صحت مند اور تندرست زندگی انسان کی ایک بڑی خواہش اور ضرورت ہوتی ہے۔ صحت ہماری زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ ہے لیکن اس کا احساس تب ہوتا ہے جب ہم اسے کھو دیتے ہیں اس لیے صحت مند جسم کی اہمیت صرف وہی شخص بتا سکتا ہے جو کسی بیماری کا شکار ہو چکا ہو۔ ماہرینِ صحت کے مطابق نہ صرف اچھی متوازن خوراک، ورزش یا چہل قدمی اور مفید مشغلے انسان کو صحت مند رکھنے میں مددگار ہوتے ہیں بلکہ ایک عمر کے بعد باقاعدگی سے ڈاکٹرسے معائنہ کسی بھی بیماری کی ابتدائی تشخیص کے لیے اہم ہے۔ ضروری نہیں انسان کسی بیماری کے آنے کے بعد ہی ڈاکٹر کے پاس جائے بلکہ کچھ عرصے کے بعدطبی معائنہ بہت سی بیماریوں کی ابتدا میں ہی روک تھام میں مددگار ہو سکتا ہے،جیسے کہ بلڈ پریشر، ذیابیطس،کینسر، دل کے امراض، نظر کی کمزوری، گردوں کے مسائل وغیرہ وغیرہ ۔ہمارے معاشرے میں ڈاکٹر کے پاس جانے کوعام طور پر معیوب سمجھا جاتا ہے اس لیے بیشتر افراد بیماری کی صورت میں بھی خود یا کسی دوست رشتہ دار کے مشورے سے دوا لے لیتے ہیں۔ مریض خوش قسمت ہو تو وقتی طور پر شاید اس کو آرام آ بھی جائے لیکن اس کے دیرپا نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں کیونکہ ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر دوا لینا تقصان دہ بلکہ جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹری نسخے کے بغیر ازخود دوائوں کے بہت سے مضر اثرات ہوتے ہیں جن میں ایک اہم یہ ہے کہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے بے جا اور غیر ضروری استعمال سے انسان کے جسم میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے۔اینٹی بائیوٹک ادویات کا ایک گروپ ہے جو بیکٹیریل انفیکشن کے علاج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اینٹی بائیوٹیکس کی بہت ساری قسمیں ہیں ،اینٹی بائیوٹکس کے زیادہ اور غیر ضروری استعمال سے بیکٹیریا زیادہ طاقتور ہو جاتے ہیں اور ان کی مدافعت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اینٹی بائیوٹکس عام نزلہ اور زکام کے جراثیم کے علاج میں معاون نہیں ہیں لیکن ان کا غیر ضروری استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں دیہی اور شہری آبادی دونوں میں ازخود علاج یا دوا لینے کا تیزی سے بڑھتا رجحان تشویش ناک ہے۔ نہ صرف ان پڑھ بلکہ پڑھے لکھے مردو خواتین ازخود علاج کو اپنا رہے ہیں ۔ دیکھا جائے تو پڑھے لکھے افراد میں یہ رجحان فروغ پا رہا ہے کہ انٹرنیٹ جیسے وسائل کو استعمال کر کے ازخود علاج کیا جاسکتا ہے جو کہ انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ انٹرنیٹ پر بہت سی ویب سائٹس ایسی ہیں جو مستند نہیں۔ ایک معروف ہسپتال کی چیف آف فارمیسی سلویٰ احسن کے مطابق دوائیں دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک جو عام طور پر معمولی امراض میں استعمال کی جاتی ہیں جیسے کہ بدہضمی یا ہلکا درد، الرجی وغیرہ جن کو عمومی طور پر''اور دا کانٹر ڈرگز''کہا جاتا ہے جبکہ دوائوں کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر نہیں ملنی چاہیے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ دوائیں بھی اکثر ڈاکٹری نسخے کے بغیر دستیاب ہو جاتی ہیں جن کا بے حد نقصان ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ ہر دوا کا کوئی طریقہ کار ہوتا ہے تاکہ وہ صحیح طور پر اثر کر سکیں جیسے کہ کوئی دوا خالی پیٹ نہیں لینی چاہیے کیونکہ تیزابیت پیدا کرتی ہیں یا پھر کوئی اور مضر اثرات ہو سکتے ہیں یا پھر کچھ دوائیں ایسی ہیں جن کے ساتھ کوئی اور دوا لینا یا نہ لینا ضروری ہے جو کہ ایک شخص جو کہ ازخود علاج کر رہا ہوتا ہے اس بات سے واقف نہیں ہوتا اور دوائوں کا فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہو سکتاہے۔ ایک ڈاکٹر یا فارماسسٹ اس میں بہتر رہنمائی کر سکتا ہے کہ کون سی دوا کس طرح لینی چاہیے۔ ڈاکٹرعابد الیاس میڈیکل سپیشلسٹ اور کنسلٹنٹ کریٹیکل کئیرہیں، وہ بتاتے ہیں کہ اکثر دوائوں کے کچھ سائیڈ ایفیکٹ یا مضر اثرات بھی ہو سکتے ہیں جن کو ایک ڈاکٹر ہی مد نظر رکھتے ہوئے نسخے میں لکھ کر دے سکتاہے اورخود سے بغیر مشورے کے لینے سے فائدہ تو درکنار الٹا نقصان ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر اینٹی بائیوٹکس، ذیابیطس، انسولین اور بلڈ پریشر کی دوائیاں وغیرہ۔ڈاکٹرز نہ صرف صحیح دوا بلکہ ہر مریض کی صورتحال دیکھتے ہوئے مناسب مقدار بھی لکھ کر دیتے ہیں تاکہ انکا اثر ہو سکے۔مثال کے طور پر انسولین کی مقدار اگر زیادہ ہو جائے توشوگرکا انتہائی کم لیول انسان کی جان بھی لے سکتا ہے۔اسی طرح بلڈ پریشر کی دوا میں اپنی مرضی سے کمی بیشی سے دل کا دورہ تک پڑ سکتا ہے جو کہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹری نسخے کے بغیر ازخود دوائوں کے بہت سے مضر اثرات ہوتے ہیں جن میں ایک اہم یہ ہے کہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے بے جا اور غیر ضروری استعمال سے انسان کے جسم میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے۔اینٹی بائیوٹک ادویات کا ایک گروپ ہے جو بیکٹیریل انفیکشن کے علاج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اینٹی بائیوٹیکس کی بہت ساری قسمیں ہیں ،اینٹی بائیوٹکس کے زیادہ اور غیر ضروری استعمال سے بیکٹیریا زیادہ طاقتور ہو جاتے ہیں اور ان کی مدافعت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اینٹی بائیوٹکس عام نزلہ اور زکام کے جراثیم کے علاج میں معاون نہیں ہیں لیکن ان کا غیر ضروری استعمال کیا جاتا ہے۔ماہرین کے مطابق اگر ایک معمولی سی بیماری کے لیے بھی کوئی ایسی دوا استعمال کی جائے جو کہ ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہیں لینی چاہیئے تو وہ بے انتہا نقصان دہ ہو سکتی ہے اور مریض کو مضر اثرات کے طور پر مزید کسی بڑی بیماری میں مبتلا کر سکتی ہیں جس کا علاج پھرماہر ڈاکٹر کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا۔
ڈاکٹر عابد الیاس کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی ادویات بغیر نسخے کے دستیاب ہی نہیں ہوتیں جن کو لینے سے مضر اثرات ہو سکتے ہیں جیسے کہ اینٹی بائیوٹکس، ذیابیطس، دل ، گردوں اوربلڈ پریشر کی ادویات وغیرہ ، جبکہ پاکستان میں تمام ادویات آسانی سے بغیر ڈاکٹری نسخے کے دستیاب ہیں جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ اگر ایک شخص کو کسی بیماری میں کسی دوا سے شفا مل جاتی ہے تو وہ خود کوایک سپیشلسٹ سمجھنے لگ جاتا ہے اور اس سے ملتی جلتی بیماری کسی جاننے والے کو ہو تو اسی دوا کو لینے کا مشورہ دیتا ہے جو اس نے خود لی ہوتی ہے یا کسی اور گھریلو نسخے کا مشورہ دیتا ہے۔ جبکہ ضروری نہیں کہ ان دونوں مریضوں کی بیماری کی صورتحال ایک جیسی ہو۔ ممکن ہے جس دوا سے پہلے مریض کوآرام آیا، دوسرے کو اس دوا سے کوئی الرجی ہو یا اسے اس کی ضرورت نہ ہو یا اسکی بیماری کی نوعیت میں اس دوا کا استعمال نقصان دہ ہو جس سے پہلے مریض کو شفا ملی ہو۔ ان معلومات کی آگاہی عوام میں ہونا نہایت ضروری ہے تا کہ اس قسم کے ازخود علاج کی حوصلہ شکنی ہو سکے اور انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی ادویات کی ریگولیٹری اتھارٹیز کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس طرح کی ادویات اتنی کھلم کھلا میسر نہ ہوں کیونکہ اس سے عوام کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں ایک بات اور قابلِ غور ہے کہ ڈاکٹرز کو بھی اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ صحیح مریض کو صحیح دوا اور مقدار لکھ کر دیں اوربہتر ہے کہ ڈاکٹری نسخوں کو الیکٹرانک یا کمپیوٹرائزڈ بنایا جائے تا کہ ہاتھ کی لکھائی سے ہونے والی غلط فہمی کو کم سے کم کیا جا سکے۔ ضروری ہے کہ ہمیشہ کسی مستند ڈاکٹر سے ہی دوا کا نسخہ لیں اور اس کے مضر اثرات کے بارے میں بھی ڈاکٹر سے مشورہ کریں اور اگر کسی دوا سے الرجی ہو تو وہ بھی ڈاکٹر کو بتانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کو دیکھنا بھی نہایت ضروری ہے کہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا کے استعمال سے بھی اگر کوئی مضر اثرات ہوں تو ڈاکٹر کو ضرور بتائیں نہ کہ دوا کا استعمال جاری رکھیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ دوا مریض کے لیے فائدہ مند نہ ہو اور ڈاکٹر کو اس کی جگہ کوئی اور دوا دینا پڑے۔ دوا ڈاکٹر کی تجویز کردہ مدت تک ہی استعمال کریں ،اپنی مرضی سے اس میں کمی بیشی نہ کریں۔ ایک صحت مند معاشرہ ہی صحت مند دماغ کو فروغ دے سکتا ہے جو کہ ملکی ترقی کے لییضروری ہے اور اس کے لیے نہ صرف اجتماعی بلکہ انفرادی سطح پر بھی سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہے تاکہ آنے والی نسل صحت مند ہو۔ ||
مضمون نگارایک نجی ٹی وی چینل سے منسلک رہی ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتی رہتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے