آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بی جے پی نے اپنے قیام کے فوراً بعد اپنا منشور جاری کیا جس میں یہ نکات سر فہرست تھے ، غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کا خاتمہ، بھارتی مسلمانوں کے عائلی قوانین کا خاتمہ کر کے مشترکہ سول کوڈ کا نفاذ ، بابری مسجد کا انہدام اور اسکی جگہ رام مندر کی تعمیر اور دہلی اقلیتی کمیشن ختم کر کے نام نہاد ہیومن رائٹس کمیشن کا قیام۔ 5 اگست 2019 میں زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے سنگھ پریوار نے اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کے بعد اپنی توجہ ایجنڈے کے دیگر نکات پر مرکوز کر لی۔
15 اگست 1947 میں اپنی آزادی کے بعد سے بھارت نے خاصے طویل عرصے تک بڑی کامیابی سے دنیا کو یہ تاثر دیئے رکھا کہ اس کے ہاں تمام طبقات اور شہریوں کو مساوی انسانی حقوق میسر ہیں اور اگر کہیں کسی اقلیت کیخلاف امتیازی سلوک کا کوئی واقعہ پیش آتا بھی ہے تو اس کی توعیت سراسر انفرادی ہوتی ہے اور ایسے متشدد ہندو عناصر کو حکومت یا اداروں کی سرپرستی حاصل نہیں ہوتی، عالمی برادری کا ایک حلقہ بھی ان بھارتی دعوؤں پر آنکھیں بند کر کے بڑی حد تک یقین کرتا رہا مگر یہ امر خوش آئند ہے کہ اب دنیا بھر میں بھارتی اقلیتوں کی حالت زار پر کھل کر بات کی جانے لگی ہے۔ سنجیدہ حلقوں کی رائے میں یہ عین ممکن ہے کہ بھارت کی آزادی کے ابتدائی برسوں میں شاید دہلی کے حکمرانوں نے ان انتہا پسند عناصر کی سرکاری سطح پر سرپرستی نہ کی ہو لیکن اگر ایسا ہوا بھی تو یہ کانگرس نے انسانیت سے محبت میں نہیں بلکہ سراسر اپنے سیاسی مفادات کے لیے کیا۔ اب تو بھارت میں گذشتہ 8 برسوں سے ہندو نیشنل ازم کا عفریت ہر چیز کو نگلنے پر آمادہ نظر آتا ہے اور خود بھارتی میڈیا اور سول سوسائٹی کے اعتدال پسند عناصر اس ''نیشنل ازم'' کو '' زعفرانی انتہا پسندی'' قرار دینے لگے ہیں۔ غیر جانبدار حلقوں کی رائے ہے کہ بھارت میں '' ہندوتوا ذہنیت'' کی تاریخ خاصی پرانی ہے مگر بیرونی دنیا کو اس کا احساس تب ہونا شروع ہوا جب مئی 1996 میں گیارہویں لوک سبھا کے نتائج سامنے آئے جن میں بی جے پی نے محض سادہ اکثریت حاصل نہیں کی بلکہ بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت اختیار کر لی۔ اگرچہ ان انتخابات کے بعد واجپائی سرکار محض 13 دنوں کیلئے ہی اقتدار میں رہ پائی مگر ''رام راجیہ'' کے قیام کے یہ حامی 1998 کے وسط میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اب 2014 کے بعد سے تو نریندر مودی اور موہن بھاگوت کی سربراہی میں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی دنیا کی 17.7 فیصد آبادی پر بلا شرکت غیرے حکومت کر رہی ہیں۔
رام راجیے کے قیام کا خواب
آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بی جے پی نے اپنے قیام کے فوراً بعد اپنا منشور جاری کیا جس میں یہ نکات سر فہرست تھے ، غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کا خاتمہ، بھارتی مسلمانوں کے عائلی قوانین کا خاتمہ کر کے مشترکہ سول کوڈ کا نفاذ ، بابری مسجد کا انہدام اور اسکی جگہ رام مندر کی تعمیر اور دہلی اقلیتی کمیشن ختم کر کے نام نہاد ہیومن رائٹس کمیشن کا قیام۔ 5 اگست 2019 میں زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے سنگھ پریوار نے اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کے بعد اپنی توجہ ایجنڈے کے دیگر نکات پر مرکوز کر لی۔ متنازع شہریت ترمیمی بل ، لو جہاد ایکٹ ، گئو رکھشا ایکٹ اور تین طلاق بل کو مودی سرکار نے بھارتی پارلیمان سے منظور کرا لیا، یوں ان اقدامات سے زعفرانی انتہا پسند حلقوں کو یہ گمان ہونا شروع ہو گیا ہے کہ واقعی '' رام راجیے'' اور '' اکھنڈ بھارت'' کا قیام ممکن ہے ، اور اب سنگھ پریوار کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ اپنے قیام کی 100 ویں سالگرہ یعنی 2025 تک کسی طور بھارت کی برائے نام سیکولر حیثیت بھی ختم کر کے انڈیا کو ہندو ریاست قرار دے دیں۔
آر ایس ایس مشترکہ سول کوڈ کے نفاذ کے ذریعے بھارت میں بسنے والے تمام افراد کو '' سناتن دھرم'' کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔ مشترکہ سول کوڈ کے نفاذ کی صورت میں تمام اقلیتوں کو ہندوئوں کے طرزِ زندگی کی مطابقت سے ہی جینا ہوگا۔ ذاتی زندگی، جائیداد کی ملکیت، وراثت کی منتقلی، شادی بیاہ، طلاق غرضیکہ تمام معاملاتِ زندگی انھی قوانین کے مطابق انجام دیئے جائیں گے جو سنگھ پریوار کی منشا ہو نگے۔
مشترکہ سول کوڈ کیا ہے؟
سبھی جانتے ہیں کہ بھارت میں 79.8 فیصد آبادی ہندومت کی پیروکار ہے جبکہ مسلمان 14.2 اور عیسائی تقریباً اڑھائی فیصد ہیں۔ ابھی تک ان اقلیتوں کی رسوم و روایات اور عائلی قوانین انکے مذاہب کے مطابق ہیں، مسلمان شریعت کے مطابق زندگی گزارتے ہیں جبکہ عیسائیوں کا اپنا طرزِ زندگی ہے۔ آر ایس ایس مشترکہ سول کوڈ کے نفاذ کے ذریعے بھارت میں بسنے والے تمام افراد کو '' سناتن دھرم'' کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔ مشترکہ سول کوڈ کے نفاذ کی صورت میں تمام اقلیتوں کو ہندوئوں کے طرزِ زندگی کی مطابقت سے ہی جینا ہوگا۔ ذاتی زندگی، جائیداد کی ملکیت، وراثت کی منتقلی، شادی بیاہ، طلاق غرضیکہ تمام معاملاتِ زندگی انھی قوانین کے مطابق انجام دیئے جائیں گے جو سنگھ پریوار کی منشا ہو نگے۔ یہ امر اپنی جگہ اہم ہے کہ برطانوی ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے عائلی قوانین سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی کیونکہ مسلمانوں کو زندگی گزارنے کا طریقہ دین اسلام میں بتایا گیا ہے، شرعی قوانین کے تحت ہی مسلم برادری میں زندگی گزاری جاتی ہے۔ بھارت میں مشترکہ سول کوڈ کے نفاذ کی صورت میں مودی سرکار یہ طے کرے گی کہ ذاتی سطح پر مسلمان اور عیسائی کیسے جئیں گے؟ جائیداد کی تقسیم اور وراثت کی منتقلی کیسے کی جائے گی؟ انھیں کتنی شادیاں کرنے کی اجازت ہو گی؟ شادی کے بندھن میں بندھنے کا طریقہ کار کیا ہو گا؟ علیحدگی کی صورت میں طلاق کیسے ہو گی؟ مبصرین کے مطابق سنگھ پریوار کی جبر و استبدایت کی یہ روش بھارت کو بدترین خانہ جنگی میں مبتلا کرنے کا باعث بن سکتی ہے ۔
یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت کو ہندو ریاست قرار دینا اور یکساں شہری ضابطے کا ایجنڈہ آر ایس ایس کا دیرینہ خواب ہے، اٹل بہاری واجپائی 1998 میں بھارتی وزیراعظم بنے لیکن 1999میں جے للتا کی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں انکی حکومت چلی گئی جس کے فوراً بعد مڈ ٹرم الیکشن کے نتیجے میں دوبارہ بی جے پی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی اور 2004 کے وسط تک واجپائی بھارت کے وزیراعظم رہے ، ان کے کندھوں پر آر ایس ایس نے یکساں شہری ضابطے کے نفاذ کی ذمہ داری ڈالی مگر مخلوط حکومت اور اتحادی جماعتوں کی مخالفت کے باعث وہ اس جانب ٹھوس پیشرفت نہ کر پائے۔ 2014 اور پھر 2019 میں چونکہ مودی واضح اکثریت سے برسراقتدار آنے میں کامیاب رہے اس لیے آر ایس ایس نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے قانون سازیاں شروع کر دی ہیں۔ مشترکہ سول کوڈ کے لیے ہی متنازع شہریت ترمیمی بل، گئو رکھشا، تین طلاق اور لو جہاد جیسے کالے قوانین کی منظوری دی گئی یوں یہ قانون سازیاں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی جانب بتدریج پیشرفت ہے ۔
نفاذ کی جانب پیشرفت
بھارت میں ان دنوں ہماچل پردیش اور گجرات کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سرخیوں میں ہیں اور بی جے پی کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ ہماچل پردیش میں برسراقتدار آنے کی صورت میں 5 سالہ مدت میں ریاست میں مشترکہ سول کوڈ نافذ کر دیا جائیگا۔ گجرات سرکار نے بھی جیت کی صورت میں عائلی قوانین کے خاتمے کی جانب ٹھوس پیشرفت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ بھی یونیفارم سول کوڈ پر ہوم ورک کیلئے مختلف کمیٹیاں تشکیل دے چکے ہیں، لگ بھگ دو ہفتے قبل یو پی کے نائب وزیراعلیٰ کیشو پرشاد موریہ نے بیان دیا کہ مشترکہ کوڈ کا نفاذ بھارت میں وقت کی ضرورت بن چکا ہے کیونکہ ماضی کی سرکاروں ( کانگرس، سماجوادی پارٹی) نے کچھ طبقات ( مسلمانوں، عیسائیوں) کیلئے نرم گوشہ رکھا اور اس جانب کوئی دھیان نہیں دیا۔ اترکھنڈ کے وزیراعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے بھی دوبارہ انتخابات جیتتے ہی سب سے پہلا کام یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کے لیے خصوصی کمیٹی قائم کرنے کا کیا، اس سب صورتحال میں یہ نکتہ اپنی جگہ اہم ہے کہ متعدد ہندو انتہا پسند حلقے بھارت کو ہندو ریاست قرار دینے کے لیے اتنے بے قرار ہیں کہ انکا مطالبہ ہے کہ مودی سرکار کو فی الفور لوک سبھا میں اس حوالے سے آئینی بل پیش کرنا چاہیے لیکن آر ایس ایس کے اعلیٰ حکام کو بھی اس معاملے کی سنگینی اور نزاکت کا کسی قدر احساس ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایسی کسی پیشرفت کی صورت میں بھارت کے طول و عرض سے شدید ردعمل سامنے آئے گا جو دیکھتے ہی دیکھتے خانہ جنگی کی صورتحال اختیار کر سکتا ہے ۔
آر ایس ایس کے اس '' الٹرا نیشنل ازم'' کے نتیجے میں جنوبی ایشیاء کا خطہ بالعموم اور بھارت بالخصوص عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے جس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہونگے۔ بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں تو کشمیری عوام پہلے ہی بھارت کی ریاستی دہشتگردی کا شکار ہیں، اس حوالے سے عالمی برادری کو اپنا انسانی اور اخلاقی فریضہ نبھاتے ہوئے بھارتی اقلیتوں کی مددکے لیے آگے آنا ہو گا۔
مرکز سے پہلے صوبوں میں نافذ کرنے کا فیصلہ
بھارت میں مسلمانوں کے ''پرسنل لائ'' (عائلی قوانین) کے خاتمے کیلئے آر ایس ایس پورا زور لگا رہی ہے ، اسی تناظر میں اس یکساں شہری ضابطے کے قانون کے مسودے پر تیزی سے ہوم ورک ہو رہا ہے ، بی جے پی مناسب موقع آتے ہی اسے بھارتی پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے پیش کر سکتی ہے لیکن مودی سرکار بخوبی واقف ہے کہ لوک سبھا سے یکساں شہری ضابطے کا بل پاس ہونے کے باوجود راجیہ سبھا میں اٹک جائے گا کیونکہ اگر مودی سرکار ایسا کوئی قانون سامنے لے کر آئے تو مغربی بنگال میں حکومت کر رہی ترنمول کانگرس، بہار کی جنتا دل یونائیٹڈ ، تامل ناڈو کی ڈی ایم کے، کیرالہ کی کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ، آندھرا پردیش کی وائی ایس آر کانگرس، تلنگانہ کی تلنگانہ راشٹریے سمتی اور دہلی و پنجاب میں برسراقتدار عام آدمی پارٹی تو اسکی سخت مخالفت کریں گی ہی ، راجستھان، جھاکھنڈ اور چھتیس گڑھ کی کانگرس اتحاد والی صوبائی حکومتوں کی جانب سے بھی اس کا نفاذ روکنے کیلئے حتی المقدور کوشش کی جائیگی۔ فی الحال بھارتیہ جنتا پارٹی نے اتراکھنڈ، گجرات ، اترپردیش اور ہماچل پردیش میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ ان ریاستوں میں ایسا کر کے بھارتی مسلمانوں اور عیسائیوں کے ردعمل کو بھانپا جائے مگربھارت کے اعتدال پسند حلقوں کو خدشہ ہے کہ اگر مودی سرکار اپنی ہٹ دھرمی اور ضد پر اڑی رہتی ہے تو ہندوستان میں سیاسی عدم استحکام خطرناک حد تک بڑھ سکتا ہے۔
یکساں سول کوڈ لاگو ہونے کے بعد کا ممکنہ منظر نامہ
مندرجہ بالا تجزیے سے یہ بات تو عیاں ہے کہ جلد یا بدیر آر ایس ایس پورے بھارت میں یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے کی کوشش کرے گی۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے بھارت ، جنوبی ایشیاء اور عالمی سطح پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ بھارت میں سنگھ پریوار اور اس کے نظریاتی حامیوں کی روش اتنی واضح ہے کہ خود بھارت کے اکثر اعتدال پسند حلقے تسلیم کرتے ہیں کہ سنگھ پریوار کے حامی ہٹلر کے نازی ازم کو اپنے لیے آئیڈیل لائحہ عمل مانتے ہیں اور خود بھارت کی دیگر اقلیتوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھنا چاہتے ہیں جس قسم کا رویہ جرمنی میں مقیم یہودیوں کیساتھ ہٹلر کا تھا۔ اس سے ایک جانب یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کی حکمت عملی بھارتی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی بابت کیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ سنگھ پریوار کے ہندو ریاست کے قیام کے حوالے سے عزائم بھی پوری طرح عیاں ہو جاتے ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ آر ایس ایس اپنے اس ایجنڈے کی تکمیل میں مستقبل قریب میں کامیاب ہو جائے گی اور بھارت میں اقلیتوں کے عائلی قوانین کے خاتمے کے بعد یکساں شہری ضابطہ نافذ ہو جائیگا۔ اس تناظر میں آل انڈیا مسلم بورڈ نے چند ماہ قبل خط لکھ کر مودی سرکار کو خبردار کیا تھا کہ وہ مشترکہ سول کوڈ کے کی مہم جوئی سے باز رہے کیونکہ یہ صورتحال بھارتی مسلمانوں کو کسی صورت قبول نہیں ، بورڈ کے جنرل سیکرٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بی جے پی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ منافرت پھیلانے کی روش ترک کر کے پرسنل لاز ختم کر نے کا راگ الاپنے کے بجائے غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کیلئے کاوشیں کرے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ آر ایس ایس کے اس '' الٹرا نیشنل ازم'' کے نتیجے میں جنوبی ایشیاء کا خطہ بالعموم اور بھارت بالخصوص عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے جس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہونگے۔ بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں تو کشمیری عوام پہلے ہی بھارت کی ریاستی دہشتگردی کا شکار ہیں، اس حوالے سے عالمی برادری کو اپنا انسانی اور اخلاقی فریضہ نبھاتے ہوئے بھارتی اقلیتوں کی مددکے لیے آگے آنا ہو گا۔ ||
مضمون نگار ایک اخبار کے ساتھ بطور کالم نویس منسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے