پاکستان اسلامی دنیا کاپہلا ملک ہے جس نے عالمی برادری کے دیگر چند ممالک کے ہمراہ چین کو آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا۔دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات 21 مئی 1951 کو قائم ہوئے۔پاک چین دوستی آزمائش کی ہر گھڑی پر پورا اتری ہے۔دونوں ممالک کی بے لوث اور مخلصانہ دوستی کو ہمالیہ سے بلند ،سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی قرار دیا جاتا ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ تعلقات کا آغاز 1950 میں ہوا تھا ۔ پاکستان نے چین کو اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی فورمز کا رکن بننے میں مدد فراہم کرنے کے علاوہ چین کے امریکہ سمیت اسلامی دنیا کے ساتھ رابطوں کے قیام اور تعلقات کے فروغ کے لیے اہم خدمات انجام دی ہیں جسے چین کی جانب سے ہمیشہ سراہا گیا ہے۔ چین نے بھی اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی فورمز پر پاکستان کی بھرپور حمایت سے ایک سچا دوست ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ پاکستان کو ہمیشہ سے چین کی سفارت کاری میں ترجیح حاصل رہی ہے ، چین پاکستان کے بنیادی مفادات اور اہم خدشات سے متعلق امور پر پاکستان کی بھرپور حمایت جاری رکھے ہوئے ہے ۔ دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم اصول ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ ہے اور تمام عالمی معاملات اور تنازعات پر دونوں ممالک ایک ہی رائے کا اظہار کرتے آئے ہیں۔پاکستان نے ہمیشہ ایک چین کے اصول کی حمایت کی ہے اور سنکیانگ ،تائیوان ،ہانگ کانگ اور چین کے بنیادی مفادات سے جڑے دیگر امور میں چین کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔اسی طرح چین نے بھی انسداد دہشت گردی کے حوالے سے تمام عالمی پلیٹ فارمز پر کھل کر پاکستان کی حمایت کی ہے اور پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا ہے ۔
عالمی سطح پر منفرد اور غیر معمولی نوعیت کی حامل پاک چین دوستی کبھی بھی وقت اور حالات کے تابع نہیں رہی ہے ۔دونوں ملکوں میں انتقال اقتدار یا سیاسی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں سے قطع نظر پاک چین تعلقات ہمیشہ مثبت سمت میں آگے بڑھتے رہے ہیں۔
رواں برس دونوں ملک بے مثال برادرانہ تعلقات کے 71 برسوں کا اہم سنگ میل عبور کر چکے ہیں۔ ان گزشتہ ستر برسوں کے دوران سیاسی ،سفارتی ،اقتصادی ،ثقافتی، دفاعی غرضیکہ تمام شعبہ جات میں پاک چین تعلقات کے فروغ سے روایتی مضبوط دوستی کو مزید عروج حاصل ہوا ہے ۔ دونوں ممالک نہ صرف عالمی اور علاقائی پلیٹ فارمز پر ایک دوسرے کے مضبوط حامی ہیں بلکہ ایک دوسرے کی مضبوط اقتصادی اورسماجی ترقی کے خواہاں بھی ہیں۔ دونوں ممالک نے برادرانہ تعلقات میں ہمیشہ مشترکہ مشاورت کے اصول کا احترام کیا ہے ، مشترکہ تعمیر کے اصول پر عمل پیرا رہتے ہوئے مشترکہ مفاد کے اصول کو ترجیح دی گئی ہے۔
چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی غیر مشروط حمایت کی ہے اور اس کے لیے آخری حد تک جانے سے بھی گریز نہیں کیا۔پاکستان میں اقتصادی شعبے کی ترقی کے لیے چین نے ہمیشہ عملی مدد فراہم کی ہے۔ ٹیکنالوجی کی فراہمی سے لے کر افرادی قوت کی تربیت تک چین نے پاکستان کو ہمیشہ کھلے بازوئوں کے ساتھ تعاون کی پیشکش کی ہے۔
پاکستان چین کو عالمی سطح پر اہم ترین دوست تصور کرتا ہے اورمشکل صورتحال میں بھی دنیا نے پاک چین دوستی کی مضبوطی دیکھی ہے ۔ ابھی حال ہی میں دونوں ممالک نے کووڈ۔19کی وبائی صورتحال میں ایک دوسرے کی بھرپور حمایت سے سدا بہار دوستی کی توثیق کی ہے۔سفارتی میدان میں کامیابیوں کے ساتھ ساتھ اگر معاشی شعبے میںپاک چین تعلقات کی ترقی کی بات کی جائے تو چینی صدر شی جن پنگ کے تاریخی دورہ پاکستان کے دوران دونوں ملکوں کے عظیم اور بے مثال تعلقات میں ایک تاریخی سنگ میل چین پاک اقتصادی راہداری کی صورت میں سامنے نظر آ یا،جسے نہ صرف چین اور پاکستان بلکہ پورے خطے کی معاشی ترقی کا منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اربوں ڈالرز سرمایہ کاری کا حامل یہ منصوبہ پاکستان کی معاشی ترقی کا اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس سے یقینی طور پر پاکستان میں تعمیر و ترقی کے ایک نئے باب کا آ غاز ہو چکا ہے۔ تا حال سی پیک کے تحت پاکستان میں 25.4 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جا چکی ہے ، 46 منصوبے یا تو مکمل کر لیے گئے ہیں یاپھر تکمیل کے مرحلے میں ہیں جس سے پاکستان کو 5200 میگا واٹ بجلی فراہم کی گئی ہے ، 886 کلو میٹر طویل نیشنل کور ٹرانسمیشن گرڈ قائم ہو چکی ہے ، اور 510 کلومیٹرطویل شاہراہیں تعمیر ہو چکی ہیں ۔ اگلے مرحلے میں سی پیک کے تحت زراعت ، صنعت ، انفارمیشن اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے گا۔
چین اور پاکستان کی اعلیٰ قیادت دیرینہ دوستی کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ چینی صدر شی جن پنگ نے چین پاکستان دوستی کے بارے میں کہا چین اور پاکستان کے درمیان چاروں موسموں کے اسٹریٹجک تعاون پر مبنی شراکت داری کے تعلقات قائم ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔جب کہ پاکستان نے بھی چین کی لازوال دوستی کے بارے میں کہا کہ ہم چین کی ترقی کو سراہتے ہیں وہاں انہوں نے ہمیشہ چین سے سیکھنے کی خواہش ظاہر کی ہے چاہے وہ غربت کا خاتمہ ہو ، انسداد بدعنوانی ہو یا پھر سماجی ترقی سے متعلق چین کی پالیسیاں۔پاکستان کے عوام کے دوستانہ تبادلوں کی شروعات کا مشاہدہ تاریخی ادوار سے ہی کیا جا سکتا ہے۔
قدیم شاہراہ ریشم نے دو ہزار سال قبل ہی چین اور موجودہ پاکستان کے علاقے کو مربوط کردیا تھا۔ دونوں ممالک کے عوام کے مابین قدیم وقتوں میں قائم ہونے والے تعلقات ایک طویل تاریخی عمل کے نتیجے میں اس وقت مضبوط ترین پاک چین دوستی میں تبدیل ہوچکے ہیں، جس میں روزبروز مزید پختگی آتی جارہی ہے۔ستر برس میں چین اور پاکستان نے مل کر تمام تر مشکلات پر قابو پاتے ہوئے منفرد آہنی دوستی تشکیل دی ہے اور اب یہ دوستی دونوں ممالک کا سب سے قیمتی اسٹرٹیجک اثاثہ بن چکی ہے۔
پاکستان اور چین کی دوستی کے بارے میں ایک بار چین کے عظیم آنجہانی وزیراعظم چو این لائی نے کہا تھا کہ چین اور پاکستان کی دوستی اور عوام کے درمیان دوستانہ مراسم کی شروعات کے مشاہدے کے لیے ہمیں تاریخ کے تناظر میں دیکھنا ہو گا۔یہ ایک دو سال کی بات نہیں بلکہ برسوں اور نسلوں کا تعلق ہے۔شاہراہ ریشم کی مثال سب کے سامنے ہے جس نے پاک چین تعلقات کو دو ہزار سال قبل سے مضبوط تعلق میں جوڑ رکھا ہے۔ دو ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات اور دوستی کا اندازہ تب ہوتا ہے جب دونوں ممالک میں سے کسی ایک کو مشکلات درپیش ہوں۔ چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی غیر مشروط حمایت کی ہے اور اس کے لیے آخری حد تک جانے سے بھی گریز نہیں کیا۔پاکستان میں اقتصادی شعبے کی ترقی کے لیے چین نے ہمیشہ عملی مدد فراہم کی ہے۔ ٹیکنالوجی کی فراہمی سے لے کر افرادی قوت کی تربیت تک چین نے پاکستان کو ہمیشہ کھلے بازوئوں کے ساتھ تعاون کی پیشکش کی ہے۔ چین اس بات کو کبھی نہیں بھولتا کہ پاکستان نے اس کی طرف اس وقت دوستی کا ہاتھ بڑھایا جب دنیا ابھی چین کے بارے میں شس و پنج کا شکار تھی۔پاکستان نے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر کے عالمی سطح پر اس کی جو مدد کی، وہ آج بھی اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
گزرتے وقت کے ساتھ پاک چین دوستی کی جڑیں نسل درنسل عوام کے دلوں میں مزید مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔پاکستانی عوام جہاں چین سے بے پناہ لگاؤ رکھتے ہیں تو چینی سماج میں بھی پاکستان کو فولادی بھائی قرار دیا جاتا ہے۔ آج ستر برس بعد چین اور پاکستان دونوں پراعتماد ہیں کہ آہنی دوستی کے اس رشتے اور برادرانہ تعلق کو ہمیشہ عروج حاصل رہے گا اور دونوں ملک مل کر ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن رہیں گے۔
پاک چین تعلقات کے خوشگوار اور مثالی ہونے کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے صدور، وزرائے اعظم، وزرائے خارجہ اور دیگر وفود ایک دوسرے کے ملک کا دورہ جاری رکھتے ہیں۔چین کے ساتھ ہماری دوستی کی نوعیت عوامی سطح پر ہے۔پاکستان سے چین جانے والے پاکستانیوں کو چین کے عوام بھرپور اپنائیت اور محبت سے نوازتے ہیں،چین کے میڈیکل، انجینئرنگ اور سوشل سائنسز کے تعلیمی اداروں میں ہزاروں پاکستانی طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں سے بیشتر کو چین کی حکومت سکالر شپ دیتی ہے تاکہ پاکستان میں تعلیمی و ترقی کو فروغ دیا جائے۔
پاکستان نے چین سے اپنی اٹوٹ اور آہنی رشتے کو نبھاتے ہوئے امریکی صدر جوبائیڈن کی ڈیموکریسی سمٹ کا بائیکاٹ کیا کیونکہ اس سمٹ میں چین کو جان بوجھ کر مدعو نہیں کیا گیا تھا، اسی طرح چین نے بھی اکتوبر میں بھارت کی جانب سے افغانستان کے مسئلے پر منعقدہ کانفرنس کا مکمل بائیکاٹ کیا تھا۔
پاکستان کے عوام کے دوستانہ تبادلوں کی شروعات کا مشاہدہ تاریخی ادوار سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس71سالہ دوستی کے سفر میں چین نے پاکستان کو کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ کوئی بڑا ملک ہے یا دنیا کی سپر پاور ہے بلکہ ہمارے ساتھ تعلقات کی نوعیت ہمیشہ برابری کی بنیاد پر رہی ہے۔
گزرتے وقت کے ساتھ پاک چین دوستی کی جڑیں نسل درنسل عوام کے دلوں میں مزید مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔پاکستانی عوام جہاں چین سے بے پناہ لگاؤ رکھتے ہیں تو چینی سماج میں بھی پاکستان کو فولادی بھائی قرار دیا جاتا ہے۔ آج ستر برس بعد چین اور پاکستان دونوں پراعتماد ہیں کہ آہنی دوستی کے اس رشتے اور برادرانہ تعلق کو ہمیشہ عروج حاصل رہے گا اور دونوں ملک مل کر ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن رہیں گے۔ ||
مضمون نگار ''کانسپٹ آف ٹیررازم اِن پوسٹ کولڈ وار ایرا''
کی مصنفہ ہیں۔ [email protected]
تبصرے