یہ گھر واپسی مہم کی جڑیں انڈین متعصب ہندو جماعتوں کی بیسویں صدی کے شروع میں چلائی جانے والی شدھی تحریک سے ملتی ہیں۔ مودی کی طرف سے ایسی قانون سازی کی جارہی ہے کہ جس کے تحت دوسرے مذاہب سے ہندو مذہب اختیار کرنے پر پابندی تو نہ ہو مگر ہندو مذہب سے کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرنا جرم ہو یا اسے قانونی طور پر انتہائی مشکل بنا دیا جائے۔
بھارت کے آئین کو دیکھا جائے تو بظاہر ایک سیکولر ملک کے آئین کی طرح نظر آئے گا جہاںہرشخص کواپنی بات کہنے یامخالفت کرنے کاجمہوری حق عطاکیا گیا ہے۔ بھارت کے آئین میں بھارت میں بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کواپنے مذہبی تشخص کے ساتھ جینے کا،مذہب پرآزادی کے ساتھ عمل کرنے کااورمذہبی ادارے چلانے اوران کی بقاوتحفظ کے برابرحقوق اس ہیں لیکن افسوس بھارت اس وقت انتہا پسندانہ نظریات والے حکمرانوں کے نرغے میں ہے جنھوں نے ملک کے آئین اور قانون کو پاؤں تلے روند کر ہندو توا کے ایجنڈے کو بڑھایا ہے۔ اس پر زیادہ افسوس بھارتی عدلیہ اور پارلیمنٹ پر ہے جو بھارتی حکمرانوں کے جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ گزشتہ چندبرسوں سے سیاسی مفادات کے حصول کی خاطرایک خاص طبقہ کے لوگ مسلمانوں اوران کے مذہبی شعائرکونشانہ بناکر بھارتی آئین وقانون کامذاق اڑارہے ہیں۔ اتناہی نہیں بلکہ اس کھیل میں اب حکومت کے ساتھ پارلیمنٹ، عدلیہ اور پولیس برابرکی شریک ہوگئی ہے۔طلاق ثلاثہ بل اسی کی ایک کڑی تھی۔ حکومت نے براہ راست شریعت اسلامی کونشانہ بناتے ہوئے جلدبازی میں اسے لوک سبھاسے پاس کرالیا۔ آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ ہمیشہ متحرک رہی ہے اورجب سے حکومت نے اس بل کامنصوبہ بنایاتھابورڈ نے اسی دن سے اس بل کی مخالفت میں اپنی تحریک شروع کردی تھی اوراسی تحریک کاایک نمونہ تھاکہ بورڈ نے پورے ملک میں بل کے خلاف دستخطی مہم چلائی اورتقریباًپانچ کروڑ مسلمانوں کے دستخطوں والی دستاویزات وزراتِ قانون، وزارت ِداخلہ، صدرجمہوریہ ہندو دیگر متعلقہ اداروں کوبھیجی گئی مگر افسوس کہ اس اہم اور خالصتاً اسلامی دینی معاملے پر ہندو حکومت نے اپنے نظریات مسلط کیے،صرف اسی پر بس نہیں، مسلم لڑکیوں کو حجاب کرنے اور اسلامی شعائر کی پابندی پر بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان بچیوں کو زبردستی ہندو بنانے اور ان سے شادیاں رچانے کے لیے آر ایس ایس منصوبے کے تحت عمل پیرا ہے۔ ماہنامہ الفرقان لکھنؤ کے ایڈیٹر اور بھارت کے ایک نامور بے باک مسلم لیڈر عالم دین مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی جو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ طویل عرصہ سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں،کی حال ہی میں ایک دل ہلا دینے والی ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں مولانا خلیل سجاد نعمانی نے نہایت افسوس ظاہر کیا ہے کہ پچھلے ایک سال میں 8 لاکھ مسلم لڑکیا ں زبردستی مرتد کی گئی ہیں اورمسلمان خاموش بے بس بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہیں اپنی بچیوں کے ارتدادکی کوئی فکر نہیں ہے۔ مولانا نے کہا کہ کیا مسلمانوں کو اب بھی ساٹھ، ستر سال غفلت کی نیند سونے کی ضرورت ہے۔؟ حالیہ دنوں میں بھارت کے تمام رجسٹرار آف میرج کے دفاتر سے ہم نے وہاں کے نوٹس بورڈ کا سروے کروایا ہے
جس کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت کی 8 لاکھ مسلم لڑکیاں 1 سال میں مرتد ہوئی ہیں اوروہ ہندو لڑکوں کے ساتھ شادی رچا چکی ہیں۔ یہ بات افسوسناک ہے اور ہمیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ محض جمعہ کی نماز اداکرلینے، روزے رکھ لینے سے پکے مسلمان نہیں بن سکتے۔
بھارت میں 28 ریاستیں ہیں، 748 اضلاع ہیں، ان میں سے 5650 تعلقہ جات ہیں اس لحاظ سے کم وبیش 5 ہزار سے زیادہ میرج رجسٹریشن آفیس بھارت میں موجود ہیں۔ مولانا نے ہر ریاست میں ضلعی اور تحصیل سطح پر مسجد اور کمیونٹی کی سطح پر یہ سروے کروایا اور بھارت کے سیکولر دعوؤں کی قلعی کھولی ہے جو کہ انتہائی کربناک اور امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے۔ مودی حکومت پورے بھارت میں آر ایس ایس کی حلیف ذیلی تنظیموں کے ذریعے مسلم لڑکیوں کو مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرنے پر اکسا رہی ہے۔ اس مہم میں ہندو لڑکوں کو کامیاب کرنے کے لیے خطیر رقم دی جاتی ہے تاکہ وہ انہیں محبت کے جال میں پھنسانے اور اپنی خلوت گاہ تک لے جانے میں کامیاب ہوجائیں اور پھر بلیک میلنگ کا دروازہ کھول کر ارتداد کی راہ ہموار کی جاسکے۔بھارت کے مختلف حصوں مثلاً ممبئی،آگرہ، یوپی، جھار کھنڈ، دہلی اور بہار کے بہت سارے اضلاع سے اس قسم کی تشویشناک، المناک اور پریشان کن خبر ہر دن موصول ہو رہی ہے۔ اس طرح ان لڑکیوں کو دین وایمان سے بے زار کرکے ہندو مذہب میں داخل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلم لڑکوں پر روزگار اور سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہیںجس کی اصل وجہ مسلم لڑکیوں پر فوکس کرنا ہے۔ مسلمان لڑکیاں ان کے جال میں جن وجوہات سے پھنستی ہیں، ان میں ایک بڑا سبب اختلاط مرد وزن ہے، یہ اختلاط تعلیمی سطح پر بھی ہے اور ملازمت کی سطح پر بھی کوچنگ کلاسز میں بھی پایا جاتا ہے اور ہوسٹلز میں بھی، موبائل انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ اختلاط زمان ومکان کے حدود وقیود سے بھی آزاد ہو گیا ہے۔ارتداد کی اس نئی لہر سے ہر ایمان والے کا بے کل اور بے چین ہونا فطری ہے، بی جے پی حکومت اور نریندر مودی کے دوبارہ وزیر اعظم بننے کے بعد انڈیا میں موجود اقلیتوں پر تشدد، دھمکانا، ان کو ہراساں کرنا اور ہجوم کے تشدد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ گائے کو جواز بناکر دلت اور مسلمانوں کو زدوکوب کیا جاتا ہے، بعض اوقات انہیں جان سے مار دیا جاتا ہے۔ ہجوم اکھٹا ہوکر اقلیتی افراد کو مارتا ہے اور ان کو جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کرتا ہے۔خواتین اور بچوں پر جنسی حملوں میں اضافہ ہواہے۔ مذہبی عدم رواداری، منافرت اور انتہا پسندی کے بعد انڈیا کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت انڈیا میں اقلیتوں سے زیادہ گائے محفوظ ہے۔
مودی کے اقتدارمیں آنے کے بعدبھارت کاچہرہ تیزی سے ایک متعصب تنگ نظر اور تشدد پسند ہندو ریاست میں تبدیل ہو رہا ہے، تنگ نظر ہندو ازم کا زہر پوری ریاست میں پھیل رہا ہے اور اقلیتوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے ختم کیاجارہاہے۔ عیسائیوں، مسلمانوں اور سکھوں کو یہ کہہ کر ان کا استحصال کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی اپنی ریاستوں میں چلے جائیں کیونکہ بھارت صرف ہندوئوں کی سرز مین ہے۔
مودی مسلم کش اقدامات پرمعروف اسکالر پروفیسر نوم چومسکی نے گزشتہ سال ایک سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ بھارت نے مسلمانوں کو مظلوم اقلیت میں تبدیل کردیا ہے۔ اسلامو فوبیا کے رجحان میں جہاں پورے مغرب میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں بھارت میں یہ اپنی مہلک ترین شکل اختیار کر رہا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے 20 مارچ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں کہاہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ مودی حکومت ایسے مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنا رہی ہے جو حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور ان کے گھروں اور معاش کو تباہ کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کر رہی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی پالیسیاں اور اقدامات مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہندو قوم پرست حکمران جماعت نے2014میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی معاشرے کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کے عمل کو فروغ دیا ہے۔ یونائیٹڈ سٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجئیس فریڈم (یو ایس سی آئی آر ایف) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہاہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ہندو قوم پرست ایجنڈے کو فروغ دینے والی پالیسیاں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، دلتوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔ اسی طرح انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سٹیٹ آف دی ورلڈ ہیومین رائٹس 2022-23کے عنوان سے جاری رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ بھارتی حکومت اقلیتوں کو خاموش کرانے کے لیے انسداد دہشت گردی اورمنی لانڈرنگ قوانین استعمال کررہی ہے۔ ہندوتواتنظیموں کومسلم خاندانوں کے گھروں اور کاروبار مسمار کرنے میں مکمل حکومتی سرپرستی حا صل ہے۔ بھارتی انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے گھرواپسی مہم کے نام پرلوگوں کو خوف، دھونس، مالی لالچ اور ہر ممکن طریقہ کار استعمال کرکے ہندو بنایاجارہا ہے۔یہ گھر واپسی مہم کی جڑیں انڈین متعصب ہندو جماعتوں کی بیسویں صدی کے شروع میں چلائی جانے والی شدھی تحریک سے ملتی ہیں۔ مودی کی طرف سے ایسی قانون سازی کی جارہی ہے کہ جس کے تحت دوسرے مذاہب سے ہندو مذہب اختیار کرنے پر پابندی تو نہ ہو مگر ہندو مذہب سے کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرنا جرم ہو یا اسے قانونی طور پر انتہائی مشکل بنا دیا جائے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی پالیسیاں اور اقدامات مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہندو قوم پرست حکمران جماعت نے2014میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی معاشرے کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کے عمل کو فروغ دیا ہے۔ یونائیٹڈ سٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجئیس فریڈم (یو ایس سی آئی آر ایف) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہاہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ہندو قوم پرست ایجنڈے کو فروغ دینے والی پالیسیاں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، دلتوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔
مودی مسلم کش اقدامات پرمعروف اسکالر پروفیسر نوم چومسکی نے گزشتہ سال ایک سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ بھارت نے مسلمانوں کو مظلوم اقلیت میں تبدیل کردیا ہے۔ اسلامو فوبیا کے رجحان میں جہاں پورے مغرب میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں بھارت میں یہ اپنی مہلک ترین شکل اختیار کر رہا ہے۔ بھارت کی انسانی حقوق کی تنظیم سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس (سی جے پی)نے سال 2022 کو بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت، امتیازی سلوک اور ظلم و تشدد کا سال قرار دیتے ہوئے کہاتھا کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک ریاستی سرپرستی میں ہوئے، بھارت میں اقلیتوں کے خلاف مظالم کرنے والے عناصر کی ریاستی سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی۔ مودی سرکارکی طرف سے اقلیتوں کے خلاف مظالم دراصل اس ایجنڈے کی تکمیل ہے جس کی طرف چنددن قبل راجہ سنگھ نے ریاست مہاراشٹرا کے علاقے احمد نگر میں خطاب کرتے ہوئے کیاہے کہ بھارت 2026تک ہندوراشٹر بن جائے گا۔ اگر50سے زائد اسلامی ممالک اور 150سے زائد عیسائی ممالک ہوسکتے ہیں توبھارت کو ہندو راشٹرا کیو ں نہیں قرار دیا جاسکتا؟ اب اس خطرناک فتنے کا تدارک کسی ایک عالم دین اور تنظیم کے بس میں نہیں ہے، اس کے لیے بھارت کے تمام مسلم رہنمائوں اور علماء کو بھارت کے اس جبر کے خلاف اٹھنا ہوگا۔ گاؤں اور محلے کے مسلم اور غیر مسلم دانشورسر جوڑ کر بیٹھیں، اس لیے کہ اس مسئلہ سے سماج میں تناؤ پیدا اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچتا ہے، جب تک بھارت کے محکوم مسلمانوں میں بیداری پیدا نہیں ہوگی، یہ مسائل رہیں گے مسلم خواتین کے بڑے اجتماعات ہونے چاہئیں جہاں آر ایس ایس کی ارتدای مہم سے آگاہ کرنے کے ساتھ انہیں اس راہ پر بڑھنے کے دنیوی اور اخروی نقصانات کو تفصیل سے جوڑا جائے،مسلم گھرانوں کے اندرونی حالات پربھی نگاہ رکھی جائے مگر ان سب کے ساتھ ان مسلم زعما کو، عیسائیوں اور دیگر اقلیتی مذاہب کے ساتھ مل کر ارتداد کے خلاف منظم مہم چلانا ہوگی۔ ||
مضمون نگار ایک کشمیری صحافی اور تجزیہ نگارہیں جو مظفرآباد سے شائع ہونے والے ایک روزنامہ کے ایڈیٹر ہیں۔
۔[email protected]
تبصرے