اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 15:52
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد
Advertisements

کرنل شاہد آفتاب ریٹائرڈ

Advertisements

ہلال اردو

بوسنیاہرزیگووینا

جون 2023

برف باری پچھلے پندرہ دنوں سے جاری تھی اور سیاچن کے محاذ پر ہمارے سب سے اگلے مورچے یعنی سیڈل پوسٹ پردرجہ حرارت منفی پچاس سے بھی نیچے گرچکا تھا۔ کھانا پکانے اور اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لیے جان سے زیادہ عزیز مٹی کے تیل کا ذخیرہ اپنے خاتمے کے قریب تھا۔ صبح کے وقت مجھے موسم میں بہتری کے آثار نظر آئے۔ نماز کے بعد میں نے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ میجر آصف کمال سے رابطہ کیا، وہ بھی کئی دنوں سے سیڈل پوسٹ کو سامان کی ترسیل کے لیے موسم میں بہتری کے منتظر تھے۔ موسم کی پیش گوئی وغیرہ کو سامنے رکھ کر ہم نے صبح آٹھ بجے روانگی طے کرلی۔ سکردو ہیلی پیڈ سے ہم نے لامہ ہیلی کاپٹروں کے ساتھ اڑان بھری۔ ایک ہیلی کاپٹر  میں اور میجر آصف افتخار اڑا رہے تھے۔اشکولے کراس کرتے ہی ہمیں پچو پیک نظر آئی جو اس بات کا ثبوت تھا کہ موسم کافی بہتر ہے۔ تھوڑا آگے بڑھے اور برالدو دریاکو کراس کرکے ہم بلتورو گلیشیئر کے اوپر پرواز کرنے لگے۔ ٹرینگو ٹاورز ہمارے بائیں جانب جبکہ مشہ بروم چوٹی ہمارے دائیں جانب تھی۔سامنے براڈ پیک بھی بالکل صاف نظر آرہی تھی۔ جس کے دائیں جانب گاشابروم کی چوٹیاں آسمان سے باتیں کررہی تھیں ہم کنکوڈیا کی طرف بڑھے تاکہ موسم کا درست اندازہ ہوسکے۔ یہاں سے بائیں جانب کے ٹو کی چوٹی جس کو مقامی زبان میں شاہ گورے بھی کہتے ہیں تازہ برفوں میں نکھری ہوئی نظر آئی۔ ہم کے ٹو کا سارا پہاڑ واضح طور پر دیکھ رہے تھے۔ یہ ایک منفرد نظارہ تھا کیونکہ کے ٹو اکثر بادلوں میں گھرا  رہتا ہے اس کے ساتھ اینجلز پیک بھی سر سے پائوں تک سفید لباس اوڑھے پاکیزگی کا تاثر دے رہی تھی۔برف پوش اور فلک شگاف چوٹیوں کا عجیب طلسم کدہ تھا۔ 



شہر کے نواح میں ہم ٹریفک کے ایک اشارے پر رُکے تو میری بائیں جانب مارکیٹ سے ایک شخص برآمد ہوا، آکرمجھے السلام علیکم کہا اور میرے یونیفارم پر لکھے ہوئے پاکستان کے الفاظ کو چوما اور تقریباً منت کرتے ہوئے مجھے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ مسلمان ہے اور قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تعلیم یافتہ ہے۔ یہ سب کچھ بہت غیر متوقع تھا۔


 


مونا لیزا سے بھی خوبصورت چوغولزہ کی چوٹی ابھی تک بادلوں میں گھری ہوئی محوِخواب تھی۔ موسم کو مناسب جان کر میں گورے دن پر رک گیا تاکہ سارے آپریشن کو دیکھ سکوں جبکہ پائلٹ سیڈل پوسٹ پر سامان کی فراہمی میں مصروف ہوگئے۔ دن ڈھلے جب ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا تو بادل پھر سے چوٹیوں پر جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ مشہ بروم کی چوٹی پر لگتا تھا کوئی فیکٹری کام کررہی ہے جو بادل بنا کر فضا میں بکھیر رہی ہے۔ یوں لگتا تھا برف باری پھر سے شروع ہونے والی ہے۔ لیکن آج ہم نے اتنا سامان سیڈل پوسٹ پر پہنچا دیا تھا جو اگلے بیس دن کے لیے کافی تھا۔
ہیلی کاپٹر جب سکردو بیس پر اترے تو اندھیرا چھا رہا تھا اور مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں۔ میں ہیلی کاپٹر سے اتر کر جیپ میں بیٹھاتو ڈرائیور نے مجھے ایک خاکی لفافہ تھما دیا۔ میںنے اسے کھولا تو اس میں مجھے تین دن کے اندر اندر جی ایچ کیو پہنچ کر بوسنیا روانگی کا حکم دیاگیاتھا۔ وہاں مجھےUNPROFOR یعنی اقوامِ متحدہ کے امن مشن کا حصہ بننا تھا۔ تین دن میں میں نے بمشکل اپنا کام ایک دوسرے افسر کے سپرد کیا اورراولپنڈی روانہ ہوگیا۔ جی ایچ کیو میں بریفنگ کے بعد مجھے لاہور بھیج دیاگیا جہاں پاکستانی دستہ جمع ہورہا تھا۔ 
چند دن میں بوسنیا جانے والا دستہ روانگی کے لیے تیار ہوگیا۔ روانگی لاہور کے پرانے ایئرپورٹ کے حج ٹرمینیل سے ہونا تھی۔ پاکستانی دستہ نئی کیموفلاج وردیوں میں ملبوس UN کی نیلی ٹوپیاں پہنے قطاروں میں کھڑا تھا۔ افسر آئندہ پیش آنے والے خطرات اور مسائل کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ کیونکہ بوسنیا میں جنگ جاری تھی اس لیے خطرات کی نوعیت اور بھی سنگین تھی۔ اگست کے مہینے کا حبس سانس روک رہا تھا جبکہ نئے یونیفارم نے ہوا کا راستہ بھی روک رکھا تھا۔ ماتھے پسینے سے تر تھے اور دستے کے کمانڈر کی آمد کا انتظار تھا۔تھوڑی ہی دیر میں انہوںنے آکر مختصرخطاب کیا اور ہمیں ہماری ذمہ داریوں اور احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا۔
اتحاد ایئرلائنز کا طیارہ روانگی کے لیے تیار تھا۔ تمام لوگ ترتیب سے جہاز میں سوار ہونے لگے۔سب لوگ اپنی اپنی نشستوں پر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ گئے تو جہاز کی روانگی کا اعلان ہوا۔ مجھے کھڑکی کے ساتھ والی نشست مل گئی۔ جہاز کے اندر ماحول خوشگوار تھا جبکہ باہر دو پہر کا عمل تھا۔ دھوپ چمک رہی تھی اور الوداع کہنے والے لوگ اپنے چہروں سے پسینہ پونچھ رہے تھے۔ جہاز نے آہستہ آہستہ دوڑنا شروع کیا اور پھر فضا میں بلند ہوگیا۔ جہاز میں سوار اکثر لوگ پہلی دفعہ اپنے وطن سے جدا ہو کر اَن دیکھی زمینوں کی طرف محوِ پرواز تھے۔


یہ پہلا موقع تھا کہ میں جنگ زدہ علاقے میں جارہا تھا۔ میرے ساتھ امدادی سامان سے لدے تیس ٹرک تھے۔ اتنے بڑے قافلے کو اور اس میں موجود قیمتی سامان کو اس کی منزل پر پہچانا بہت بڑی ذمہ داری تھی۔ ہماری گاڑیاں جدید مواصلاتی نظام اور جی پی ایس سسٹم سے لیس تھیں جس کی وجہ سے قافلہ کمانڈر کا نہ صرف ہر گاڑی کے ساتھ رابطہ تھا بلکہ راستے میں آنے والی رکاوٹوں کا بھی پہلے سے ہی علم ہو جاتا تھا۔ ہمارا قافلہ صبح سویرے کیمپ ڈولا سے روانہ ہوا تو ڈوبراونک سے نکل کر ہم بوسنیا میں داخل ہوئے۔


موقع پا تے ہی اداسی سارے جہاز پر حملہ آور ہوگئی۔جہاز اب پوری بلندی حاصل کرکے سیدھااڑنے لگا۔سیٹ بیلٹ کھلنے کے بعد ماحول آرام دہ ہوگیا اور لوگ خوش گپیوں میں مشغول ہوگئے۔ تقریباً چھ گھنٹے کی پرواز کے بعد ہمارا جہاز استنبول میں ایندھن لینے کے لیے اُترا۔ یہاں سے مزید پانچ گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم کروشیا کے شہر سپلٹ کے ایئر پورٹ پر اُتر گئے۔ اقوام متحدہ کے نمائندے ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ صاف ستھرے ایئر پورٹ  اور خوشگوار موسم نے سفر کی تھکن دور کردی۔ ہوا میں سمندر کی مہک رچی ہوئی تھی۔ سامان کلیئر کرواکے ہمیں UN کی مہیا کردہ گاڑیوں میں ہوٹل لے جایاگیا۔ میں چونکہ ہیڈکوارٹر کا حصہ تھا اس لیے مجھے سمندر کے کنارے ایک علیحدہ خوبصورت اور آرام دہ اپارٹمنٹ دے دیاگیا۔ میں نے سامان رکھا، نہا دھو کر کھاناکھایااور ایک لمبی نیند کے لیے بستر پر دراز ہوگیا۔
بوسنیا ہرزیگووینا1463 عیسوی میں سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ بنا۔ مسلمانوں کی روایات اور کلچرنے جب یہاں اپنی جڑیں پکڑلیں تو دوسرے علاقوںکے مسلمان بھی یہاں آکر بسنے لگے۔آگے چل کر ایک مسلمان اشرافیہ یہاں حکمرانی کرنے لگی۔اس علاقے میں سلاوو،  ہنگیرین،سرب روسی، کروٹ اور سلوینیین لوگوں کی دلچسپی موجود تھی۔ پہلی جنگی عظیم کی شروعات بھی انہی علاقوں سے ہوئیں۔1918 عیسوی میں ایک نئی کروٹ سلوینیین  بادشاہت نے اس علاقے کو اندر شامل کرلیا۔ اسی دوران سلطنت عثمانیہ کی سرحدیں سکڑتی جارہی تھیں۔1929 میں اس بادشاہت کویوگو سلاویہ کا نام دیاگیا۔1991  میں بوسنیا ہرزیگوینا نے یوگو سلاویہ سے آزادی کا اعلان کردیا۔ یہاں مسلمان تعداد میں44فیصد ، سرب31فیصد جبکہ کروٹ17 فیصدتھے۔ انہی نسلی اور مذہبی اختلافات کی وجہ سے یہاں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ جلد ہیNATOاورUNنے دخل اندازی کرتے ہوئے جنگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں شروع کردیں اور بوسنیاہرزیگووینامیں امن مشن UNPROFOR  تعینات کردیا۔ میں بھی اسی امن مشن کا حصہ بننے یہاں آیا تھا۔
 فی الحال ہمارا قیام کروشیا کے شہرسپلٹ میں تھا اور یہاں زندگی معمول کے مطابق رواں تھی سوائے یہ کہ یہاں UN کے مختلف دفاتر تھے خصوصاً لاجسٹکس سے متعلق سب کچھ یہیں سے وقوع پذیر ہوتا تھا۔ اگلے دن مجھے میری ذمہ داریوں کے بارے میں بتایاگیا۔ یہاں بہت سے نئے اور دلچسپ کرداروں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں آسٹریلیا کے ریٹائر میجر جانسن اور برطانیہ کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل جوزف بھی تھے۔ یہ دونوں حضرات اپنی ذمہ داریوںکے علاوہ کرکٹ میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ بندر گاہ پر ایک مصروف دن گزار کر میں واپس اپنے اپارٹمنٹ میں آگیا۔
اگلے دن میں گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ پاکستانی دستے کے ہیڈکوارٹر کیمپ ڈولاکے لیے روانہ ہوا۔ سڑک کے ایک جانب آڈر یاٹک سمندر جبکہ دوسری طرف پہاڑی سلسلہ تھا۔ اس ساحل کو ڈالمیشین کوسٹ بھی کہتے ہیں کیونکہ ایک زمانے میں اس علاقے کو ڈالمیشیا کہا جاتا تھا۔ شہر کے نواح میں ہم ٹریفک کے ایک اشارے پر رُکے تو میری بائیں جانب مارکیٹ سے ایک شخص برآمد ہوا، آکرمجھے السلام علیکم کہا اور میرے یونیفارم پر لکھے ہوئے پاکستان کے الفاظ کو چوما اور تقریباً منت کرتے ہوئے مجھے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ مسلمان ہے اور قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تعلیم یافتہ ہے۔ یہ سب کچھ بہت غیر متوقع تھا۔ میںنے قافلے کو چلتے رہنے کا حکم دیا اور خود اس شخص کے ساتھ اس کے آئس کریم پارلر چلاآیا۔ اس نے بہت مزیدار آئسکریم کھلائی اور اپنا نام عامر بتایا۔ وہ مجھ سے پاکستان اور وہاں گزرے ہوئے دنوں کی باتیں کرنے لگا۔ میںنے بمشکل جانے کی اجازت لی اور قافلے کے ساتھ ملنے کے لیے روانہ ہوا۔ شہرسے نکل کر سڑک ساحل کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔
پاکستانی دستے کے ہیڈکوارٹر کا پڑائو ایک نہایت خوبصورت بیچ پر زیتون کے جنگل میں واقع تھا۔ ہمارے رہنے کے لیے فی الحال تو خیمے تھے لیکن کھانے پینے کے لیے ایک عمدہ عمارت میں مکمل ریسٹورنٹ موجود تھا۔ اچھے زمانوں میں یہ جگہ سیاحوں سے بھری رہتی ہوگی۔
مجھے میس میں لے جایا گیا جہاں بہت ہی شاندار لوگوں سے ملاقات ہونے والی تھی۔ میجر عرفان رانا ، میجر ریاض اور میجر نوید استقبال کے لیے موجود تھے۔ یہ سب لوگ مختلف یونٹس اور مختلف جگہوں سے آئے تھے۔ ہم سب نے مل کر پاکستانی دستے کے مختلف کاموں کو سنبھالنا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم گھل مل گئے۔ ہمارے علاوہ اس کیمپنگ میں ناروے، ملائیشیااور ترکی کی فوجی یونٹیںبھی موجود تھیں۔ ہماری یونٹس کے دو گروپ واریش اور تزلہ کے علاقوں میں قیام امن کے فرائض انجام دے رہے تھے۔


ایک لمبا تڑنگا شخص سفید کرتا پاجامہ پہنے اور سرپر عمامہ باندھے ہوئے تھا۔جس کا ایک لمبا حصہ سر کی پچھلی جانب  لٹک رہا تھا۔  ہ شخص اپنے حلیے کی وجہ سے سب سے مختلف نظر آرہا تھا۔ ہماری گاڑی جب اس کے قریب سے گزری اور میں نے مڑکر دیکھا تو وہ شخص شکل و صورت سے کوئی عرب معلوم ہوا۔ سفید اور سیاہ لمبی داڑھی اس کے چہرے پر بھلی لگ رہی تھی۔ ماحول سے یکسر مختلف ہونے کی وجہ سے یہ چہرہ میری یادداشت میں محفوظ رہ گیا۔ اس وقت دنیا بھر کے مسلمان نوجوان جہاد میں حصہ لینے کے لیے یہاں موجود تھے میں نے اس شخص کو بھی انہی جہادیوں میں سے ایک خیال کیا۔

بہت مدت بعد جب11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر حملے ہوئے اور میں گلگت میں اپنے گھر بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا جس میں اُسامہ بن لادن کو ان حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا تھا اس خبر کے ساتھ اس کی تصویر بھی سکرین پر نمودار ہوئی تو مجھے لگا کہ میں نے اس شخص کو کہیں دیکھا ہے۔ ذہن پر زور دیا تومجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی شخص ہے جسے میں نے دریائے ساوا کے کنارے گراڈسکا کے قصبے میں دیکھا تھا۔


کیمپ کا انتظام سنبھالنے کے لیے مسٹر جان مارک جن کا تعلق فلپائن سے تھا اور ان کی مدد کے لیے ہردل عزیز مسٹر راڑو اور مس میری بھی موجود تھیں۔ کیمپ کے ریسٹورنٹ میں ہائی سکول کے لڑکے اور لڑکیاں جزوقتی کام کے لیے آتے رہتے تھے۔ یہ سب لوگ مل کر اس کیمپ کو نہایت اچھے طریقے سے چلا رہے تھے۔ یہاں ہم نے اپنا آپریشن روم بھی قائم کر رکھاتھا جس کا رابطہ پاکستان میں جی ایچ کیو ، زیغرب میں یواین ہیڈکوارٹراور ہماری اپنی یونٹس کے ساتھ تھا۔ یہاں ہر طرح کی معلومات موصول ہونے کے بعد ان کو نقشے کی مدد سے واضح کرکے صورت حال پر ان کے اثرات سے جو نتائج مرتب ہوتے تھے، ان کے مطابق اپنا لائحہ عمل تیار کیا جاتا تھا۔
ساری دنیا سے آنے والے امدادی سامان کی گاڑیاں ہمارے کیمپ میں جمع ہوتی تھیں جہاں سے انہیں ایک قافلے کی صورت میں بوسنیا بھیجا جاتا۔ان گاڑیوں میں دنیا کی مختلف تنظیموں کی جانب سے بھیجی گئی امداد  ہوتی تھی اس کے علاوہ کچھ لوگ خاص طور پر ٹرک چلانے والے اپنی جیب سے پورا ٹرک امدادی سامان سے بھر کر خود آجاتے۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے جو کبھی پاکستان جاچکے تھے۔ یہ لوگ ہم سے خصوصی طور پر ملنے آتے اور پاکستان کی باتیں کرتے جو ہمیں بہت اچھا لگتا۔ یہ حضرات ہم سے کڑاہی گوشت اور پراٹھوں کی بھی فرمائش کرتے۔
ایسے ہی ایک امدادی قافلے کو لے کر میں روانہ ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں جنگ زدہ علاقے میں جارہا تھا۔ میرے ساتھ امدادی سامان سے لدے تیس ٹرک تھے۔ اتنے بڑے قافلے کو اور اس میں موجود قیمتی سامان کو اس کی منزل پر پہچانا بہت بڑی ذمہ داری تھی۔ ہماری گاڑیاں جدید مواصلاتی نظام اور جی پی ایس سسٹم سے لیس تھیں جس کی وجہ سے قافلہ کمانڈر کا نہ صرف ہر گاڑی کے ساتھ رابطہ تھا بلکہ راستے میں آنے والی رکاوٹوں کا بھی پہلے سے ہی علم ہو جاتا تھا۔ ہمارا قافلہ صبح سویرے کیمپ ڈولا سے روانہ ہوا تو ڈوبراونک سے نکل کر ہم بوسنیا میں داخل ہوئے۔ چیک پوسٹ پر موجود لوگوں نے ہم سے ضروری سوالات کیے اور پھرہمیں جانے کی اجازت دے دی۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد دریائے نرتوا ہمارے بائیں جانب بہنے لگا اور ہم ایک ہموار شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے موستار پہنچ گئے۔ پہلی جنگِ عظیم کا آغاز بھی موستار کے شہر کے ساتھ بہنے والے دریا پر قائم پل کے اوپرایک قتل سے ہوا تھا۔ جوں جوں ہم آگے بڑھتے رہے، جنگ کی ہولناکیاں ہمارے سامنے آنا شروع ہوگئیں۔
موستار کے نواحی علاقوں میں بربادی اورویرانیوں کا راج تھا۔ ایک مسجد اپنے مینار سمیت زمین بوس ہوچکی تھی اور اس کی موجودہ دیوار پر اتنی گولیاں پیوست ہو چکی تھیں جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ جنگ سے زیادہ نفرت کا کرشمہ تھا۔ اسی راستے میں چرچ بھی اس حالت میں ملے کہ ان کے مینار  نفرت اور تعصب  کے آگے سرنگوں ہو چکے تھے۔ ہم نے کچھ سامان گراڈسکا کے قصبے کی مسجد میں امام کے حوالے کرنا تھا۔ ہم دریائے ساوا کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے قصبے میں داخل ہوئے تو زیادہ تر عمارتیں جنگ کی نذر ہو چکی تھیں مگر بچی کھچی عمارتوں میں اشیائے ضرورت کی دکانیں اب بھی کھلی تھیں۔ گئے زمانوں میں شاید یہ بڑا بازار رہا ہوگا۔
میں قافلے کی سب سے بڑی جیپ میں سوار تھا اور ہم بہت آہستہ رفتار سے چل رہے تھے۔ دن کی روشنی میں گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس آن کر رکھی تھیں تاکہ دور سے معلوم ہوجائے کہ یو این کا قافلہ آرہا ہے۔ بازار میں چلنے پھرنے والے لوگ مقامی لباس یعنی پتلون قمیض میں ملبوس تھے جبکہ ایک لمبا تڑنگا شخص سفید کرتا پاجامہ پہنے اور سرپر عمامہ باندھے ہوئے تھا۔جس کا ایک لمبا حصہ سر کی پچھلی جانب  لٹک رہا تھا۔  یہ شخص اپنے حلیے کی وجہ سے سب سے مختلف نظر آرہا تھا۔ ہماری گاڑی جب اس کے قریب سے گزری اور میں نے مڑکر دیکھا تو وہ شخص شکل و صورت سے کوئی عرب معلوم ہوا۔ سفید اور سیاہ لمبی داڑھی اس کے چہرے پر بھلی لگ رہی تھی۔ ماحول سے یکسر مختلف ہونے کی وجہ سے یہ چہرہ میری یادداشت میں محفوظ رہ گیا۔ اس وقت دنیا بھر کے مسلمان نوجوان جہاد میں حصہ لینے کے لیے یہاں موجود تھے میںنے اس شخص کو بھی انہی جہادیوں میں سے ایک خیال کیا۔
بہت مدت بعد جب11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر حملے ہوئے اور میں گلگت میں اپنے گھر بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا جس میں اُسامہ بن لادن کو ان حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا تھا اس خبر کے ساتھ اس کی تصویر بھی سکرین پر نمودار ہوئی تو مجھے لگا کہ میںنے اس شخص کو کہیں دیکھا ہے۔ ذہن پر زور دیا تومجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی شخص ہے جسے میں نے دریائے ساوا کے کنارے گراڈسکا کے قصبے میں دیکھا تھا۔ ||


 

کرنل شاہد آفتاب ریٹائرڈ

Advertisements