اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 22:18
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد یَومِ یکجہتی ٔکشمیر بھارتی انتخابات اور مسلم ووٹر پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان سے غیرقانونی مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ اور اس کا پس منظر پاکستان کی ترقی کا سفر اور افواجِ پاکستان جدوجہدِآزادیٔ فلسطین گنگا چوٹی  شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے مواقع اور مقامات  عالمی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ پاکستانی شہریوں کے قتل میں براہ راست ملوث بھارتی نیٹ ورک بے نقاب عز م و ہمت کی لا زوال داستا ن قائد اعظم  اور کشمیر  کائنات ۔۔۔۔ کشمیری تہذیب کا قتل ماں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور بھارتی سپریم کورٹ کی توثیق  مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ۔۔ایک وحشیانہ اقدام ثقافت ہماری پہچان (لوک ورثہ) ہوئے جو وطن پہ قرباں وطن میرا پہلا اور آخری عشق ہے آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی میں کانووکیشن کا انعقاد  اسسٹنٹ وزیر دفاع سعودی عرب کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات  پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد حق خودرادیت ۔۔۔کشمیریوں کا بنیادی حق استصوابِ رائے۔۔مسئلہ کشمیر کا حتمی حل انتخابات کے بعد کشمیرکی موجودہ صورتحال سالِ رفتہ، جموں وکشمیر میں کیا بدلا یکجاں ہیں کشمیر بنے گا پاکستان آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ ایک شاندار فضائی حربی معرکہ حسینہ واجد کی اقتدار سے رُخصتی کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش میں دوطرفہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز شائننگ انڈیا یا  ہندوتوا دہشت گرد خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل امیدوں، چیلنجز اور کامیابیوں کے نئے دور کا آغاز کلام اقبال مدارس رجسٹریشن۔۔۔حقائق کے تناظر میں اُڑان پاکستان پاکستان میں اردو زبان کی ترویج وترقی امن کی اہمیت مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے میری وفا کا تقاضا کہ جاں نثارکروں ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن بڑھتی ہوئی آبادی، درپیش مسائل اور ان کا حل تھیلیسیمیا سے بچا ئوکیسے ممکن ہے ماحولیاتی آلودگی ایک بڑا چیلنج سانحہ مشرقی پاکستان مفروضے اور حقائق - ہلال پبلیکیشنز کے زیر اہتمام شائع کردہ ایک موثر سعی لا حاصل کا قانون یہ زمانہ کیا ہے ترے سمند کی گرد ہے مولانا رومی کے افکار و خیالات کشمیر جنت شہید کی آخری پاکستان کا مستقل آئین۔1973 بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا کویت کا سرکاری دورہ بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف سے بنگلہ دیش کے پرنسپل اسٹاف آفیسر کی ملاقات بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ البرق ڈیژن اوکاڑہ کی طرف سے مسیحی برادری کے لیے فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد سیلرز پاسنگ آؤٹ پریڈ پاک بحریہ فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کمانڈر سدرن کمانڈ و ملتان کور کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے اساتذہ اور طلباء کے ساتھ خصوصی نشست نمل یونیورسٹی ملتان کیمپس اور یونیورسٹی آف لیہّ کے طلبہ و طا لبات اوراساتذہ کا مظفر گڑھ فیلڈ فائرنگ رینج کا دورہ اوکاڑہ گیریژن میں تقریبِ بزمِ اقبال کاانعقاد ملٹری کالج سوئی میں سالانہ یوم ِوالدین کی تقریب آل پاکستان ایف جی ای آئی ایکسیلنس ایوارڈ کی تقریب 2024ء اوکاڑہ گیریثر ن، النور اسپیشل چلڈرن سکول کے بچوں کے لیے
Advertisements

ہلال اردو

پاکستان کے خوبصورت تہوار 

جولائی 2023

فطرت موسمی تہوارلاتی ہے۔اس کی تمام اکائیاں ان تہواروں کے رنگین مدوجزر میں ہی پروان چڑھتی ہیں۔ کبھی پربتوں پر سبزہ مسکراتا ہے اور کبھی پت جھڑ کے بعد درخت پھر سے ہرے بھرے ہو جاتے ہیں۔بکریوں کے ریوڑ چراگاہوں سے لَوٹتے ہیں تو اُن کے تھن دودھ سے بھرے ہوتے ہیں۔خشک دھرتی کے سینے پر زندگی بکھیرتے دریا بہتے ہیں۔موجوں پر کشتیاں تیرنے لگتی ہیں۔گرداب ختم ہو جاتے ہیں۔بوجھل ساعتوں کی بوسیدہ کُرسیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔آنگن میں نئے پھول کِھلتے ہیں۔مضمحل رُتوں کے پھیلے ہوئے آسیب کو تازگی ایک وقفے کے لیے ختم کردیتی ہے۔فطرت یہی درس انسانی بستیوں اور ان کے باشندوں کودیتی ہے۔حضرتِ انسان کبھی ان تہواروں کو مل جل کر منانے میں راحت محسوس کرتا تھا۔پھر مذاہب کی بندشوں نے تہوار بانٹے اورانسان کے مشترکہ گھر میں دیواریں اُٹھا دیں۔سانجھے برتن بٹ گئے۔پھر سرحدوں نے تہوار قوموں سے منسوب کر دیے۔مگر فطرت اپنی پرانی ڈگر پر ہی عمل پیرا رہی۔



یوں تو تہواروں کی تاریخ قدیم ہے۔آج کے گلوبل ویلج میں میلوں کی قدیم روایت بھی جدت آشنا ہو گئی ہے۔ماڈرن لباس میں انگریزی بولتے لوگ اپنے نتھنوں سے دولت کی بُو سونگھتے ہوئے بڑے بڑے تجارتی میلوں میں جاتے ہیں جبکہ انٹرٹینمنٹ کے دلدادہ فلمی دُنیا کے میلوں میں جا گھستے ہیں۔جیسے فرانس میں کانز کا میلہ لگتا ہے۔کبھی آئی پی ایل یا پی ایس ایل کے میلے کرکٹ کے میدانوں میں سجتے ہیں۔پھر آرٹ اور کتابوں کے میلے لگتے ہیں، کبھی مذہبی اور سیاسی میلے منعقد ہوتے ہیں۔مگر ان میلوں میں ایک خاص مقصد کارفرما ہوتا ہے۔لوگ ان میلوں کا ریکارڈ مرتب کرتے ہیں اور یہاں سے نفع و نقصان کی ریس شروع ہوتی ہے۔
 ہمارے بچپن کے میلوں میں نشاط کا رنگ نمایاں ہوتا تھا۔ پنجاب کی ثقافت میں میلے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔عام طور پر یہ میلے یا تو فصل کی کٹائی کے بعد یا کسی پِیر فقیر کی درگاہ پر سالانہ اجتماع سے شروع ہوتے ہیں۔
ہمارے بچپن میں بابا رُلیے شاہ کا میلہ ہمارے گائوں کا سب سے بڑا تہوار تھا۔انجانی منزلوں کے مسافر پرندوں کے پاس میلوں کا شیڈول کہاں سے آ جاتا تھا کہ وہ اُنہی دنوں میں گائوں کے درختوں پر عارضی ڈیرے ڈال لیتے تھے۔سویرے سویرے پیڑوں پر غوں غوں کرتے کتنے ہی پرندے اُٹھتے اور سبز درختوں پرآزادی اور خوشی کے گیت گاتے۔اس کارخانۂ قدرت میں موسیقی کا ایک الگ ہی ترنم سنائی دیتا تھا۔چیونٹیوں کی قطاریں رزق کی تلاش میں سرگرداں نظر آتیں اور میلے کے دنوں میں پکھی واس بھی آ جاتے تھے۔پکوڑے تلنے اور مٹھائیاں بیچنے والوں کی دوکانیں سج جاتیں۔جلیبیاں سیاسی رہنماؤں کے بیانات کی طرح نکلنا شروع ہو جاتیں۔ٹانگری اور مُرونڈا تختوں پر سجایا جاتا۔کھلونوں کے سٹال لگ جاتے۔حلوائی میٹھا شِیرا کڑاہے میں ڈالتے۔رقص و موسیقی پر مبنی شوز ہوتے،خواجہ سرائوں کا رقص ہر گھڑی جاری رہتا۔چراغ جلائے جاتے۔ریڑھی بان نقلی جیولری بیچتا۔سڑک کے کنارے کپڑے کے تھان کُھلتے۔بچے اپنے والد کی اُنگلی پکڑے جُھولے لینے کی ضِد کرتے۔ڈھولچی اپنا فن دِکھاتے۔لڑکوں کی ٹولیاں سانپ اور نیولے کی لڑائی دیکھ کر قہقہے بکھیرتیں۔چوڑیوں والوں کے پاس پریوں کا جھرمٹ لگ جاتا۔قلفیوں کی ریڑھیاں، لچھے بنانے والے، چنے بیچنے والے، پاپڑ والے اور شربت والے اپنی بھانت بھانت کی بولیوں سے گاہکوں کی توجہ کھینچنے کی کوشش کرتے۔اِن میلوں میں ہر روز دوپہر ڈھلتے ہی شوربے والی دیگوں سے کھانا پیش کیا جاتا تھا۔''نائی'' ایسا لذیذ سالن بناتے کہ پھُلکے بھگو بھگو کر کھانے میں مزا آ جاتا۔پھر رات گئے قوالی شروع ہوتی۔قوال ایسے میٹھے سُر لگاتے کہ سامعین اُن پر نثار ہوہو جاتے۔پیسے پھینکتے، حقہ سُلگاتے ہوئے کسان داد دیتے۔چوکڑیاں مارے ہوئے بچے آگے بیٹھتے اور خوب جوش و خروش سے مختلف قوالوں کی پارٹیاں آ کر اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتیں۔نغمہء سرمدی کانوں میں رَس گھولتا اور پھر اگلے دِن کھیتوں میں تمبو لگائے جاتے،اکھاڑہ لگتا،جن پر بڑے بڑے پہلوانوں کی قد آور تصاویر لگتیں۔سرکس والے آ جاتے۔موسیقی کے پروگرامز میں عالم لوہار، عنایت حسین بھٹی کی تصاویر لگائی جاتیں۔دھمال والے گیت خاص طور پربجائے جاتے۔نوبت بجائی جاتی تو کہیں بھنگ پی جاتی اور ملنگ بے تحاشا دھمال ڈالتے۔فضائوں پر ایک الگ سا نشہ طاری ہو جاتا۔آخری دن کبڈی کے میچ ہوتے یا بیلوں کے دوڑنے کے مقابلے۔ اِن میچوں میں اکثر لڑائی ہو جاتی تھی۔کبڈی کے کھلاڑی خوب تیاری کرتے۔جب اُن کو پوائنٹ مل جاتا تو وہ فخر سے سینہ چوڑا کرتے۔گائوں والے تالیاں بجاتے۔ کھلاڑی لنگوٹ اور نِکر پہنے ہوئے میدان میں اپنی پوری جسمانی وجاہت کے ساتھ مقابلے کے لیے اُترتے۔اپنے جُثے اور پِنڈے پر مٹی مَل کر لوک میلوں کی قدیم روایات کو زندہ رکھنے کے فن میں ماہر وہ بازو ہوا میں لہرا کر با آواز بلند اپنے حریف کو للکارتے تھے۔دھوتیاں باندھے کسان تالیوں سے شور مچاتے اور کھلاڑی حریف کو کہتا'' تگڑا ہو جا جوانا''۔ کبڈی کے میدان میں لائن کسی سرحد جیسی لکیر بناتی ہے جسے پار کرتے ہی کھلاڑی دھرتی کی مٹی کو چھوتااور عقاب جیسی پھرتی سے ہاتھ لگانے کی کوشش کرتا ۔حریف دائروں میں گھومتے ہوئے ایک دوسرے کو بچاتے ۔داؤ، پیچ، چُستی، پھرتی سب ہنر آزمائے جاتے۔لوگ جوق در جوق بستیوں ، قصبوں ، قریوں اوردوسرے دیہاتوں سے اکٹھے ہوکر بیل گاڑیوں پر میلے دیکھنے آتے تھے۔ سیاست دان اپنے جھگڑے ، مذہبی رہنما اپنے تعصب فراموش کر کے اور عوام اپنی عمروں کے فرق مٹا کر خوشیوں کے ان میلوںمیں شریک ہوتے تھے۔سُلگتی چِلموں، گپیں ہانکتے دوستوں اور لوگوں کا جمِ غفیر میلوں میں جان ڈال دیتا تھا۔بیلوں کے سینگ تیل کی چمک سے خوب لشکارے مارتے۔طیور اپنے پروں میں نغماتِ فطرت کی شادابیاںسمیٹے اُڑانیں بھرتے دکھائی دیتے۔
سال بھرپاکستان میں لال شہباز قلندر، بابا فرید گنجِ شکر، خواجہ غلام فرید، سلطان باہو، داتا صاحب، وارث شاہ اوربلہے شاہ کے مزارات سمیت دیگر تمام علاقوں میں میلوں کا ایک طویل سلسلہ جاری رہتاہے جو تین دن سے لے کر پانچ دن تک جاری رہتا ہے۔ہزاروں لوگ اِن میلوں میں شریک ہو کر اپنی اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔یہ میلے عام طور پر محرم کے دنوں میں بھی شروع ہوتے ہیں اور کچھ محرم کے علاوہ بھی لگائے جاتے ہیں۔یہ عرس اور میلے بہت دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں۔مقبروں پر چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔دیگیں کھنکتی ہیں نیاز بٹتی ہے۔لوگ مرادیں مانگتے ہیں اور کہیں کہیں منت کے طور پر دھاگے باندھتے جاتے ہیں۔پیرزادے، سجادہ نشین اور مجاور نذرانے وصول کرتے ہیں۔
کچھ میلے فصلوں کی کٹائی کے بعد لگتے ہیں اور کچھ پہلے۔جیسے بیساکھی کا میلہ، اِس میں کسان فصل کی کٹائی  کا ڈھول کے ساتھ افتتاح کرتے ہیں۔لُڈیاں ڈالتے ہوئے جوان اور مزدور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔لمبی تانیں لگاتے ہوئے گیت گائے جاتے ہیں۔بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں۔
قدیم مصر ، یونان، ایران اور ہندوستان میں لوگ نفیریوں کی آواز بجاتے ہوئے میلوں میں آتے تھے۔جنوبی یورپ میں کارنیوال کا میلہ لگتا ہے۔جس میں ہزاروں لوگ بھیس بدل کر مختلف بھوتوں، چڑیلوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔رقص کرتے ہیں۔رومہ میں یکم مئی کو بہار کی دیوی کا تہوار منایا جاتا تھا۔پھر جشنِ بہاراں اور موسمی تہواروں کے الگ سلسلے ہیں۔بلوچستان کا تاریخی سبی میلہ اپنے رنگا رنگ میوزک اور ثقافت سے بھرپور پانچ دن تک جاری رہتا ہے۔کیلاش ویلی میں بمبوریت گائوں میں چِلم جوشی کا میلہ لگتا ہے۔جس میں وہ قدیم رسم و رواج کو آج بھی پوری عقیدت سے مناتے ہیں۔
ہماری سماجیات میں یہ میلے ایک اہم عنصر سمجھے جاتے ہیں۔ویسے تو عید، شب برات، کرسمس، دیوالی اور دیگر تہوار بھی آپس میں بھائی چارے اور محبت بانٹنے کا سبب ہیں۔مگر وہ سال میں صرف ایک دو بار آتے ہیں۔اس دوران جتنے بھی میلے لگتے ہیں وہ کسی علاقائی شخصیت یا تہوار کی نمائندگی کرتے ہوئے لگتے ہیں۔جن کی بدولت چھوٹے چھوٹے کاروبار سے منسلک افراد کی چاندی ہو جاتی ہے اور لوگ بھی خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں مختلف مذہبی اجتماعات ہوتے ہیںمگر اِس زمین پر سب سے بڑا اجتماع ہر برس حج کے موقع پر ہوتا ہے۔اُس کے بعد انڈیا میں کمبھ کا میلہ صدیوں سے منعقد ہوتا آ رہا ہے۔یہ بارہ برس کے بعد مہا کمبھ کہلاتا ہے۔اس میں اشنان کے لیے کروڑوں ہندو گنگا اور جمنا کے سنگم پر اشنان کرتے اور ڈبکیاں لگاتے ہیں۔ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ اس سے ان کے پاپ دُھل جائیں گے اور انھیں موکش یعنی بار بار جنم لینے کے چکر سے نجات مِل جائے گی اور وہ مرنے کے بعد سیدھا سورگ میں جائیں گے۔
یہ میلے اور عرس لوگوں کو آپس میں جوڑتے اور محبت کا درس دیتے ہیں۔اگرچہ اب شدید معاشی مسائل کی وجہ سے  اِن میلوں کی رونقیں کچھ گہنا سی گئی ہیں،لیکن پھر بھی اکثر ان میلوں پر خوشیوں کے ڈھول بجتے ہیں اور محبتیں رقص کرتی ہیں۔ ||


مضموں نگار، شاعراور سفرانچہ نگاراور دو کتابوں کے مصنف ہیں۔
[email protected]