حسین پاکستان ۔ جنت زمین پاکستان، چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں۔
سرزمین پاکستان کو قدرت کی عطاء کردہ بے شما ر نعمتوں میں سر فہرست اس کے فلک بوس پہاڑی سلسلے، اس کے طویل ترین گلیشئرز او ر اس کے پھولوں، پھلوں اور قوس قزح کے رنگوں سے سجی وادیاں ہیں ۔
برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر
علامہ اقبال نے بجا طور پر ہمارے بلند و بالاپہاڑوں کو دھرتی کا سردار اور ان پر بچھی برف کی چادر کو دستار فضیلت سے تشبیہ دی ہے ۔
ہمارے قراقرم پہاڑی سلسلے میں دنیا کے بلند ترین پہاڑ واقع ہیں۔ ان پہاڑوں سے نکلنے والے گلیشیئرز بھی اپنی لمبائی اور چوڑائی کے اعتبار سے طویل ترین گلیشیئرز تصور کیے جاتے ہیں ۔
مگر تشویش ناک بات اقوام ِ عالم اور بالخصوص پاکستانیوں کے لیے یہ ہے کہ دستارِ فضیلت یہ برف کے وسیع ذخائر تیزی سے پگھل رہے ہیں یا پگھلنے والے ہیں ۔
سائنسدانوں کے مطابق کوہ ِ قراقرم سلسلہ جو دنیا کا "WATER TANK" " یعنی ''پانی کا مینارہ'' بھی کہلاتا ہے ، سورج کی بڑھتی طمازت اور فضائی آلودگی کا شکار ہوتا جارہا ہے اور کچھ ہی عرصہ میں اگر فوری ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو موسمی تبدیلی ہمارے قیمتی اثاثے کو نیست و نابود کردے گی ۔
اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو ہم اپنے پانی ، غذا اور توانائی کے سب سے بڑے وسیلے سے محروم ہو جائیںگے ۔
سائنسدانوں کے مطابق پاکستان میں موسمی تبدیلی کا عمل ان کی توقع سے کہیں زیادہ تیز ہو گیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں بے موسمی بارشوں اور غیر معمولی رفتار سے برف پگھل کر پہاڑی علاقوں سے لے کر میدانی علاقوں تک تباہ کن سیلاب لانے کا باعث بن رہی ہیں ۔ اس حقیقت کی ایک مثال اپریل2016 میں غیر متوقع اور اچانک موسلادھار بارشیں ہیں جنہوں نے خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں تباہی پھیلادی تھی۔
بارش کا پانی اپنے ہمراہ پہاڑوں کی مٹی اور برف لیے ان علاقوں پر چڑھ دوڑا اور کاروبار ِ زندگی تباہ ہو گیا او ر سیلابی ریلے اپنے سامنے آنے والی ہر شے کو بہا لے گئے۔ یہ کیوں ہوا؟ اس کی وجہ صنعتی ممالک سے پیدا ہونے والا زہریلا دھواں اور گرین ہائوس گیسزہیں جو تیزی سے ہمارے برفانی سلسلوں پر تہہ در تہہ جمع ہوکر سورج کی طمازت اور برف کے غیر معمولی طور پر پگھلنے کا باعث بن رہی ہیں۔
کیا ہمیں معلوم ہے کہ پانی کے بجائے فرنس آئل ، کوئلہ اور گیس سے چلنے والے ہمارے مقامی بجلی گھر، ہماری صنعتیں ، تیزی سے بڑھتی ٹرانسپورٹ ، ٹمبر مافیا کا جنگلات کا صفایا کرنااور عوام میں تربیت اور آگاہی کا فقدان ہمارے لیے مستقبل میں کیسے خطرات پیدا کر سکتے ہیں ۔سچ تو ہے کہ ہم نہ ہی خطرات سے نمٹنے کے لیے خبردار ہیں اور نہ ہی تیار۔
پاکستان میں93 فیصد دستیاب پانی زراعت میں استعمال ہورہا ہے جبکہ40 لاکھ کیوبک ایکڑ فٹ بغیر استعمال ہوئے ہر سال سمندر میں گر جاتا ہے۔ آج وقت کی اہم ترین ضرورت پانی کو محفوظ کرنے کے لیے پختہ نہروں کی تعمیر، واٹر سپرنکلرز ٹریگل اریگیشن سسٹم اور لیزر لینڈلیولر کا وسیع استعمال ہے۔
آج ہر شہر کے لیے مصنوعی جھیلیں اور سب سے بڑھ کر ایک نہیں کئی ڈیم تعمیر کرنا ہیں بلکہ موجودہ ڈیموں کی گنجائش کو بڑھانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہے اور یہی نہیں ہمیں موسمی تبدیلی کے حوالے سے ہر سطح پر پاکستانیوں میں شعور اجاگر کرنا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے اہم کردار ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ادا کرسکتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک یہ آگاہی مہم پہنچ سکے۔
کسانوں، نوجوانوں ، خواتین اور بچوں کو عملی تربیت کے مواقع فراہم کرنا اہم ضرورت ہے۔
ذرا سوچیئے ہم نے اپنے پلوں کے نیچے سے بہہ کر بہت پانی ضائع ہونے دیا ہے اب آئیے پانی بچائیے کیونکہ پانی سے ہی زندگانی ہے۔ ||
تبصرے