سندھ کے ایک جانب کسی سخی کے دل کی طرح کشادہ صحرا ئے تھر اور دوسری جانب سمندر پھیلا ہوا ہے۔جو لوگ تاریخ سے نابلد محض مال و زر کی ہوس میں بھٹکتے پھرتے ہیں، میرا ذوقِ حیات ان سے الگ کائناتی شکستہ دروبام دیکھنا اور ناگفتہ داستانوں کو سننا ہے۔بیم و رجا کی کشمکش سے اٹی ہوئی اساطیری کہانیوں کو تصور میں لا کر اُن میں جینا ہے ۔یہی تڑپ مجھے راجھستان کے آخری سِرے پر ایستادہ قلعہ کوٹ ڈیجی تک لے گئی۔یہ قلعہ کسی عقاب کی نگاہ سے دیکھیں تو ایک بحری جہاز کی مانند صحرا میں تیرتا دکھائی دیتا ہے۔کوٹ ڈیجی اپنے تمدنی آثار کے لحاظ سے ہڑپائی تہذیب کے ہم پلہ ہے۔ابنِ حنیف کی تحقیق کے مطابق کوٹ ڈیجی سے ملنے والی مختلف اشیاء اور زیبائشی علامات کو ہڑپہ کے دور سے مشابہ قرار دیا جاتا ہے۔یہ برتن اور آلات تقریباً چار ہزار سال قبل مسیح کے لگتے ہیں۔
جغرافیائی مدوجزر سے تشکیل پاتی تاریخ کی راہداریاں کبھی کوٹ ڈیجی کو صحرا ئے راجھستان کا حصہ بنا دیتی تھیں جب اس قلعہ کی تعمیر میر سہراب خان نے 1785 ء سے 1795ء کے درمیان شروع کروائی۔ پھر 1843 ء کی سندھ کی فتح کے بعد یہ قلعہ صحرائے تھر کا حصہ بن گیا تھا۔یہ قلعہ خیر پور شہر سے20 کلو میٹر دور جنوب میں پرانے نیشنل ہائی وے پر واقع ہے۔یہ قلعہ دور سے ہی مینارِ بابل کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ اس کی دیواریں بھی دیوارِ چین سے مشابہ ہیں۔اس کامرکزی بڑا آہنی پھاٹک اپنے بدن پر کسی مفلس کے اندرونی زخموں کو پورے وجود پر لوہے کی میخوں کی صورت آویزاں کیے ہوئے ہے۔دیو ہیکل دروازہ جو کہ چوب دار بھی تھا ،لوہے کے طوق پہنے آج بھی کوئی داستان سناتا ہے۔اس قلعے کی دیوار پانچ کلومیٹر طویل اور 12 فٹ چوڑی ہے۔ یہ دیوار مٹی کے ساتھ پورے شہر کے گرد تعمیر کی گئی تھی۔ دیوار کے اوپر چند گز کے فاصلے پر برجیاں بھی تعمیر کی گئی تھیں تا کہ رات کے وقت دشمن پر نظر رکھی جا سکے۔یہ قلعہ تین حصوں میں منقسم ہے۔ان غلام گردشوں میں منجنیقیں بھی رکھی جاتی تھیں۔اس کے اندر چھوٹی توپیں بھی مختلف جگہوں پر فِٹ تھیں۔
نوید اسلم کی تحقیق کے مطابق سندھی زبان میں قلعہ کو ''کوٹ'' کہتے ہیں۔ چونکہ یہ قلعہ ڈیجی پہاڑی کی اُسی پرانی بستی پر بنایا گیا اس لیے یہ ''کوٹ ڈیجی'' کہلایا۔ ایک سروے کے مطابق اس قلعہ کی لمبائی پانچ ہزار فٹ، چوڑائی تین ہزار فٹ اور سطح زمین سے بلندی ستر فٹ ہے۔ اسے میر سہراب خان کے وزیرِ تعمیرات محمد صالح زہری بلوچ کی زیر نگرانی تعمیر کیا گیا اور اسے قلعہ احمدآباد کا نام دیا گیا۔ ہزاروں کاریگروں، مزدوروں اور ماہرین جو جیسلمیر اور جودھ پور سے آئے تھے، کی مدد سے اس قلعے کی تعمیر 26 برس میں مکمل ہوئی۔یہاں مزدور گندم کے عوض کام کیا کرتے تھے۔ اس کے اندر مختلف بُرج یا مینار ہیں۔ کوٹ ڈیجی قلعے کی تعمیر چونے کے پتھروں اور مقامی ساختہ اینٹوں کی مدد سے ہوئی۔ جس پہاڑی پر یہ قلعہ تعمیر ہوا اس کی لمبائی ایک سو دس فٹ ہے جس کے اوپر قلعے کی دیواریں مزید تیس فٹ بلند ہیں۔اس قلعے کے چاروں طرف فصیل اور پہاڑوں پر مورچے بنائے گئے تھے۔ قلعے میں بڑی بڑی توپیں ہیں جن میں تین خاص طور پر مشہور ہوئیں۔ ایک ''مریم توپ'' جسے شاہ پرتگال اپنے ساتھ لایا تھا اور اسے روہڑی کے قریب دریائے سندھ کے کنارے پر چھوڑ کرچلا گیا تھا۔ میر سہراب خان نے ہاتھیوں کے ذریعے اس توپ کو کوٹ ڈیجی پہنچا دیا۔ دوسری توپ ''صنعا صنعا'' اور تیسری ''ملک میدان'' کے نام سے مشہور تھیں۔
اِس قلعے کے آخری مقام تک پہنچنے کے لیے تین دروازوں کے دشت پار کرنے پڑتے تھے۔ان تینوں دروازوں کی مختلف پیمائش تھی۔پہلے دروازے کی چوڑائی دس فٹ جبکہ اونچائی پندرہ فٹ ہے اور اس کے گیٹ پرکیل بھی پیوست ہیں۔دوسرا دروازہ قدرے چھوٹا مگر نوکیلے کیلوں سے لیس ہے۔تیسرا دروازہ بھی کیلوں سے بھرا ہے۔اصل قلعہ اس کے اندر مغربی، وسطی اور شمالی حصہ میں منقسم ہے۔
قلعے کے مختلف برجوں کے بھی نام تھے۔ شمال مغرب میں شہید بادشاہ برج ہے جو کہ نیشنل ہائی وے کی طرف ہے جہاں سے شہید بادشاہ کا مزار اور ڈیجی کے قدیم آثار نظر آتے ہیں۔قلعے کے مشرق کی جانب برج کا رخ جیسلمیر کی طرف ہے۔ اس لیے اس کا نام بھی جیسلمیر برج رکھا گیا ہے۔اس قلعے کی غلام گردشوں میں کیسی کیسی کہانیاں ہیں جو انسانی سرشت کے راز ظاہر کرتی ہیں۔
شروع میں تو اس بستی کا نام احمد آباد ہی تھا لیکن جب خیرپور کے مِیروں نے قلعہ کوٹ ڈیجی کو اپنا دارالحکومت بنایا تو امیروں اور وزیروں کے محلات اور مکانات یہاں تعمیر ہونے شروع ہوئے۔ آس پاس کے رہنے والے لوگ سرکاری کام کاج کے لیے یہاں آنے لگے۔ جب ان سے کوئی پوچھتا کہ''کہاں جا رہے ہو؟ تو وہ جواب میں کہتے ''کوٹ ڈیجی''۔ یوں آہستہ آہستہ اس پوری بستی کا نام ہی ''کوٹ ڈیجی'' پڑ گیا۔ اس کے چوگرد فصیلیں سرخ رنگ کے پربتوں کی عکاس ہیں۔دھوپ اپنے پنکھ پھیلائے قلعہ کے سر پر سوار تھی اور میں اک سیلانی نیم تاریک اور میہب تیرگی سے پُرہول برآمدوں میں چہل قدمی میں مشغول کِسی شہزادی کی آمد کا نقارہ سن رہا تھا۔ اس قلعہ کا تختِ طائوس لکڑی کے تختوں پر بچھے نرم و گداز قالینوں پر مشتمل تھا۔جبکہ لکڑی کے پان دان پر پیتل کی نقش و نگار والی چادر رکھی ہوئی تھی جس پر دھوپ کی چمک پڑے تو سونے کا گماں ہوتا تھا۔مگر زمانے کی ستم ظریفی کے باعث اب ان چھتوں پر کبوتر اُڑتے ہیں اور کمروں کے اندر چمگادڑوں کی آوازیں آتی ہیں۔
اس دنیا کی بے ثبانی کو سوچتے ہوئے میں نے چند گھڑیاں اسی تخت پر گزاریں۔اس کے سنسان دریچے اور ویران سیڑھیاں مجھے رائیگانی کی خوفناک داستانیں سنا رہی تھیں۔تاریخ کی چیخیں صحرائی مفلس بنجارے کی مانند دم توڑ چکی تھیں۔فنا کا سناٹا ریگ زاروں میں اسرافیل کے صور پھونکے جانے کے بعد کا منظر پیش کر رہا تھا۔ لفظوں کی تاثیر دم توڑ چکی تھی۔دشت جو کبھی کسی سے دوستی نہیں کرتا میں اسی دشت سے ڈھیر ساری برکتیں سمیٹ چکا تھا۔
ڈی این اے ٹیکنالوجی ثوارثی سائنس کا جدید علم ہے۔جِسے گریگر مینڈل نے دریافت کیا۔اس کے مطابق حیاتیاتی خصوصیات ایک نسل سے دوسری میں منتقل ہوتی ہیں اور یہ خصوصیات ہر طرح کی پسند اور ناپسند سمیت محبت کے عمل سے گزرنے والی اکائیوں کو بھی منتقل کر دیتی ہیں۔جہاں تک سیلانیوں کے ڈی این اے کا سوال ہے تو کہیں اِن کا بھی باوا آدم ہوگا جو اِن کو قدیم عمارتوں اور فطری راہداریوں سے گزار کر مطلوبہ مقام تک پہنچاتا ہے۔ یہ لوگ اُن عمارتوں پر ہاتھ رکھتے ہی اس زمانے میں پہنچ جاتے ہیں جب اِن کی تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔مختلف انواع کی شرح کرنے میں مختلف لوگوں کا مزاج اور انداز الگ الگ ہوتا ہے۔آخر تاریخ بیان کرنے والے مورخ سپاٹ لہجوں میں صرف معلومات کے تناظر میں ہی اُن واقعات کو کیوں دیکھتے ہیں!۔وہ کیوں نہیں اُن جذبات اور انسانی احساسات کو قلم بند کرتے جواُس وقت بیت رہے ہوتے ہیں۔ایک ایسے محل کی تاریخ کو دیکھنے ہم چنیوٹ پہنچے جہاں ہم نے قطبی ستارہ کی چمک دیکھتے ہوئے انسانی سمندر کو پار کیا اور اس جزیرہ پر اترے جسے چنیوٹ کہتے ہیں۔
فیصل آباد کے شمال میں تقریباً پینتیس کلو میٹر دور دریائے چناب کے کنارے یہ شہر آباد ہے۔یہ روایت عام ہے کہ اس شہر کا نام ایک راجہ کی بیٹی چندن نے رکھا تھا۔لوگ اسے چندن اوٹ کہنے لگے یعنی چندن کا گھر۔پھر یہ چن نیوٹ سے چنیوٹ کہلایا جانے لگا۔تاریخی طور پر بہت اہم شہر ہونے کے ساتھ ساتھ اس شہر میں تعمیرات کا ایک میلہ سا لگا نظر آتا ہے۔کہیں تاریخی شاہی مسجد ہے تو کہیں سرائیں اور متعدد چکیاں ہیں۔تعزیہ سازی کے فن میں مشہور کاریگروں کی یہ بستی دنیا بھر میں مشہور ہے۔فنِ تعمیر کے علاوہ لکڑی کے کام کی اصل آماجگاہ چنیوٹ ہی ہے۔اس شہر کے باہری حصوں میں عمودی چٹانیں بھی ہیں جن پر انسانی شبیہ کا گمان ہوتا ہے۔کچھ لوگ ان شبیہوں کو گورکھ ناتھ کا استھان کہتے تھے۔
ہم عمر حیات محل کے سامنے دست بستہ کھڑے تھے۔رائیگانی کے 88 برس بیت چکے ہیں، نہ تو اِس محل کی دیواروں سے استاد الہٰی بخش پرجھہ کی تیسی، کانڈی، اور گرمالا کی تہذیبی رچاو سے گُندھے پلستر کرنے کی آوازیں ختم ہوئی ہیں نہ ہی اُن معماروں کی سوگوار آہٹیں جو داخلی دروازے کے ساتھ ہی زندگی کے اسٹوڈیو میں حیرتی تمثیل آویزاں کرتی ہیں۔نقش و نگار ایسا نیم سُرمئی ہے کہ مجھے اس کے چیخنے کی صدا تک آنے لگی تھی۔اگرچہ اس محل کا رعب کسی طور بھی خیر پور کے محلات سے کم نہیں تھا مگر ایک چیز مشترک تھی وہ بھی اُجڑ گئے تھے اور یہ محل بھی اپنی موت مر چکا ہے۔
سحر انگیز زندگی کے تصور میں ڈوبے شیخ عمر حیات نے 1923 ء میں اپنے لخت جگر گلزار حیات کے لیے یہ محل بڑی محبت سے بنوایا۔برما کی خم دار لکڑی سے بنے دروازوں، کھڑکیوں اور جھروکوں کی قطاروں سے خوشیوں کے مہتاب نکلتے دِکھائی دیتے تھے۔دوسری طرف بالکونی، چھتوں، ٹیرس اور سیڑھیوں پر لکڑی کے کام نے گویا باغِ بابل کی سی حیرت گری کا سماں باندھا ہوا تھا۔اس کے چبوترے اور جھروکے آج بھی دلکش لگتے ہیں۔اٹلی سے منگوائے گئے دروازوں پر جڑے شیشے اور جاپان کی ٹائلوں کا فسوں آج بھی باقی ہے۔یہ کسی قدیم کلیسا کی مانند بارُعب لگتا ہے۔چودہ مرلوں پر محیط یہ محل تہہ خانوں سمیت بلند و بالا پانچ منزلوں پر مشتمل تھا۔جو مسلمانانِ چنیوٹ نے بے پردگی کے نعرے لگاتے ہوئے اپنی ایمانی تیغ سے دو منزلوں کو جہنم واصل کِیا۔باقی حصوں کی حالت قدرے خستہ ہے۔چبوترے دم سادھے پڑے ہیں اور سیڑھیاں چپ چاپ ایک کونے میں خوف سے سِمٹی ہوئی ہیں۔اس محل کی چھت سے شہر کے مندروں اور گوردوارہ کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ایک طرف شہر کے وسط میں ابدی سنگِ سُرخ سے گِھری شاہی مسجد بھی ہے۔جو ساڑھے تین سے زائد صدیوں پہلے شاہ جہاں کے وزیر اعظم نواب سعد اللہ خان نے1656ء میں تعمیر کروائی تھی۔جس کے لیے دہلی کی بادشاہی مسجد کا ڈئزاین نقل کر کے یہاں بھی استعمال کیا گیا تھا۔کیونکہ لال قلعہ اور جامع مسجد دہلی دونوں سعد اللہ خان کی زیر نگرانی تعمیر ہوئی تھیں۔سعد اللہ خان کو خواب میں حضرت برہان کی زیارت ہوئی جنہوں نے اس مسجد کو تعمیر کروانے کا حکم دیا۔اس مسجد کے ایوان کا سنگی ستونوں پر ایستادہ ہونا،مسجد کے صدر دروازوں کی بناوٹ، محرابوں کی زینت، دیدہ زیب سنگی سیڑھیاں، چاروں کونوں میں میناری گلدستے اور دیواروں پر محرابوں اور گنبدوں کی دلکش بناوٹ، چھتوں پر نقش نگاری اور مربع نما حوض جو صحن کے مرکز میں موجود ہے۔ یہ سب تعمیرات کی خوبصورتی مغل دور کی عظیم تعمیراتی شہکار کا نمونہ ہے۔
عمر حیات نے اِس محل کی تکمیل سے دو برس پہلے اس دنیا فانی سے کوچ کِیا۔ 1937 ء میں اِس محل کے فانوس روشن ہوتے ہی گلزار حیات کی شادی خانہ آبادی کے بگل بجنے لگے ۔اس شادی خانہ آبادی کی عمر صرف ایک رات ہی تھی یعنی سہاگ رات۔بلند بخت محل ایک ہی جھٹکے میں نحوست کی علامت بن گیا۔گلزار کی زوجہ نفسیاتی مریض بن کر وقت کی گرد میں گمنام ہو گئی اور اکلوتے بیٹے کی لاش سے لِپٹ کر رونے والی ماں بھی کچھ وقت کے بعد چل بسی۔یوں دونوں ماں اور بیٹے کی قبر اسی محل کے اندر بنا دی گئی۔کروڑوں روپے کی لاگت سے بننے والا یہ محل زبوں حالی کا استعارہ ہے جس میں بس ایک لائبریری ،چند کتابیں ،دھول مٹی اور ڈھیر ساری رائیگانی۔ ||
مضموں نگار، شاعراور سفرانچہ نگاراور دو کتابوں کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے