کراچی میں 8دسمبر سے 12دسمبر تک 17ویں بین الاقوامی کتب میلے کا انعقاد کیا گیا۔جس کا افتتاح مہمان خصوصی سندھ کے وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے کیا۔کراچی بین الاقوامی کتب میلے نے 2005 میں اپنے آغاز کے بعد سے اب تک پاکستان کا سب سے بڑا صارف/تجارتی میلہ ہونے کا اعزاز اپنے نام کیاہے۔
کراچی انٹرنیشنل بک فیئر کی منیجنگ کمیٹی کے مطابق پاکستان کے 150 معروف پبلشرز اور بک سیلرز کے علاوہ 17 ممالک کے 40 نمائش کنندگان نے شرکت کی۔اس بین الاقوامی ایونٹ میں ایران، بھارت، ترکی، سنگاپور، چین، ملائیشیا، انگلینڈ، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کے پبلشرز نے شرکت کی۔اس کتب میلے میں 330اسٹال لگائے گئے تھے۔یہ میلہ تین ہال (ہال نمبر 1,2,3 )پر مشتمل تھا۔اس کتب میلے کا انعقاد پاکستان پبلشرز ایند بک سیلرز ایسوسی ایشن کی کاوشوں سے کیا گیا۔ چیئرمین، پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن (پی پی بی اے)عزیز خالد نے اس بات پر زور دیا تھا کہ یہ ایڈیشن نمایاں اور مخصوص ہو گا کیونکہ بین الاقوامی کتب میلوں کے ساتھ مؤثر ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے پیشہ ورانہ مہارت کے تبادلے کی طرف لے جایا جائے۔ایک مہذب معاشرے میں رواداری، بات چیت اور دوسروں کے لیے کھلے پن کو فروغ دینے والی انسانیت اور اخلاقیات کی اقدار کو اجاگر کرتے ہوئے علم کے فروغ کے عزم کو بھی واضح کیا گیا ہے۔
اسی کے پیشِ نظر پانچ روزہ بین الاقوامی کتب میلے میں بچوں کے لیے دلچسپ مقابلوں کا انعقاد کیا گیا، ان مقابلوں میں رائٹنگ،تلاوت، تقریر اور کوئز جیسے مقابلے شامل تھے۔ان مقابلوں میں حصہ لینے والے بچوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ بچوں نے بہت جوش و خروش سے ان مقابلوں میں حصہ لے کر اپنی ذہانت کا سکہ منوایا۔ اس میلے میں بچوں کی کتابوں سے دوستی کافی گہری دیکھی گئی۔بے شمار اسکول،کالجز، یونیورسیٹیز اور مدارس کے بچے آئے تھے۔ریکارڈ کی گئی تعداد کے مطابق بین الاقوامی کتب میلے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد پانچ سے چھ لاکھ تھی۔ ہر طرف لوگوں کا ہجوم تھا، لوگ لمبی لمبی قطاروں میں لگے اپنی باری کا شدت سے انتظار کررہے تھے۔قطار میں کھڑے بے شمار لوگ پہلے سے کئی کتابیں خرید چکے تھے،لوگوں کے کندھوں پر لٹکے بیگ، ہاتھوں میں پکڑے تھیلے سب کتابوں سے بھرے ہوئے تھے،اس ہجوم نے ان لوگوں کو بھی حیران و پریشان کردیا جو یہ سوچتے تھے کہ لوگوں نے کتابوں سے دوستی چھوڑ دی ہے۔آج کل کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد صفر ہے۔
لوگوں کے اتنے ہجوم کے باوجود سکول،کالجز اورمدارس سے آئے ہوئے بچوں میں نظم و ضبط دیکھا گیا۔بچے کسی ایک اسٹال کا انتخاب کرکے قطار بنا کر اس اسٹال کی طرف بڑھتے۔دو سے تین اساتذہ بھی ان کے ہمراہ ہوتے،اساتذہ بچوں کو کتابیں خریدنے میں ان کی بہترین رہنمائی کرتے دکھائی دیتے،جو بچے ٹرپ کے ساتھ آئے تھے، وہی بچے شام کو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ آتے دکھائی دیتے تھے، کتابوں سے محبت کے ساتھ ساتھ بچوں میں فوج کی محبت اور فوج جوائن کرنے کے جذبے کو دیکھا گیا ہے۔
ہلال پبلیکیشنز آئی ایس پی آر کا سٹال دیکھ کر بچے خوشی خوشی اس سٹال کی طرف بڑھتے۔ بے شمار بچے کہتے دکھائی دیتی کہ ہمیں ایسی کتاب چاہیے جس میں شہدا کے بارے میں لکھا ہو۔ ہم نے بھی بڑے ہوکر فوج میں جانا ہے۔ قربان اس جذبے اس جنون پر۔۔۔۔
جہاں بچوں کی اتنی رونقیں تھیں وہیں بزرگ احباب بھی پیچھے نہ رہے،بزرگ احباب اپنے زمانے کی کھٹی میٹھی باتیں بتاتے،اپنے وقت کے مصنفین کے قصے سناتے،چہرے پر مسکراہٹ بکھیرے اپنی پسندیدہ کتابیں ڈھونڈتے اور بار بار سٹال والوں سے کہتے دکھائی دیتے کہ ایسے میلے بار بار لگنے چاہیے، تاکہ ہم کتابوں سے لگائو رکھنے والوں کا بھلا ہوسکے۔ سٹال والے بھی مسکرا کر ان کی ہاں میں ہاں ملاتے دکھائی دیتے تھے۔
وہاں پر موجود مصنفین بڑی محبت،شفقت اور احترام کے ساتھ ملتے، لوگ ان کے ساتھ تصویریں بناتے اور ان کے آٹو گراف لیتے۔ مصنفین کے آس پاس بھی ایک بڑی تعداد میں ہجوم دکھائی دیتا تھا۔یہ ہجوم کتابوں سے محبت کی گواہی دے رہا تھا اور بتا رہا تھا آج بھی کتابوں سے محبت کرنے والے لوگ زندہ ہیں۔
ہر طرف میڈیا والے ہاتھ میں کیمرے اور مائیک پکڑے دکھائی دیتے، بچے، بزرگ، والدین خوشی خوشی ان کے پاس جاتے، ان سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے اور خوشی خوشی انٹر ویو دیتے دکھائی دیتے۔کیمرہ مین بھی چہرے پر مسکراہٹ بکھیرے ان تمام دلکش مناظر کو اپنے کیمرے میں قید کررہے تھے۔
یہ ایک بہت ہی خوبصورت اور دلکش میلہ تھا، جس کے دوبارہ آنے کا انتظار ہر ایک کو رہے گا۔۔ ||
مضمون نگار مختلف اخبارات کے لیے لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے