کیپٹن سید حیدر عباس جعفری شہیدکے حوالے سے توقیر ساجد کھرل کی تحریر
ایک طرف بلوچستان ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے بدل رہا ہے تو دوسری جانب استحکام پاکستا ن و بلوچستان کے مخالفین بھی سر اٹھارہے ہیں ۔انہی اسلام اور ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کے لیے پاک فوج کے جری جوان وطن عزیز کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل صوبہ بلوچستان کے ضلع کوہلو میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے دوران جواں مردی سے لڑتے ہوئے کیپٹن سید حیدر عباس جعفری نے جامِ شہادت نوش کیا۔
کسی کو کیا خبر کہ پاک افواج کے جوان اور افسر چٹیل میدانوں' صحراؤں' ریگستانوں' تندخو دریاؤں' بپھری ہوئی فضاؤں اور فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں پر جوانی کے مزے نہیں لیتے، وہ تو جان ہتھیلی پر رکھ کر قوم کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس دکھ کو وہ مائیں جانتی ہیں جن کے جگر گوشے ان سے جدا ہوگئے۔ وطن عزیز کے یہ رکھوالے اپنے والدین' بہن بھائیوں اور اپنی سہاگنوں پر بھی نہیں کُھلتے کہ خاموشی ہی اُن کے منصب کا تقاضا ہے۔پاک فوج کا ماضی شہداء کے خون سے سرخ ہے اور محافظان ِ وطن اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر ہر وقت آمادہ اور اپنے عہد کے ساتھ پُرعزم ہیں۔
21فروری2022 کے روزسکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کی اُن کے ایک ٹھکانے پر موجودگی کی خفیہ اطلاع پر ضلع کوہلو میں کلیئرنس آپریشن کیا ، فورسز نے علا قے کو گھیر ے میں لیا تو دہشتگردوں نے فرار ہوتے ہوئے فائرنگ شروع کردی۔ فائرنگ کے تبادلے میں کیپٹن سیدحیدر عباس جعفری شہید ہوگئے۔دہشت گردوں کا بھار ی نقصان ہوا۔شہید کیپٹن حید ر عباس کی نماز جنازہ کراچی میں ادا کی گئی، نمازہ جنا زہ میں کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل محمد سعید، حاضر سروس افسران، جوانوں، شہید کے رشتے داروں سمیت عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ شہید کو پورے فوجی اعزاز کے سا تھ سپرد خاک کردیا گیا۔شہید حیدر عباس کا تعلق روشنیوں کے شہر کراچی سے تھا۔ وہ کیڈٹ کالج لاڑکانہ سے فارغ التحصیل تھے۔انہیں بچپن سے ہی پاکستان آرمی جوائن کرنے کا جنون تھا او ر بالآخر اپنی منزل پالی ۔شہید عباس حیدر جعفری سادات خاندان سے ہیں ۔انہوں نے نومبر2014 میں پاکستان ملٹری اکیڈمی جوائن کی۔ عسکری تربیت مکمل کرکے 17اپریل2016کو ائیر ڈیفنس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ اپنے بنیادی کورسز میں تکمیل کے بعدانہوں نے جذبہ شہادت کے تحت 15 اپریل 2019میں سپیشل سروسز گروپ میں شمولیت اختیار کی اورملک کی مایہ ناز بٹالین سکس کمانڈو کاحصہ بنے۔
جب عباس حیدر بلوچستا ن میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کا حصہ بنے تو ان کی والدہ پروردگار سے بیٹے کی کامیابی اور فتح کی دعائیں کرنے لگی تھیں۔ان کے والد گرامی سید عباس حسن نے شہید کا جسد خاکی کراچی آنے پرشہید سے الوداعی ملاقات بھی نہیں کی۔ لوگوں نے استفسار کیا تو کہا میں جوان بیٹے کا باپ ہوں، میں شہید پر گریہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ شہداء پر رویا نہیں جاتا ۔مجھے فخر ہے کہ میرے بیٹے نے سرزمین پاکستان کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کردی۔بروز قیامت شہید ہماری شفاعت کریں گے اور اللہ کا وعدہ ہے کہ شہداء زندہ ہیں اور خدا کے ہاں رزق پاتے ہیں۔مجھے فخر ہے کہ میں ایک شہید کا باپ ہوں۔ میرے بیٹے نے اپنے وطن کے لیے جان نثار کی۔ ہم شہید کو ہمیشہ اپنے ساتھ محسوس کریں گے۔اے میرے شہید بیٹے تم نے ارض ِ وطن کی سربلندی کے لیے اپنی جان نثار کر دی اور ملک و اسلام دشمن عناصر کو یہ پیغام دیا ہے کہ وطن کی سرحدوں پر مامور ہر جوان حیدر عباس بن کر پہرا دے رہا ہے۔
شہید کی سخاوت اور انسانی ہمدردی کے واقعات عزیز و اقارب میں زبانِ زد عام ہیں۔شہید کی عزیزہ فضہ بانو نجفی نے راقم کو بتایا کہ عباس حیدر بہادری کا استعارہ تھا۔ اپنی جان کا نذرانہ وطن کے لیے پیش کرکے اپنی ذات سے منسوب بہادری کو سچ ثابت کردکھایا ہے۔شہید کا خدا سے عشق بھی مثالی تھا۔ شہید کے دوستوں اور عزیز و اقارب نے شہید کی نمایاں خصوصیات، نمازِپنجگانہ کا پابند اور اہل بیت کرام سے محبت و مودت کرنے والا سچا مسلما ن تھا۔وہ لمحات کتنے جاں گسل ہوتے ہیں جب شہادت کے بعد جوان بیٹوں کو والدین کے حوالے کیا جاتا ہے۔شہید کا جسدِ خاکی جب ارض ِوطن کے سپرد کیا جارہا تھا تو شہید کی والدہ نے کہا میرا بیٹا حیدر شیر ہے اور شیر کی طرح بہادری سے لڑا ہے۔شہید نے شہادت کو گلے لگا لیا اور وردی کی حرمت پر قربان ہو گیا۔ وہ اب یہاں نہیں مگر میری خون روتی آنکھیں اس کا راستہ تک رہی ہیں۔
شہید کے والد گرامی سید عباس حسن نے بتایا کہ ہمیں اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے۔دشمن پاکستانی قوم کے حوصلے پست نہیں کرسکتا، وطن کے بیٹے سرزمین مملکت خدادادِ پاکستان پر فدا ہوتے رہیں مگر کسی صورت دشمن اپنے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوگا۔
حیدر عباس مطالعہ و کتب بینی کے شوقین تھے۔فلسفہ کے موضوعات پہ مبنی، معروف ناول اور دیگر مفیدکتب کا باقاعدہ مطالعہ کرتے تھے، روزانہ آدھا گھنٹہ ضرور مطالعہ کے لیے صرف کرتے تھے ،بطور کمانڈو بھی انہوں نے مطالعہ ترک نہیں کیا۔ پچاس کتب کا دو سال میں مطالعہ کیا ۔شہادت کے بعد ان کے مخصوص باکس سے تین کتابیں ملی ہیں۔ شہید کے والد گرامی نے بتایا کہ بچپن سے ہی مطالعہ اور کُتب بینی حیدر کی عادات میں شامل ہوگیا تھا جوشہادت تک جاری رہا۔حیدر عباس نے معرفت و شعورسے زندگی گزارتے ہوئے ہوئے دارِ فنا سے دارِ بقاء کی طرف سفر کیا ۔ایک بار شہید نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹا گرام پراپنی تصویر کے ساتھ اپنے اکاونٹ سے لکھا "
And I will use you as a focal point So I do not lose sight of what I want
شہید کے والد بتاتے ہیں کہ میں نے شہید بیٹے سے اس بارے دریافت کیا تو اس نے" ابدی حیات" کی تلاش کی طرف اشارہ کیا ۔وہ اپنے ملک سے بے پناہ محبت کرتا تھا اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے پرویژن اور منزل کا تعین کرچکا تھا ۔
انسان معرفت و شعور کے ساتھ ابدی حیات کا سراغ لگا لے تووہ اس کے لیے بے قرار رہتا ہے۔ شہید نے اپنی منزل حاصل کی اور ابدی حیات پالی ۔شہید کے والدِ گرامی بتاتے ہیں کہ شہید اپنی منزل کا تعین کر چکے تھے اور ہم( والدین) ہدف میں کامیابی کیلئے دعاگوتھے ہم جانتے تھے ہمارا بیٹا پرورگار کے حضور ضرور سُرخروہوگا اور پھر وہ دن آگیا جب شہادت نے خود حیدر عباس کانتخاب کرلیاتھا۔
یہ فقط ایک مثال ہے بے شمار ایسے خاندان ہیں جن کے فرزند وطنِ عزیز پر اپنی جان وار گئے یہ ملکی سلامتی کا تقاضا بھی ہے اور دین مبین کی سربلندی کے لیے کٹ مرنے کا شوق جنون بھی۔ یہ عشق الہٰی اور جذبہ حب الوطنی کا وہ شعلہ جوالہ ہے جو کبھی سرد نہیں ہوتا۔ وطن عزیز کے خلاف گھنائونی سازشوں میں مصروف اغیار کے مذموم ارادوں کو ناکام بنانے کی غرض سے پاکستان کی افواج ہمہ وقت چوکس ہیں اور اس کے جوان جان ہتھیلی پر رکھ کر ملکی سلامتی کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں۔ وہ ہمیشہ شہادت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ ||
مضمون نگار لاہور سے شائع ہونے والے ایک اخبار کے ساتھ منسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے