کشمیر کی آزادی کی راہ میں دو بڑی رکاوٹیں حائل ہیں۔ اول انڈیا کی ہٹ دھرمی اور دوم عالمی برادری کی بے حسی۔ 1948 میں جب مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا تو اس تنازعے نے عالمی توجہ حاصل کی۔ اس طرح بڑی طاقتوں نے بھی اس مسئلے میں دلچسپی لی اور اپنے مفادات کی خاطر پاکستان و انڈیا کی حلیف بنیں۔ 1948-49 میں اقوا م متحدہ کمیشن برائے ہند و پاکستان کی منظور کردہ تفصیلی قراردادوں کی روشنی میں یہ طے پایا تھا کہ جموں و کشمیر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ مقامی ریاستی باشندے کریں گے۔کشمیریوں کے لیے حقِ خود ارادیت تسلیم کرلیا گیا، لیکن ان کو یہ حق تاحال نہیں دیا گیا۔ اس راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ دراصل انڈیا چاہتا ہی نہیں ہے کہ کشمیری باشندے آزادانہ رائے شماری کے ذریعے الحاق کا فیصلہ کریں۔ انڈیا کے نزدیک اس کا مطلب جموں و کشمیر سے دست بردار ہونا ہے کیونکہ کشمیریوں کی اکثریت انڈیا سے الحاق کی خواہش مند نہیں ہے۔ اگر انڈیا کو ذرا بھی امید ہوتی تو وہ رائے شماری کی راہ میں رکاوٹوں کے بجائے اس کے انعقاد کی راہ ہموار کرتا۔
انڈیا نے سلامتی کونسل کی قراردادوں سے روگردانی کرنے اور مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لیے دو طریقے اختیار کیے ہیں۔ اول عالمی برادری بشمول سلامتی کونسل کو مسئلہ کشمیر پر کسی قسم کے کردار سے باز رکھا جائے۔ دوم مقبوضہ جموں کشمیر میں اپنے پائوں جمانے کے لیے حریت پسندوں پر بدترین تشدد کی پالیسی اختیار کی جائے۔ جہاں تک تشدد کی بات ہے، 2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھارتیہ جتنا پارٹی(BJP) کے دور حکومت میں انڈیا نے اس پالیسی پر جس طرح عمل کیا ہے، اس کی نظیر گزشتہ دہائیوں میں نہیں ملتی۔ اس وقت کشمیری حریت لیڈر شپ جیلوں میں بند ہے۔ ان پر مختلف سیاسی مقدمات بنائے گئے ہیں۔ انڈیا چاہتا ہے کہ حریت پسند قیادت کسی صورت جیل سے باہر نہ آئے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران تین حریت پسند رہنما سید علی گیلانی، محمد اشرف صحرائی اور الطاف احمد شاہ دوران حراست انتقال کرگئے۔ جب کہ شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، مسرت عالم بٹ اور آسیہ اندرابی سمیت متعدد رہنما خرابی صحت کے باوجود دہلی کی تہاڑ جیل میں قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔
سال 2022 کے آخر میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی'' سیربین'' میں ایک رپورٹ پیش کی گئی، جس میں بعض کشمیریوں کی شناخت ظاہر کیے بغیر ان کے ساتھ کشمیر میں امن کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔ کشمیری مرد وخواتین نے جو تاثرات بیان کیے،وہ اگست2019 کے بعد کشمیر کا منظرنامہ سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ ایک خاتون کا کہنا تھا:انڈین حکومت اب مختلف طریقے سے آوازوں کو دبا رہی ہے۔ پہلے ایسا ہوتا تھا کہ احتجاج ہوں گے اور یہ تصور تھا کہ تشدد ہوگا، بندوقیں ہوں گی، راستوں پر جھڑپیں ہوں گی لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے۔ایک اور خاتون کا کہنا تھا:لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ کوئی لکھے تو وہ گرفتار ہو جاتا ہے۔ صرف کشمیر کے باہر نہیں بلکہ کشمیر کے اندر بھی کوئی خبر نہیں۔ ہم جو سانس لیتے ہیں اس تک میں خوف ہے۔ایک نوجوان کشمیری نے بتایا:صرف کشمیری ہی نہیں، مجھے لگتا ہے انڈیا بھی اس خاموشی پر الجھن میں ہے۔ پتا نہیں کشمیریوں کی خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھ داری ہے یا پھر ناامیدی۔ان حالات میں اگر انڈیا یہ بیان دے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں خاموشی کے پیچھے امن ہے، تو اس کو ہٹ دھرمی اور بے شرمی کا نام نہ دیا جائے تو اور کیا کہا جائے؟
مقبوضہ کشمیر میں شاذ و نادر ہی ایسا ہوا ہے کہ موسم بہار پرسکون گزرا ہو۔ برف پگھلتے ہی کشمیر میں سیاسی طور پر بھی درجہ حرارت بڑھ جاتا تھا۔پرزور ایجی ٹیشن شروع ہوجاتا تھا۔ 2008 کی شرائن بورڈ تحریک کے بعد تسلسل کے ساتھ بھرپور عوامی احتجاج معمول کا حصہ بن گیا تھا۔ لیکن اگست2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وادی کشمیر میں جس قدر وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ شروع ہوا، وہ تاحال تھم نہ سکا۔ اگرچہ کشمیری ان مشکل حالات میں بھی حقِ خود ارادیت کے مطالبے سے دست بردار نہیں ہوئے۔ تحریکِ آزادی کا سفر تاحال جاری ہے۔ لیکن عالمی برادری کی بے خبری یا بے حسی کے باعث انڈیا کی جانب سے کیے گئے اقدامات پر چہار سو خاموشی نظر آتی ہے۔ انڈیا کی کوشش ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات سے باہر کی دنیا بے خبر رہے۔ ذرائع ابلاغ پر بدترین پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں انڈیا نے کم از کم 27صحافیوں کو گرفتار کیا اور قید رکھا۔ اسی عرصے کے دوران انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈان کے 60 واقعات رپورٹ ہوئے۔ کشمیر میں ایک عرصہ سے اخبارات سنسر شپ کی پابندیوں سے گزر رہے ہیں۔ سیاسی ڈائری لکھنے پر پابندی ہے۔ اداریوں اور کالموں میں تحریک ِ مزاحمت پر بات نہیں ہوتی۔ اس صورت حال میں کشمیر کے حالات سے بیرونی دنیا کیسے باخبر ہوگی اور مقامی کشمیری احتجاج ریکارڈ کروائے تو کیسے؟
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مزاحمت ختم ہوچکی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ مزاحمت کی خبریں ذرائع ابلاغ پر گردش نہیں کرتیں۔لیگل فورم فار کشمیر(LFK) کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں مقبوضہ کشمیر میں 312 افراد قتل کیے گئے، 200 سرچ آپریشن ہوئے، 212 رہائشی عمارتیں تباہ کی گئیں،116 فوجی آپریشن ہوئے، 181 حریت پسند شہید کیے گئے، 45 عام شہری سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہید ہوئے اور 24 انڈین فوجی ہلاک ہوئے۔ اس رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات نہیں بدلے، بلکہ تشدد کے طریقے بدل دیے گئے۔ لوگوں کی زبان بندی کی گئی۔ نوجوان کشمیریوں کو نفسیاتی طور پر زچ کردیا گیا کہ وہ خاموش رہے یا پھر نتائج کے لیے تیار ہوجائے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود سلامتی کونسل، عالمی برادری اور انسانی حقوق کے ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے 2018 اور 2019 میں جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر دو رپورٹیں شائع کی تھیں۔ اس کے بعد تین سال گزر گئے اور صورت حال پہلے سے زیادہ تشویش ناک ہے، لیکن اس کے باوجود عالمی برادری کی توجہ اس جانب نہیں ہے۔ دراصل انڈیا دنیا کے لیے ایک بڑی اقتصادی منڈی ہے۔ بیشتر ممالک کے انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں۔ باہمی مفادات کی خاطر مسلم ممالک بھی کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر رسمی احتجاج نہیں کر پا رہے۔
پاکستان سالانہ بنیادوں پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اور او آئی سی کے وزرائے خارجہ کانفرنس میں روایتی طور پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتا ہے۔ دوسری جانب انڈیا نے نہ صرف کشمیر میں زبان بندی اور انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، بلکہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وہاں نئے قوانین متعارف کرواکر آبادی کا تناسب بھی بگاڑ رہا ہے۔ یہ نہایت سنگین واردات ہے۔ اس طرح مستقبل میں منصفانہ رائے شماری کا راستہ مسدود ہوجائے گا۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز قیادت بھی احتجاج نہیں کرپا رہی حالانکہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ان کی سیاست کی بنیاد تھی۔ اسی طرح سلامتی کونسل، جس کے ایجنڈے پر مسئلہ کشمیر تاحال موجود ہے، وہ ان حالات میں بے حسی کا نمونہ بنا ہوا ہے۔ اگست2019 کے بعد سلامتی کونسل نے کشمیر کے مسئلے پر دو مرتبہ ان کیمرہ اجلاس منعقد کیا، لیکن نتائج ندارد۔ دراصل سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ مصالحانہ حیثیت میں کردار نبھاناپسند کیا ہے، حالاں کہ اس سنگین مسئلے پر تادیبی اقدامات کی ضرورت ہے، جس کی اجازت اقوام متحدہ کا منشور بھی دیتا ہے۔
یہی صورت حال بڑی طاقتوں اور عالمی برادری کی بھی ہے۔ 2019 میں جب انڈیا نے یک طرفہ طور پر اقدامات کیے اور جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، تو اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان و بھارت کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کی تھی لیکن انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کمال ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہہ کر اس پیش کش کو مسترد کیا کہ مسئلہ کشمیر پر جب بھی بات چیت ہوگی وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوگی۔ انڈیا عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر پر کردار ادا کرنے سے باز رکھنے کے لیے مسئلہ کشمیر کو دو طرفہ ظاہر کرتا آیا ہے اور اس ضمن میں شملہ معاہدے کا حوالہ دیتا ہے۔ حالاں کہ اسی معاہدے میں مذکور ہے کہ کوئی بھی فریق یک طرفہ طور پر صورت حال میں تبدیلی نہیں کرسکے گا۔ لیکن اس کے باجود انڈیا نے اگست 2019 اس عہد و پیمان کو چاک کردیا، جس کا سہارا وہ ہمیشہ لیتا رہا ہے ۔ ||
مضمون نگار مصنف ، محقق اور صحافی ہیں، جامعہ کراچی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
تبصرے