پاکستانی ریاست کے لیے انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کا چیلنج نیا نہیں اور اس میں کئی اہم کامیابیوں کے باوجود یہ چیلنج آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ دہشت گردی سے جڑی لڑائی کسی سیاسی تنہائی میں تو نہیں لڑی جاتی اور اس کی کامیابی کا بڑا دارومدار مختلف سطح پر فریقین کے ساتھ مل کر حکمت عملی کو وضع کرنا اوربغیر کسی تضاد یا پسند و ناپسند کی تفریق کے شفافیت کے ساتھ اس جنگ کا مقابلہ کرنا ہے۔یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ یہ جنگ محض اس ملک میں دہشت گردی سے ہی نہیں جڑی ہوئی بلکہ اس کا براہ راست تعلق ہماری مجموعی سیاست اور معیشت کی ترقی کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے ۔دہشت گردی کی اس جنگ کو شکست دے کر ہی ہم مجموعی طور پر قومی ترقی کے دھارے میں آگے بڑھ سکتے ہیں او راسی بنیاد پر ہم اس جاری جنگ کو اپنی قومی ترجیحات میں فوقیت دیتے ہیں ۔
جس خوفناک انداز سے ریاستی اداروں اور سکیورٹی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر جو منفی مہم چل رہی ہے اس کے لیے بھی مختلف حکمت عملی پر غور کیا گیا اور اس پر جو کمیٹی بنائی گئی ہے اسے دوہفتوں کا وقت دیا گیا تاکہ وہ حتمی حکمت عملی سامنے لاسکے۔ کیونکہ سوشل میڈیا پر ایک خاص سطح کی منصوبہ بندی جس میں داخلی اور خارجی دونوں عوامل یا افراد یا مخصوص ادارے شامل ہیں وہ قومی سلامتی کے اداروں کو ٹارگٹ کررہے ہیں ۔ اس مہم کا مقصد جہاں اداروں پر دباؤ ڈالنا ہے وہیں اداروں کو تقسیم کرنا یا ان میں ٹکراؤ کا ماحول پیدا کرنا بھی ایجنڈے کا حصہ نظر آتا ہے جو خطرناک ہے۔
حالیہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس غیر معمولی نوعیت کا تھا ۔اس اجلاس کو نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا نام بھی دیا جاتا ہے او راس فورم کو قومی سلامتی کے تناظر میں خصوصی اہمیت بھی حاصل ہے ۔ اس فورم میں وزیر اعظم سمیت حکومتی وزراء اور تمام عسکری قیادت شامل ہے او رجو بھی اہم فیصلے کیے جاتے ہیں اس کی منظوری بھی اسی فورم کا حصہ ہے ۔اس اجلاس میں حالیہ دہشت گردی کی نئی لہر پر جہاں مختلف نوعیت کی تشویش کا اظہار کیا گیا وہیں اس سے نمٹنے کی مختلف حکمت عملیوں کو بھی وضع کیا گیا جس میں اول انتہا پسندی اوردہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ایک جامع سطح کے آپریشن کی منظوری بھی شامل ہے ۔دوئم ریاستی اداروں اور قیادت کے خلاف غیر ملکی افراد یا ادارو ں کی مدد سے چلائی جانے والی منفی اور زہریلی مہم، سوئم دہشت گردی کی حالیہ لہر تحریک طالبا ن پاکستان )ٹی ٹی پی (کے ساتھ نرم گوشہ اور عدم سوچ وبچار پر مبنی پالیسی پر مبنی ہے، کو ہر قسم کی تفریق اور تضاد کے بغیر ختم کرنا ہوگا، چہارم جنگجو اور دہشت گرد عناصر کی رہائی اور واپسی سے امن واستحکام منتشر ہوا، اس پر کسی بھی قسم کا مستقبل میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہم نے جو قومی سلامتی پالیسی یا نیشنل سکیورٹی پالیسی بنائی تھی اس میں بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے داخلی سیاسی اورمعاشی استحکام ،علاقائی تعلقات میں بہتری ،جنگوں یا تنازعات میں طاقت ور ممالک کا حصہ نہ بننا ، قومی سلامتی کو قومی معیشت کے ساتھ جوڑنا اور ریاستی سطح پر عام آدمی کے حالات کا یا حکمرانی کے نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی کا عمل اور دہشت گردی سے جڑے داخلی عوامل کا مشترکہ حکمت عملی کے تحت بطور ریاست مقابلہ کرنا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی میں ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں جن کے بقول ٹی ٹی پی کو پاکستان دشمن عناصر کی طرف سے غیر ملکی فنڈنگ مل رہی ہے جس کی بنیاد پر دہشت گردی کے عمل میں شدت پیدا کی جارہی ہے ۔اسی حکمت عملی کے تحت دہشت گردوں نے نہ صرف ریاستی اداروں پر بلکہ اہلکاروں پر یا عام آدمی کو نشانہ بنا کر ریاست پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی ہے ۔ٹی ٹی پی کی طاقت وہ غیر ملکی امداد ہے وگرنہ اس کے بغیر ان کی طاقت وہ نہیں جو ہمیں بظاہر نظر آتی ہے ۔یہ لوگ اسلام او رجہاد کا نام لے کر اپنی سیاسی ساکھ کو قائم کرتے ہیں ۔ ٹی ٹی پی سے ماضی میں ہم مذاکرات کی حکمت عملی کو بھی اختیار کرتے رہے ہیں مگر اس کے مثبت نتائج نہیں مل سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس نقطہ پر زور دیا جارہا ہے کہ ہمیں ایسے عناصر کے ساتھ کسی بھی قسم کا نرم رویہ یا بات چیت کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔کیونکہ اب قومی سلامتی کے ادارے بھی اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ ٹی ٹی پی پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے ۔
اسی طرح یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ کالعدم دہشت گرد تنظیمیں اپنے مذموم مقاصد کو بنیاد بنا کرصوبہ بلوچستان میں خواتین اور بچوں کو بھی دہشت گردی کے لیے استعمال کررہی ہیں او ران کو مختلف بہانوں سے ورغلا کر ان کی منفی سوچ کے ساتھ ذہن سازی بھی کی جارہی ہے ۔ان میں بی ایل ایف جیسی کالعدم تنظیمیں بھی شامل ہیں ۔ پچھلے دنوں ایک خاتون کو خود کش جیکٹ کے ساتھ گرفتار کیا گیا او راس نے دوران تفتیش اقرار کیا کہ اس کا خاوند بی ایل ایف کا ممبر ہے ۔
اسی طرح جس خوفناک انداز سے ریاستی اداروں اور سکیورٹی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر جو منفی مہم چل رہی ہے اس کے لیے بھی مختلف حکمت عملی پر غور کیا گیا اور اس پر جو کمیٹی بنائی گئی ہے اسے دوہفتوں کا وقت دیا گیا تاکہ وہ حتمی حکمت عملی سامنے لاسکے۔ کیونکہ سوشل میڈیا پر ایک خاص سطح کی منصوبہ بندی جس میں داخلی اور خارجی دونوں عوامل یا افراد یا مخصوص ادارے شامل ہیں وہ قومی سلامتی کے اداروں کو ٹارگٹ کررہے ہیں ۔ اس مہم کا مقصد جہاں اداروں پر دباؤ ڈالنا ہے وہیں اداروں کو تقسیم کرنا یا ان میں ٹکراؤ کا ماحول پیدا کرنا بھی ایجنڈے کا حصہ نظر آتا ہے جو خطرناک ہے۔ اداروں کے ساتھ ساتھ اداروں کے سربراہان کے خلاف چلائے جانے والی مہم نے ریاستی نظام پر ہی سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں ۔سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا یا ان کے درست استعمال یا منفی مہم کو روکنے کے حوالے سے ڈیجیٹل میڈیا پالیسی پر بھی زور دیا جارہا ہے کہ ہمیں دنیا کے جدید ممالک کے تجربات سے سیکھ کر ان معاملات میں بھی مستحکم اور شفاف قانون سازی یا پالیسی سازی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا ۔ اس سوشل میڈیا مہم نے معاشرے میںپہلے سے موجود سیاسی تقسیم کو اور زیادہ گہرا کردیا ہے۔ اس کی ایک وجہ ان کو ریگولیٹ کرنے والے اداروں کی کمزوری یا نااہلی کے پہلو کا ہونا ہے ۔
سابق بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ کا یہ بیان بھی پاکستان دشمنی کی عکاسی کرتا ہے کہ '' بھارت کو پاکستان کے ہی عوام کو پیسے کے زور پراستعمال کرکے بلوچستان میں دہشت کے ماحول یا دہشت گردی کو فروغ دینا ہوگا۔''
دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان،پیغام پاکستان،دختران پاکستان،نیشنل سکیورٹی پالیسی سمیت دیگر ریاستی و حکومتی سطح پر جو بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیں اس میں شفافیت پیدا کرنا ہوگی ۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی قومی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے مگر یہ عمل کسی تضاد اور ابہا م کے بغیر کرنا ہوگا ۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ہمیں قومی بیانیہ کی تشکیل نو کرنا ہوگی ۔یہ قومی بیانیہ کسی ایک فریق تک محدو دنہ ہو بلکہ اس کی سیاسی ذمہ داری یا بوجھ سب کوہی اپنی اپنی سطح پر اٹھانا ہوگا۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم خود بھی ماضی کی حکمت عملیوں سے باہر نکلیں اوردوسروں کو بھی پیغام دیں کہ ہم 2023میں کھڑے ہیں اوریہاںپرانی روایتی حکمت عملیوں کے بجائے ہمیں ٹھوس بنیادوں پر عملًا کھلے ذہن اور دماغ کے ساتھ تضادا ت کی سیاست او رفیصلوں سے باہر نکلنا ہوگا ۔یہی سوچ اور فکر ہمیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مقابلے میں پرامن او رمحفوظ پاکستان میں تبدیل کرنے کا سبب بنے گی ۔ ||
مضمون نگار معروف تجزیہ نگار اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ایک معروف روزنامہ میں کالم بھی لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے