حالیہ بے موسمی برسات نے ملک بھر میں کافی اتھل پتھل مچا رکھی ہے۔ موسلا دھار بارشوں اور طوفانی ژالہ باری نے جہاں عام انسانی زندگی کو متاثر کیا وہیں فصلوں کی تباہی سے کسان کی کمر توڑ دی ہے۔ گندم کی فصلوں کی تباہی کی وجہ سے خوراک کے بحران کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ ان بے موسمی بارشوں کی بنیادی وجہ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی تغیرات ہیں اور یہی وہ عالمی مسئلہ ہے جس کا دیگر ممالک کی طرح آج کل پاکستان بھی بری طرح شکار ہے۔ یہ ایک ایسا عالمی مسئلہ ہے جو کئی دہائیوں سے پوری دنیا کو متاثر کر رہا ہے جس کی وجہ سے روئے زمین پر بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ مگر موسمیاتی تبدیلی کیا ہوتی ہے اور کیوں ہوتی ہے؟ آئیے اس کے بارے میں جانتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کے انسانی صحت پر بھی بہت سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ شدید موسمی واقعات، جیسے سیلاب، گرمی کی لہریں اور سمندری طوفان کے نتیجے میں، بیماریاں اور کئی اموات ہو سکتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی فضائی آلودگی جیسے کہ سموگ میں بھی حصہ ڈالتی ہے، جس سے سانس اور پھیپھڑوں کی کئی خطرناک بیماریاں ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ آلودگی فصلوں کی پیداوار اور معیار پر بھی اثر انداز ہوتی ہے جس کا تعلق بھی براہ راست انسانی صحت سے ہے۔
ماحولیاتی تغیر (climate change) انسانی سرگرمیوں کے سبب کسی علاقے کی مخصوص آب و ہوا کی ترتیب میں تبدیلی کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ زمین کے اوسط درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہے۔ بنیادی طور پر کوئلہ، تیل اور گیس جیسے ایندھن کے جلنے اور جنگلات میں کمی اور تعمیرات میں اضافے کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ یہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت بہت سی ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے جس کے ہمارے ماحول، معیشت اور انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ماحولیاتی تغیرات ہماری زندگی کے مختلف پہلوئوں کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتے ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
موسم کے معمول میں تبدیلیاں:
ہر علاقہ اپنی ایک الگ آب و ہوا یعنی ایک طویل عرصے تک مخصوص موسمی کیفیت رکھتا ہے۔ ماحولیاتی تغیرات اس مخصوص آب و ہوا میں تبدیلی لاتے ہیں اور موسم کی بے ترتیبی، شدت اور اس کے اپنے معمول سے ہٹ جانے کے ذمہ دار بنتے ہیں۔ یہ ماحولیاتی تغیرات کسی بھی موسم کی اپنے مخصوص وقت پر آمد اور اس کے دورانیے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ہمارے ملک میں مون سون کے موسم کا وقت سے پہلے آ جانا اور آج کل ہونے والی بے موسمی برسات۔ موسم کے معمول میں اس بے ترتیبی کی وجہ سے بے وقت کی بارشیں، شدید گرمی اور سردی کی لہریں، خشک سالی، آندھی اور شدید طوفان آتے ہیں۔ موسم کی یہ تبدیلیاں فصلوں کے نقصانات اور پانی کی قلت کا باعث بن سکتی ہیں، جس سے خوراک کی فراہمی غیر مستحکم ہو سکتی ہے جو انسانی زندگیاں متاثر کر سکتی ہے۔
بائیوڈائیورسٹی پر منفی اثرات:
جاندار اپنے قدرتی مسکن اور ماحول سے بہت مانوس ہوتے ہیں۔ وہ نامساعد حالات میں جینے اور اپنی نسل کی بقا کے لیے مکمل طور پر اپنے ارد گرد کے ماحول پر انحصار کرتے ہیں۔ اس ماحول میں ہونے والی ذرا سی تبدیلی ان کے لیے تباہ کن اور خطرناک ہو سکتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی ماحولیاتی نظام کو تبدیل کرکے حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کو متاثر کرتی ہے، جس کی وجہ سے کچھ جانداروں کی نسل کے معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور بدلتے ہوئے موسمی انداز جانوروں کی قدرتی رہائش گاہوں میں خلل ڈالتے ہیں، جس سے وہ بیماریوں اور شکاریوں کا شکار ہو کر معدوم یا ناپید ہو سکتے ہیں۔
سطح سمندر میں اضافہ:
بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث شمالی قطب میں موجود برفیلے گلیشیئرز مسلسل پگھل رہے ہیں۔ جن کے پگھلنے کے نتیجے میں سطح سمندر میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ سطح سمندر میں یہ اضافہ ساحلی علاقوں اور دنیا بھر کے نشیبی جزیروں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس سے زمینی کٹا ئواور سیلاب جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جو کہ انسانی زندگی پر شدید اثرات مرتب کرتے ہیں اور ماہی گیروں کے لیے مصیبت کا باعث بنتے ہوئے ماہی گیری اور اس سے متصل انڈسٹری کو شدید متاثر کرتے ہیں۔ بعض اوقات سیلاب کے نتیجے میں پوری آبادی صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سیلاب اور طوفان کی وجہ سے عمارتوں اور انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچتا ہے جس کا ملکی معیشت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
صحت عامہ:
ماحولیاتی تبدیلی کے انسانی صحت پر بھی بہت سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ شدید موسمی واقعات، جیسے سیلاب، گرمی کی لہریں اور سمندری طوفان کے نتیجے میں، بیماریاں اور کئی اموات ہو سکتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی فضائی آلودگی جیسے کہ سموگ میں بھی حصہ ڈالتی ہے، جس سے سانس اور پھیپھڑوں کی کئی خطرناک بیماریاں ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ آلودگی فصلوں کی پیداوار اور معیار پر بھی اثر انداز ہوتی ہے جس کا تعلق بھی براہ راست انسانی صحت سے ہے۔
اس تمام صورت حال کے پیش نظر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا اس وقت کی ایک فوری اور اہم ضرورت ہے جس کے لیے عام افراد اور حکومت کی جانب سے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے اور گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی ضرورت ہے جو بنیادی طور پر کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے کی ذمہ دار ہیں۔ جس میں سب سے اہم فوسل فیولز کا کم سے کم استعمال ہے۔ فوسل فیولز یعنی پیٹرول، گیس اور کوئلہ سے توانائی حاصل کرنے کے بجائے قابل تجدید توانائی جیسے شمسی توانائی، ونڈ پاور اور ہائیڈرو پاور یعنی ہوا اور پانی کے ذریعے پیدا کی جانے والی توانائی کا استعمال کیا جائے۔ اس سے فضا میں کاربن کے اخراج میں بھی کمی ہو گی۔
زراعت بھی گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کے سب سے بڑے ذرائع میں سے ایک ہے۔ جسے کنٹرول کرنے کے لیے پائیدار زرعی طریقوں کو جیسے کہ محفوظ کاشتکاری، فصلوں کی گردش یعنی مسلسل ایک ہی فصل کی کاشت کو روکنا اور آرگینک کھادوں کے استعمال کو لاگو کرنا ہو گا۔ اس سے گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ مزید ہمیں جنگلات کے کٹا ئوکو روکنے کے لیے بہتر اور مؤثر پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے کیوں کہ درخت موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ جنگلات فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں، جس سے گرین ہائوس گیسوں کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ حکومت اور عام افراد درخت لگا کر یا درخت لگانے والی تنظیموں کی مدد کر کے جنگلات کی بحالی کی کوششوں میں مدد کر سکتے ہیں۔
ماحولیاتی تغیر ایک اہم اور عالمی مسئلہ ہے جس پر فوری اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں کرہ ارض کے ماحول کی حفاظت اور آنے والی نسلوں کے لیے پائیدار مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ ||
مضمون نگارانوائرمینٹل سائنسیز میں ایم فِل ہیں اور دو کتابوں کی مصنفہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے