں میں کام کرنے والے اہلکاروں اور دفاعی افواج کو۔ آپ نے اس قلیل سی مدت میں جو کچھ بھی حاصل کیا اس پر میں اہلِ پاکستان کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ ہم نے پہلے سال کے پروگرام کو رو بہ عمل لانے کے لیے جو بھی کوشش کی ہمیں ان کی طرف سے تحمل اور تائید حقیقی حاصل ہوئی۔
لیکن یہ سب کچھ کافی نہیں۔ یادرکھیے کہ قیام پاکستان ایک حقیقت ہے جس کی تاریخ عالم میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ تاریخ عالم کی عظیم ترین مسلم مملکتوں میں اس کا شمار ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کو اپنا شاندار کردار ادا کرنا ہے صرف شرط یہ ہے کہ ہم دیانتداری ، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرتے رہیں۔ 
مجھے اپنی قوم پر اعتماد ہے کہ وہ ہر موقع پر خود کو اپنے ماضی کی اسلامی تاریخ عظمت اور روایات کی امین ثابت کرے گی۔
آپ سب کو ان لاکھوں مہاجرین کی داستان کا بخوبی علم ہے کہ جنہیں سرحد کے اس پار سے اپنا گھر بار چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور پاکستان میں پناہ لینی پڑی۔ ابھی ہماری مملکت سنبھلنے بھی نہ پائی تھی کہ یہ المیہ رونما ہو گیا۔ در حقیقت ان میں ایک بہت بڑی تعدادان سرکاری اہلکاروں کی شامل تھی جنہیں حکومت کا ڈھانچہ قائم کرنا تھا۔ مجھے علم ہے کہ ہمارے لیے اپنے ان بے خانماں اور ستم رسیدہ بھائیوں کے لیے وہ سب کچھ کرنا ممکن نہ ہو سکا جس کی ہمیں خواہش تھی۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن درحقیقت بہت سے مہاجرین کو پہلے ہی نئی اور مسرور تر زندگی کی نوید کے ساتھ ان کے نئے گھروں میں آباد کر دیا گیا اور یہ کچھ اہم کامیابی نہیں۔ اہلِ پاکستان نے جس جذبہ اخوت کا اظہار کیا اور عامتہ الناس اور حکومتوں نے جس پامردی کے ساتھ ان زبر دست دشواریوں کا سامنا کیا جو اس سانحہ کی پیدا کردہ تھیں اور جنگی تاریخ عالم میں کوئی مثال نہیں ملتی ان کے بغیر مملکت کا تمام ڈھانچہ تہ و بالا ہو جا تا۔ نئی مملکت کا عین اس کے قیام کے وقت دیگر کئی طریقوں سے گلا گھونٹنے کی کوششوں سے مایوس ہو جانے کے بعد ہمارے دشمن یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ معاشی حربوں سے اپنا دلی مقصد حاصل کر لیں گے۔ تعصب اور بدنیتی کی بنیاد پر گھڑے گئے طویل دلائل سے لیس ہو کر وہ یہ پیش گوئی کر بیٹھے تھے کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا اور جو کچھ دشمن آتش و آہن سے نہ چھین سکا وہ مملکت کی تباہ حال معیشت سے اسے حاصل ہو جائے گا۔ لیکن بدی کے یہ دیوتا رسوا ہوکر رہ گئے ہیں۔
ہمارا پہلا میزانیہ فاضل تھا۔ تجارت میں ادائیگیوں کا توازن ہمارے موافق رہا اور معیشت کے شعبے میں بتدریج ہمہ جہت ترقی ظاہر ہوئی۔
کسی ملک کی تاریخ میں اس کی ترقی کا حتمی اندازہ لگانے اور اس کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرنے کے لیے ایک برس، ایک قلیل سی مدت ہے۔ لیکن جس طرح بے پناہ مشکلات پر قابو پایا گیا ہے اور گزشتہ بارہ مہینوں میں ٹھوس ترقی دیکھنے میں آئی یہ ایک مثبت سوچ رکھنے کے لیے پختہ اساس مہیا کرتی ہے۔ انتظامیہ کے شعبے میں ہمیں مرکز میں بالکل نئے سرے سے کام کرنا پڑا اور مغربی پنجاب میں اپنی مملکت کے قیام کے ساتھ ہی ہمیں انتظامی مشینری کی تقریباً مکمل بربادی کا سامنا کرنا پڑا لیکن مجھے یہ کہتے ہوئے مسرت ہوتی ہے کہ ہم اپنی پوری سا لمیت پر لاحق تمام تر خطرات اور وقت کے بعض بڑے مسئلوں سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے۔ حکومت پاکستان نے وقتاً فوقتاً پیش آنے والے عالمی مسائل کو موثر طریقے سے نمٹنے کے معاملے میں نہ صرف اپنے عزم کا اظہار کیا بلکہ اپنی اہلیت کا بھی۔
قدرت نے آپ کو ہر چیز عطا کی ہے۔ آپ کے پاس غیر محدود وسائل موجود ہیں۔ آپ کی مملکت کی بنیاد رکھی جاچکی ہے۔ اب اس کی تعمیر آپ کا کام ہے۔ پس تعمیر کیجیے جس قدر جلد اور جتنی عمدگی سے آپ کرسکیں، آگے بڑھنے میں  آپ کی کامیابی کے لیے دعا کرتا ہوں۔پاکستان زندہ باد''
دیکھا آپ نے بصیرت رکھنے والے لیڈر اپنی قوم کو کیسے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ کیسے ایک ولولۂ تازہ عطا کرتے ہیں۔
قوموں کی زندگی میں یہ نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ پوری دنیا پاکستانی قوم کی مزاحمت، قناعت، تحمل اوربرداشت کا اعتراف کرتی ہے۔ کیسے کیسے بحرانوں کی شدت پسندی، دہشت گردی کا، اپنے ازلی دشمن ہمسایہ بھارت کی مسلسل ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرتی آرہی ہے۔
ایک 14اگست 1973  بھی آتی ہے جب پاکستانی قوم اپنا متفقہ آئین منظورکرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ جو آج تک ریاست اور فرد کے درمیان ایک عمرانی معاہدے کی حیثیت سے قائم ہے۔ قومی اسمبلی کی آئینی کمیٹی نے اپریل 1973 میں آئین کو منظور کروالیا تھا۔ اس کا نفاذ 14اگست 1973 سے ہوتا ہے۔
14اگست 1973 کو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قوم سے خطاب کیا۔ اس کا پہلا پیرا میں آپ کے سامنے رکھوں گا۔
''میرے ہم وطنو۔ بھائیو بہنو!  السلام علیکم۔
بیس ماہ سے آپ کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعد میں اسے اپنے لیے فخر محسوس کررہا ہوں کہ آپ سے پہلے منتخب وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے مخاطب ہوں۔ میں نہ صرف پاکستان کے عوام سے بالعموم مخاطب ہوں، بلکہ تمام طبقات ، تمام پارٹیوں ،تمام گروپوں، بلوچوں، پنجابیوں، پٹھانوں، سندھیوں، اور اپنے مہاجربھائیوں سے بھی مخاطب ہوں۔ میرا تخاطب کسانوں مزدوروں، طالب علموں ،اساتذہ ، صحافیوں، سرکاری ملازمین، کارکنوں اور مالکان، نوجوان اور بزرگ سب سے ہے جو  پاکستان کی جان ہیں۔ آج کا دن سب کے لیے تاریخی اہمیت کا دن ہے۔''
اس طرح پاکستان کی سر زمین بے آئین کو ایک آئین مل گیا ہے۔ اب 2023 میں اس کی گولڈن جوبلی منائی جارہی ہے۔ کسی بھی قوم کے لیے ایسے دن فخر و انبساط کا باعث ہوتے ہیں۔
 پھر جنرل محمد ضیاء الحق کے دَور میں 14 اگست کو باقاعدہ ایک یوم مسرت کے طور پر منانے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ صبح 8بجے پاکستان کے سبز پرچم کے لہرانے کی حسین روایت کا آغاز۔ پورے پاکستان میں ایک ساتھ ترانہ گنگنانے اور جو جہاں ہے وہاں رک کر پاک سر زمین شاد باد کی صدا بلند کرنے کا آغاز۔
پھر 14اگست کو ایک باقاعدہ جشن کے طور پر منایا جانے لگا۔ یہ ایک دن ایسا ہوتا ہے۔ جو ہر پاکستانی کا دن ہے۔ صرف ستارہ ہلال والا سبز پرچم لہراتا ہے۔ بائیسکل ، گدھا گاڑی، اونٹ گاڑیوں، تانگہ، بگھی، رکشا، ٹیکسی، موٹر سائیکل، نئی ماڈل کی گاڑیوں، پرانی کاروں، ہاتھ رکشا، موٹر سائیکل رکشہ ، چنگچی، پک اپ، وین، بسیں، ٹرک، آئل ٹینکراور واٹر ٹینکرسب پر ہلالی پرچم ایک وقار سے بلندہوتا ہے۔ اسلام آباد میں یہی عالم ہوتا ہے۔ لاہور میںیہی سماں، ،پنڈی ، پشاور، کوئٹہ، ملتان، فیصل آباد، حیدر آباد، میرپور خاص، نواب شاہ، لاڑکانہ، مردان، مانسہرہ، دیر، سوات، نوشہرہ ، کمالیہ ، سرگودھا، سیالکوٹ، گجرات، جہلم، مظفر آباد، میرپور، قلات، دالبندین، اٹک، تھرپارکر، چاغی، نوشکی، ہر جگہ نوجوان موٹر سائیکلوں پر نکلتے ہیں۔ قائد اعظم کو یاد کرتے ہیں، اپنے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جو اپنی منزل پاکستان کی طرف آتے ہوئے خون میں نہا گئے۔ وہ شہید جو1965,1948  اور1971 کی جنگوں میں۔ پھر سرحدوں پر۔ لائن آف کنٹرول پر اپنی ریاست کی حفاظت کرتے ہوئے جاں نثار کرگئے۔ اور وہ شہدا جو اب تک دہشت گردی کے خاتمے کی جدو جہد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ 
یہ دن سب کا دن ہوتا ہے۔ سب اپنے جذبات کے اظہار میں پیش پیش ہیں۔ ان میں ہر عمر ہر طبقے کے ہر رنگ ہر نسل کے لوگ ہوتے ہیں۔ آج کوئی کسی سے شکایت نہیں کرتا۔ کوئی مطالبہ نہیں کرتا۔ کسی سے کوئی اختلاف نہیں کرتا۔ صرف اور صرف اپنے وطن، اپنے پاکستان سے الفت اور وابستگی  کا اظہار۔
13اگست اور 14اگست کی درمیانی شب جب آپ اپنے موبائل پر کلاک پر 12بجتے دیکھیں تو اپنے سارے رابطوں کو یوم آزادی مبارک۔
Happy 14th August 
کے پیغام دینے شروع کردیں۔
میری طرف سے بھی آپ سب قارئینِ ہلال کو 14اگست مبارک۔ ||


مضمون نگارنامورصحافی' تجزیہ نگار' شاعر' ادیب اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔
[email protected]