جب سے صنف آہن ڈرامہ دیکھنا شروع کیا تھا فوج سے انسیت بڑھتی جارہی تھی۔ ڈرامہ ختم ہوجاتا تھا لیکن دل و دماغ میں اٹھتے سوالوں کا شور بڑھتا چلا جاتا تھا۔ ایک ہی خواہش تھی کہ بس کچھ بھی کر کے کسی طرح کاکول کے اندر کے مناظر دیکھ سکوں اور کاکول کے بارے میں اور بھی بہت کچھ جان سکوں۔
فوج میں جانے کا سوچنے سے لے کر کاکول میں گزارے گئے وقت کا تمام احوال اس قدر روانی اور تفصیل سے قلم بند کیا گیا ہے کہ قاری کے سامنے ایک فلم سی چلنے لگتی ہے۔ اس کتاب کاآخری صفحہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یقینا اس کا اگلا حصہ بھی یا تو وجود میں آگیا ہے یا پھر آنے والا ہوگا۔
پھر ایک دن بریگیڈیئر صولت رضاکی کتاب''کاکولیات ''موصول ہوئی۔ گہرے سبز رنگ سے مزین سرورق جس پر ایک فوجی سلیوٹ کرتا نظر آرہا ہے، نے جیسے دل کو دگنی رفتار پر دھڑکنے پر مجبور کردیا۔
کتاب کھولتے ہی پہلے صفحے پر اپنا نام دیکھ کر خود کو بڑا معتبر محسوس کیا کہ ایک فوجی نے خود اپنے ہاتھوں سے مجھ خاکسار کا نام اپنی اس کتاب پر لکھا ہے۔
اب آتے ہیں کتاب کی طرف۔
بریگیڈیئر صولت رضا نے بظاہر سنجیدہ نظر آنے والی اس کتاب کے اندر جیسے ہنسی کا طوفان چھپا رکھا ہے۔
کاکول میں گزرے سخت دن و رات کے احوال کو مزاح کی مالا پہنانا بڑے ہی دل گردے کی بات ہے اور بریگیڈیئر صاحب نے اس مشکل صنف مزاح نگاری' سے بھرپور انصاف کیا ہے۔ محاورات اور تشبیہات کے رواں اور بیساختہ استعمال نے کا''کولیات'' کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔
فوج میں جانے کا سوچنے سے لے کر کاکول میں گزارے گئے وقت کا تمام احوال اس قدر روانی اور تفصیل سے قلم بند کیا گیا ہے کہ قاری کے سامنے ایک فلم سی چلنے لگتی ہے۔ اس کتاب کاآخری صفحہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یقینا اس کا اگلا حصہ بھی یا تو وجود میں آگیا ہے یا پھر آنے والا ہوگا۔
پی ایم کے کے بارے میں جو تجسس تھا وہ کافی حد تک کم ہوگیا لیکن مکمل ختم تو تب ہی ہوگا جب مجھے پی ایم اے دیکھنے کا شرف حاصل ہوگا۔ بات تو خواب جیسی ہے لیکن خواب دیکھے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ ان کے پورے ہونے کی امید و خواہش ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔'کاکولیات' سے جہاں ذہن میں ابھرتے کافی سوالات کے جوابات ایک کے بعد ایک کر کے ملتے چلے گئے وہیں کچھ نئے سوالوں نے بھی جنم لیا۔
فال ان ، رول ان، روٹ مارچ اور اس جیسی کتنی ہی اصطلاحات کا مطلب ہی اب پتہ چلا ہے۔ ورنہ ہم نے بھی صرف کریم رول ، سنو فال یا عورت مارچ وغیرہ ہی سنا تھا ۔
اس کتاب میں کچھ جملے تو ایسے ہیں جنہیں پڑھ کر میرے فلک شگاف قہقہوں نے گھروالوں کو متوجہ کروادیا ۔ اس حادثے کے بعد پوری کوشش رہی کہ اب مزید ایسی کوئی حرکت نہ ہونے پائے لیکن ایک بات تو طے تھی کہ کتاب کے آخری پنوں تک لبوں سے مسکان رخصت ہی نہ ہوئی ۔ جتنا اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میں مسکرائی ہوں اتنی ہی بار میری آنکھیں نم بھی ہوئی ہیں۔
ذہن میں بارہا یہ خیال آیا کہ جب کبھی زیادہ گرمی ہو، ہیٹ سٹروک کا خدشہ ہو یا سخت سردی پڑ رہی ہویا پھر تیز طوفانی بارش کا امکان ہو (ہم کراچی والے تو سیاہ بادل منڈلاتے دیکھ کر ہی الرٹ ہوجاتے ہیں کہ چار بوندیں پڑتے ہی بجلی تو جائے گی ساتھ میں پورا شہر تالاب کا منظر پیش کرنے لگے گا اور جو جہاں ہے وہیں پھنسا رہ جائے گا) یا زلزلے کے جھٹکے محسوس ہورہے ہوں یا پھر اس جیسی اور بھی کئی ہنگامی و غیر ہنگامی صورتحال کا سامنا ہونے یا صرف ہونے کے خدشے ہی پر ہم فوراً ہی اپنے ابو کو، اپنے بھائیوں، بیٹوں، شوہر کو فون کرکے تاکید کرتے ہیں کہ جلد از جلد گھر پہنچ جائیں۔ جب تک ہمارے گھر کے مرد گھر نہیں پہنچ جاتے ،جان سولی پر اٹکی رہتی ہے ۔
اور ایک یہ ہمارے فوجی بھائی! ان کی تو صرف ٹریننگ ہی اتنی سخت ہوتی ہے کہ کتنے ہی دن تو یہ بھاری بستے لادے ایک چھوٹی پانی کی بوتل کے سہارے مشکل ترین راستوں میں مارچ کرتے چلے جاتے ہیں۔کبھی برساتی جنگل میں رات گزارتے ہیں تو کبھی ویران قبرستان میں۔ کبھی ان کا کھانا کسی بارش کے پانی میں بہہ جاتا ہے تو کبھی پانی ختم ہوجاتا ہے۔
کون ہوتی ہے وہ ماں جو اپنے بچے کو نو مہینے کوکھ میں رکھ کر جان پر کھیل کر اسے اس دنیا میں لاتی ہے۔ اس کے سارے ناز اٹھاتی ہے، اس کی ایک تکلیف پر تڑپ کر راتیں جاگتی ہے اور نجانے کیسے وہ اپنے بچے کو کڑیل جوان ہونے پر ملک کی حفاظت کرنے کے لیے فوج میں بھیج دیتی ہے؟
کیا یہ کسی ماں کے بیٹے نہیں ہیں؟
کیا ان کی بہنیں نہیں ہیں جو ان کو گھر جلدی آنے کا کہتی ہوں؟
کیا ان کے بیٹے بیٹیاں نہیں ہوتے ہوںگے جو موسم کی تبدیلی پر یا حالات کے بگڑنے پر اپنے ابو کے گھر جلدی آنے کی خواہش رکھتے ہوں؟
کون ہیں یہ فوجی ؟
اور کیسے ہوتے ہوںگے ان کے گھر والے جو اپنے جگر کے گوشوں کو اپنے وطن پر قربان کردیتے ہیں؟
بارہا میری آنکھوں کے سامنے ان شہیدوں کی تصاویر گھوم گئیں جو گھر سے کڑیل جوان بن کر اپنی امی کی دعائیں لے کر جاتے ہیں۔
اپنے بچوں کے ماتھے پر بوسہ ثبت کرکے جاتے ہیں۔
اپنی شریک حیات کو محبت سے نظر بھر کے دیکھ کر جاتے ہیں کہ جانے پھر کب دیکھ پائیں گے ۔
اپنی بہنوں سے شرارت کرتے ہوئے گھر کی دہلیز پار کر جاتے ہیں کہ ملک کو ان کی ضرورت ہے۔
اور جب واپس ان کی میت آتی ہوگی تو گھر والے کس طرح اپنے بلند حوصلے کا مظاہرہ کرکے شہید کی ماں، بہن، بیٹی کا اعزاز لیے صبر کر جاتے ہیں؟
کون ہوتی ہے وہ ماں جو اپنے بچے کو نو مہینے کوکھ میں رکھ کر جان پر کھیل کر اسے اس دنیا میں لاتی ہے۔ اس کے سارے ناز اٹھاتی ہے، اس کی ایک تکلیف پر تڑپ کر راتیں جاگتی ہے اور نجانے کیسے وہ اپنے بچے کو کڑیل جوان ہونے پر ملک کی حفاظت کرنے کے لیے فوج میں بھیج دیتی ہے؟
کیسی ہوتی ہیں وہ مائیں؟
کہاں سے لاتی ہیں وہ اتنا بڑا جگر؟
یہاں تو بچے کو موسمی بخار ہوجائے تو مائیں پاگل ہوجاتی ہیں اور فوجیوں کی مائیں انہیں کس طرح کاکول بھیجتی ہونگی کہ انہیں تو پتہ ہوتا ہے کہ وہاں میرے بچے کے کوئی لاڈ نہیں اٹھیں گے۔
وہاں اس کی سخت ٹریننگ ہوگی۔
پھر بھی بھیجتی ہیں نا؟
اور پھر سرحد پر بھیجنا؟
جہاں سے یا تو شہادت کی خبر آتی ہے یا پھر ان کا گبھرو بیٹا کسی نہ کسی جسمانی معذوری کے ساتھ واپس لوٹتا ہے۔
اور اگر صحیح سلامت واپس آبھی جائے تو ایک بار نہیں بلکہ بار باروہ وطن کی راہ میں قربان ہونے کی کوشش کرتا ہے۔
کیا کبھی ہمیں ان کا خیال نہیں آتا؟
وطنِ عزیز کے لوگوں کو اس بارے میں نہ صرف سوچنا چاہئے بلکہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ایسی کتابیں خود بھی پڑھنی چاہئیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھوانی چاہئیں۔ مجھے ہمارے تعلیمی اداروں سے بھی شکوہ ہے کہ وہ ایسی کتابیں اردو ادب کے سلیبس میں شامل کیوں نہیں کرتے؟ ہماری نسل ہمارا سرمایہ ہے۔ کیوں ہمارے بچے ان فوجیوں کے بارے میں نہیں جانتے؟ بدیسی فلمی ہیروز یا سپر ہیروز کو رول ماڈل بنانے والوں کو ہمارے ان اصلی ہیروز کو دیکھنا چاہئے۔
اصل ہیرو تو ہمارے فوجی ہیں جن کی وجہ سے آج ہم اپنے گھروں میں بلا خوف و خطر سکون کی نیند سوتے ہیں ۔
سلام ہے فوجی بھائیوں کو اور ان کی مائوں کو۔ مجھ سمیت وطن کی ساری بیٹیاں آپ کو سلام کہتی ہیں ||
کتاب کے مصنف بریگیڈیئر (ر)صولت رضا آئی ایس پی آر میں خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں ۔
[email protected]
تبصرے