کائنات کی عمر تقریباً پندرہ بلین جب کہ اس دنیا کی عمر کم و بیش 4.6 بلین سال بتائی جاتی ہے جہاں دیگر سیاروں کی بانسبت ہماری دنیا میں زندگی کے انمول خزائن پائے جاتے ہیں۔ انسان جیسے جیسے بڑھتا چلا جارہا ہے ویسے ویسے ماحولیاتی آلودگی کے مسائل میں بھی روز افزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے بین الاقوامی سطح پر ماحولیاتی ادارے تحفظ ماحول پر بات کرنے اور اس پر قابو پانے کے اقدامات کر رہے ہیں۔ جنگ و جدل نے نظام ماحولیات کی صورت مزید ابتر کردی ہے۔ کھانے کی قلت، صاف پانی کی عدم دستیابی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ماحولیات کی بقا صرف اور صرف اسلام کی تعلیمات میں مضمر ہے۔ قرآن و حدیث میں جا بجا ان انمول خزائن کی اہمیت و افادیت کو بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی حفاظت کے طریقوں سے بھی ہمیں آگاہ کیا گیا ہے۔
پانی کی حفاظت:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے پانی کو زندگی کی بنیاد قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ) "اور وہی تو ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے جن میں سے ایک کا پانی لذیذ اور شیریں ہے اور دوسرے کاکھارا اور کڑوا، پھر ان کے درمیان ایک پردہ اور سخت روک کھڑی کردی ہے۔"
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے ہم پر واضح کیا کہ دو سمندر ملنے کے باوجود ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں ہوسکتے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے لیے میٹھا پانی زندگی ہے۔ یہ میٹھا پانی مقدار میں صرف تین فیصد ہے لہٰذا اس کی حفاظت کا ذمہ بھی انسان کے سپرد کیا تاکہ وہ اس عظیم نعمت کا شکر کرے اور اس کو ضائع اور آلودہ ہونے سے بچائے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث نبویۖ میں سے پانی کو آلودہ کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:" نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کیا ہے۔"ساتھ ہی ساتھ اس نعمت کو ضائع کرنے سے منع فرمایا گیا ہے، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سعد رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس سے گزرے، وہ وضو کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ کیا اسراف ہے۔ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: وضومیں بھی اسراف ہوتا ہے؟ فرمایا : ہاں! اگرچہ تم جاری نہر پر ہو۔"
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وضو جیسے نیک کام میں بھی پانی جیسی نعمت کا بے جا خرچ اسراف کے زمرے میں آتا ہے۔
ماہرین ماحولیات اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ واٹر سائیکل کے حوالے سے قرآن نے ہمیں چودہ سو سال پہلے ہی بتادیا تھا۔ سورة الفرقان میں ارشاد ہوتا ہے: (ترجمہ)اور بے شک ہم نے ان میں (پانی کے)پھیرے رکھے تاکہ وہ دھیان کریں، تو بہت لوگوں نے ناشکری کی۔الفرقان:(50)
پانی کے ان پھیروں کی حفاظت کا انحصار ہمارے سپرد کیا گیا لیکن ہم اسے اپنی تن آسانی کے لیے ضائع کر رہے ہیں۔ سورةالواقعہ میں ارشاد ہوتا ہے :(ترجمہ)''بھلا بتائو وہ پانی جو تم پیتے ہو کیا تم نے اسے بادل سے اتارا یا ہم ہیں اتارنے والے۔ ہم چاہیں تو اسے کھارا کردیں پھر کیوں نہیں شکر کرتے۔آیت: (68-70)
پانی کرہ ارض پر زندگی کی مانند ہے انسان ہوں یا نباتات، چرند ہوں یا پرند سب کی زندگی اسی پانی سے جڑی ہے لہٰذا ہمیں اس کی حفاظت کے لیے بر وقت اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ وہ دن دور نہیں جب تیسری عالمی جنگ دیکھنے میں آئے گی۔
پانی کی قدرو قیمت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب ہارون الرشید پند و نصائح طلب کرنے کے لیے حضرت شفیق بلخی علیہ الرحم کی خدمت میں حاضر ہوا تو شفیق بلخی نے پوچھا: کیا خلیفہ نے بے آب و گیاہ صحرا میں گھر کر اور پیاس کی شدت سے مغلوب ہوکر ایک گھونٹ پانی کے بدلے آدھی سلطنت سے دست بردار ہونے کو تیار ہے؟ تو ہارون الرشید نے بلا تامل جواب دیا: ہاں۔
معلوم ہوا کہ پانی ایک ایسی عظیم نعمت ہے جس کے قطرے کے لیے آدھی سلطنت بھی قربان کی جاسکتی ہے۔
نباتات کی حفاظت:
اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نباتات کی حفاظت کا بھی اسی طرح حکم فرمایا ہے جس طرح پانی کا۔ سیرت کے مطالعے سے یہ بات ہم پر واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس شہر میں بھی بطور فاتح جلوہ فرما ہوئے تو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو وہاں پر موجود نباتات کو نقصان پہنچانے سے منع فرماتے تھے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ انسان ترقی یافتہ ہونے کی تگ و دو میں جنگلات کے جنگلات ختم کرتا چلا جارہا ہے۔ تعلیمات نبویۖ ہمیں درختوں کی حفاظت اور اس کے لگانے کی ترغیب دیتی ہے۔ جامع ترمذی میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی باڑی کرے پھر اس سے انسان، پرندے یا جانور کھائیں تو اسے صدقے کا ثواب ملتا ہے۔''نباتات کی حفاظت کی جہاں ترغیب ملتی ہے وہیں اسے بلاوجہ کاٹنے کی واضح ممانعت بھی ملتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن حبشی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:" جس نے بیری کا درخت کاٹا اس نے اپنا سر آگ میں ڈال دیا۔"
اللہ کریم نے نباتات پیدا فرما کر انسانوں اور جانوروں کے لیے رزق کا انتظام فرمایا۔ سور البقر آیت نمبر 22 میں ارشاد ہوتا ہے:(ترجمہ) ''اور ہم نے اتارا آسمان سے پانی تو اس سے پھل نکالے تمہارے رزق کو۔''
غور طلب بات یہ ہے کہ ہم نباتات کو ترقی کے نام پر روندتے چلے جارہے ہیں پکی سڑکوں کو بنانے کے چکر میں درختوں کا پل بھر میں صفایا کر دیتے ہیں۔آج مختلف تنظیمیں پانی نباتات اور جمادات کی حفاظت میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی ان انمول خزائن کی حفاظت کے طریقے ہمیں سکھادیے تھے لیکن ہم اپنی ترقی کے زعم میں، خود اپنے ہی ہاتھوں، اپنی ہلاکت کا سبب بنتے جارہے ہیں۔
جانوروں کی حفاظت:
جنگ و جدل نے جہاں پانی اور نباتات جیسی نعمتوں کو نقصان پہنچایا ہے وہیں جانوروں پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ جانوروں کے حقوق اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے اسلام میں باقاعدہ قوانین ملتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک روا رکھنا چاہیے۔ حضرت ابن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:" ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب ہوا کہ اس نے بلی کو پکڑ رکھا تھا یہاں تک کہ وہ بھوک سے مرگئی۔ یہ عورت نہ اسے کھانے کو کچھ دیتی تھی اور نہ اسے چھوڑتی کہ وہ حشرات الارض سے اپنی غذا حاصل کرلیتی۔" معلوم ہوا جانوروں کو کسی بھی قسم کی اذیت دینا انسانیت کے خلاف ہے حتیٰ کہ انہیں برا کہنے سے بھی منع فرمایا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:''مرغ کو برا مت کہو کیوں کہ وہ نماز کے لیے جگاتا ہے۔'' ائمہ محدیثین اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ اس حکم کا اطلاق تمام جانوروں پر ہوتا ہے۔
جنگوں اور تشدد کے حالات میں اسلامی نقطۂ نظر:
کفار و مشرکین اسلام پر یہ بطور طعن یہ الزام لگاتے ہیں کہ اسلام جنگ و جدل کا مذہب ہے۔ یہ بات یکسر طور پر غلط ہے۔ جہاد کے معاملات اور اس میں قائم کردہ حدود کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام سے زیادہ پر امن دین کوئی نہیں ہے۔ اسلام نہ صرف بلاوجہ جنگ کی ممانعت فرماتا ہے بلکہ اپنے سوئے ہوئے دشمن پر بھی حملہ کرنے سے روکتا ہے۔ اسلام نہ صرف بچوں اور بوڑھوں کی حفاظت کی ترغیب دیتا ہے بلکہ عورتوں کی عصمت دری سے بھی روکتا ہے۔ اسلام نہ صرف اپنے سپاہیوں کو شہروں کو اجاڑنے سے روکتا ہے بلکہ یہ بھی ترغیب دیتا ہے کہ اس شہر میںلگے جنگلات کو نہ جلایا جائے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا عمیق مطالعہ رکھنے والا یہ بات جانتا ہے کہ مؤرخین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو امن و آشتی کا مظہر بتایا۔ وجہ کیا تھی؟ وجہ صاف ظاہر تھی کہ اگر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بروقت مؤثر اقدامات نہ فرماتے جغرافیائی صورت حال سے واقف نہ ہوتے تو کیا اسلام کے دامن میں صحابہ کرام جیسی جری ، بہادر اور رحم دل شخصیات نمو پاتیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہی تھیں جن کی بدولت دنیا میں موجود انمول خزائن کی قدر کی جانے لگی۔جہاد کے باوجود قلیل جانی نقصانات کا سامنا رہا۔ آج سائنسی دنیا کے ماہرین و مفکرین سے سوال ہے کہ کیا ایسی تعلیمات اور ایسا کریمانہ سلوک کہیں اور نظر آتا ہے۔ رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی فوجوں کو کھیت اجاڑنے سے منع فرمایا، درختوں کو کاٹنے سے منع فرمایا، شیردار جانوروں کو قتل کرنے اور کنوئوں میں زہر ملانے سے سختی سے منع فرمایا۔
(ترجمہ):" نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے لشکر کو نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ وہ سر سبز کھیتوں کو برباد نہ کریں، درختوں کو نہ کاٹیں، کمزور بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کریں، ان مردوں کو بھی قتل نہ کریں جو جنگ کے سلسلے میں کوئی رائے نہیں دیتے اور کسی طرح جنگ میں شرکت نہیں کرتے۔"
معلوم ہوا کہ رسول اللہ جو رحمت للعالمین ہیں، کی ہی شان تھی کہ جنہوں نے جنگ جیسے خوف ناک لمحات کو بھی رحم و کرم ڈھال کر پیش کیا۔
تاریخ اسلام سے جنگ و تشدد کے متعلق امثال کا جائزہ:
غزوہ خیبر میں جب خیبر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بطور غنیمت تقسیم فرمارہے تھے تو آپ نے خیبر کو اپنی اصلی حالت پر برقرار رکھا۔ اس کا ذکر طحاوی کی کتاب الجہاد میں یوں ملتا ہے:" ابو زبیر نے جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے یوں روایت کی کہ اللہ تعالیٰ نے خیبر بطور غنیمت عنایت فرمایا تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو پہلی حالت پر برقرار رکھا اور اس کو اپنے اور ان کے مابین برقرار رکھا۔ پھر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا تو انہوں نے پھل اور کھیتی کا اندازہ لگایا۔"
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے جنگلات اور ماحولیات کو نقصان نہیں پہنچایا، نہ ہی املاک کو آگ لگائی بلکہ اس کا جغرافیائی حال معلوم کر کے منصفانہ تقسیم فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمادات کو نقصان پہنچانے سے منع فرمایا۔
اسی طرح سلطان محمد فاتح نے جب فاتح کے طور پر قسطنطنیہ میں قدم رکھا تو اس کی املاک کو نہیں جلایا بلکہ جو جگہ جس کی ملکیت تھی، اسے اس کی ملکیت میں رہنے دی یہاں تک کہ آیا صوفیہ کو خرید کر گرجا گھر سے مسجد میں ڈھالا۔ بزور شمشیر اس جگہ پر قبضہ نہیں کیا۔
جنگ و تشدد کے باعث فضائی اور زمینی آلودگی:
خوش حالی کی دوڑ نے حضرت انسان سے اس کا سکون بھی چھین لیا۔ جس طرح قدرتی نظائر جنگ و تشدد کی نظر ہوتے جارہے ہیں وہیں قدرت کا دلفریب ترنم بھی کانوں کو اب کم ہی سنائی دیتا ہے، چڑیوں کی چہچہاہٹ کی جگہ الارم گھڑی کی گھنٹی نے لے لی اور ہوائوں کی سرسراہٹ کی جگہ گاڑیوں کے انجنوں نے لے لی۔ غرض کہ شور و غل کا وہ عالم ہے کہ کہیں سکون نہیں ملتا۔ رہی سہی کسر جنگ و تشدد نے پوری کر دی، فائرنگ کی آوازیں، گولہ بارود کے چلنے کی آوازیں، فضائی اور زمینی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔ سورة الفرقان میں ہوا کے حوالے سے ارشاد ہوتا ہے:" وہی ہے جس نے ہوائیں بھیجیں رحمت کا مژدہ سنا کر ۔" قرآن میں ہوا کو رحمت کا مژدہ سنانے والی فرمایا لیکن انسان اسے اپنے ہی ہاتھوں سے آلودہ کر رہا ہے۔
جنگ کے دوران استعمال ہونے والا بارودی مواد جہاں فضا کو آلودہ کر رہا ہے وہیں گلوبل وارمنگ کا سبب بھی بنتا جارہا ہے۔ جنگلات کے تباہ ہونے کے باعث زمین کا درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب ہمیں اس پر متحد ہوکر کام کرنا پڑے گا تاکہ دنیا گلوبل وارمنگ جیسے مسئلے سے نبردآزما ہوسکے۔
اختتامی بحث:
انسان اپنی زندگی کو آسانیوں میں ڈھالنے کی تگ و دو میں خود کو تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔ اس پر قابو پانے کا آسان ترین حل اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر حفاظتی اقدامات کرنا ہے۔اسلام نے ماحولیات کی حفاظت اور اس کی اہمیت کو ہم پر واضح کر دیا تاکہ ہم آلودگی جیسے سنگین مسائل پر بروقت قابو پاسکیں۔ آج جس طرح سے فضائی اور زمینی آلودگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ممکن ہے اس کے سبب زمینی درجہ حرارت متوازن نہ رہے۔ گلوبل وارمنگ کے سبب قطبین پرجمی برف پگھلنے کا اندیشہ ہے اور ایک سروے کے مطابق اگر یہ برف مکمل طور پر پگھل گئی تو سمندر دو سو فٹ بلند سطح پر پہنچ جائے گا جس کے سبب ممکن ہے دنیا کو دوسری بار طوفان نوح کا سامنا کرنا پڑے۔ جنگ و جدل میں استعمال ہونے والے آگ کے شعلے اور بارود بھی گلوبل وارمنگ کی وجہ بن رہے ہیں۔ جنگلات کو، مکانات کو اسرائیلی فوج نے غزہ میں، فلسطین میں، لبنان وغیرہ میں برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ امن کے داعی امن کے خلاف محاذ آرائی کرتے نظر آرہے ہیں۔ ان حالات میں دیگر ممالک کے مسلمانوں کو یکجا ہوکر اسلامی تعلیمات کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ انسان کو اب فطرت سے قریب ہونا پڑے گا ورنہ نتائج بے حد خوف ناک ہوں گے۔
مضمون نگار مختلف اخبارات میں مذہبی اور سماجی اُمور پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے