پاکستا ن آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے ۔ اسی لیے بڑھتی آبادی اور کم وسائل کی وجہ سے ہمیں سیاسی ، معاشی اور معاشرتی بہت سے مسائل کا سامنا ہے ۔ان میں سرفہرست بڑھتا ہوا کچرا ہے جس کو مناسب طریقے سے تلف کرنے کے لیے ہمارے پاس نہ صرف وسائل کی عدم دستیابی ہے بلکہ ہمارے پاس اس حوالے سے شعور اور آگہی کی بھی کمی ہے ۔اگر ہم اپنے ارد گرد ہی نظرڈالیں تو ہمیں سڑکوں پر ،گلیوں میں ،پارکوں میں میدانوں میں ہر طرف چھلکوں کے ڈھیر ، پلاسٹک کی خالی بوتلیں ،اڑتے شاپنگ بیگز دکھائی دیتے ہیں۔ جابجا کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں حتیٰ کہ نالے بھی کچرے اور فضلے سے بھرے ہوتے ہیں ۔ مزید ستم یہ کہ پلاسٹک بیگ سیوریج لائنز میں پھنس کر ان کو بلاک کردیتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے گٹروں کا پانی سڑکوں پر آجاتا ہے اور گندگی اور تعفن کا باعث بنتا ہے۔
یہ گندا پانی مکھیوں اور مچھروں کی افزائش کا ٹھکانہ بھی بنتا ہے جس سے ڈائریا ، ڈینگی اور مختلف بیماریاں پھیلتی ہیں ۔ جبکہ اس گندگی اور غلاظت سے ماحول کی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ کوڑے کے ڈھیر یہ بتانے کے لیے کافی ہیںکہ ہم بحیثیت قوم کس قدر ذمہ داری سے عاری ہیں۔ جبکہ روزمرہ کی زندگی میں معمولی تبدیلیوں سے ہم زیرو ویسٹ کلچر کی جانب اپنے قدم بڑھاسکتے ہیں ۔ اگر ہم ٹشو کی جگہ نیپکن، پلاسٹک کے تھیلے کی جگہ کپڑے کے تھیلے استعمال کریں تو اس سے بھی بہت فرق پڑے گا ۔ بچے ہوئے کھانے کوکچرے میں پھینکنے کے بجائے جانوروں اور پرندوں کے کھانے کے طور پر استعمال کریں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پانچ کروڑ ٹن سے بھی زیادہ ٹھوس کچرا پیدا ہورہا ہے ۔ اس کچرے میں سالانہ کی بنیاد پر اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے ۔
اس کچرے میں گھریلو فضلہ جس میں پھلوں سبزیوں کے چھلکے ، بچا ہوا کھانا ، ردی اخبار، پلاسٹک کی بوتلیں اور شاپنگ بیگز وغیرہ شامل ہیں ۔طبی فضلہ جو ہسپتالوں کے سامنے ڈھیر کا ڈھیر پڑا ہوتا ہے ۔اس فضلے میں استعمال شدہ سرنجز ، استعمال شدہ ڈرپس، استعمال شدہ ماسک، ایکسپائر ادویات، بلڈبیگز وغیرہ شامل ہیں ۔ ایک اور خطرناک فضلہ صنعتی فضلہ ہے جو لاکھوں ٹن الیکٹرانک اسکریپ کی مد میں پاکستان درآمدکیا جاتا ہے۔
مغربی ممالک میں ٹھوس فضلے کے لیے باقاعدہ ایک ڈھانچہ موجود ہے جس کے تحت اس فضلے کو Reduce, Reuse and Recycleکیا جاتا ہے ۔ یعنی اس کو کم کرو یا پھر دوبارہ استعمال کرو یا پھر اسے بحفاظت ٹھکانے لگا دو۔
ٹھوس فضلے کے اس باقاعدہ نظام کے تحت مغربی ملکوں میں ہر گھر میں کم ازکم تین کوڑے دان موجود ہوتے ہیں۔ ایک میں نامیاتی(organic waste)کچرا یعنی کھانے پینے کی اشیا وغیرہ کو ڈالاجاتا ہے۔دوسرے میں کاغذ اور تیسرے میں دیگر غیر نامیاتی(Inorganic waste) کوڑا مثلاً پلاسٹک،دھاتیں اور گلاس ڈالا جاتا ہے ۔
صنعتی کچرے میں پلاسٹک ، استعمال شدہ دھاتوں اور الیکٹرانکس اشیا کی باقیات شامل ہیں ۔ اس الیکٹرانک کچرے کو کیمیکل سے جلاکر پلاسٹک اور مختلف دھاتیں الگ کی جاتی ہیں۔ جبکہ بچ جانے والے مواد جیسا کہ لیڈ ، مرکری، زنک کو ندی نالوں کی نذر کیا جاتا ہے جو نہ صرف پانی کو زہر آلود کررہا ہے بلکہ فضائی اور زمینی آلودگی کو بڑھارہا ہے ۔
اس کچرے کا کیا کیا جائے؟ اس کو کس طرح تلف کیا جائے اور اس کو کس طرح کار آمد بنایا جائے ، یہ بہت بڑا چیلنج ہے ۔ ہمارے پاس نہ تو اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی موجود ہے نہ ہی کوئی واضح سطح پر پالیسی اور نہ ہی ہماری عوام میں اس حوالے سے آگاہی اور شعور موجود ہے ۔ٹھوس فضلہ کو لے کر ہمارا سب سے بڑا چیلنج تو یہ ہے کہ اس فضلے کو ڈمپنگ پوائنٹس تک پہنچایا جائے کیونکہ زیادہ تر یہ ٹھوس فضلہ اپنے ڈمپنگ پوائنٹس تک نہیں پہنچتا ۔
دنیا میں گھریلو فضلہ میں سے کاغذ ، شیشہ ، دھات اور نامیاتی یا سبز کچرے کوجدا کیا جاتا ہے۔ صاف کچرے کو الگ الگ کردیا جاتا ہے تاکہ اس کا مکمل طور پر دوبارہ استعمال کیا جاسکے۔ جبکہ پاکستان میں گھر یلو فضلہ کو الگ الگ کرنے کا رواج ہی نہیں کیونکہ اس حوالے سے آگاہی کی کمی ہے۔ لیکن بظاہر اسی بیکار و ناکارہ کچرے میں شامل بہت سی اشیا کو دوبارہ قابل استعمال بنا کر نئی چیزیں بنانا ممکن ہوگیا ہے جسے ری سائیکلنگ (Recycling) کہا جاتا ہے۔خوش آئند ہے کہ پاکستان میں ٹھوس فضلے کی ری سائیکلنگ کی ایک غیر رسمی ری سائیکلنگ انڈسٹری وجود میں آرہی ہے۔
پاکستان اس وقت معاشی بحران میں ہے اور حالیہ سیلاب کے بعد غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے ۔ اگر ہمارے نوجوان ٹھوس فضلے کو ری سائیکل کرکے اسے کار آمد بنانا شروع کریں تو وہ اس سے ایک اچھی آمدنی بھی کماسکتے ہیں اور ماحول بچانے میں بھی اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں ۔
مغربی ممالک میں ٹھوس فضلے کے لیے باقاعدہ ایک ڈھانچہ موجود ہے جس کے تحت اس فضلے کو Reduce, Reuse and Recycleکیا جاتا ہے ۔ یعنی اس کو کم کرو یا پھر دوبارہ استعمال کرو یا پھر اسے بحفاظت ٹھکانے لگا دو۔
ٹھوس فضلے کے اس باقاعدہ نظام کے تحت مغربی ملکوں میں ہر گھر میں کم ازکم تین کوڑے دان موجود ہوتے ہیں۔ ایک میں نامیاتی(organic waste)کچرا یعنی کھانے پینے کی اشیا وغیرہ کو ڈالاجاتا ہے۔دوسرے میں کاغذ اور تیسرے میں دیگر غیر نامیاتی(Inorganic waste) کوڑا مثلاً پلاسٹک،دھاتیں اور گلاس ڈالا جاتا ہے ۔
یہ کوڑے دان مقررہ جگہ رکھے ہوتے ہیں۔روزانہ کی بنیاد پر اس کچرے کو اس کے پوائنٹس سے اٹھالیا جاتا ہے ۔اس طرح نہ صرف شہریوں کی ذمہ داری اور حکومت کے فرض کی ادائیگی ممکن ہوتی ہے بلکہ ماحول اور صحت دونوں بہتر رہتے ہیں ۔
اس کے بعد کچرے کی درجہ بندی کرکے اسے ری سائیکل کیا جاتا ہے اور جو کچرا کسی کام کا نہیں ہوتا اسے زیر زمین دفن کیا جاتا ہے ۔کوڑا کرکٹ کے لیے کیا جانے والا یہ سسٹم ویسٹ مینجمنٹ (Waste management)یا کچرا ٹھکانے لگانے کا سسٹم کہلاتا ہے۔جبکہ ہم عام طور پر کوڑے کو جمع کرکے آگ لگادیتے ہیں یا پھر خالی پلاٹوں کو کچرا کنڈی میں تبدیل کردیتے ہیں۔
کاغذ،کارڈ بورڈ،دھاتیں،گلاس اور پلاسٹک کی بعض اقسام کو قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے ۔لیکن ہمارے شہروں میں کچرا اٹھانے کا نظام ناقص اور بوسیدہ ہے۔جبکہ کچرا سڑکوں ، گلیوں میں سڑتا اور بدبو پھیلاتا رہتا ہے اور اسی کچرے کے ڈھیر میں دبی بہت ساری اشیا ء بھی ضائع ہو جاتی ہیں جنھیں قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے ۔کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے صرف اس کو ڈمپ کرنا کافی نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے باقاعدہ ویسٹ مینجمنٹ پالیسی کا حکومتی سطح پر نفاذ کرنا ہوگا ۔
کچرے سے قابل استعمال اشیا چننے والوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور اس کے لیے مقامی سطح ہر کام شروع کیا جانا چاہیے تاکہ قابل استعمال کچرے سے نہ صرف مختلف اشیاء بنائی جائیں بلکہ اس کی بدولت روزگار کے مواقع سامنے آئیں۔ اس سے شہروں کی آب و ہوا پر بھی مثبت اثر پڑے گااور کچرا بھی کم ہوجائے گا۔
پاکستانی قوم کو یہ آگہی دینے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ گھروں،دفاتر اور دیگر جگہوں پر دو کوڑے دان ضرور استعمال کریں۔ایک میں نامیاتی یعنی غذا کا بچا کھچا ڈالا جائے اور دوسرے میں غیر نامیاتی کچرا۔اس سے نہ صرف ملک کو صاف ستھرا بنا یا جاسکتا ہے بلکہ یہ ہمارے ماحول اور ہماری صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ بچوں کو بھی اس تعلیم اور تربیت کی اشد ضرورت ہے کہ کچرے کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے۔ حکومتی سطح پر سالڈویسٹ مینجمنٹ بورڈز کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا ۔ ہرشہر میں فل سائٹس لینڈ بنانا ہوںگی جہاں کچرے کو تلف کیا جاسکے۔ جبکہ قابل استعمال کچرے کے لیے ری سائیکلنگ کرنے والی صنعت کا فروغ بڑھانا ہوگا اور اس حوالے سے اسٹارٹ اپس کی بھی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے ۔
ا گر معاشرے کا ہر فرد اپنا اپنا کردار ادا کرے تو سرسبزاورصاف ستھرے پاکستان کا خواب خواب نہیں رہے گا۔ ||
مضمون نگار معروف صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔
[email protected]
تبصرے