معروف گلوکارہ نیرہ نور کے ملّی نغموں پر خصوصی مضمون
تیرے مغنی کی ہر صدا میں …تیری ہی خوشبو مہک رہی ہے
ہر ایک سر میں ،ہر ایک لے میں …تیری محبت دمک رہی ہے
گواہ رہنا، گواہ رہنا
وطن کی مٹی گواہ رہنا
ارضِ وطن کے ہر شہری کو مسرور انور کے الفاظ میں اپنی آواز دینے والی یہ بلبلِ پاکستان ، اگست 2022ء کو باغِ وطن کے شجرِ موسیقی کی شاخ سے محوِ پرواز ہوگئی۔ 21 اگست کی نصف شب جب عوام نے یہ خبر سنی کہ معروف گلوکارہ نیرہ نور انتقال کرگئیں تو ہر فرد کا دل افسردہ تھا کیونکہ ہر پاکستانی نے نیرہ نور کا کوئی نہ کوئی شاہکار ضرور سن رکھا تھا اور تقریباً ہر کسی کی ان کے کسی نہ کسی ملی نغمے، گیت یا غزل سے یادیں وابستہ تھیں۔ نیرہ نور اپنی آواز کے سبب ہماری موسیقی کی تاریخ میں ممتاز مقام رکھتی تھیں کیونکہ ان کی سادہ مگر پرکیف آواز ہر سامع کے دل میں سرشاری کی کیفیت پیدا کردیتی تھی اسی لیے پاکستانی عوام اور شائقینِ موسیقی نے انھیں اُن کے ترنم کے سبب '' بلبلِ پاکستان'' کا خطاب دیا۔
نیرہ نور 3 نومبر 1950ء کو مغربی بنگال کے شہر گوہاٹی کے ایک تاجر گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ کہتے ہیں کہ بنگال کے دورے کے دوران قائدِ اعظم محمد علی جناح نے ان کے گھر قیام کیا تھا کیونکہ ان کے والد شہر کے ممتاز تاجر تھے تو انھوں نے بانی پاکستان کو اپنے گھر میں بطور مہمان قیام کروایا اور بقول نیرہ نور اُن کے گھر میں قائدِ اعظم کے قیام کی یادداشتیں محفوظ ہیں۔
قیامِ پاکستان کے وقت ریڈکلف کمیشن نے آسام کا علاقہ بھارت میں شامل کردیا تو 1950ء کے عشرے کے آخر میں نیرہ نور لاہور آگئیں۔ ان کا تعلق موسیقی کے کسی گھرانے سے نہیں تھا بلکہ وہ اختر بائی فیض آبادی اور کانن دیوی کے گیت اور غزلیں شوق سے سنتی تھیں اسی لیے ان کی غزلیں اور ٹھمریاں سن کر انھیں بھی گلوکاری کا شوق ہوا، چونکہ بنگال کے مسلم گھرانوں میں گانا بجانا معیوب نہیں سمجھا جاتا اسی لیے نیرہ نور پر کسی قسم کی پابندی نہ تھی۔ نیرہ نور نے ریاض جاری رکھا اور موسیقی کی مختلف اصناف کو بغور سمجھا۔ انھوںنے لاہور میں قیام کے دوران اپنے تعلیمی سلسلے کو بھی جاری رکھااور ساتھ ساتھ کالج کے پروگراموں میں بھی پرفارم کرتی رہیں۔ 1968ء میں وہ نیشنل آرٹس کالج لاہور کے ایک عشائیے میں نغمہ سرا ہوئیں جہاں ریڈیو پاکستان لاہور کے معروف موسیقار اور پروڈیوسر پروفیسر اسرار احمد نے انھیں سنا تو انھیں ریڈیو پاکستان لاہور پر گانے کا موقع دیا۔ چنانچہ نیرہ نور نے اس ادارے سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا جہاں انہوں نے بچوں کے گیت اور کچھ ری میک غزلیں گائیں۔ پروفیسر اسرار احمد نے ہی موسیقی میں ان کی تربیت کی جو انھیں ایک شوقیہ گلوکارہ سے ''بلبلِ پاکستان'' کی منزل تک لے آئی۔ 1971ء میں پاکستان ٹیلی وژن پر انھیں موقع ملا تو نیرہ نور کا نیّرِ اقبال چمک اٹھا اور انھوں نے یہاں گیتوں اور غزلوں میں اُس وقت نام اور مقام بنایا جب ملکہ ترنم نورجہاں اور ملکہ غزل فریدہ خانم بھی موجود تھیں اور نئے آنے والی خواتین فنکاروں میں مہناز بیگم، ناہید اختر، تصور خانم اور منی بیگم بھی اپنے صوتی جمال سے آواز کا جادو جگا رہی تھیں ۔ نیرہ نور کی یہی فنّی صلاحیتیں انھیں فلمی دنیا میں بھی لے گئیں جہاں انھوں نے آتے ہی نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کرلیا۔ نیرہ نور نے جہاں بے شمار غزلوں اور گیتوں کو اپنی آواز کے روپ سے آراستہ کیا وہاں لاتعداد قومی نغمات کے ذریعے بھی خود کو قومی فنکارہ کے طور پر منوالیا اور یہی قومی نغمات ہی ان کے لقب 'بلبلِ پاکستان' کے ساتھ جچتے ہیں۔
ان کی آواز میں پہلا قومی نغمہ پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز نے تیار کیا جس کے بول 'یہ پیار کی دھرتی ہے 'اِس پیار کی دھرتی میں تہذیب ابھرتی ہے' تھے جسے شبنم رومانی نے تحریر کیا تھا۔ اس کے بعد نیرہ نور نے خواتین ِ پاکستان کے نام مولانا الطاف حسین حالی کی نظم ' اے ماؤ! اے بہنو! اے بیٹیو! ' کو پہلی بار گانے کا اعزاز حاصل کیا جسے خلیل احمد نے موسیقی سے سجایا تھا۔ تاہم ان کی آواز میں پہلا مقبول ترین قومی نغمہ 1975ء میں ریلیز ہونے والی فلم 'فرض اور ممتا' میں شامل تھا جسے کلیم عثمانی نے تحریر کیا اور ایم اشرف کی وضع کردہ دھن پر ملٹری بینڈ کے ساتھ نغمہ 'اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں' ایسا مقبول ہوا کہ پاک فوج کے ملٹری بینڈ نے بھی اس کی دھن کوا پنے بینڈ کا حصّہ بنالیا جو 6 ستمبر1975ء کو پریڈ کے دوران بھی بجائی گئی۔ یہ نغمہ اُس زمانے میں صوبائی اور لسانی تعصب کے خلاف ایک پرجوش آواز تھی جس میں نیرہ نور پیغام دے رہی تھیں :
''ایک ہی کشتی کے ہیں مسافر، اک منزل کے راہی
اپنی آن پہ مٹنے والے ہم جانباز سپاہی
جدا جدا ہیں لہریں سرگم ایک ہیں، ہم ایک ہیں ''
گو کہ بعد میں اسے دیگر گلو کاروں نے ری ڈو (Redo) بھی کیا مگر نیرہ نور کی آواز میں ہی اس کا حقیقی جوش اور پیغام دلوں میں اثر کرتا ہے۔ اس نغمے کی بدولت آج نیرہ نور کو صرف مدھر اور کومل سروں کی گلوکارہ کہنے والے بھی حیران رہ جاتے ہیں کہ کس طرح جوشیلے انداز میں نیرہ نور نے اس ترانے کا حق ادا کردیا ہے۔
اس کے بعد 1976ء میں بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے صدسالہ جشنِ ولادت کے موقع پر انھوں نے احسان دانش کا تحریر کردہ قائدِ اعظم کو خراجِ تحسین '' قوم کا وہ قائد، ہے مینار روشنی کا''
جیسا نغمہ بھی اپنی مدھر آواز کے ساتھ گایا۔ اس نغمے کو خلیل احمد نے موسیقی میں ڈھالا تھا جبکہ یہ 11 ستمبر کو پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز سے نشر ہوا تھا ۔
1977ء میں انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے لیے سہیل رعنا کی موسیقی میں جمیل الدین عالی کا تحریر کردہ قومی غنائیہ '' وہ تمام دن جو گزر گئے ہمیں یاد ہیں ہمیں یاد ہیں'' بھی اپنی انتہائی پرسوز آواز میں گا کر امر کردیا جسے سنا جائے تو آنکھیں نم ہوجائیں جس میں وہ دکھ بھری آواز میں ہجرت کی روداد سناتے ہوئے کہتی ہیں :
وہ لٹے سہاگ وہ عصمتیں …جو فسانہ ہیں وہ حقیقتیں
وہ تمام گھر جو اجڑ گئے …ہ عزیز جو تھے بچھڑ گئے
ہمیں یاد ہیں۔۔۔ ہمیں یاد ہیں
پھر اسی نغمے میں وہ بانیانِ پاکستان کے حضور اپنی پرسوز آواز میں یوں عقیدت کا سلام پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں :
وہ عجیب لوگ وہ قافلے … جو نہ رک سکے نہ بچھڑ سکے
جو چمن سجا کے چلے گئے …جو وطن بنا کے چلے گئے
ہمیں یاد ہیں۔۔۔ ہمیں یاد ہیں
اس کے علاوہ عالی جی کا تحریر کردہ ایک اور منفرد قومی نغمہ '' یہ گھنگھرو پیار کہانی ہے، یہ سنگت دیس دیوانی ہے'' کو بھی نیرہ نور نے اپنی آواز کا جامہ پہنایا جو انہی کی آواز پر ہی جچتا تھا۔ اس نغمے کے موسیقار نیاز احمد تھے ۔ اسی طرح 1977ء ہی میں محنت کش طبقے کے لیے فیض احمد فیض کا کلام ''یہ ہاتھ سلامت ہیں جب تک'' جسے ریڈیو پاکستان پر ناہید نیازی اور ثمر اقبال بھی گا چکی تھیں، نیرہ نور نے گایا تو وہ بھی ان کی آواز میں امر ہوگیا۔
1978ء میں نیرہ نور نے قتیل شفائی کا تحریر کردہ ملّی نغمہ اخلاق احمد کے ساتھ پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز پر ریکارڈ کروایا جس میں وہ پاکستانی عوام کے نظریہ ٔ اسلام کو آواز کا جامہ پہناتے ہوئے کہتی ہیں :
پرچمِ توحید کی عظمت کے نگہباں …ہم ہیں مسلماں، ہم ہیں مسلماں
حاصل ہمیں یکتائیٔ ملت کا شَرَف ہے…رخ اپنی عبادات کا کعبے کی طرف ہے
ایک خدا، ایک رسولۖ پر سب کا ایماں…ہم ہیں مسلماں، ہم ہیں مسلماں
اگست 1980ء میں نیرہ نور نے مسرور انور کا مقبولِ عام ملی نغمہ ''وطن کی مٹی گواہ رہنا'' پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز سے گایا۔ اس سے قبل یہی ترانہ دسمبر 1971ء کی جنگ میں شہناز بیگم معروف موسیقار سہیل رعنا کی مرتب کردہ طرز میں گا چکی تھیں لیکن وہ خالص جنگی نوعیت کا تھا اسی لیے مسرور انور نے اس میں نئے انتروں کا اضافہ کرکے تقریباً نیا ملی نغمہ ہی بنادیا۔ یہ نغمہ جب نشر ہوا تو اسے بہت پذیرائی ملی۔ خلیل احمد کے مرتب کردہ اس نغمے کا یہ شعر اس وقت کے صدرِ مملکت جنرل محمد ضیاء الحق شہید کو بھی پسند آیا
ہر ایک دل میں تیری لگن ہے …تیری ہی جانب ہر اک نظر ہے
تیری حفاظت کا عزم لے کر …ہر ایک اپنے محاذ پر ہے
گواہ رہنا۔۔۔ گواہ رہنا
اسی لیے اُس سال یومِ دفاع کی تقریب میں صدرِ مملکت نے اس نغمے کو دوبارہ سننے کی فرمائش کی۔ نیرہ نور کی آواز میں یہ نغمہ انھیں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے جس میں ہر پاکستانی کے لیے نہ صرف وطن کی محبت اور تعمیر کے عزم کا پیغام ہے بلکہ خاکِ وطن کو بھی گواہ بناکر ایک منفرد خیال پیش کیا گیا ہے ۔
1980ء کے عشرے میں نیرہ نور نے صفیہ شمیم ملیح آبادی کا تحریر کردہ نغمہ'' یہ خاکِ پاک ارضِ وطن، میری پت بھی تو میرا پیار بھی تو '' پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ریکارڈ کروایا جس میں وہ نظریۂ پاکستان کو واضح کرنے کے لیے کچھ یوں نغمہ سراء ہوئیں۔
پاک اسمِ محمدۖ صلی علیٰ …سب نور ظہور اسی نام سے ہے
یہ قیام اجمل یہ خرام اکمل …اسی نکتے کریم کلام سے ہے
اسی طرح اس ''بلبلِ پاکستان'' نے اپنے ایک اور نغمے ''ہے اپنا وطن خوشیوں کاچمن'' میں وطنِ پاک کے مناظر کی تصویر کچھ اس انداز سے کھینچی :
کرنوں کا تبسم پنہاں ہے ذروں کی حسیں پیشانی میں
پگھلی ہوئی سچی چاندی ہے دریاؤں کی بہتے پانی میں
کھیتوں میں دمکتا سونا ہے، پھولوں سے لدی ہر ڈالی ہے
ہے اپنا وطن خوشیوں کا چمن اس دیس کی بات نرالی ہے
پھولوں سے زیادہ مہکی ہوئی اس دھرتی کی ہریالی ہے
اسی طرح وہ میجر(ر)ضمیر جعفری کے تحریرکردہ نغمے میں ارضِ پاکِ کے پرکیف مناظر کی عظمت یوں سناتی ہیں :
جس دیس کی دھرتی میں خوشبو ہے بہاروں کی
وہ دیس ہمارا ہے … وہ دیس ہماراہے
جس دیس کی مٹی سے اٹھاہے خمیر اپنا
جس دیس کی مٹی سے جاگا ہے ضمیراپنا
و ہ دیس ہمارا ہے … وہ دیس ہماراہے
بلبلِ پاکستان نیرہ نور نے جہاں وطن ِ عزیز کی شان میں نغمہ سرائی کی وہاں عوام کو بھی اپنی آواز میں مخاطب کرتے ہوئے دھرتی سے عہد و پیماں کرنے کی تلقین کی۔ مسرورانور کے تحریرکردہ نغمے میں وہ محنت کش عوام سے یوں مخاطب ہیں :
اے مِرے دیس کے پیارے لوگو ! دیس کی شان بڑھائے رکھنا
مل کر جو ہم سب نے جلایا ، تم وہ دیپ جلائے رکھنا
ناچے آس امید دلوں میں …رونق ہو دن رات ملوں میں
محنت کا تم اپنے اپنے سر پر تاج سجائے رکھنا
1984ء میں نیرہ نور نے بانیٔ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کوخراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے سرمد صہبائی کا تحریرکردہ نغمہ اے نیر کے ساتھ گایا جس میں یہ دونوں گلوکار قائدِ اعظم کی روح سے اس طرح مخاطب ہیں :
تیرے ہی تصور سے یقیں قوم کا محکم
اے قائدِ اعظم … اے قائدِ اعظم
نیرہ نور نے پاکستان ٹیلی وژن لاہورمرکز پر بچوں کے ساتھ بھی قومی نغموں میں حصہ لیا جس میں حمایت علی شاعر کا تحریر کردہ نغمہ '' آزاد وطن یہ پاک وطن زندہ ہے زندہ رہے گا'' اور مسرور انور کا '' یہ پاک و روشن وطن ہمارا، ہماری جاں ہے ہماری جاں ہے'' جیسے مقبول قومی نغمات گائے۔ جنتِ کشمیر کے لیے انھوں نے فیض احمد فیض کا تحریر کردہ کشمیری شہیدبچے کی ماں کا مرثیہ ''اٹھو ماٹی سے اٹھو جاگو میرے لال'' بھی ریکارڈ کروایا جو اُن کی پُر سوز آواز کا حسین صوتی شاہکار ہے ۔
ملّی نغمات کی ایک اہم جہت کلامِ اقبال کے ضمن میں انھوں نے '' لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری'' اور''یا رب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے'' جیسے ملی نغموں کو بھی نئی طرزوں میں اپنی آواز عطاء کی بلکہ '' بچے کی دعا '' تو اُن کی آواز میں اتنی مقبول ہوئی کہ عوام یہ بھول ہی گئے تھے کہ کسی زمانے میں یہ منور سلطانہ نے بھی پڑھی تھی ۔انقلابِ تازہ پراقبال کی ملّی غزل '' پھر بادِ بہار آئی ' اقبال غزل خواں ہو '' بھی نیرہ نور کی آواز میں ایک مقبول کلامِ اقبال ہے ۔یہی نہیں بلکہ نیرہ نور نے اپنی آواز میں علامہ محمد اقبال پر فیض احمد کی تحریر کردہ نظم '' آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر '' بھی ریکارڈ کروا کر علامہ اقبال کو خراجِ تحسین پیش کیا ۔ ان تمام نغموں کو پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز نے تیار کیا تھا ۔ان کے علاوہ ڈاکٹر امجد پرویز کے ساتھ انھوں نے '' بہ حضور رسالت مآبۖ میں '' بھی پڑھنے کی سعادت حاصل کی جس کے یہ اشعار شہدائے وطن کے لیے ایک پُر درد جذبات رکھتے ہیں :
حضور ۖ دہر میں آسودگی نہیں ملتی…تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاضِ ہستی میں … وفا کی جس میں ہو بُو وہ کلی نہیں ملتی
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں … جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی
1986ء میں صدرِ مملکت ضیاء الحق مرحوم کی فرمائش پر عالی جی نے نظریۂ پاکستان کو اجاگر کرنے کے لیے نغمہ '' جو نام وہی پہچان پاکستان پاکستان'' تحریر کیا تو اسے گانے کا اعزاز بھی نیرہ نور کے ہی حصے میں آیا جو سہیل رعنا کے ساز میں اپنی سادہ آواز میں ہر پاکستانی سے کہتی ہیں
لوگو! اپنے نام کو سمجھو اس میں عجب افسانہ ہے
معنی مطلب پوچھ رہے ہو کب ان میں ڈھل جانا ہے
پاکستان کو جان و دل سے پاکستان بنانا ہے
کردینا ہے پاکستان پہ تن من دھن قربان
پھر اسی نغمے میں لفظ ''پاکستان''کا امتیازی وصف بھی خوب بتایا :
دنیا بھر میں سب دیسوں سے اچھا نام ہمارا
دنیا بھر میں امن کی جانب اک اک گام ہمارا
دنیا بھر میں روشن ہو گا اک دن کام ہمارا
قائد نے تاریخ سے لڑکر اونچا کیا نشان
اسی نغمے کے ساتھ ہی انھوں نے محمد ناصر کا لکھا ہوا نغمہ '' یہ دیس ہمیں جاں سے پیارا '' بھی ریکارڈ کروایا جس کے موسیقار ارشد محمود تھے ' ان دونوں نغموں کو پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز سے پروڈیوسر ساحرہ کاظمی نے پیش کیا ۔
1999ء میں کارگل کے شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک بار پھر '' اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں'نئے سازوں کے ساتھ' ری ڈو کیا جسے سن کر شہداء کے اہلِ خانہ بھی آبدیدہ ہوگئے۔ اسی طرح انھوں نے کارگل کی جنگ کے دوران آئی ایس پی آر کی جانب سے منعقدہ پروگراموں میں بھی شرکت کی جس میں وہ اپنے گائے ہوئے قومی نغمات '' وطن کی مٹی گواہ رہنا '' اور '' اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں '' سناتیں ۔ 2001 اور 2003ء میں وہ ریڈیو پاکستان پر بھی نغمہ سراء ہوئیں لیکن اُن کی طبیعت اب تنہائی پسندی کی جانب مائل ہو رہی تھی اسی لیے انھوں نے میوزک انڈسٹری چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تاہم وہ اپنے گائے ہوئے ملّی نغمے جب بھی سنتیں تو پاکستان کی محبت میں نَم آنکھوں کو روک نہ سکتی تھیں ۔ اسی لیے 2016ء میں پاکستان ٹیلی وژن نے اُن کا گایا ہوا نغمہ '' وہ تمام دن جو گزر گئے ' ہمیں یاد ہیں '' مزارِ قائد پر نئے سرے سے فلمانے کا فیصلہ کیاتو وہ خود اس نغمے میں شریک ہوئیں لیکن وہ دنیائے موسیقی سے کنارہ کش ہوچکی تھیں ، اس کے علاوہ اُن کی صحت بھی گرتی جا رہی تھی ۔ رواں سال اگست کے وسط میں وہ شدید علیل ہوئیں تو انھیں کراچی کے مقامی ہسپتال میں داخل کردیا گیا جہاں 21 اگست کی شب وہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ ان کے انتقال سے جہاں پاکستانی موسیقی میں خلاء پیدا ہوگیا وہاں ملّی نغموں کا ایک عہد بھی اختتام پذیر ہوگیا جس میں ''وطن کی مٹی کی گواہی'' سے لے کر'' نامِ پاکستان کی پہچان '' سب ہی شامل ہیں۔ اسی لیے ان کی آواز ہمیشہ وطن کی مٹی سے گواہی دلواتی رہے گی کہ اس بلبلِ پاکستان نے اپنی آواز سے حب الوطنی کی قندیلیں روشن کی ہیں۔ ||
مضمون نگارمختلف قومی و ملی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ملی نغموں کے حوالے سے ان کی ایک کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔
[email protected]
تبصرے