پہاڑی ٹیلوں کے درمیان بل کھاتا راستہ منفرد منظر پیش کر رہا تھا۔ گلابی اور زردی مائل ٹیلے آہستہ آہستہ ختم ہوئے، توسامنے سمندر کے نیلے پانی پر نگاہ پڑی،جسے دیکھ کرہم اپنی تھکاوٹ بھول گئے۔ دراصل ہم موٹر سائیکل پر 65 کلو میٹر کا سفر طے کرکے منزل پر پہنچے تھے۔ ایک مقامی ماہی گیر ہماری طرف بڑھا۔ سلام مسنون کے بعد معلوم ہوا کہ ہم سنہرا بیچ، جو ہماری منزل تھی، کے بجائے ماہی گیروں کی بستی منجھار گوٹھ میں داخل ہوگئے ہیں۔ پہاڑوں کی اوٹ میں واقع منجھار گوٹھ پاکستان کے خوب صورت ساحلوں میں سے ایک ہے۔ اس مقام پر برساتی دریائے حب سمندر میں اپنا وجود کھو دیتا ہے۔ یہ سندھ اور بلوچستان کی سرحد بھی ہے۔ دریائے حب کے اس پار بلوچستان ہے ، جب کہ اِ س طرف سندھ ہے اور ہم سندھ کے آخری خشک حصے پر موجود تھے۔سامنے بحیرہ عرب کا مسحور کن منظر ہم پر سحر طاری کررہا تھا۔
جس طرح پاکستان میں پہاڑ، وادیاں، میدان اور ریگستان ہیں، اسی طرح ساحلی پٹی میں بھی یہ تمام رنگ نمایاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو طویل ساحل سے نوازا ہے۔ ایک ہزار کلومیٹر سے زائد پاکستان کی کوسٹل لائن مغرب میں ایران کی سرحد سے شروع ہوکر مشرق میں انڈیا کی سرحد پر ختم ہوتی ہے۔پاکستان کے ساحلوں پر میدان بھی ہیں اور پہاڑ بھی، کھاڑیاں(Creeks) بھی ہیں اور جنگلات بھی۔بلوچستان کی کوسٹل لائن پر زیادہ تر پہاڑ ی ٹیلے ہیں، جن کے ساتھ سمندر کی لہریں ٹکراتی ہیں۔ جب کہ سندھ کی کوسٹل لائن پر زیادہ تر میدان، کھاڑیاں اور مینگروز کے جنگلات ہیں۔ ہر ساحل دوسرے سے مختلف ہے۔اگرچہ پاکستان میں شہری موسم گرما میں ساحل کا رخ کرتے ہیں کیونکہ اس موسم میں سمندر کی لہریں بلند ہوتی ہیں۔ تاہم میں ساحلی مقامات کی سیاحت موسم سرما میں پسند کرتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساحل پر شہریوں کی آمدورفت کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ساحل صاف رہتے ہیں۔ نمبر دو یہ کہ سمندر کی لہریں مدھم ہوتی ہیں، طغیانی کا خطرہ نہیں ہوتا، جس کے سبب ساحل پر موجود وہ مقامات جو موسم گرما میں نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں، پانی اترنے پر ان کا بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
منجھار گوٹھ محل و قوع کے لحاظ سے سندھ کا آخری گوٹھ ہے۔ یہ ایک ایسے مقام پر واقع ہے جس کے سامنے بلوچستان ہے۔ اس گوٹھ سے حب پاور پلانٹ صاف نظر آتا ہے۔ شہر سے دور ہونے کی وجہ سے یہ ایک صاف ستھرا ساحل ہے۔ گوٹھ سے کچھ فاصلے پر واقع پکنک پوائنٹ کو'' سنہرا بیچ ''کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شاید اس ساحل کی شفافیت کی وجہ سے یہ نام پڑا ہو۔ تاہم مقامی ماہی گیروں نے بتایا کہ اس مقام پر سمندر کے کنارے واقع پہاڑ کو سنہری منجھار کہا جاتا ہے۔ پہاڑ کے دوسری طرف مقامی بندرگاہ بھی ہے۔ جہاں اس موقع پر پچاس کے لگ بھگ چھوٹی بڑی کشتیاں لنگر انداز تھیں۔ مقامی ماہی گیر اس مقام سے گہرے سمندر کا سفر کرتے ہیں اور واپسی پر جو مچھلی لے کر آتے ہیں، وہ وہاں سے کراچی فشری کے لیے روانہ کردیتے ہیں۔ وہاں چند ڈپو بھی واقع ہیں، جہاں دوپہر تک تازہ مچھلی مل جاتی ہے۔مچھلی کے شکار کے شوقین شہری بھی سنہرا بیچ کی بندرگاہ کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں اس موقع پر سو سے زائد چھوٹی بڑی گاڑیاں موجود تھیں، جن میں آنے والے افراد بندرگاہ سے کشتیوں میں بیٹھ کر گہرے سمندر کی جانب شکار کی غرض سے گئے ہوئے تھے۔
مقامی ماہی گیروں نے بتایا کہ مون سون میں شدید بارشوں کے بعد حب ڈیم بھر گیا، تو برساتی پانی کے ریلے حب ندی کے ذریعے سنہرا کے مقام پر سمندر میں شامل ہورہے تھے۔ ان دنوں یہاں کا پانی میٹھا ہوگیا تھا اور پانی کی سطح بھی بلند ہوگئی تھی۔ گویا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں برسات کے میٹھے اور سمندر کے کھارے پانی کا ملاپ ہوتا ہے۔ منجھار گوٹھ چوں کہ سمندر کے عین کنارے پر واقع ہے اس لیے پانی کی سطح بلند ہونے پر وہاں خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ماہی گیروں نے بتایا کہ حب ندی کے راستے جب سیلابی ریلے سمندر میں شامل ہو رہے تھے اورپانی کی سطح بلند ہوئی، تو ان دنوں ہم اپنے گھروں سے نقل مکانی کرکے پہاڑ کی بلندی پر عارضی طور پر مقیم ہوگئے تھے۔
منجھار گوٹھ کے رہائشی ماہی گیر حاجی داد نے بتایا کہ وہ پچپن سال کے ہیں، ان کی زندگی اسی گوٹھ میں گزری ہے۔ان کے آباؤ اجداد بھی اس گوٹھ کے رہائشی تھے۔ ماہی گیری ان کے گزر بسر کا ذریعہ ہے۔ روزگار کا یہ سلسلہ وہاں جدی پشتی چلا آ رہا ہے۔قریباً سو گھرانوں پر مشتمل منجھار گوٹھ کے رہائشی شہر سے بہت مختلف زندگی گزارتے ہیں۔ وہاں کچے پکے گھر ہیں، مسجد اور قبرستان۔ اس گوٹھ میں سکول کی عمارت نظر نہیں آئی۔ بچے سمندر کے کنارے کھلونا کشتی بناکر کھیل رہے تھے، ان کا مستقبل لامحالہ طور پر ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ نظر آ رہا تھا۔
حاجی داد گئے وقتوں کی روداد بیان کر رہے تھے کہ آج سے بیس پچیس سال قبل وہ اپنی والدہ کے ہمراہ بحری راستے سے حج کی سعادت حاصل کرنے بیت اللہ گئے تھے۔ سات دن کے بحری سفر کا دو طرفہ کرایہ پچیس ہزار تھا۔ اب اتنی رقم میں گھر کا ماہانہ راشن بھی پورا نہیں ہوتا۔ منجھار گوٹھ میں سہولیات زندگی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ کچی پکی سڑکیں اور بجلی کی لائنیں بچھی ہوئی ہیں، تاہم بجلی غائب رہتی ہے۔ چولہے کے لیے لکڑی یا گیس سلنڈر استعمال کیا جاتا ہے۔سودا سلف کے لیے گوٹھ کے رہائشی ماڑی پور جاتے ہیں، جو اس مقام سے قریباً 20 کلو میٹر دور ہے۔ پینے کے پانی کے لیے تالاب بنا رکھے ہیں، برسات میں پانی جمع ہوجاتا ہے یا پھر ٹینکر کے ذریعے پانی منگواتے ہیں۔ مشکلات کے باوجود وہ ان کے اہل خانہ زندگی کے شب و روز صبر و شکر کے ساتھ گزار رہے ہیں۔
منجھار گوٹھ کے پہاڑوں سے سمندر کا نظارہ انتہائی دل فریب ہے۔ اس مقام سے سمندر کے درمیان واقع چرنا جزیرہ(Charna Island) بھی نظر آتا ہے۔ چرنا ایک پہاڑ ہے جو سمندر کے درمیان موجود ہے۔ اس جزیرے تک پہنچنے کے لیے مبارک ویلج اور سنہرا بیچ کی بندرگاہوں سے کشتی کے ذریعے جایا جاسکتا ہے۔ سنہرا بیچ سے چرنا جزیرہ تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ چوں کہ اس مقام پر پہاڑی ٹیلے ہیں، زیر سمندر بھی چٹانیں موجود ہیں، جہاں مچھلیوں کی افزائش بہتر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیزن میں مچھلی کا شکار بھی یہاں بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ زیادہ تر ماہی گیر رات کے اندھیرے میں وہاں شکار کرتے ہیں۔ ماہی گیروں کے مطابق غروب آفتاب سے طلوع آفتاب تک مچھلی وافر ملتی ہے۔ تاہم موسم گرما میں بالخصوص جون، جولائی، اگست میں سمندر میں طغیانی کی وجہ سے ماہی گیر گہرے سمندر کا رخ نہیں کرتے اور اپنی کشتیاں کناروں پر لنگر انداز کردیتے ہیں۔
منجھار گوٹھ اور قرب و جوار کی ساحلی پٹی قدرت کے حسین مناظر سے بھری پڑی ہے۔ گوٹھ کے قریب سمندر کے کنارے سفید رنگ کا پہاڑ ہے۔ بعض جگہوں پر پہاڑ کی کٹائی نہایت دل کش منظر پیش کرتی ہے۔ ایک پہاڑی ٹکڑا درمیان سے گولائی میں کٹا ہواہے۔ دوسری جانب بعض بڑے پتھر پانی کے درمیان اس طرح موجود ہیں، گویا کہ چھوٹے چھوٹے جزیرے ہوں۔ وہاں پانی اس قدر صاف ہے کہ سمندر میں موجود پتھر واضح دکھائی دیتے ہیں۔سمندر کے کنارے موجود چٹانوں کے ساتھ ٹکراتی لہریں دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ دیتی ہیں۔
جس طرح منجھار گوٹھ کا ساحل خوب صورت ہے اور ہر شخص کو خوش آمدید کہتا ہے، ویسے ہی وہاں کے رہائشی ماہی گیر بھی پرامن اور مہمان نواز ہیں اگرچہ وہ مفلسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
وہاں چند لمحے ٹھہرنے اور مقامی ماہی گیروں سے گفتگو کرنے پر احساس ہوا کہ منجھار گوٹھ اور قرب و جوار کے مکین محنت کش لوگ ہیں۔ سمندر میں روزی تلاش کرتے ہیں۔ جدی پشتی ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کی آئندہ نسل بھی یقینی طور پر ماہی گیری کی طرف راغب ہوگی کیونکہ ان کی پرورش ہی اس ماحول میں ہورہی ہے۔ مچھلی کا شکارکرنامعیوب بات نہیں۔ تاہم نئی نسل کی تعلیم و تربیت سے دوری ایک المیہ ضرور ہے۔ بچے دن بھر فارغ گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ اس طرح کے مقامات پر بہتر ماحول نہ ملنے کی وجہ سے منشیات کا استعمال بھی عام ہوتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی سطح پر وہاں تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام کیا جائے۔تعلیمی، فنی و تربیتی اداروں کی ضرورت اس نوعیت کے علاقوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ خواتین اور بچیوں کو بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف نوعیت کی گھریلو صنعت کا ہنر سکھایا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ منجھار گوٹھ بحیرہ عرب کے کنارے سندھ کا آخری گوٹھ ضرور ہے، لیکن وہاں کے مکین ہماری ترجیحات کی فہرست میں آخری نمبر پر نہیں ہونے چاہئیں۔ ||
مضمون نگار مصنف، محقق اور صحافی ہیں، جامعہ کراچی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
[email protected]
تبصرے