فوجیوں کی مائیں دنیا کی مضبوط دل مائیں ہوتی ہیں۔وہ یہ بات جانتی ہیں کہ ان کے بیٹے کا خواب اپنے لہو سے وطن کی مٹی کو زرخیزکرنا اور اپنی جان قربان کرنا ہے۔ماں ہونے کے باوجود وہ اپنے بیٹے کا خواب پوراہونے کی دعائیں کرتی ہیں۔
وطن کی محبت سے لبریز یہ مائیں بیٹے کے سینے پر سجا قومی پرچم دیکھ کر بھی نہال ہوتی ہیں اور جب وقت انہیں قومی پرچم وصول کرنے کی آزمائش میں ڈالتا ہے تب بھی ذرا برابر نہیں گھبراتیں بلکہ یہ کہہ کر سبز ہلالی پرچم پر بوسہ دیتی ہیں کہ میں نے تو اپنے بیٹے کو جنم ہی مادر وطن کی پاسبانی کے لیے دیا تھا۔
ایسے ہی مضبوط اعصاب کی خاتون شہید میجر معز مقصود کی والدہ ہیں جو رمضان المبارک سے اپنے بیٹے کی تفصیلی فون کال کی منتظر تھیں مگر بیٹا مصروفیات کی بنا پر ان سے زیادہ بات نہیں کر پا رہا تھا، اس کشمکش میں عید کا دن بھی آگیا۔ بیٹے نے فون کرکے عید مبارک کہا ،پھر بھی ماں کا دل اداس تھا، میجر معز کی والدہ نے ان سے پوچھا تم کب کراچی آئو گے اور ابھی کہاں ہو، اب تمہارا فون اتنا آف کیوں رہنے لگا ہے تو انہوں نے انہیں پنڈی کا بتا کر کہا کہ امی میری مصروفیات میں اضافہ ہوگیا ہے اس لیے آپ کو سیل آف ملتا ہے، آپ پریشان نہ ہوں، مجھے جیسے ہی وقت ملتا ہے میں آپ سے فوری رابطہ کرتا ہوں، انشا اللہ جلدی بہت ساری چھٹی لے کر کراچی آئوں گا۔
میجر معز کی والدہ بتاتی ہیں کہ عید کے دوسرے دن ان کا اپنے بیٹے سے کوئی رابطہ نہیں ہو پایا ۔پھر اسی پریشانی میں عید کا تیسرا دن آگیا مگر میجر معز کا سیل آف رہا، مغرب کے وقت ان کے فون پر میجر معز کے نمبر سے کال موصول ہوئی۔ میں نے جلدی سے کال ریسیو کی تو پتہ چلا دوسری جانب میرے بیٹے کی نہیں بلکہ کسی اور کی آواز تھی، جس نے میجر معز کے والد سے بات کرنے کو کہا، میں نے کہا کہ وہ تو مسجد گئے ہیں، آپ مجھے بتائیں معز کہاں ہے، اس کا فون کیوں آف رہنے لگا ہے ؟ آپ کون بول رہے ہیں تو کال کرنے والے نے بتایا ماں جی ہم وزیرستان میں ہیں، یہاں سگنلز کا ایشو رہتا ہے، اسی لیے آپ کو سر کا فون آف ملتا ہے، پریشان نہ ہوں۔ میجر معز ٹھیک ہیں، آپ ان کے والد صاحب سے میری بات کرا دیں۔
وزیرستان کاسن کر میں چونک گئی اور بے ساختہ کہا مجھے تو معز نے بتایا ہی نہیں کہ وہ وہاں ہے، وہاں سے تو بہت عجیب خبریں آتی ہیں، تم سچ بتائو میرا معز واقعی ٹھیک تو ہے، دوسری جانب سے انہیں تسلی تودی گئی تاہم ان کا دل کہہ رہا تھا کہ وہ کچھ چھپا رہا ہے۔ میں نے فون کرنے والے بچے سے کہا کہ بیٹا تم بھی میرے معز جیسے ہو مجھے بتا دو میرا معز کیسا ہے، مگر اس نے کہا سر ٹھیک ہیں، آپ پریشان مت ہوں، یہ کہہ کر اس نے فون بندکر دیا۔ کچھ دیر بعد معز کے والد صاحب گھر تشریف لے آئے تو میں ان کے کندھے جھکے دیکھ کر دہل گئی۔ میں نے انہیں ساری بات بتائی تو وہ آنکھیں صاف کرکے کہنے لگے کہ معز زخمی ہے، اس کے لیے دعا کرو۔
شہید میجر کی والدہ کہتی ہیں کہ جب معز کے والد یہ کہہ رہے تھے، اس وقت میرا بیٹا تاقیامت زندہ رہنے کے سفر پر جا چکا تھا۔ میں نے فوری مصلیٰ بچھایا اور رب تعالیٰ سے دعا کی یا الٰہی تیرے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے، تو میری سانسیں میرے بچے کو منتقل کر دے، میرے لخت جگر کو بچالے۔ ابھی میں یہ دعا کر رہی تھی کہ میری بیٹی آگئی۔ اس کی حالت تو مجھ سے زیادہ غیر تھی وہ معز سے ایک سال بڑی ہے۔ دونوں بہن بھائی ایک دوسرے پر جان دیتے تھے۔ معز نے چاند رات کو بہت دیر تک بہن سے بات کی تھی، اسما کا کہنا ہے کہ مجھے بار بار ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے معز آخری بار اس سے بات کر رہا ہو۔ شہید معز کی والدہ کا کہنا ہے کہ بیٹی کی حالت غیر دیکھ کر میں نے اپنے آپ کو قابو کرنے کی کوشش کی۔ اتنی دیر میں میری بہو یعنی معز کی زوجہ بھی اپنے والدین کے گھر سے آگئی کیونکہ وہ عید منانے اپنے میکے گئی تھی۔ ہم سب مل کر معز کی زندگی کے لیے دعائیں کرنے لگے مگر قدرت کو اس چاہت یعنی شہادت سے اسے ملانا مقصود تھا اور پھر میں نے اپنی گود کے پالے کو زمین کی گود میں منتقل کیا۔
میجر معز مقصود 26 نومبر1987 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ایس ایم پبلک سکول سخی حسن بلاک این سے مڈل کلاس تک تعلیم حاصل کی، بعد ازاں وہ کیڈٹ کالج پٹارو میں پانچ سال یعنی 2000 سے 2005 تک زیر تعلیم رہے، میجر معز مقصود شہید کے والد نے بتایا کہ انہوں نے کیڈٹ کالج پٹارو میں ہی اپنا ذہن فوج میں جانے کے لیے تیار کرلیا تھا، جب وہ وہاں سے انٹر کرکے گھر واپس آئے تو آرمی کے انٹری ٹیسٹ میں اپلائی کرنے کی خبر بھی ساتھ لائے، پھر آئی ایس ایس بی میں کامیاب ہوکر 2005 میں ہی کاکول چلے گئے، معز سے پہلے ہمارے خاندان سے کوئی فوج میں نہیں گیا تھا تو ہمیں فوج کی زندگی کے متعلق کچھ نہیں پتہ تھا البتہ معز چونکہ پانچ سال تک پٹارو میں نظم و ضبط کی زندگی کا عادی ہوگیا تھا تو وہ کسی حد تک سولجرز کی زندگی کے رموز سے واقف تھا۔ شہید میجر کے والد کا کہنا ہے کہ بطور والدین ہماری تشویش فطری تھی مگر بیٹے کی خوشی کی خاطر اس کی خواہش پر اپنی من مانی کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
شہید کے والد کے مطابق2007میں میجر معز مقصود پاکستان ملٹری اکیڈمی سے پاس آئوٹ ہوئے، ان کی آزاد کشمیر رجمنٹ انفنٹری میں پوسٹنگ ہوئی۔ شہید کے والد کا کہنا ہے کہ میرا جوان دو معرکوں کا غازی ہے، وہ 2008 سے 2009 تک مہمند ایجنسی میں تعینات رہا، آپریشن کے دوران پاک فوج کے جانباز سپاہیوں نے دشمن کے قبضے میں ولی داتا چوٹی پر پاکستان کا پرچم لہرایا۔ یہ ایک بہت بڑا معرکہ تھا جس میں میجر معز مقصود کی بھی خدمات تھیں، جیسے ہی آپریشن میں کامیابی نصیب ہوئی تو اطلاع ملتے ہی اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی غازیوں کو مبارکباد دینے مہمند ایجنسی گئے۔ اس اہم معرکے میں میجر معز مقصود جو اس وقت کیپٹن تھے، ان کے دو ساتھیوں کیپٹن عامر اور کیپٹن خضر نے جام شہادت نوش کیا، شہید میجر معز کی بہن کا کہنا ہے کہ دوستوں کی شہادت پر میجر معز بہت دل گرفتہ تھے، وہ اکثر اپنے کورس میٹس کی باتیں ان سے کرتے تھے۔
2009میں ان کی تعیناتی وانا میں ہوئی، اللہ کے حکم سے اس معرکے میں بھی وہ غازی ثابت ہوئے۔2014 میں وہ میجر کے عہدے پر فائز ہوئے تو اسی سال دسمبر میں ان کی شادی ہوگئی۔ ان دنوں ان کی تعیناتی مارگلہ میں تھی، ولیمے کے روز ان کے سینئر نے ان کی اٹیچ منٹ وادی تیراہ میں ہونے کی اطلاع دی، ولیمے کے ایک ہفتے بعد میجر معز مقصود وادی تیراہ کی جانب عازم سفر ہوئے۔
2019 میں ان کی پوسٹنگ شمالی وزیرستان میں ہوگئی، اس پوسٹنگ کے حوالے سے انہوں نے اپنے گھر والوں کو نہیں بتایا تھا، کیونکہ شمالی وزیرستان کے حالات سے بذریعے نیوز سب واقف تھے اور وہ اپنے اہل ِخانہ کو پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔
سات جون 2019 چھوٹی عید کے تیسرے دن جمعے کے روز عصر کے وقت میجر معز مقصود اپنے کمانڈر کرنل راشد بیگ سمیت کیپٹن عارف اللہ، ڈائیور زیبر خان کے ساتھ معمول کی پٹرولنگ پر تھے کہ بارودی سرنگ پھٹنے سے یہ چاروں شہید ہوگئے۔
میجر معز مقصود کے دو بیٹے ہیں، بڑا بیٹا مطاہر 4 سال جبکہ چھوٹا بیٹا میکائل ایک سال کا ہے۔
پاک فوج نے 23 مارچ 2020 کو میجر معز مقصود کو تمغہ بسالت سے نوازا ہے۔ ||
مضمون نگار صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے