مئی کے دوسرے ہفتے کے شروع میں جس طرح سے شہدا کے مجسموں کی بے حرمتی کی گئی،یادگارِ شہداپر جاکر نامناسب الفاظ استعمال کیے گئے،یہ حرکت انتہائی غیر اخلاقی اور ناقابلِ قبول تھی۔یہ پوری دنیا میں پیش آنے والا ایسا واقعہ تھا،جو انتہائی افسوسناک تھا۔ایک طرف اس سانحے پر دنیا بھر سے مذمت کی گئی تو دوسری طرف دشمنانِ وطن جشن مناتے دکھائی دیے۔ہم بخوبی اس بات سے واقف ہیں کہ دشمن دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنا اور ہمارے وطن کو سخت نقصان پہنچانا چاہتا ہے،جس کے سبب وہ آئے روز من گھڑت کہانیاں،اور انتشار پھیلاتا دکھائی دیتا ہے،آج دشمن ہمارے بیچ گھس کر ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کررہاہے اور ا س روز (9مئی کو) بھی دشمن نے ہمارے بیچ گھس کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کیے تھے۔جس سے ہر محب ِ وطن پاکستانی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔تاہم ہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ زندہ قومیں اپنے محافظوں کو او ر ان کی قربانیوں کو کبھی نہیں بھولتیں،شہدا ئے وطن کی عزت اور تقدس کا خیال رکھنا ہمارا فرض بنتا ہے۔ اگر اسے قرآن ِ مجید کی روشنی میں دیکھا جائے تو اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں شہدا کی فضیلت کے بارے میں بیان کیا ہے۔جب اللہ رب العزت نے قرآن ِ مجید میں شہدا کی فضیلت کے بارے میں بیان کردیا ہے تو یہ نام نہاد مسلمان جو اس حرکت میں ملوث تھے کیا اس ناقابلِ برداشت واقعے کے بعد وہ خود کو مسلمان کہنا مناسب سمجھیں گے۔؟
آئیے ہم اس یوم ِ تکریم کے روز یہ عہد کریں کہ ہم خود کو دشمن کا آلہ کار کسی صورت نہیں بننے دیں گے، ہم ان دشمنوں کو بے نقاب کریں گے اور انہیں کسی صورت ان کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔آئیے ہم اپنے شہدا کی یاد تازہ کرنے اور ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ اظہار ِ یکجہتی کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کو یہ بتائیں کہ زندہ قومیں اپنے محافظوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ان کی حرمت ان کی عزت اور ان کے تقدس کا خیال رکھتی ہیں۔
اسلام تو ایک پرامن مذہب ہے جو صلہ رحمی کا درس دیتا ہے۔ہمسائیوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنے کا درس دیتا ہے۔ مگر کیا ان سب کی اس نامناسب حرکت جس کے باعث شہدا وطن کے اہلِ خانہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے،ان کو شدید تکلیف پہنچانے کے بعد کیا یہ سمجھتے ہیں یہ حرکت درست اور قابلِ قبول ہے؟نہیں بلکہ بحیثیتِ مسلمان اور بحیثیتِ پاکستانی ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے شہدا کی قربانیوں کی قدر کریں ان کے اہل ِ خانہ کی عزت و احترام کریںاور ایسی بات کرنے سے گریز کریں جس سے ان کے اہلِ خانہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آج ہم اپنے گھروں میں آرام و سکون سے رہ رہے ہیں،ا س کی وجہ ہمارے محافظوں کی دی ہوئی قربانیاں ہیں۔دنیا جانتی ہے کہ جہاں کی عوام اپنی فوج کے مخالف ہوئی ان ممالک میں دشمن کا راج ہوااور وہاں کی عوام غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہی اوردشمنوں کے ظلم و ستم سے دوچار ہوئی۔ یہ ہمارے لیے سبق آموز ہے۔ہمیں دشمن کی چال بازیوں سے محتاط رہ کراپنے درمیان چھپے دشمنوں کو پہچاننے اور انہیں بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر شہدا پاکستان کا تذکرہ کیا جائے تو اس وطنِ عزیز کے بے شمار ایسے بیٹے ہیں جنہوں نے انتہائی ہمت و بہادری اورشجاعت سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔جن کی بہادری کے قصے دنیا بھر میں مقبول ہیں،آج دشمن ہمارے شہدا کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پاکستان کا یہ بیٹا بہت ہمت و بہادری سے لڑا تھا۔اس کی ایک مثال کیپٹن کرنل شیر خان ہے۔ کیپٹن کرنل شیر خان کارگل کے ہیرو ہیں جنہوں نے انتہائی ہمت و بہادری کا مظاہرہ کرکے جام ِ شہادت نوش کیا۔جب کارگل کی جنگ شروع ہوئی تھی کیپٹن کرنل شیر خان نے اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ17000 فٹ کی بلندی پر پانچ اہم ترین دفاعی نوعیت کے مورچے قائم کیے تھے۔اور پھر انتہائی ہمت و بہادری سے ان کا دفاع کیا۔5جولائی1999کو دشمن فوج بھاری توپ خانے اور دو بٹالین کے ساتھ حملہ آور ہوئی اور ایک مورچے کا کچھ حصہ اپنے قبضے میں کرلیا۔انتہائی شدید گولہ باری کے باوجود کیپٹن کرنل شیر خان نے انتہائی ہمت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن سے مورچے کا قبضہ واپس لیا۔تاہم اسی دوران ایک مشین گن کی گولیوں کی زد میں آکر وطن کے اس جانباز بیٹے نے جامِ شہادت نوش کیا۔
کیپٹن کرنل شیر خان کی بہادری کے قصے دشمن آج بھی سناتا ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران بھارتی فوج کے بریگیڈیئر پرتاب سنگھ باجوہ نے کرنل شیر خان کی بہادری کا ذکر کرتے ہوکہا کہ میں نے سویلین پورٹرز کو کہا اس آفیسر کی باڈی کو نیچے لے کر آئیں، جب ان کی جیبیں چیک کی گئیں ان کی جیبوں سے لیٹر (خط) نکالے جس سے مجھے یہ پتہ چلا اس کا نام کیپٹن کرنل شیر خان ہے۔لڑکوں نے مجھے بتایا سر یہ بہت بہادری سے لڑا ہے،یہ مجھے بھی پتہ تھا کہ یہ بہت بہادری سے لڑا ہے کیونکہ میں خود کہہ رہا تھا اس کو مارو اس کو مارو۔ اس کے بعد میں نے اپنے سینئرسے بات کی۔ میں نے کہا کہ یہ بہت بہادری سے لڑا ہے،بے شک ہمارا دشمن ہے مگر میں ایک لیٹر(خط) اس کی جیب میں ڈالنے لگا ہوں، اور میں نے اس خط میں لکھا کہ کیپٹن کرنل شیر خان بہت بہادری سے لڑا ہے، یہ اعزاز کا حقدار ہے۔اور مجھے بعد میں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اسے نشانِ حیدر جو پاکستان کا سب سے بڑافوجی اعزاز ہے، سے نوازا گیا۔ یہ وہ تعریف تھی، وہ الفاظ تھے جو دشمن نے کہے۔ کیپٹن کرنل شیر خان کی بہادری کے قصے دنیا بھر میں مقبول ہیں۔مگر دکھ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ یہ وہی بہادر آفیسر تھے جن کے مجسمے کی کچھ روز قبل کچھ شر پسند عناصر نے بے حرمتی کی،بحیثیتِ پاکستانی یہ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔جن کی بہادری کے قصے دنیا بھر میں مقبول ہوں اور ان ہی کے ملک میں ان کے مجسمے کی ایسی بے حرمتی ہو تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔
اسی واقعے کے دوران کچھ شرپسند عناصر نے شہدا کی تصاویر جلائیں جس پر ایک شہید کے والد صاحب نے سوشل میڈیا پر اپنے بیٹے کی وہ تصاویر شیئر کرکے پوسٹ کی۔ ان کی پوسٹ پر لکھے الفاظ نے میری آنکھیں نم کردیں۔جوان بیٹے کی میت کو کاندھا دینا اور اسے قبر میں اتارنا آسان نہیں ہوتا، بہت ہمت چاہیے ہوتی ہے،ان کے ماں باپ نے اپنے بچوں کو وطن کی خاطر اس وجہ سے قربان نہیں کیا تھا کہ ان کی شہادت کے بعد ان کے مجسموں کی بے حرمتی کی جائے ان کی تصاویر جلائی جائیں۔
میرا ایک سوال ہے کیا اختلافات کی آڑ میں یہ سب کرنا درست ہے؟کیا انہوں نے اس وطن کی خاطر اس وجہ سے اپنی جانیں قربان کی تھیں کہ شہادت کے بعد ان کی یادگار میں جاکر نامناسب الفاظ استعمال کیے جائیں؟ ان کے اہلِ خانہ کو تکلیف دی جائے؟شر پسند عناصر نے ہمارے سینوں پر جو زخم دیے ہیں ہم انہیں کبھی نہیں بھولیں گے،اور نہ ہی کبھی ان کی اس حرکت کو معاف کریں گے۔
آئیے ہم اس یوم ِ تکریم کے روز یہ عہد کریں کہ ہم خود کو دشمن کا آلہ کار کسی صورت نہیں بننے دیں گے، ہم ان دشمنوں کو بے نقاب کریں گے اور انہیں کسی صورت ان کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔آئیے ہم اپنے شہدا کی یاد تازہ کرنے اور ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ اظہار ِ یکجہتی کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کو یہ بتائیں کہ زندہ قومیں اپنے محافظوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ان کی حرمت ان کی عزت اور ان کے تقدس کا خیال رکھتی ہیں۔
وطن کی خاطراپنے آپس کے اختلافات کو بھول کر یکجان ہوکر ملک ِ پاک کا سوچیں، وطنِ پاک کے مستقبل کا سوچیں،آئیں پھر سے اس پرچم کے سائے تلے ایک ہو جائیں۔ ||
مضمون نگار مختلف اخبارات کے لیے لکھتی ہیں
[email protected]
تبصرے