مکہ کے شب و روز کا جلالی پن خاک کے پتلوں کو تو کیا روحوں تک کو اپنا تابع بنا لیتا ہے۔ نہ جانے کب ہم سردھنتے وہاں سے نکلے اور جانے کب مدینہ کی پاکیزہ و پرنور ٹھنڈی فضائوں میں جا پہنچے۔ اپنے مقدر پہ رشک آنے لگا ۔ اپنی قسمت پہ اتنے نازاں تھے کہ اپنے ارد گرد لاکھوں لوگوں کا مجمع گویا دکھائی ہی نہ دیتا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے خالقِ کائنات بس صرف ایک مجھ گنہگار پر ہی مہربان ہے اور عنایتوں کی ، رحمتوں کی، برکتوں کی بارش مجھ خطاکار پر ہی برس رہی ہے اور یہ خاص معاملہ جو میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ کسی اور کے ساتھ نہیں ہو رہا ۔ جبکہ ایسی ہی خاص عنایت کی تسکین ہر حاضر ہونے والے کو اپنے دل میں محسوس ہوتی ہے ۔
ریاض الجنہ میں منبر رسول کے بالکل ساتھ کئی کئی نوافل ادا کر کے تو جیسے ہم خود کو دودھ کے دھلے سمجھنے لگے۔ پہلا روزہ یہ لمبی تراویح ۔۔۔ 20 رکعت نماز تراویح زندگی میں پہلی بار کسی امام کے پیچھے اور قرآن پاک کی لمبی سورتوں کی تلاوت کے ساتھ پڑھی، سرور آ گیا ۔۔۔ تہجد اور ساری نمازیں ، خوب نفلی عبادات ، ڈھیروں دعائیں ۔۔۔ کہ افطار کا وقت آ گیا۔ اللہ اللہ کیا سماں ہے، آسمان پر شفق کی لالی اور مسجد نبوی کا دودھیا فرش۔ مغرب سے ذرا دیرپہلے کے لمحات مسجد نبوی کے احاطے میں اور باہر دور دور تک لمبے دسترخوان اور ان پر انواع و اقسام کی نعمتوں کے ڈھیر لیکن مجھے تو مسجد نبوی کے اندر جانا تھا، جیسے میرا مرکز مجھے کھینچ رہا تھا ۔ یہاں کی مہمان نوازی کا نہ تو کوئی موازنہ ہے نہ مقابلہ ۔۔۔ بس جی یہی سوچتے ہوئے سوالی بنے اندر کسی ستون سے لگ کر بیٹھ گئے۔ دل میں یہ خیال بھی پختہ تھا کہ نبی ۖکے شہر میں مہمان ہیں اور مدینہ کی تو فضائیں بھی مہمان نواز ہیں ۔۔ کوئی کمی نہ رہے گی مگر خیالات کے تانے بانے مسجد نبوی کے خوش الحان مؤذن کے 'اللہ اکبر 'کہتے ہی بکھر گئے۔ اسی لمحے کسی نے تازہ نرم کھجوروں سے بھرا ایک گلاس میرے ہاتھ میں تھما دیا۔۔۔ بس!!!
آنکھ سے آنسوں کی اک نئی جھڑی لگ گئی ۔۔۔ پتہ نہیں کیوں ؟؟؟؟ یہ رونا کیوں آ رہا تھا ؟یہ دل کس بات پہ اتنا بھرا ہوا تھا ؟ آنکھیں کس بات کا ماتم کر رہی تھیں ؟؟؟ لیکن لبوں نے کچھ کہنے کی جسارت نہ کی وہیں بیٹھے بیٹھے ہاتھ بڑھایا آبِ زم زم کا گلاس بھرا، روزہ کھولنے کی دعا یاد نہیں آ رہی تھی، اِدھر ادھر کے خیالات کو جھٹک کے ذرا توجہ دے کر ذہن میں ہی غور کیا تو فوراً یاد آ گئی ۔
کھجور منہ میں رکھنے سے پہلے جانے کیسے بالکل غیر ارادی طور پر بالکل نہ چاہتے ہوئے بھی شکوہ زباں پر آ گیا ۔ ''اے اللہ تیرے پیارے نبی ۖ کے غلام ہیں اس شہر میں مہمان ہیں، تیری خوشنودی کے لیے ہی روزہ رکھا ہے اور ان لمبے چوڑے دسترخوانوں میں سے ان انواع و اقسام کی ہزاروں نعمتوں میں سے اس روزے دار کے حصے میں کیا آیا ، فقط کھجور اور آبِ زم زم۔ آنسو کے چند قطرے بے بسی سے پھیلے ہوئے دامن میں گر کر کھو گئے( معلوم نہیں ایسی منفی اور باغیانہ سوچ آئی بھی کیسے جبکہ میں تو کھانے پینے کے معاملے میں بھی درویش ہوں)مگر اس وقت کسی کمزور لمحے نے شاید میرے ہر احساس کوپچھاڑ دیا، میں اس شکوے کو زیر لب ادا کر کے پشیمان بھی بہت تھی لیکن جو خطا ہونی تھی، وہ تو ہوگئی تھی ،لیکن پھر جونہی کھجور کھائی اور آبِ زم زم کا پہلا گھونٹ بھرا تو صاف محسوس ہوا اتنے دنوں سے جو روز آبِ زم زم پی رہی تھی، یہ ویسا نہیں ہے ۔یہ اتنا میٹھا، بہت ٹھنڈا تسکین آمیز فرحت آفریں اگرچہ اس ایک گھونٹ کی تراوٹ بھی ایسی تھی کہ بیان مشکل ہے لیکن پھر بھی پورا گلاس پی لیا۔۔ ارے یہ کیا ہوا۔
اب نہ بھوک رہی نہ پیاس ۔۔۔ یہ طبیعت کیسے سیر محسوس ہو رہی ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ باقی کے کھجور یہ سمجھ کے کھانے کی کوشش کی کہ ساڑھے سولہ گھنٹوں کا روزہ گزارا ہے، سحری میں بھی کچھ خاص نہیں کھایا تھا اور رات کا کھانا تو کھاتی ہی نہ تھی ۔۔ چلو دو چار کھجوریں اور کھا لی جائیں مگر طبیعت نے بالکل ساتھ نہ دیا، نہ ہی ہاتھوں نے، نہ ہی زبان نے ساتھ دیا ۔ ناچارکھجوروں بھرا گلاس وہیں رکھ دیا اور مغرب کی نماز کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ نماز کے بعد تسبیح، دعائیں اور درود ابراہیمی پڑھتے پڑھتے خیال آیاکہ امی نے کہا تھا مسجد نبوی میں درودتاج ضرور پڑھنا ، ابھی اس خیال پر غور کر بھی نہ پائی تھی کہ برابر میں ایک خاتون آ کے بیٹھ گئی، آتے ہی کہنے لگی آپ کو درود تاج چاہیے ؟ یہ ہے میرے پاس، آپ لکھ لیجیے۔ مجھ پر تو گویا کچھ لمحوںکے لیے سکتہ طاری ہو گیا ۔ کون ہے یہ اور اسے کیسے علم ہوا کہ مجھے کیا چاہیے؟دوسرے ہی لمحے اس خاتون کی آواز مجھے ہوش میں لے آئی، آپ لکھنا چاہیں تو لکھ لیں یہ میں آپ کو دے نہیں سکتی اور پھر مجھے جانا بھی ہے ۔میں تو ابھی تک حیرت کے سمندر میں ڈوبی ہوئی تھی ،بمشکل اثبات میں سر ہلایا ،اسی لمحے اس نے کاغذ قلم میرے ہاتھ میں تھما دیاجیسے اسے میرے اس جواب کی توقع پہلے ہی تھی۔ خیر میں نے درود تاج لکھنا شروع کر دیا۔ سفیددودھیا کاغذ پر نیلی روشنائی موتیوں کی طرح چمکنے لگی۔ یہ میری لکھائی کا نہیں بلکہ ان پاک حروف کی برکت کا سبب تھا ۔ لکھ کر مکمل کیا تو ان کا کاغذ انہی کی طرف بڑھایا اور اپنا لکھا ہوا توجہ سے پڑھنے لگی ۔ جب ایک بار مکمل کر چکی تو سر اٹھایا تاکہ ان کا دل سے شکریہ ادا کرسکوں مگر ساتھ میں جگہ خالی تھی ۔۔۔ ارے یہ کہاں گئیں ؟
دائیں بائیں بہت سی خواتین قرآن پڑھ رہی تھیں دل میں خیال آیا یوں بیچ بیچ (درمیان )میں سے قرآن پڑھنے کا کیا فائدہ بس درود ، تسبیحات اور نوافل اور دعائوں کا ہی اہتمام کر لوں تو بہت ہے ۔بس انہی سوچیں نے دماغ کو اپنا مسکن بنایا ہوا تھا۔ ان خیالات سے تو میں اس وقت چونکی جب کسی نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔ میں نے نگاہ اٹھائی برابر میں مکمل نقاب میں ایک خاتون جانے کب آ بیٹھی تھیں اور وہ نماز کے انداز میں دوزانو بیٹھی گود میں قرآن کھولے کسی حرف پرانگلی رکھ کر جانے کس زبان کچھ کہہ رہی تھیں۔ مجھے لگا کہ شاید کسی ایک حرف کے پڑھنے میں دشواری محسوس کر رہی ہیں چلو مدد کر دوں ۔ اور وہ ایک لفظ میں نے پڑھ دیا ۔ اس نے وہ لفظ اٹک اٹک کر میرے پیچھے دھرایا ۔۔ پھر اس نے میرا ہاتھ عقیدت سے چوم لیا اور اپنے دونوں ہاتھ میرے گھٹنوں پر رکھ دیے جیسے شکریہ کے ساتھ ساتھ التجا کر رہی ہو کہ تھوڑا اور بتا دو ۔چلو جی ۔ میں حرف حرف پڑھتی گئی اور ذرا سی دقت کے ساتھ وہ میرے پیچھے پیچھے دہراتی گئی ۔ معلوم نہیں کتنا وقت بیت گیا۔ ڈیڑھ دو سیپارے پڑھ لیے ۔۔۔ عشا کی آذان ہو گئی ۔۔۔ دل میں تھوڑی سی خفگی کا احساس جاگا ۔ ارے یار مجھے اپنا بھی تو کچھ پڑھنا تھا ۔ لیکن اسی لمحے اس نے مجھے گلے لگایا۔ پھر سے میرا دایاں ہاتھ آنکھوں سے لگا کرچوما ۔ جیسے میں خدانخواستہ کوئی بزرگ ہستی ہوں ۔ دل نے ملامت کی کہ تجھے شکرگزار ہونا چاہیے کہ رب نے تجھ سے اپنی منشا کے مطابق کام لیا ۔۔ الحمدللہ کہتے کہتے نماز کے لیے اٹھنے لگی ۔۔۔ نیت کرنے سے پہلے یونہی جو بے دھیانی میں سرگھمایا تو برابر میں کسی اور کو کھڑے پایا ۔ ارے کہاں گئیں؟؟
عشا کے بعد تقریباً ایک گھنٹہ انتظار کیا بالآخر ریاض الجنہ جانے کی اجازت کیا ملی یوں محسوس ہوا حقیقتاً جنت کا پروانہ مل گیا ۔ اللہ پاک کا بہت احسان ہے میرے رب کی بہت خاص نوازش ہے۔ اس ذات باری تعالیٰ کی بے حد کرم نوازی ہے کہ مجھ گنہگار کو منبر رسول کے بالکل ساتھ کئی نوافل ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا ۔
خیر جناب آج دوسرا روزہ تھا ۔ میرے محرم کو میری افطاری کی بہت فکر لاحق تھی لہٰذا انھوں نے کھانے پینے کا کافی سامان تھیلے نما بیگ میں رکھ دیا ۔۔۔ یوں روزہ کھلنے سے بہت پہلے ہی میں مسجد نبوی کے دروازے تک پہنچ گئی ۔ محافظ لڑکیوں نے میرا بیگ چیک کیا اور کہا کہ میں اندر نہیں جا سکتی میں نے بہت التجا کی اور میں نے افطاری کے بیگ سمیت سارا سامان بھی چھوڑ دیا تب بھی انھوں نے یہ کہہ کر مجھے پیچھے دھکیل دیا کہ 'اندر جگہ ہی نہیں ہے ۔'لیکن میرے دائیں بائیں سامنے کے سب دروازوں سے بہت سے لوگ اندر جا رہے تھے۔ دل بری طرح بجھ گیا، میں نے پیچھے ہٹ جانا ہی مناسب سمجھا۔ قصور ان کا نہیں تھا ۔ میرے لیے آج اندر جانے کا حکم ہی نہیں تھا اور جب حکم ہی نہ ہو تو بندہ توکیا پتہ بھی اپنی مرضی سے نہیں ہل سکتا ۔ اور جب میں برستی آنکھوں بوجھل دل اور بھاری قدموں سے نزدیک بچھے دسترخوان پر جا بیٹھی تو نعمتوں کے ڈھیر میرے سامنے لگتے چلے گئے اور مجھے ایک کمزور لمحے میں کیے ہوئے اپنے شکوے کا جواب مل گیا آج میرے سامنے اتنی نعمتوں کے ڈھیر تھے کہ جن کو ذرا ذرا سا چکھ لینا بھی ممکن نہ تھا لیکن جس قیمتی نعمت سے آج میں محروم تھی اس کا ازالہ تو ممکن ہی نہیں تھا اور اس کمی نے دل جس قدر مضطرب کر رکھا تھا کہ نہ ذہن میں کچھ بات ٹھہر رہی تھی نہ ہی دل کو قرار آرہا تھا میرا رواں رواں توبہ کر رہا تھا اس گزشتہ شکوے پرجو میں نے مسجد نبوی کے اندر بیٹھ کر کیا ۔گو میں آج بھی مسجد کے احاطے میں ہی بیٹھی تھی لیکن مجھے جواب دے دیا گیا تھا ۔ کہ تمھارا رب بہتر جانتا ہے کہ اس نے تمھیں کب اور کیا دینا یا نوازنا ہے ۔ اب یہ گنہگار بندے پر ہے کہ وہ اس راز کو پا جائے اور عطا اور خواہش کے فرق کو سمجھ سکے۔ بندے کو یہ احساس ہوتا ہی نہیں ہے کہ جب کوئی خواہش اس کے چاہنے کے مطابق پوری ہوتی ہے توکون سی نعمت اس سے لے لی جاتی ہے۔ آج بھی بس ایک کھجور ہی کھائی اور آبِ زم زم سے بھرا ایک گلاس ہی پیا لیکن ذائقے کے، تراوٹ کے ، تسکین کے بغیر۔ بس جیسے مجبوری سے فرض ادا کرنے کے لیے دونوں نمازیں بھی مسجد کے احاطے میں ہی ادا کیں ۔۔۔ پوری تراویح بھی رو رو کے پڑھی۔ ندامت سے خوف سے جسم لرزتا رہا۔الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے ۔۔۔ بے ربط سی التجائیں فریاد بن کر ٹوٹے پھوٹے ادھورے جملوں میں اپنے رب سے اپنے خالق سے گریہ و زاری جاری رکھے ہوئے تھیں ۔
میں تو غریب ہوں، میرا خدا تو غریب نہیں۔ جانے کب تہجد ادا کی، سحری میں کیا زہر مار کیا،فجر کی نماز کے بعد ریاض الجنہ میں کئی نوافل اداکیے ۔۔۔ کچھ معلوم نہیں کیا مانگ رہی تھی کیا پڑھ رہی تھی۔ میں تو سر تا پا صرف خطاکار بنی معافی ملنے کی منتظر تھی ۔۔۔ ظہر ، عصر کی نمازیں بھی مسجد نبوی کے اندر ہی ادا کیں ۔۔۔ جوں جوں افطار کا وقت قریب آ رہا تھا دل کی دھڑکن بے قابو ہوئے چلی جا رہی تھی۔ ذہن میں ایک ہی سوال کی گونج تھی" آج نمازِ مغرب کہاں ادا ہو گی ؟؟؟ کیا میرے رب نے، میرے پاک پروردگار نے، میرے غفار نے میری التجائیں قبول کرلیں ؟؟؟ کیا آج میں پھر مسجد نبوی کے اندر روزہ افطار کر سکوں گی ؟؟؟؟ کیا وہی تراوٹ وہی راحت وہی سکون وہی تسکین پا سکوں گی؟؟؟ قدم من من بھر کے تھے، نہ اٹھ رہے تھے نہ آگے بڑھ رہے تھے۔ مسجد کا دروازہ سامنے تھا مگر ہمت کا در بند تھا کہ یہ اچانک میرا ہاتھ کس نے تھاما ؟مجھے کون اپنے ساتھ لیے جا رہا ہے اور میں ہوا میں اڑتے ہوئے خس کی طرح ہلکی ہو کے اس کے ساتھ اڑتی چلی جا رہی ہوں ۔۔۔ مجھے مسجد نبوی کے اندر نہایت پر تکلف دسترخوان پر بٹھا دیا گیا ۔ میں اپنی میزبان کی شکل نہیں دیکھ پائی کیونکہ وہ جس سبک رفتاری سے مجھے وہاں لائی تھیں اسی طرح واپس چلی گئیں ۔۔۔ نہ جانے کہاں ؟ دسترخوان پہ بیٹھے ہوئے ہر فرد نے عزت و عجز کے ساتھ رب کی لذیز نعمتوں میں سے میرے سامنے کچھ نہ کچھ ضرور پیش کیا ۔
خوش الحان مؤذن نے اذانِ مغرب کے لیے اللہ اکبر کہا ۔۔میں یقین اور گمان کی نہ جانے کونسی منزل پہ تھی ۔۔۔ مسجد نبوی کی اندر ہوں۔ روزہ افطار کر رہی ہوں کسی پر تکلف نعمتوں سے سجے دسترخوان پر ہوں ۔۔۔ اذان کے ہر ہرلفظ سے روح سیراب ہو رہی تھی ۔اور میری آنکھیں ہی کیا میرا رواں رواں تشکر سے بے اختیار برسنے لگا ۔
ہم ہی ناشکرے ہیں، معافی اور استغفار میں تاخیر کرتے ہیں۔ مگر جیسے ہی دو اشک بہا کے دل سے رب کو پکارتے ہیں وہ غفار معاف کر کے اپنے بندے کو سکون عطا فرما دیتا ہے ۔ ||
مضمون نگار ماہر تعلیم، شاعرہ اور پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔ ان کی تین کتب بھی شائع ہوچکی ہیں۔
تبصرے