قائد اعظم محمد علی جناح کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات تھی کہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہو گا۔ انہوں نے کشمیر کو بھارت کے ناجائز قبضے سے آزاد کرانے کے لیے ٹھوس کوششیں کیں کیونکہ کشمیری عوام کے ساتھ ان کی وابستگی ناقابل تسخیر تھی۔ یہ ان کی دور اندیشی تھی کہ وہ پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے لیے بھی کشمیر کی اہمیت کو محسوس کرتے تھے۔ انہوں نے کشمیریوں کے دگرگوں حالات کو دیکھ کر کشمیر پر بھارتی جارحیت کی تب پرزور مذمت کی جب کوئی ان کے چیخ و پکار پر دھیان نہیں دے رہا تھا۔قائداعظم نے ہمیشہ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا اور سمجھا ہے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے، اس کے بغیر پاکستان کی تکمیل نہیں ہوگی۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کشمیر تہذیب ، ثقافت ، معاشرت اور مذہبی طور پر پاکستان کا حصہ ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کشمیر دفاعی طورپرپاکستان کی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کشمیر پاکستان کا ایک ایسا اٹوٹ حصہ ہے جسے پاکستان سے کوئی الگ نہیں کرسکتا۔ پاکستانی اور کشمیری عوام کبھی ایک دوسرے سے الگ ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ بھارت گزشتہ74 سال سے کشمیریوں پر جو مظالم ڈھارہا ہے اس پرپاکستانی عوام نے نہ صرف بھارت کے مظالم کی مذمت کی، کشمیریوں کے ہر دکھ اور غم میں شریک رہے ہیں بلکہ اقوام متحد ہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں میں بھی پاکستان نے یہ آواز اٹھائی ہے کہ کشمیریوں کو بھارت کے ظلم و جبر سے آزادی دلائی جائے۔
کشمیری رہنما شیخ محمد عبداللہ اپنی سوانح حیات ''آتش چنار'' میں علامہ اقبال کی کشمیری قوم کے ساتھ اپنی ہمدردی و غمگساری کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: شاعر مشرق علامہ اقبال کا دل کشمیری قوم کی مظلومیت، کسمپرسی اور بے بسی کی وجہ سے پریشان رہتا تھا۔علامہ اقبال کو اس بات کا احساس تھا کہ کشمیری ایک غلام اور مظلوم قوم ہے اور وہ ہندوؤں اور انگریزوں کی غلامی میں جکڑی ہوئی ہے۔ چنانچہ ابتدا ہی سے وہ کشمیریوں کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ وہ آزاد ہوں، ترقی کریں اور دنیا میں سربلند ہوں۔
22 ستمبر 1965 کو سلامتی کونسل میں کشمیر کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے ذوالفقارعلی بھٹو نے کہا تھا۔''جموں و کشمیر ، بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے اور نہ ہی کبھی رہا ہے۔ جموں و کشمیر ، بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازع علاقہ ہے۔ جموں و کشمیر کے لوگ خون ، گوشت (نسلی اور لسانی)، طرز زندگی ، ثقافت ، جغرافیہ اور تاریخ ، بلکہ ہر لحاظ سے اور ہر شکل میں پاکستان کے عوام کا حصہ ہیں۔ ہم اپنے دفاع کی جنگ ایک ہزار سال تک لڑیں گے۔''
کشمیر اور پاکستان کے لوگ صدیوں پر محیط قومی، تاریخی، سیاسی، مذہبی، ثقافتی اور جذباتی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی عوام کشمیر کو اپنی جان سمجھتی ہے اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی ہمیشہ حمایت کرتی رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے غیر قانونی بھارتی قبضے اور مظالم کے خلاف حکومت پاکستان نے1990 میں 5 فروری کو ''یوم کشمیر''کے طور پر منانا شروع کیا۔اس دن کی اہمت کو اجاگر کرنے اور بھارت کے مکروہ چہرے کو دنیا کو دکھانے کے لیے ملک بھر میں سرکاری اور نجی سطح پر سیمینار، کانفرنسز، مظاہرے اور خصوصی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں تاکہ کئی دہائیوں پر محیط بھارتی مظالم کو اجاگر کیا جا سکے،کشمیر کاز کے لیے پاکستان کی حمایت کا اظہار کیا جا سکے۔ کشمیرکے مجاہدین کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے نسلیں گنوائی ہیں۔
بھارت کشمیر میں سات دہائیوں سے روزانہ کی بنیاد پر مظالم کی المناک داستان رقم کررہا ہے۔ بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے کشمیریوں پر ظلم وستم، تشدد ، گرفتاری ، ماورائے عدالت قتل کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ ہر گزرتے دن میں کشمیریوں کی شہادت میں اضافہ ہورہا ہے۔ بھارتی حکومت نے 2019 میں آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی خودمختاری چھین لی ہے،ہیومن رائٹس کی رپورٹ 2021 کے مطابق تب سے اب تک بھارتی فوج، نیم فوجی اور پولیس اہلکار 515 کشمیریوں کو شہید کر چکے ہیں۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران مقبوضہ جموں و کشمیر میں سال 2022 کے دوران ایک خاتون اور پانچ کمسن لڑکوں سمیت 214 بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔ان اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ 33 سالوں کے دوران بھارتی فورسز 95,948 کشمیریوں کو شہید کرچکی ہے۔ غیر جانب دار تحقیقی اداروں کے مطابق 1989 سے اب تک 100,000 سے زیادہ کشمیری بھارت کے مظالم کا شکار ہو کر شہید ہو چکے ہیں۔
کشمیر کو جنت نظیر بھی کہا جاتا ہے ،یہ دنیا کی خوبصورت ترین وادی ہے جہاں چاروں طرف ہریالی، آسمانوں کو چھوتے پہاڑ، جھرنوں اور آبشاروں کی روانی ہے۔اس جنت نظیر وادی کو بھارت کے تسلط نے کشمیریوں کے لیے جہنم سے بھی بدتر بنادیا ہے۔ جہاں مسلمان بیٹیوں کی عصمت تار تار کی جا رہی ہے، مائوں کی آغوش کو اجاڑا جارہا ہے،نوجوانوں اور بزرگوں کو سرعام قتل کیا جارہا ہے، بے گناہ اور معصوم بچوں کو عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کرنے کی اس تحریک میں کشمیریوں نے بڑے پیمانے پرشہادتیں پیش کی ہیں ۔ اس کی ایک طویل فہرست ہے لیکن جس طرح برہان وانی نے بھارتی سامراج کے خلاف مزاحمت کی تحریک کو منظم کیااس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ برہان وانی نے وادی کشمیر کے جنگلوں اور پہاڑوں میں رہ کر بھارتی ا فواج کا مقابلہ کیا ۔ برہان وانی کی شہادت نے مقبوضہ علاقے کے نوجوانوں میں حق خود ارادیت کے حصول کی خاطر ایک نئے جذبے کو جنم دیا اور تحریک آزادی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔برہانی وانی آج ہم میں موجود نہیں ہیں مگر وہ اپنے خون سے ایک ایسی لکیر کھینچ گئے ہیں جس کو بھارت لاکھ چاہے بھی تو مٹا نہیں سکتا ۔ان کی شروع کی گئی مزاحمتی تحریک مقبوضہ وادی میں پھیل چکی ہے۔ شہید برہان وانی کا خون بھارتی تسلط اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
کشمیریوں کی لازوال قربانیاں اور شہادت انتہا پسندبھارت کے لیے پیغام ہے کہ کشمیری عوام موت تو قبول کرسکتے ہیں مگر بھارت کی غلامی ہر گز قبول نہیں کریں گے۔کشمیریوں نے بحیثیت ایک قوم اس بات کا عہد کیا ہے کہ وہ بھارت کے تسلط سے آزادی تک اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے۔کشمیری قوم جس طرح بھارتی ظلم و جبر کے سامنے سینہ سپر ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ ان میں جذبۂ آزادی کی اُمنگ بڑھ رہی ہے۔ لہٰذابھارت اپنی فوجی طاقت اور ظلم کی بنیاد پر کشمیری عوام کے جذبۂ آزادی کوکبھی بھی دبا نہیں سکے گا۔کشمیریوں کے شہداء کی قربانیوں کی بدولت کشمیر بھارت کے تسلط اور جبر سے اِن شاء اللہ جلد آزادی حاصل کرے گا۔
انڈیا کے آئین میں شق 370 کو آئین میں شامل کیا گیا تھا تاکہ اس آرٹیکل کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی نیم خودمختاردی جائے۔ انڈیا کے آئین میں شق 370 کواس لیے بھی شامل کیا گیاتاکہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ اور اختیارات دیے جا سکیں لیکن2019 میں انڈیا کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کیا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے وہ اب ختم ہوچکے ہیں۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 35 اے بھی ختم ہو گیا ہے جس کے تحت ریاست کے باشندوں کی بطور مستقل شہری کے شناخت ہوتی تھی اور انھیں بطور مستقل شہری کے خصوصی حقوق ملتے تھے۔آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعداب کشمیریوں کو اس بات کا ڈر ہے کہ وہ بھی فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہو جائیں گے۔جس طرح بھارت کی سرکار غیر مسلموں کو بڑی تعداد میں کشمیر میں آباد کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے اس کے نتیجے میں کشمیر پر غیر مقامی کشمیریوں کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہوجائیں گے۔ کشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندو تارکین وطن کو بسانے کی کوشش بڑی حد تک کامیاب ہوچکی ہے اور اب تک بھارت تقریباً 3.4 ملین ڈومیسائل غیر کشمیریوں بالخصوص ہندوؤں کو جاری کر چکا ہے تاکہ مسلم اکثریتی حیثیت کو کمزور کیا جاسکے۔ لہٰذا اقوام عالم اور اقوام متحدہ کو اس صریح خلاف ورزی کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔
حکومت پاکستان نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے بھارت سے کہا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں اپنے حالیہ اقدامات پر نظرثانی کرے جب تک وہ اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا اس وقت تک بھارت سے بات چیت نہیں ہوسکتی۔پاکستان کا مطالبہ ہے کہ فوری طورپر آرٹیکل 370 کو اس کی اصل حالت میں بحا ل کیا جائے۔ آبادیاتی تبدیلیوں کو تبدیل کرنے کے سلسلے کو فوری طور پرروکا جائے اور وادی میں فوجیوں کی تعداد کو کم کیا جائے۔
پاکستان روز اول سے اپنے منصفانہ اور دیرینہ مؤقف پر قائم ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دیا جائے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں میں درج ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر جنوبی ایشیا میں امن اور خوشحالی ممکن نہیں۔ ||
مضمون نگار ''کانسپٹ آف ٹیررازم اِن پوسٹ کولڈ وار ایرا'' کی مصنفہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے