گلوکارہ روبینہ قریشی مرحومہ کے قومی نغمات بالخصوص جنگِ ستمبر میں گائے گئے جنگی ترانوں کی روشنی میں ابصار احمد کی لکھی گئی تحریر
یہ اگست1956 کا ذکر ہے … ریڈیو پاکستان حیدرآباد جس کے قیام کا یہ پہلا سال تھا، وہاں ریڈیو پاکستان حیدرآباداسٹیشن کی پہلی اور قیامِ پاکستان کی نویں سالگرہ کی تیاریاں عروج پر تھیں ۔اس سلسلے میں ایک قومی نغمے کی تیاری بڑی شدو مد سے کی جارہی تھی۔ نغمہ تھا '' اے وطن اے جانِ من اے غیرتِ ہفت آسماں ''
اس طرح ریڈیو پاکستان حیدرآباد کا تیار کردہ یہ خوش سماعت قومی نغمہ سندھی زبان میں پاکستان کا پہلا نمائندہ قومی نغمہ بن گیا جسے گانے والوں میں ماسٹر محمد ابراہیم کے ساتھ دسویں جماعت کی وہ طالبہ عائشہ شیخ بھی نمایاں تھی جو جلد ہی اپنے فنّی نام ''روبینہ '' سے مشہور ہو کر '' بلبلِ مہران '' بن گئیں اور یہی روبینہ جب معروف صدا کار و اداکار مصطفی قریشی کی اہلیہ بنیں تو وہ دنیائے موسیقی میں روبینہ قریشی کہلانے لگیں ۔ جی ہاں وہی روبینہ قریشی جن کی آواز کا شہرہ آج سندھ سے نکل کر ملک اور ملک سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔
روبینہ قریشی نے13 جولائی2022ء کو اس دارِ فانی کو الوداع کہا۔ اُن کی آواز میں شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست جیسے اکابر صوفیائے کرام کا کلام آج ہر شائقِ موسیقی کی زبان پر ہے بلکہ شاہ عبداللطیف کی کافیوں کو ملک بھر میں مقبول بنانے میں روبینہ قریشی ہی کا کلیدی کردار رہا اور یہی کافیاں اور عارفانہ کلام ہی ان کی پہچان ہے لیکن اس بات سے بہت کم لوگ ہی واقف ہیں کہ بلبلِ مہران روبینہ قریشی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے خواتین گلوکاراؤں میں سب سے زیادہ قومی نغمات بھی گائے ہیں ، اور اُن کی آواز میں پاکستان سے محبت کی صداؤں نے وادی مہران کی فضاء کو حب الوطنی سے معطر کردیا ۔ اس کے علاوہ روبینہ قریشی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ جنگِ ستمبر میں وہ پہلی خاتون سندھی فنکارہ تھیں جنھوں نے سب سے پہلے حیدرآباد ریڈیو پر استاد محمد جمن کے ساتھ نغموں کا مورچہ سنبھالا اور جنگ کے دوران حیدر آباد ریڈیو پر استاد محمد جمن کے ساتھ سندھی زبان میں سب سے زیادہ قومی اور جنگی ترانے گائے ۔
جنگِ ستمبر میں روبینہ قریشی نے صرف سندھی ہی میں نہیں بلکہ اردو میں بھی جنگی ترانے سنائے جن میں فہمیدہ ریاض زبیری کا تحریر کردہ نغمہ
'' جو حق کی راہ میں گرا وہ خون رنگ لائے گا …
شہید کا لہو کہیں بھی رائیگاں نہ جائے گا ''
معروف سندھی غزل گائیک صادق علی کے ساتھ گایا ۔ جبکہ حسن حمیدی کا لکھا ہوا ترانہ : '' گنگناتے چلو مسکراتے ساتھیو! اپنے پرچم تلے گنگناتے چلو '' بھی صادق علی کے ساتھ گاکر اردو ترانوں میں بھی اپنا مقام بنالیا ۔ یہ دونوں نغمات قومی نشریاتی رابطے کے ذریعے ریڈیو پاکستان ڈھاکا سے بھی نشر ہوئے۔ اس طرح صوفیانہ کلام سے شہرت رکھنے والی روبینہ سندھ کی پہلی گلوکارہ بن گئیں جن کی آواز میں ملی نغمات مشرقی پاکستان سے بھی گونجے ۔…!
روبینہ قریشی جن کا اصل نام عائشہ شیخ تھا 19 اکتوبر1939ء کو حیدر آباد (سندھ) میں الٰہی بخش شیخ کے گھر پیدا ہوئیں۔ انھیں بچپن سے گانے کا شوق تو تھا مگر گھر اور سماج کا ماحول انھیں اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا تھا کیونکہ اُس زما نے میں شوبز کی دنیا میں جانااعلیٰخاندان کی خواتین کے لیے انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا اسی لیے عائشہ شیخ اپنا یہ شوق سکول ہی کے فنکشنوں میں پورا کرلیتیں۔ ان کے بھائی عبدالغفور شیخ ایک مقامی گلوکار بھی تھے اسی لیے بھائی کو دیکھ کر عائشہ کا یہ شوق پروان چڑھتا رہا ۔
روبینہ قریشی نے یوں تو بے شمار سندھی' سرائیکی اور اردو گیت گائے ہیں لیکن سندھی قومی نغمات میں انھیں امتیازی حیثیت حاصل ہے ۔ پاکستان کے ابتدائی قومی نغمات میں سندھی قومی نغمات نہایت کم تھے لیکن اس کے باوجود روبینہ قریشی اور ماسٹر محمد ابراہیم کی آوازوں میں '' اے وطن اے جانِ من اے غیرتِ ہفت آسماں '' کو ٹرانسکرپشن سروس نے محفوظ کرکے اسے ایک مقبول قومی نغمہ بنادیا تھا جو اُس وقت درسی کتابوں میں شامل ہوچکا تھا اور جب جنگِ ستمبر کا آغاز ہوا تو حیدر آباد ریڈیو سے گونجنے والا یہ پہلا سندھی قومی نغمہ بھی تھا …!!
اس سے قبل جب ریڈیو پاکستان سے کشمیری مجاہدین کے لیے ملی ترانے تیار ہو رہے تھے تو اس وقت بھی روبینہ قریشی ہی آگے آئیں اور انھوں نے مظفر حسین جوش ہی کا تحریر کردہ نغمہ '' اے صاحبِ شمشیر'اٹھ تونکھے پکارے جنتِ کشمیر '' گا کر کشمیری بھائیوں کے لیے پہلا سندھی ترانہ بھی ریکارڈ کروایا ۔استاد محمد جمن نے اس ترانے کو کشمیری سازوں میں مدھم سروں کے ساتھ اس طرح سجایا کہ سندھی نہ سمجھنے والوں کو بھی یہ متاثر کرتا اور جب ''بلبلِ مہران'' اس میں رباب کے سروں میں ''کشمیر'کشمیر'' کی صدائیں لگاتیں تو ایسا لگتا کہ واقعی ظلم کی زنجیروں میں جکڑی وادی بے بسی سے پاکستانی بھائیوں کو آواز دے رہی ہے ۔
1965ء کے معرکۂ پاک و ہندمیں پاک فضائیہ نے جب دشمن کو ہر محاذ پر پسپا کرکے فضائی معرکوں میںاپنی دھاک بٹھالی تھی تو اس موقع پر مظفر حسین جوش نے پاک فضائیہ کے شاہینوں کے نام ایک نظم '' اے فخرِ قوم پاک فضائیہ جا نوجوان '' تحریر کی جسے روبینہ اور محمد جمن نے 21 ستمبر65ء کو حیدر آباد ریڈیو پر ریکارڈ کروادیا اس طرح یہ کسی بھی علاقائی زبان میں پاک فضائیہ کی شان میں پہلا ترانہ قرار پایا جسے گانے کا اعزاز حاصل کرنے والی روبینہ قریشی بھی تھیں …!
جنگِ ستمبر کا آغاز ہوا تو اُس وقت تمام ریڈیو سٹیشنوں کی طرح حیدرآباد ریڈیو کے فنکاروں نے بھی دشمن پر صوتی ضرب لگانے کا فیصلہ کیا ۔اس وقت ریڈیو پاکستان کے پاس جنگی ترانے موجود نہیں تھے اسی لیے پہلے لاہور اور پھر کراچی نے چھ ستمبر ہی کو آواز کا محاذ سنبھال لیا ۔ یہ فنکاروں کا جوش تھا یہ قوم کا جذبۂ جہاد کہ اس مشکل گھڑی میں سندھی فنکار بھی وادیٔ مہران کی خوبصورت زبان میں نغماتِ حرب تخلیق کرنے میدانِ عمل میں آگئے جن میں سب سے پہلے استاد محمد جمن اور ان کے ساتھ خواتین فنکاروں میں گریجویشن کی طالبہ روبینہ ہی نے 11ستمبر1965ء کو سندھی زبان میں پہلا جنگی ترانہ '' کفن کھے سرسن بندھی مردِ جاںنثار ہوا'' ریکارڈ کروایا جسے سندھی زبان کے ممتاز قومی نغمہ نگار مظفر حسین جوش نے تحریر کیا تھاجبکہ اس کے موسیقار استاد محمد جمن تھے۔ اس نغمے کے نشر ہوتے ہی راجھستان تک ارضِ مہران میں جذبۂ جہاد فروزاں ہوگیا اور راجھستان و موناباؤ میں مصروف حُر مجاہد اسے شوق سے سنتے ۔13 ستمبر کومیجر عزیز بھٹی شہید کی قیادت میں جب پاک فوج نے برکی سیکٹر سے دشمن کا صفایا کردیا تھا تومعروف سندھی روزنامے ''ہلالِ پاکستان'' میں مظفر حسین جوش کی نظم '' جہاں میں جرأت و مردانگی جا دیوانہ'' شائع ہوئی جسے اسی دن روبینہ نے ثریا حیدرآبادی اور ماسٹر محمد ابراہیم کے ساتھ مل کر ریکارڈ کروادیا ۔ یہ نغمہ بھی حیدرآباد ریڈیو کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں مقبول ہوا کیونکہ مظفر حسین جوش اپنی قومی شاعری میں ایسے الفاظ استعمال کرتے جو ہر پاکستانی کے لیے مانوس ہوں ۔
20 ستمبر 1965ء کو روبینہ نے محمد جمن اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر مظفر حسین جوش کا تحریر کردہ نغمہ '' اساں جے خون ساں باغِ وطن میں آئی بہار'' پشتو طرزِ موسیقی میں ریکارڈ کروایا تو وہ بھی سندھی زبان میں ایک منفرد جنگی ترانہ قرار پایا ۔
1965ء کے معرکۂ پاک و ہندمیں پاک فضائیہ نے جب دشمن کو ہر محاذ پر پسپا کرکے فضائی معرکوں میںاپنی دھاک بٹھالی تھی تو اس موقع پر مظفر حسین جوش نے پاک فضائیہ کے شاہینوں کے نام ایک نظم '' اے فخرِ قوم پاک فضائیہ جا نوجوان '' تحریر کی جسے روبینہ اور محمد جمن نے 21 ستمبر65ء کو حیدر آباد ریڈیو پر ریکارڈ کروادیا اس طرح یہ کسی بھی علاقائی زبان میں پاک فضائیہ کی شان میں پہلا ترانہ قرار پایا جسے گانے کا اعزاز حاصل کرنے والی روبینہ قریشی بھی تھیں …!
جنگِ ستمبر میں روبینہ قریشی نے صرف سندھی ہی میں نہیں بلکہ اردو میں بھی جنگی ترانے سنائے جن میں فہمیدہ ریاض زبیری کا تحریر کردہ نغمہ
'' جو حق کی راہ میں گرا وہ خون رنگ لائے گا …
شہید کا لہو کہیں بھی رائیگاں نہ جائے گا ''
معروف سندھی غزل گائیک صادق علی کے ساتھ گایا ۔ جبکہ حسن حمیدی کا لکھا ہوا ترانہ : '' گنگناتے چلو مسکراتے ساتھیو! اپنے پرچم تلے گنگناتے چلو '' بھی صادق علی کے ساتھ گاکر اردو ترانوں میں بھی اپنا مقام بنالیا ۔ یہ دونوں نغمات قومی نشریاتی رابطے کے ذریعے ریڈیو پاکستان ڈھاکا سے بھی نشر ہوئے۔ اس طرح صوفیانہ کلام سے شہرت رکھنے والی روبینہ سندھ کی پہلی گلوکارہ بن گئیں جن کی آواز میں ملی نغمات مشرقی پاکستان سے بھی گونجے ۔…!
جنگ کے آخری دنوں میں روبینہ قریشی اور ثریا حیدرآبادی کی مشترکہ آوازوں میں ترانہ '' وادی وادی گونجا آزادی جا گیت'' بھی ہر خاص و عام میں مقبول ہوچکا تھا ۔ یوں دورانِ جنگ روبینہ قریشی سندھی زبان کی ایک معروف قومی گلوکارہ بن کر ابھریں جس پر انھیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے خصوصی سند سے بھی نوازا گیا ۔
جنگ کے اختتام پر روبینہ اور ساتھیوں نے بلاول پردیسی کا تحریر کردہ نغمہ '' اساں جو وطن جگ میں ممتاز آھے'' ریکارڈ کروایا تو اس نے سکول کے بچوں میں بھی مقبولیت حاصل کی اور سندھ کے ہرسکول اور کالج میں طالبِ علموں کی زبان پر یہی ترانہ ہوتا تھا اور آج بھی اس کا شمار سندھی زبان کے بہترین اور مقبول قومی نغموں میں ہوتا ہے، اس کے علاوہ اِس نغمے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ نغمہ سکول کے بچوں کے لیے ترتیب دیے گئے خصوصی پراجیکٹ '' جمہور کے گیت'' میں شامل ہونے والا پہلا سندھی قومی نغمہ بھی کہلوایا ۔
جنگ بندی کے بعد بھی ریڈیو پاکستان سے جنگی ترانوں کا سلسلہ جاری تھا تو اس دوران روبینہ قریشی نے ٹرانسکرپشن سروس ریڈیو پاکستان کراچی پر تاج ملتانی کے ساتھ مظفر حسین جوش کا تحریر کردہ ایک پرجوش قومی نغمہ '' وطن جا جاں نثار اسیں '' بھی ریکارڈ کروایا جس کا شمار آج بھی نمائندہ ملی نغموں میں ہوتا ہے، نیز پاکستان کے لیے سب سے زیادہ قومی نغمات گانے والے گلوکار تاج ملتانی کا یہ واحد سندھی قومی نغمہ بھی ہے ۔
دسمبر1971ء میں قوم پر ایک مرتبہ پھر مشکل وقت آپہنچا تو اس بار بھی روبینہ آواز کے محاذ پر پہنچ گئیں مگر اب یہ صرف روبینہ نہیں بلکہ1970ء میں معروف اداکار مصطفی قریشی کی زوجیت میں آکر روبینہ قریشی بن چکی تھیں اور مقام اور شہرت میں بھی وہ اپنی بلندی پر تھیں۔ اس کے علاوہ وہ1967ء میں شعبۂ تاریخِ اسلام سے ماسٹرز کی ڈگری لینے کے بعد تدریس سے بھی وابستہ تھیں، یوں ایک کاخاندانی اور تعلیم یافتہ گلوکارہ کی حیثیت سے انھوں نے حب الوطنی کا صوتی عَلَم اٹھایا اور سندھ کے عظیم لوک فنکار استاد محمد جمن کے ساتھ شاندار اور پرجوش جنگی ترانے گائے ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ان جنگی ترانوں کو استاد محمد جمن نے باضابطہ ملٹری بینڈ کے سازینوں سے مزین کرکے مزید پرجوش بنا دیا تھا اور اس پر مظفر حسین جوش' شمشیر الحیدری اور بلاول پردیسی کے شاندار الفاظ قوم کے ہر فرد سے کہہ رہے تھے '' وطن جا جاں نثار اسیں ''
روبینہ قریشی نے استاد محمد جمن کے ساتھ جنگ کے دوران یہ ملی ترانے گائے :
٭ بیدار تھی اے نوجواں بیدار تھی
٭ ثابت قدم رہو ' ثابت قدم رہو
٭اج اٹھی مسلم توں میدانِ عمل میں
٭ اَگتے قدم ودھایو ' قدم ودھایو
٭ اے مسلم نوجواں اٹھ
٭ آؤ ھلن اُس پار ساتھی
مارچنگ دھن سے مزین یہ نغمات اُس وقت ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے نشر ہوکر سرحد پار تک جا رہے تھے لیکن جنگ بندی کے بعد کسی نے استاد محمد جمن سے یہ کہہ دیا کہ اب یہ ترانے نشر نہیں ہوں گے تو نہایت غمگین ہوئے اور انھوں نے وہ ٹیپ ہی حیدر آباد ریڈیو سے لے لی اس طرح یہ پرجوش قومی نغمات قصۂ پارینہ بن کر رہ گئے لیکن الحمدللہ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے لیے ریکارڈ کیے گئے ان ترانوں کی ریکارڈنگ راقم الحروف کو بڑی تگ و دو کے بعد حاصل ہوگئی ہیں اس طرح روبینہ قریشی اور استاد محمدجمن کی آوازوں میں یہ خزانہ محفوظ ہے …!
بلبلِ مہران روبینہ قریشی نے بانیٔ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے حضور اپنی آواز کا نذرانہ بھی پیش کیا اور سب سے پہلے '' قوم جا حامی قوم جا ہمدم' زندہ باد قائدِ اعظم'' ماسٹر محمد ابراہیم کے ساتھ پیش کیا جسے سیدمنظور نقوی نے تحریر کیا تھا۔ اس کے علاوہ بلاول پردیسی کا لکھا ہوا ترانہ '' السلام اے قائدِ اعظم وطن جا پاسباں ' السلام اے ملک و ملت جے چمن جا باغباں '' بھی روبینہ قریشی کے حصے میں آیا جو آج سندھی زبان میں قائدِ اعظم پر سب سے مقبول نغمہ شمار ہوتا ہے ۔
مرحومہ روبینہ قریشی نے وطن کی محبت سے سرشار ہوکر پاکستان ٹیلی ویژن پر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا تو یہاں انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز پر تاج دار عادل کی پیشکش میں پروگرام '' دنیائے پاکستان '' کے لیے جمیل الدین عالی مرحوم کا سندھی صنفِ موسیقی '' جمالو'' کی طرز پر ملی نغمہ '' جنتا آگئی میدان میں ' ہو جمالو … دنیا بدلی پاکستان میں ' ہوجمالو '' استاد محمد یوسف کے ساتھ گایا ۔ اس پروگرام کا مرکزی خیال چونکہ عالی جی نے خود تیار کیا تھا اسی لیے انھوں نے سندھی طرزِ موسیقی کے اس قومی نغمے کے لیے خود ہی استاد محمد یوسف اور روبینہ قریشی کا انتخاب کیا ۔ اسی نغمے میں روبینہ قریشی نے عالی جی کے الفاظ میں سانحۂ مشرقی پاکستان سے افسردہ قوم کو یہ پیغام بھی سنایا :
''امیدوں کا سورج نکلا یاس کے بادل بھاگے
کل کی بھاری زنجیریں ہیں آج کے کچے دھاگے
دکھ کے اندر سکھ کے منظر دیکھ رہا ہے عالی
چھم چھم چھم چھم آ پہنچے گی وہ رُت آنے والی
کیوں … ؟کہ جنتا آگئی میدان میں ہو جمالو
دنیا بدلی پاکستان میں… ہو جمالو ''
روبینہ قریشی کی آواز میں یہ قومی نغمہ نہ صرف پاکستان میں بے حد مقبول ہوا بلکہ انھوں نے اس قومی نغمے کو مشرقِ وسطیٰ' روس اور ترکی میں بھی سنا کر پاکستانی عوام کی زندہ دلی کا پیغام سنایا ۔
65 سال قبل روبینہ قریشی نے اسد محمد خان کا تحریر کردہ نغمہ
'' دھرتی کی مانگ بھریں اپنے ستارے … مٹی کی لاج رکھیں مٹی کے پیارے
جیئیں میرے چاند میرے تارے ''
موسیقار کریم شہاب الدین کی موسیقی میں اس شان سے گایا کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر ان کا واحد انفرادی قومی نغمہ ہونے کے ساتھ ساتھ اردو قومی نغموں میں اُن کا حوالہ بھی بن گیا ۔
روبینہ قریشی نے دیارِ ابنِ قاسم اور باب الاسلام سندھ کو اپنی خوبصورت آواز کے تحفے دیے۔ در حقیقت '' بلبلِ مہران روبینہ قریشی'' ہی سندھ کا وہ ایک انمولچہرہ ہے جس کی آوازمیں شاہ عبداللطیف کی کافیاں اور حب ِوطنی سے سرشار پاکستانی ملی نغمات ہمیشہ گونجتے رہیں گے ۔
مضمون نگارمختلف قومی و ملی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ملی نغموں کے حوالے سے حال ہی میں ان کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی ہے۔
[email protected]
تبصرے