اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 15:46
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد
Advertisements

زیبا حسن مخدوم

مضمون نگار کی دیوانِ سخن اور داستانِ سخن کے نام سے دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ [email protected]

Advertisements

ہلال اردو

   انتظار 

جنوری 2023

فجر کے بعد کچھ دیر کے لیے ان کی آنکھ لگی تو ایک کھٹکے سے کھل گئی۔ گھڑی کی جانب نظر کی تو ابھی پانچ منٹ ہی ہوئے تھے انہیں سوئے لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے بہت لمبی نیند لے کر اٹھی ہوں۔ جبکہ ساری رات آنکھوں میں کاٹی تھی۔ وہ شال سنبھالتے ہوئے پلنگ سے اتر آئیں۔ 


تبھی باورچی خانے کی طرف سے پھر کھٹکے کی آواز سنائی دی۔ وہ ادھر چل پڑیں۔ باورچی خانے میں ایک ہیولہ سا دکھائی دیا تو ان کا دل ایک لمحے کے لیے لرزا مگر پھر حوصلہ کر کے آگے بڑھیں اور بتی روشن کر دی۔ سامنے ان کا بیٹا کھڑا انہیں دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
''شیری۔۔۔تم نے مجھے ڈرا دیا۔'' وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر بولیں
''ارے میری پیاری امی جان۔۔۔! جس کا شوہر اور بیٹا فوجی ہو اسے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے بھلا؟'' شہریار نے لاڈ سے ان کے گلے میں بانہیں ڈالیں تو وہ مسکرائیں۔


''کون ہے۔۔۔؟'' انہوں نے وہیں سے پکار کر پوچھا۔ کچھ دیر جواب کا انتظار کیا پھر چپل پہن کر کمرے سے باہر نکل آئیں۔
''کون ہے؟'' انہوں نے پھر پوچھا مگر جواب ندارد۔۔ ان کی اکثر راتیں یونہی کون ہے کون ہے پوچھتے گزر جاتی تھیں۔ تبھی باورچی خانے کی طرف سے پھر کھٹکے کی آواز سنائی دی۔ وہ ادھر چل پڑیں۔ باورچی خانے میں ایک ہیولہ سا دکھائی دیا تو ان کا دل ایک لمحے کے لیے لرزا مگر پھر حوصلہ کر کے آگے بڑھیں اور بتی روشن کر دی۔ سامنے ان کا بیٹا کھڑا انہیں دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
''شیری۔۔۔تم نے مجھے ڈرا دیا۔'' وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر بولیں
''ارے میری پیاری امی جان۔۔۔! جس کا شوہر اور بیٹا فوجی ہو اسے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے بھلا؟'' شہریار نے لاڈ سے ان کے گلے میں بانہیں ڈالیں تو وہ مسکرائیں
''آنے سے پہلے بتایا کیوں نہیں؟'' انہوں نے اس کا ماتھا چوما
''سوچا اچانک جا کر آپ کو حیران کروں۔'' وہ ابھی بھی وردی میں تھا۔
'' اچھا کیا۔۔۔بہت دنوں بعد چکر لگایا۔ تمہیں تو ماں کی یاد ہی نہیں آتی۔'' انہوں نے اسے بازؤں سے پکڑ کر ڈائیننگ ٹیبل کی کرسی پر بٹھایا۔
''میں ناشتہ بناتی ہوں۔ تمہیں بھوک لگی ہو گی۔'' وہ فریج کی طرف بڑھیں
''جی بہت بھوک لگی ہے مگر ناشتہ بننے میں وقت لگے گا۔ اس لیے آپ رات والا کھانا ہی گرم کر کے لے آئیں۔'' وہ بھوک کے معاملے میں بہت کچا تھا۔
''آپ نے رات کو کھانا کھایا؟'' شہریار نے پوچھا
''ارے بیٹا۔۔۔اب بھوک کہاں لگتی ہے اس عمر میں۔۔۔'' انہوں نے سالن نکال کر اوون میں گرم کرنے کے لیے رکھا۔
''مجھے معلوم تھا کہ نہیں کھایا ہو گا۔ خود کو دیکھیں کتنی کمزور ہو گئی ہیں۔''
''اکیلے کچھ کھانے کو دل ہی نہیں کرتا۔۔۔پہلے تم اور صاعقہ ہوتے تھے تو تمہارے بابا کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اب ہر وقت یاد آتے ہیں۔ اکثر چلتا پھرتا محسوس کرتی ہوں انہیں۔ رات کو بھی یہ کھانا انہی کے لیے تو بنایا تھا۔۔۔مگر پھر یاد آیا کہ۔۔۔'' ان کا لہجہ بھیگ گیا۔
''امی۔۔۔خود کو سنبھالیں! ابو کو گزرے ایک عرصہ بیت گیا ہے۔'' وہ کرسی سے اٹھ کر ان کے پاس آ گیا۔
''ہاں عرصہ تو ہو گیا مگر پھر بھی ایک انتظار تو ہے کہ کبھی ان سے ملوں گی۔ بس اسی انتظار میں یہ زندگی کٹ رہی ہے۔'' وہ اداسی سے بولیں
''امی۔۔۔میں جانتا ہوں میرے چلے جانے کی وجہ سے آپ بہت اکیلی ہو گئی ہوں گی۔ میں کوشش کروں گا کہ جلد ہی آپ کے پاس آ جائوں۔ ہمیشہ کے لیے۔''
''ہاں بیٹا تم بس یہاں پوسٹنگ کرا لو۔پھر صاعقہ کو بھی بلا لوں گی۔ بلکہ آج تمہارے بابا کی برسی ہے نا۔۔۔شاید صاعقہ بھی آ جائے۔'' وہ ٹرے میں برتن رکھتے ہوئے بولیں
''بابا کی برسی۔۔۔؟'' شہریار چونکا
''ہاں، کتنے برس بیت گئے ان کی شہادت کو۔۔۔اب تو صحیح سے یاد بھی نہیں۔ خیر تم آئو کھانا کھالو۔۔۔میں اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے کھلائوں گی۔'' انہوں نے کھانے کی ٹرے میز پر رکھی
''بالکل بھی نہیں۔۔۔۔ہمیشہ آپ مجھے نوالے بنا کر کھلاتی ہیں۔ آج میں کھلائوں گا آپ کو۔'' اس نے انہیں کرسی پر بٹھاتے ہوئے کہا اور خود بھی ان کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ اسے دیکھ دیکھ کر ان کی آنکھوں میں ٹھنڈک اتر رہی تھی۔ کتنا خوبرو اور بانکا سجیلا تھا ان کا بیٹا۔ وہ پیار سے اسے دیکھے گئیں۔
''اچھا تمہیں پتا ہے۔۔۔اس دن صاعقہ آئی تھی تو مجھے مارکیٹ لے گئی تھی۔ وہاں میں نے انعم کو دیکھا اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ آئی ہوئی تھی۔'' انہوں نے اس کی منگیتر کا ذکر کیا
''تو پھر کیا ہوا؟'' وہ اطمینان سے بولا
''کچھ نہیں۔۔۔مگر سوچتی ہوں لوگ کتنی جلدی بدل جاتے ہیں نا۔'' وہ اداسی سے بولیں
''آپ ایسی باتیں نہ سوچا کریں'' وہ بولا
''ہممم۔۔۔تمہیں اپنے بابا یاد ہیں؟ بہت چھوٹے تھے تم جب وہ اپنے ملک پہ جان وار گئے۔ آج خبر نہیں کتنے برس بیت گئے انہیں گزرے ہوئے۔ پہلی برسی پر یاد ہے ہمیں ٹی وی پروگرام میں بلایا گیا تھا۔ ہم نے کتنی یادیں تازہ کی تھیں ان کی۔'' وہ اسے بتا رہی تھیں جبکہ وہ سر جھکائے خاموشی سے کھانا کھا رہا تھا۔
''جانے کب سے ماں کے ہاتھ کا بنا کھانا نہیں کھایا ہو گا۔'' انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے سوچا
صبح کی روشنی پھیل چکی تھی جب دروازے کی گھنٹی کی آواز سنائی دی۔
''میں دیکھتا ہوں۔'' وہ کرسی پیچھے ہٹا کر اٹھنے لگا
''ارے نہیں نہیں۔۔۔تم پہلے ہی تھکے ہوئے آئے ہو۔ بیٹھ کر کھانا کھائومیں دیکھتی ہوں۔'' وہ کہتے ہوئے اٹھ گئیں۔ صحن میں آ کر دروازہ کھولا تو سامنے صاعقہ کھڑی تھی۔
''السلام علیکم امی جان۔۔۔کیسی ہیں آپ؟''
''ارے تم۔۔۔وعلیکم السلام۔ اتنی صبح صبح۔۔؟'' وہ حیران ہوئی
بس آپ کی بہت یاد آ رہی تھی تو فجر پڑھتے ہی نکل آئی۔ آج تو میں پورا دن آپ کے ساتھ گزاروں گی۔'' وہ ان سے گلے ملتے ہوئے بولی
''چلو یہ تو اچھا کیا۔۔۔میں بھی ابھی تمہیں ہی یاد کر رہی تھی۔'' کتنے اچھے تھے ان کے بچے۔۔۔! آج وہ سارا دن تنہا اپنے مرحوم شوہر کو نہ یاد کرتی رہے، یہ سوچ کر صبح سویرے دونوں اس کے پاس چلے آئے تھے۔
''آپ کو اتنی دفعہ کہا ہے میرے ساتھ چلیں۔ لیکن آپ ہیں کہ اس گھر کو چھوڑنے کو تیار ہی نہیں۔ اتنی فکر رہتی ہے آپ کی۔''  وہ دونوں چلتی ہوئی لانج میں آ گئیں۔
'' نہیں نہیں۔۔۔اس گھر سے بہت سی یادیں جڑی ہیں اور سب لوگ بہت اچھے لوگ ہیں ارد گرد کے۔۔۔میری بہت عزت کرتے ہیں۔'' وہ بولیں
'' میری پیاری امی۔۔۔میں جانتی ہوں یہاں سب آپ کی بہت عزت کرتے ہیں، خیال بھی رکھتے ہوں گے۔ مگر کوئی بیٹی کی طرح خیال تو نہیں رکھ سکتا نا۔ بس اب آپ کی ضد نہیں چلے گی۔ میرے ساتھ چلیں آج۔'' وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی
''ارے نہیں۔۔۔اب میں کیوں جائوں گی۔۔۔اب تو میرا بچہ آ گیا ہے۔'' وہ خوشی سے بولیں تو صاعقہ بھی مسکرا دی
''ناشتہ کر رہی تھیں؟'' صاعقہ نے باورچی خانے کی بتی روشن دیکھ کر پوچھا
''ارے تمہیں بتایا ہی نہیں۔۔۔شیری آیا ہے نا۔۔۔اسے  زوروں کی بھوک لگی تھی تو رات کا کھانا گرم کر کے دیا ہے۔ آ جا ئوتم بھی۔ بغیر ناشتے کے ہی آئی ہو گی۔'' وہ ہنسیں
''شیری۔۔۔؟؟'' صاعقہ کو حیرت کا جھٹکا لگا
''ہاں۔۔۔آج تمہارے بابا کی برسی ہے نا۔۔۔تو وہ بھی آیا ہے۔ اندر ہی بیٹھا ہے آئو مل لو بھائی سے۔'' انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھانا چاہا
''مگر۔۔۔امی۔۔۔!'' وہ کہتے کہتے رکی
''آپ بھول گئیں شاید۔۔۔ آج بابا کی نہیں۔۔۔شہریار کی برسی ہے۔'' صاعقہ نے آنسو پیتے ہوئے انہیں شہریار کا بتایا جو ایک سال قبل دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے بابا کی طرح وطن پر جان قربان کر چکا تھا۔ ||


مضمون نگار کی دیوانِ سخن اور داستانِ سخن کے نام سے دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
[email protected]

زیبا حسن مخدوم

مضمون نگار کی دیوانِ سخن اور داستانِ سخن کے نام سے دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ [email protected]

Advertisements