اللہ تعالی نے انسان کو عقل اور غور و فکر کی صلاحیت سے نوازا ہے، اس لیے اختلاف ہونا ایک فطری بات ہے۔ عقل و دانش کا معیار ایک نہیں ہے، درجات مختلف ہیں اور دائرے بھی متنوع ہیں۔ اس لیے زندگی کے ہر شعبہ میں اختلافات موجود ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ آرا و افکار کا تنوع اور خیالات و تاثرات کا اختلاف سیاست میں بھی ہے، تہذیب و ثقافت میں بھی ہے اور مذہب میں بھی ہے۔ اس لیے اختلافات کا موجود ہونا کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے مگر جب اختلافات اپنی جائز حدود سے باہر نکلنے لگیں تو وہ تنازع اور جھگڑے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
معاشرے میں باہمی یگانگت اور ہم آہنگی کی ضرورت اور اہمیت کو جاننے کے لیے ہمیں پہلے باہمی یگانگت اور ہم آہنگی کو الگ الگ سمجھنا ہوگا۔کسی بھی معاشرے میں باہمی یگانگت ، قرابت، اتحاد، اتفاق،یکجہتی کی آئینہ دارہوتی ہے جب کہ ہم آہنگی ایک دوسرے کے خیالات سے متفق، ربط اور مطابقت رکھنا یا ساتھ دینے کو کہتے ہیں۔ کسی بھی قوم اور ملک میں امن ،سکون اور معاشرتی ہم آہنگی کا پہلا اصول دوسرے فرد کے جذبات کو سمجھنا ،اہمیت دیناہے ،تاکہ جواباً ہم بھی وہ سب حاصل کر سکیں۔ حقوق و فرائض میں توازن ہی اس کے حصول کی ضمانت ہے۔قوم اورحکومتیں باہم مل کر کسی بھی معاشرے کی ترقی، امن، اتحادو یگانگت پر انفرادی واجتماعی طور پر اثر انگیز ہوتے ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ انصاف پسندی،مساوات اور لوگوں کی آزادی رائے کی حفاظت کرے۔ لوگوں کا حق خود ارادیت بغیر کسی نسلی و مذہبی فرق کے محفوظ ہو۔ معاشرتی ہم آہنگی کی بنیادی تعریف ان لفظوں میں بھی کی جاسکتی ہے کہ بغیر کسی رنگ و نسل، مذہبی و معاشرتی تفرقے کے انسان کو انسانیت کی بنیاد پر عزت دینا، محبت سے اس کی رائے کا احترام کرنا، مساوات کا ماحول پیدا کرنا ہی معاشرتی ہم آہنگی ہے۔
اللہ تعالی نے انسان کو عقل اور غور و فکر کی صلاحیت سے نوازا ہے، اس لیے اختلاف ہونا ایک فطری بات ہے۔ عقل و دانش کا معیار ایک نہیں ہے، درجات مختلف ہیں اور دائرے بھی متنوع ہیں۔ اس لیے زندگی کے ہر شعبہ میں اختلافات موجود ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ آرا و افکار کا تنوع اور خیالات و تاثرات کا اختلاف سیاست میں بھی ہے، تہذیب و ثقافت میں بھی ہے اور مذہب میں بھی ہے۔ اس لیے اختلافات کا موجود ہونا کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے مگر جب اختلافات اپنی جائز حدود سے باہر نکلنے لگیں تو وہ تنازع اور جھگڑے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت اور انتشار اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ہم کسی بھی سطح پر عقل و شعور کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم وہ ہی درست سمجھے ہیں جو خود کے لیے بہتر سمجھتے ہیں۔ملک اور قوم کے اجتماعی مفادات اور فائدے کے بجائے ذاتی خواہشات کو اولیت اور اہمیت دینے لگے ہیں ۔دوسرے کے اختلاف رائے کو کسی طور پر برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی معاشرہ دو گروہوں میں منقسم ہو گیا اور یہ تقسیم آج بھی ہمارے معاشرے میں قائم ہے۔ بعض کے نزدیک پاکستانی ریاست کو ایک Theocracy ہونا چاہیے۔ تو دوسروں کے نزدیک ایک سیکولر ریاست۔ بہر طورہمارے معاشرے میں عدم مساوات کی وجہ سے معاشرے میں عدم برداشت جیسی موذی بیماریاں پیدا ہوئی ہیں۔ ایک مثالی اور مساوی معاشرہ ہمیشہ ترقی کرتا ہے ، لیکن پاکستان میں عدم مساوات کی وجہ سے عدم برداشت بڑھی ہے اور معاشرہ ترقی کے بجائے پستی کی طرف گیا ہے۔سیاسی اختلافات کی بات کی جائے تو یہ ایک اہم عنصر ہے جس نے عدم یگانگت کو بڑھاوا دیا ہے ۔ ایک دوسرے سے اختلاف اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ لوگ باہم دست و گریباں ہو جاتے ہیں جس سے نہ صرف اختلافات جنم لیتے ہیں بلکہ دشمنیاں بڑھ جاتی ہیں ۔ عدم یگانگت کی وجہ سے معاشرے میں انتشار پید اہوتا ہے اور ہر طرف بے چینی اور بدامنی ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے وطن عزیز میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی میں اضافہ ہوا ہے۔ عدم مساوات کی وجہ سے وسائل کی ترسیل مساوی نہیں ہے، پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے لوگ سڑکوں کا رخ کرتے ہیں۔ ڈاکا زنی، چوری اور اسٹریٹ کرائم میں اضافہ اس کا ثبوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور یہ شرح دن بدن بڑھ رہی ہے۔
برداشت کا انسان کی ذاتی کامیاب زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک بہت بڑا کردار ہے۔کامیابی دراصل انسانی عادات کا ہی مجموعہ ہوتی ہے اور بعض عادات تو اجتماعی زندگی پر بھی انتہائی گہرے اثرات رکھتی ہیں۔ اسی طرح سے عدم برداشت کی عادت نے کئی معاشروں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔آج کی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ، جنونیت اور انتہا پسندی بھی عدم ہم آہنگی اورعدم برداشت ہی کی وجہ سے ہے۔پاکستان جیسے معاشرے میں عدم برداشت کی ایک اہم بنیادی وجہ ہمارے درمیان مذہبی اور فقہی اختلافات ہیں، یہی اختلاف ایک دوسرے سے نفرت کا باعث بنتے ہیں۔
سیاسی اختلافات اور سیاسی نظریات کے معاملے میں معاشرے میں موجود عدم برداشت ایک زہر قاتل ہے جو اب ایک روایت بن چکا ہے۔اختلاف رائے کسی بھی معاشرے میں روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس معاشرے میں اختلاف کرنے والے ناپید ہوں وہ معاشرہ جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ کہنا بالکل غلط نہ ہو گا کہ تاریخ انسانی کی کامیابیوں کا راز اختلاف رائے میں مضمر ہے۔ معاشرتی اصلاح کا سفر اختلاف رائے سے شروع ہوتا ہے۔ لہٰذا جس معاشرے میں رواداری و برداشت نہیں ہو گی تو وہاں اختلاف رائے کا عمل ناپید ہو جائے گا۔جس کے نتیجے میں معاشرتی تبدیلی محض ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔برداشت کا انسان کی ذاتی کامیاب زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک بہت بڑا کردار ہے۔کامیابی دراصل انسانی عادات کا ہی مجموعہ ہوتی ہے اور بعض عادات تو اجتماعی زندگی پر بھی انتہائی گہرے اثرات رکھتی ہیں۔ اسی طرح سے عدم برداشت کی عادت نے کئی معاشروں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔آج کی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ، جنونیت اور انتہا پسندی بھی عدم ہم آہنگی اورعدم برداشت ہی کی وجہ سے ہے۔پاکستان جیسے معاشرے میں عدم برداشت کی ایک اہم بنیادی وجہ ہمارے درمیان مذہبی اور فقہی اختلافات ہیں، یہی اختلاف ایک دوسرے سے نفرت کا باعث بنتے ہیں۔ اس کائنات میں جنگ اور مذہب کے نام پر سب سے زیادہ جانوں کا نقصان ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے معاشرے میں فرقہ وارانہ تعصب ایک شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ مذہب کی آڑ میں آئے دن کوئی ہنگامہ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ جس سے ایک دوسرے سے نفرت اور عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔ان اختلافات اور عدم برداشت کے رجحان کو مذہبی ہم آہنگی اور یگانگت کے رویوں سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔
آج ہم اپنے اسلاف کے بتائے ہوئے راستے سے دوری اختیار کر کے عدم برداشت، اختلافات اور انتشار کا شکار ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم آپس میں پیار، محبت، یکجہتی، بھائی چارے اور اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ یہی وقت کی ضرورت ہے اور اسی میں ہم سب کی بہتری بھی ہے۔ نفرت، کینہ، بغض اور عناد کے بت کو پاش پاش کر کے آپس میں انسانیت کے عظیم رشتے میں استوار ہونے کی ضرورت ہے۔بحیثیت قوم باہمی یگانگت اور ہم آہنگی کی مظاہرہ کریں اور عملی کردار ادا کریں۔آپس میں نفرتوں اور کدورتوں کے بتوں کو پاش پاش کر کے ایک دوسر ے کو برداشت کرنے کی روایت ڈالی جائے۔ آپس میں پیار اور محبت کا رشتہ استوار کیا جائے۔ ہمارا خدا ایک ہے، رسول ایک ہے، قرآن ایک ہے۔ ہم ایک امت ہیں، لیکن ہم فرقوں ، قومیتوں اور لسانی گروہوں میں بٹ کر تقسیم در تقسیم ہو چکے ہیں۔ ساری مخلوق ایک خدا کی پیدا کردہ ہے ہمیں انسانی رشتوں کے احترام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو اسی میں ہم سب کی بقا اور سلامتی ہے۔
پاکستان ایک متنوع معاشرہ ہے جہاں معاشی، ثقافتی، سیاسی، مذہبی اور معاشرتی تفرقات موجود ہیں جو بلاشبہ رنگ نسل، ذات پات اورفرقوں میں منقسم ہے۔یہی تنوع،تفرقات اور اختلاف رائے جب منفی روش اختیار کر جاتے ہیں تو ملکی امن، ہم آہنگی اور معاشرتی تناسب کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ نہ صرف اندرونی بلکہ بیر ونی طور پر بھی ان تفرقات اور منفی رویوں کا مقابلہ صرف تحمل برداشت اور امن کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی قوم یا معاشرے کے تہذیب یافتہ ہونے کا بنیادی ستون یہی روایات اور ہم آہنگی ہے جو کہ مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔
مضمون نگار ''کانسپٹ آف ٹیررازم اِن پوسٹ کولڈ وار ایرا'' کی مصنفہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے