دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ، ایک وہ جو کتابیں پڑھتے ہیں اور دوسر ے جو کتابیں نہیں پڑھتے ۔ بقول شخصے جو بندہ کتابیں نہیں پڑھتا اُس میں اور کسی ان پڑھ شخص میں زیادہ فرق نہیں۔تاہم کتابیں پڑھنے والوں کی بھی آگے سے دو اقسام ہیں ، پہلی قسم وہ ہے جو بڑے شوق سے کتابیں خریدتے ہیں ، انہیں میز پر سجا کر رکھتے ہیں ، احتیاط سے ورق الٹ کر دو چار صفحے پڑھتے ہیں اور پھر واپس رکھ کر بھول جاتے ہیں ۔ لیکن کسی محفل میں کوئی اُس کتاب کے بارے میں پوچھے تو پورے اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں کہ انہو ں نے وہ کتاب پڑھ رکھی ہے۔دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو پوری کتاب نہ صرف پڑھتے ہیں بلکہ اسے گھول کر پی جاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں پر مجھے ہمیشہ رشک آتا ہے۔ اسی قبیل کے ایک شخص نے گزشتہ دنوں مجھے اپنی ایک کتاب بھیجی، میں نے یہ کتاب اٹھائی ، پڑھنا شروع کی اور حیران رہ گیا ۔کتاب کا نام تھا ''انسانی تہذیب کے معمار''۔ یہ کتاب امریکی لکھاری ول ڈیوراں کی گیارہ جلدوں پر مشتمل عظیم الشان سیریز ''دی سٹوری آف سویلائزیشن '' کا 'جوہر' ہے ۔ جوہر کیسے ہے ، یہ بات مزید حیران کُن ہے ۔ول ڈیوراں نے چودہ ہزار صفحات پر مشتمل یہ کتاب پچاس برس کی محنت شاقہ کے بعد مکمل کی جس میں انہوں نے 110صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ کا احاطہ کیا۔بعد ازاں ول ڈیوراں نے اِس کتاب کی تلخیص کرتے ہوئے ''ہیروز آف ہسٹری '' لکھی مگر اُسے مکمل نہ کر سکے،ہیروز آف ہسٹری شیکسپئیر اور فرانسس بیکن تک جا کر رُک جاتی ہے ۔ اب ضرورت اِس بات کی تھی کہ خدا کا کوئی بندہ ول ڈیوراں کے اِس کام کو مکمل کرتا اور سٹوری آف سویلائزیشن کے چودہ ہزار صفحے پڑھ کر اُن کا سَت نکالتا اور شیکسپئیر سے آگے کی تاریخ کو ہیروز آف ہسٹری کی طرز پر مکمل کرتا ۔ عام طور سے اِس قسم کے جناتی نوعیت کے کام کسی ادارے کے سپرد کیے جاتے ہیں جہاں درجنوں لوگوں کو بھرتی کرکے تلخیص اور ترجمے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے ، فنڈز اور وسائل مہیا کیے جاتے ہیں اور پھر کوئی ایک شخص پوری کتاب مرتب کرکے سرورق پر اپنا نام لکھوا کر امر ہو جاتا ہے۔مگر میں سر دست جس کام کا ذکر کر رہا ہوں وہ کام ایک پاکستانی لکھاری نے مکمل کیا ہے ۔اِس مرد عاقل جس کا نام یاسر جواد ہے، نے سٹور ی آف سویلائزیشن کی گیارہ جلدیں پڑھیں اور پھر اُن ابواب کا ترجمہ اور تلخیص کی جو ابواب ہیروز آف ہسٹری کے لیے ول ڈیوراں نہیں لکھ پائے تھے ۔ایک لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ول ڈیوراں کا چھوڑا ہوا تقریباً دو تہائی کام اِس مردِ حُر نے اکیلے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ایسے شخص کو انگریز ی میں 'ون مین آرمی ' کہتے ہیں ۔
بڑے لکھاری کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ عاجز ہوتا ہے اور بڑھ چڑھ کر اپنی علمیت کا رعب نہیں جھاڑتا، یاسر جواد میں یہ دونوں خوبیاں موجود ہیں۔ اپنی کتاب 'انسانی تہذیب کے معمار 'میں موصوف نے بے حد کسر نفسی سے کام لیا ہے اور یہ پتا ہی نہیں چلنے دیا کہ کس طرح انہوںنے ول ڈیوراں کا ادھورا کام مکمل کیا ہے۔یہ کتاب سٹوری آف سویلائزیشن کا تلخیص و ترجمہ نہیں ہے ، بلکہ اُس کا جوہر ہے اور وہ یوں کہ یاسر جواد نے 'کہیں ایک بھی جملہ اپنی طرف سے ایزاد نہیں کیا 'بلکہ ول ڈیوراں کے لکھے ہوئے ابواب میں سے 'صرف اُن حصوں کو لیا ہے جو شخصیت ،کردار، روح عصر سے تعلق اور اثرات کو بیان کرتے ہیں۔ایسا نہیں کہ اِ س سے پہلے کسی نے سٹوری آف سویلائزیشن کو ہاتھ نہیں ڈالا ، مترجم طیب رشید اِس کتاب کے پہلے حصے کا ترجمہ 'ہندوستان ' کے نام سے کر چکے ہیں مگر اِس ضمن میں یاسر جواد کا پلڑا خاصا بھاری ہے ۔ موصوف سٹوری آف سویلائزیشن کے مختلف حصوں کا اردو ترجمہ کر چکے ہیں جن میں تاریخ کے اسباق،عرب، اسلامی تہذیب کی داستان اور یورپ کی بیداری شامل ہیں۔ اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ میں یاسر جواد کی تعریف میں مبالغے سے کام لے رہا ہوں توجواب میں فقط اتنا عرض کروں گا کہ وہ اِس مترجم کا صرف 'تعارف ' ہی پڑھ لے جو ناشر نے کتاب کے شروع میں دیا ہے ۔ یاسر جواد ''اب تک سائنس ،فلسفہ، الیہات ، تاریخ ، مذاہب اور نفسیات کے موضوع پر 130سے زائد کتب کا ترجمہ کر چکے ہیں۔۔۔انہوں نے اکادمی ادبیات کے لیے 'انسائیکلو پیڈیا ادبیات عالم' اور ایک نجی ادارے کے لیے 2500صفحات پر مشتمل 'عالمی انسائیکلو پیڈیا' بھی ترتیب دیا۔نیز 'فرہنگ آصفیہ ' اور 'نور اللغات ' کی تزئین و تہذیب کی۔ وہ گورمکھی و ہندی زبان اور سکرپٹ سے بھی بخوبی واقفیت رکھتے ہیں ۔''اِس تعارف کے حامل شخص کے بار ے میں کیا مبالغہ آرائی کی جا سکتی ہے!اِس کتاب پر البتہ مجھے ایک اعتراض ضرور ہے کہ ترجمہ کرتے وقت یاسر جواد اصل متن ، زبان اور لکھار ی کے اسلوب میں کچھ زیادہ ہی ڈوب گئے ہیں جس سے ترجمہ کچھ بوجھل ہو گیاہے اور تحریر کی روانی متاثر ہوئی ہے ۔ لیکن یہ مترجم کی اپنی مرضی ہوتی ہے کہ وہ ترجمے کا یہ طریقہ اپنائے یا دوسرا طریقہ جس میں اصل زبان کے بجائے مترجم اپنی زبان کو فوقیت دیتا ہے اور یوں پڑھتے وقت قاری کوتحریر میں اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔اِس کتاب میں ترجمے کے پہلے طریقہ کار کو اپنانے میں یاسر جواد کی مجبوری غالباً یہ تھی کہ وہ ول ڈیوراں کے انداز تحریر اور اُس کے استعمال کردہ الفاظ و تراکیب کو من و عن قاری کے سامنے پیش کرنا چاہتے تھے تاکہ یہ کتاب ول ڈیوراں ہی کی لکھی ہوئی لگے نا کہ مترجم کی۔
ول ڈیوراں کی کتابیں پڑھ کر لگتا ہے کہ وہ مغربی فلسفے اور ادب سے بے حد متاثر تھا ، گو کہ اُس کی کتابوں میں مشرقی فلسفے کا ذکر بھی ملتا ہے مگر ایسے کہ حافظ شیرازی کے بارے میں چار پانچ صفحے اور دوسر ی طرف والٹئیر اور نپولین کے لیے ہزار صفحات۔ لیکن اسی ول ڈیوراں نے سٹوری آف سویلائزیشن میں رسول اللہ ۖ کو جن الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا وہ قابل غور ہے ، لکھتا ہے:''اگر ہم تاریخ پر اثرات کے حوالے سے تجزیہ کریں تو آپ ۖ کا کوئی ثانی نہیں ۔ آپ ۖ نے جاہلیت کی دلدل میں دھنسے ہوئے لوگوں کو روحانی اور اخلاقی رفعت سے ہمکنار کیا، اور کسی بھی دوسرے مصلح یا پیغمبر کی نسبت کہیں زیادہ کامیاب رہے ۔ تاریخ انسانی کا شاید ہی کوئی اور آدمی کبھی اپنے خوابوں کو اِس قدر بھرپور انداز میں تعبیر دے سکا۔''ول ڈیوراں جیسے مغربی تہذیب کے دلدادہ لکھاری کے رسول اللہ ۖ کے بارے میں یہ الفاظ شاید کبھی ہمارے سامنے نہ آ پاتے اگر انسانی تہذیب کے معمار جیسی کتاب اردو میں شائع نہ ہوتی ۔ یہ کتا ب دراصل پوری انسانی تہذیب کی تاریخ کا نچوڑ ہے ۔ول ڈیوراں نے اپنی کتاب کو مختلف ادوار میں تقسیم کرکے لکھا تھا جبکہ یاسر جواد نے اسے شخصیات کے سن پیدائش کے حساب سے ترتیب دیا ہے ۔ہم میں سے شاید کوئی بھی چودہ ہزار صفحات والی کتاب نہیں پڑھ سکتا ،یاسر جواد نے ہمارے لیے نہ صرف یہ کام کیا بلکہ پھر اُس کا کلیجہ بھی نکال کر رکھ دیا ۔ اگر آپ اِس سال کوئی ایک کتاب پڑھنا چاہتے ہیں تو بس یہ پڑھ لیں ، یہ سو کتابوں پر بھاری ہے ۔
مضمون نگار معروف کالم نویس اور تجزیہ نگار ہیں۔
[email protected]
تبصرے