قوموں کے کردار کی آزمائش اکثر ان حادثات و واقعات سے ہوا کرتی ہے جس میں انہیں اپنی جان و مال سے بالا تر ہو کر بحیثیت قوم کچھ قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ پاکستانی قوم نے آزادی کے بعد سے مختلف حالات میں بہت سی پریشانیو ں کا سامنا کیا اور بحیثیت قوم سرخ رُو بھی ہوئی۔ ایسا ہی ایک دلخراش واقعہ 10 اپریل 1988 کو راولپنڈی ، اسلام آباد کے سنگم پر واقع اوجڑی کیمپ میں پیش آیاجس نے دیکھتے ہی دیکھتے شہر کی فضا کو سیاہ کردیا۔دن کے تقریباً10بجے اوجڑی کیمپ کے بارود کے ذخیرے میں زبردست دھماکہ ہوا جس سے جڑواں شہر لرز اٹھے اور شہری آبادی کو شدید نقصان پہنچا۔ راکٹ اور شیل دور دور تک شہر کی سڑکوںپر پڑے دکھائی دیے، عوام میں سراسیمگی پھیل چکی تھی ، آسمان پر دھوئیں کے بادل ہی بادل نظر آنے لگے۔خوف وہراس کے مارے لوگ محفوظ مقامات تلاش کرنے لگے ، چیخ و پکار اور نفسا نفسی کے اس عالم میں کچھ والدین اپنے بچوں کے لیے بے تاب ہو کر سکولوں کا رُخ کرنے پر مجبور تھے ۔ جڑواںشہروں میں گویا قیامتِ صغریٰ ٹوٹ پڑی تھی۔
حادثے کی وجوہات
یہ حادثہ کیمپ میں موجود مواد میں آگ لگنے کے عمل سے شروع ہوااور آتش گیرمواد کی موجودگی اور دیگر سٹوریج یونٹس کے قریب ہونے کی وجہ سے آگ نے شدت پکڑ لی اور اس سے پورے ڈپو میں دھماکوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔
حادثے کے اثرات
اوجڑی کیمپ حادثے کے اثرات انتہائی سنگین اور دلخراش ثابت ہوئے۔ اس حادثے نے انسانی زندگیوں اور انفرا سٹرکچر دونوں کو شدید متاثر کیا، جانی نقصان کا اندازہ کیا جائے تو تقریباً 100 سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں فوجی اہلکار ، عام شہری اور قریبی علاقوں میں رہنے والے مکین بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ متعدد افراد شدید زخمی حالت میں ہسپتالوں کو منتقل کیے گئے۔ عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے، آس پاس کے علاقوں میں آگ بھڑک اُٹھی جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ ہزاروں لوگ خوف کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ گھر سے بے گھر بھی ہوئے۔ اس واقعہ نے متاثرین پر بہت گہرا اثر چھوڑا کیونکہ بہت سے لوگوں نے اس واقعہ میں نہ صرف اپنے پیاروں کو بلکہ اپنا ذریعۂ معاش بھی گنوایا۔
حکومتی اقدامات
اوجڑی کیمپ کے حادثے کے بعد حکومتِ پاکستان نے فوری طور پر صورتحال سے نمٹنے کے لیے اقدامات کا آغاز کیا اور متاثرہ آبادی کو امداد فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن کارروائی کی ۔ اس ضمن میں بے گھر افراد کے لیے عارضی پناہ گاہیں قائم کی گئیں اور متاثرہ علاقوں میں بنیادی خدمات اور ضروریات کے لیے انتظامات کیے گئے۔ حکومت کی جانب سے واقعہ کے اسباب اور وجوہات کی مکمل تحقیقات کا آغاز کیا گیا اور مستقبل میں ایسے حساس مقامات کے انتظامات میں حفاظتی ضوابط اور طریقہ کار کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان نے ایسے بارودی مواد کو ذخیرہ کرنے اور ٹھکانے لگانے کیطریقہ کار میں جامع اصلاحات بھی متعارف کرائیں۔
اس وقت کے وزیراعظم محمدخان جونیجو اور وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ نے اسی وقت دھماکے کی جگہ کا جائزہ لیا اور امدادی سرگرمیوں کو تیز کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ صدرِ مملکت جنرل محمدضیاء الحق جو اسلامی سربراہی کانفرنس کے سلسلے میں کویت کے دورے پر تھے، اپنا دورہ مختصر کرکے وطن واپس آگئے اور مختلف ہسپتالوں میں جاکر زخمیوں کی عیادت کی اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔
افواجِ پاکستان کی امدادی کارروائیاں
اس سانحہ کی اطلاع ملتے ہی پاکستان آرمی نے بنیادی فوجی تنظیم کے طور پر فوری امدادی کارروائیوں میں اہم کردار ادا کیا۔ ہسپتالوں میں ہنگامی بنیادوںپر زخمیوں کو طبی امداددی گئی۔ ڈاکٹروں اور دیگر میڈیکل عملے نے زخمیوں کی دیکھ بھال کی۔ اس کے علاوہ فوجی عملے کو جائے وقوعہ پر بھی عوام کی سہولت کے لیے تعینات کیا گیا۔ پاکستان ایئر فورس کے ہیلی کاپٹرز نے زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کر کے مشکل کی اس گھڑی میں اپنے ہم وطنوں کی داد رسی کی، پاکستان نیوی نے بھی ممکنہ وسائلاستعمال کر کے اس ریسکیو آپریشن میں اپنا حصہ ڈالا۔
ہنگامی حالات سے نمٹنے کے بعد 13 اپریل کو پاک فوج نے ناکارہ بنائے جانے والے ایمونیشن اور ایسے بموں کو جوا بھی پھٹے نہیں تھے، ٹھکانے لگانے کی کارروائی شروع کی اور سرکاری اعلان کے ذریعے شہریوں کو خبردار کیا گیا کہ وہ اب دھماکے کی آواز سنیں تو گھبرائیں نہیں یہ دھماکے بارودی مواد کو ناکارہبنانے کی کارروائی کا حصہ ہوں گے۔
سول ڈیفنس کے اقدامات
سول ڈیفنس کا ادارہ جو ہنگامی حالات اور آفات سے نمٹنے کا ذمہ دار ہوتا ہے، نے اس واقعے کے دوران امداد فراہم کرنے میں نہایت ذمہ دارانہ کردار ادا کیا اوراس کے اہلکاروں نے متاثرین کو ریسکیو کرنے اور امداد فراہم کرنے میں ہر طرح کی کوشش کی۔
دیگر سماجی اداروں کے اقدامات
ملک میں ہونے والے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے فوجی و سول اداروں کے علاوہ دیگر سماجی اداروں نے بھی بڑھ چڑ کر حصہ لیا۔ اس میں پاکستان ہلالِ احمر سوسائٹی اور ایدھی فائونڈیشن کا نام سر فہرست ہے جنہوںنے فوری طور پر امداد کے لیے اپنے تمام وسائل اور رضاکار متحرک کیے جنہوںنے ہم آہنگی اور جوش و جذبے کے ساتھ اس آفت کا سامنا کیا اور متاثرین کے لیے مدد فراہم کی۔
پولیس اور سول انتظامیہ کا کردار
مقامی پولیس اور سول انتظامیہ نے امن و امان کو برقرار رکھ کر، ٹریفک کے نظم و نسق اور امدادی کارروائیوں میں سہولت فراہم کر کے اس المناک گھڑی میں اپنے حصے کا چراغ روشن کیا۔ انہوں نے متاثرہ علاقوں کی حفاظت کو یقینی بنایا۔مختلف تنظیموں اور اداروں نے اپنی مشترکہ کوششوں اور رابطہ کاری کے ذریعے اوجڑی کیمپ کے واقعہ کے فوری اثرات کو کم کرنے اور طبی امداد کو متاثرین تک پہنچانے میں اپنی خدمات پیش کرکے قومی و عالمی سطح پرایک ملک، ایک قوم ہونے کا ثبوت پیش کیا۔
طبی خدمات
واقعہ چونکہ دن کے ابتدائی حصے میں پیش آیا تھا ، اس لیے تمام سرکاری و نجی ادارے اپنی تمام تر صلاحیت کے ساتھ مصروفِ عمل رہے۔ حادثے کے وقوع پذیر ہونے کے کچھ ہی دیر بعد ہسپتالوں میں زخمیوں کا تانتا بندھ گیا۔ تمام ہسپتالوں میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیاگیا۔حادثے کی اطلاع ملتے ہی زخمیوں کو نکالنے کے لیے جو ایمبولینسز سب سے پہلے پہنچیں وہ سی ایم ایچ اور ایم ایچ راولپنڈی کی تھیں۔ ہسپتال کے اندر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف نے زخمیوں کا فوری علاج معالجہ شروع کردیا۔ یہ دونوں ہسپتال مسلسل کئی دن رات ان زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہے۔ فوجی ڈاکٹروں نے دوسرے ہسپتالوں میں بھی جاکر مریضوں کے علاج معالجے میں حصہ لیا۔ ہولی فیملی ہسپتال اور راولپنڈی جنرل ہسپتال (موجودہ بے نظیر بھٹو ہسپتال) پربھی مریضوں کا دبائو شدید بڑھ گیاتھا۔ ماسوائے شدید نوعیت کے مرض میں مبتلا زخمیوں کے، دیگر کو چھٹی دے کر زخمیوں کے داخلے کے لیے گنجائش پیدا کی گئی۔ اس موقع پر کسی اپیل کے بغیر ہی خون کا عطیہ دینے والے لوگوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں اور عوام بغیر کسی لالچ کے اپنے ہم وطن زخمی بھائیوں کی مدد کے لیے پہنچ گئے۔
اوجڑی کیمپ کا سانحہ بڑا ہی دردناک اور آفت زدہ تھا جس کا درد نہ صرف جڑواں شہر بلکہ پورے ملک اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی محسوس کیا۔ اس طرح کے واقعات اور سانحات قوموں پر آتے رہتے ہیںلیکن غور طلب بات یہ ہے کہ قومیں کس طرح ان حالات میں ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر آفت کا سامنا کرتی ہیں۔ اس حادثے کے بعد پاکستانی قوم نے جس جذبہ و ایثار اور بھائی چارے کا ثبوت دیا وہ قابلِ رشک اور قومی ولولے کی عکاسی کرتا نظر آیا۔پاکستانی قوم، افواج پاکستان اور سول و سماجی اداروں نے اس آفت کی گھڑی کا مل کر سامنا کرکے یہ ثابت کردیا کہ ''جب تک ہم باہم ہیں۔۔۔ ہم آہن ہیں۔''
تبصرے