خطہ ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن قبائلی رہنما ملک اختر محمد خان مقبل سے فرخندیوسفزئی کی ہلال کے لئے گفتگو
ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کہ قبائلی علاقہ جات (اب قبائلی اضلاع) کا نام سنتے ہی ذہن میں خوف و دہشت کے خیالات آتے تھے، ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت یہ علاقے دہشت گردی سے زیادہ متاثر تھے اور مختلف دہشت گرد گروہوں کے گڑھ تھے۔ دہشت گردی نے اس خطے کے امن کو بری طرح سبوتاژ اور لوگوں کی زندگیاں اجیرن کردی تھیں۔ لیکن پھر پاک فوج نے یہاں مختلف انسداد دہشت گردی آپریشنز کرکے نہ صرف بھرپور امن قائم کردیا بلکہ مختلف ترقیاتی منصوبے بھی شروع کئے جس سے خطے کی قسمت بدل گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ جب مئی 2018میں قبائلی علاقہ جات کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کردیا گیا اور انھیں اضلاع بنا کر آئینی و قانونی حیثیت دے دی گئی تو یہاں ترقی کی رفتار میں تیزی آئی اور عوام جدید سہولیات سے مستفید ہونے لگے۔ قبائلی اضلاع کے امن و ترقی میں پاک فوج کے جری شہیدوں کا خون اور بہادر جوانوں کی انتھک محنت شامل ہے جس کے یہاں کے باسی معترف ہیں اور وہ پاک فوج کی قربانیوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ملک اختر محمد خان مقبل ضلع کرم کے ایک معزز قبائلی رہنما ہیں جو اپنے علاقے کی ترقی و خوشحالی کے لئے سیاسی و سماجی سطح پر کوشاں ہیں۔ ماہنامہ ہلال نے ان سے قبائلی اضلاع میں امن کی بحالی اور اس خطے کی ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کے بارے میں بات چیت کی ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے:
ہلال: قبائلی علاقہ جات اب قبائلی اضلاع میں تبدیل ہوچکے ہیں ، آپ اس فیصلے کو کس طرح سے دیکھتے ہیں اور کیا سمجھتے ہیں کہ اس سے عوام کو وہ کون سے حقوق حاصل ہوگئے ہیں جو پہلے حاصل نہیں تھے؟
ملک اختر محمد خان مقبل : جی یہ ایک بہت اچھا فیصلہ ہے جس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔ اگرچہ ہمارے لوگوں کے لئے ضلعی نظام کو سمجھنا اس وقت تھوڑا مشکل ہے کیونکہ یہ ان کے لئے ایک نئی چیز ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کو اس کی سمجھ آتی جائے گی۔ مثلاً عدالتی نظام کو لے لیں ، یہ ہمارے لوگوں کے لئے ایک نئی چیز ہے ، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مقدمات نمٹنے میں زیادہ وقت لگتا ہے اور جلدی فیصلہ نہیں ہوپاتا،لیکن بہت سارے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اب انھیں انصاف تک رسائی حاصل ہوچکی ہے اور وہ اس نظام میں آچکے ہیں جس میں ملک کے باقی 22کروڑ عوام زندگی بسر کرتے ہیں۔ تو یہ ہر لحاظ سے ایک اچھا فیصلہ ہے جس سے ہمیں مساوات ملی ہے۔ اب اگر ہمارے لوگوں کے ساتھ کہیں ظلم ہوتا ہے تو وہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک جاسکتے ہیں ، یہ بالکل ایسا ہے جیسے ہم اندھیروں سے روشنی میں آگئے ہوں۔یہاں بھی ملک کے دیگر علاقوں کی طرح ترقیاتی منصوبے چلائے جارہے ہیں اور ہمارے لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہورہا ہے۔
پاک فوج ملک کی سرحدوں اورامن کی ضامن ہے ۔ اگر ایک طرف قبائلی اضلاع میں امن کے حصول کے لئے پاک فوج کے جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں تو دوسری طرف اس نے پورے علاقے میں تعلیمی نیٹ ورک قائم کردیا ہے، جگہ جگہ سکول او ر کالجز قائم کئے ہیں جو نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں اور انشاء اللہ یہ سرگرمیاں ملکی ترقی کا باعث بنیں گی۔
ہلال: قبائلی اضلاع میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تحت ترقیاتی منصوبوں سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں؟
ملک اختر محمد خان مقبل : میں سمجھتا ہوں کہ قبائلی علاقوں میں پہلے اس طرح کے ترقیاتی کام کبھی نہیں ہوئے جس طرح اب ہورہے ہیں۔ اب ہم اضلاع کی شکل میں نظام میں گھل مل گئے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے علاقے ترقی کریں گے۔ اب ہمارے لوگوں میں شعور بڑھ رہا ہے، یہ انفارمیشن، میڈیا ، سوشل میڈیا اور آزادی کا دور ہے۔ ہم اپنی آواز باآسانی حکام تک پہنچا سکتے ہیں اورہم اپنی زندگیاں بہتر کرنے کے لئے بھرپور جدوجہد کر رہے ہیں۔
ہلال: پاک فوج نے قبائلی اضلاع میں قیام امن کے لئے جو قربانیاں دی ہیں ، آپ ان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ملک اختر محمد خان مقبل : میں تو یہ کہوں گا کہ فوج ہمارا لباس ہے ، ہماری عزت اور ڈھال ہے۔ اگر یہ فوج نہ ہو تو ہمیں تو کوئی عزت سے جینے بھی نہ دے۔ چند سال قبل جب پاک فوج یہاں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے آپریشنز کر رہی تھی تو ہمارے بہت سے لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا جس کے باعث ہم پریشان تھے لیکن یہ اس وقت کی ضرورت تھی، اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ اب پاک فوج کی قربانیوں سے نہ صرف قبائلی اضلاع بلکہ پورے ملک میں امن قائم ہوچکا ہے۔ہم پاک فوج کی قربانیوں کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے شہداء ہمیں یاد ہیں اور ہمیشہ یادرہیں گے۔
ہلال: افواج پاکستان نے قبائلی اضلاع میں کیڈٹ کالج قائم کئے ہیں اور دیگر کئی تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہیں ، ان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
ملک اختر محمد خان مقبل : قبائلی علاقہ جات کی ترقی میں فوج کا کلیدی کردار ہے۔ فوج نے یہاں نہ صرف امن قائم کیاہے بلکہ اس علاقے کی ترقی کے لئے سول حکومت کے شانہ بشانہ بھی کھڑی رہی ہے۔ پاک فوج ملک کی سرحدوں اورامن کی ضامن ہے ۔ اگر ایک طرف قبائلی اضلاع میں امن کے حصول کے لئے پاک فوج کے جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں تو دوسری طرف اس نے پورے علاقے میں تعلیمی نیٹ ورک قائم کردیا ہے، جگہ جگہ سکول او ر کالجز قائم کئے ہیں جو نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں اور انشاء اللہ یہ سرگرمیاں ملکی ترقی کا باعث بنیں گی۔
ہلال: آپ قبائلی اضلاع میں صحت اور شاہرات کے منصوبوں کو کیسے دیکھتے ہیں؟
ملک اختر محمد خان مقبل : مقامی سطح پر تو ہسپتال قائم کئے گئے ہیں اور شاہرات بھی تعمیر کی گئی ہیں لیکن ہماری خواہش ہے کہ ہمارے علاقے کو سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداری) میں شامل کیا جائے۔ کرم ،پارا چنار ایک ایسا علاقہ ہے جو پشاور، کبل اور کوہاٹ کے علاوہ پڑوسی ملک افغانستان کے شہروں خوست، گردیز اور جلال آباد سے بھی بہت قریب ہے، اس وجہ سے یہ علاقہ تجارتی مرکز سمجھا جاتا ہے اور یہاں سے ان تمام شہروں کے ساتھ بہت تجارت ہوتی ہے مگر سی پیک میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے ہماری تجارت کو وہ ترقی نہیں مِل پائے گی جو مِل سکتی تھی۔
فوج ہمارا لباس ہے ، ہماری عزت اور ڈھال ہے۔ اگر یہ فوج نہ ہو تو ہمیں تو کوئی عزت سے جینے بھی نہ دے۔ چند سال قبل جب پاک فوج یہاں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے آپریشنز کر رہی تھی تو ہمارے بہت سے لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا جس کے باعث ہم پریشان تھے لیکن یہ اس وقت کی ضرورت تھی، اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ اب پاک فوج کی قربانیوں سے نہ صرف قبائلی اضلاع بلکہ پورے ملک میں امن قائم ہوچکا ہے۔ہم پاک فوج کی قربانیوں کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے شہداء ہمیں یاد ہیں اور ہمیشہ یادرہیں گے۔
ہلال: آپ نے اپنے علاقے کے لئے بالعموم اور اپنے خاندان کے بچوں کو بالخصوص جس طرح زیور تعلیم سے آراستہ کیا ہے ، ذرا اس پر روشنی ڈالئے۔
ملک اختر محمد خان مقبل : ہمارے ہاں تعلیم کو اہمیت دی جارہی ہے، آپ دیکھیں تو سی ایس ایس اور مقابلے کے دیگر امتحانات میں قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے، مگر میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ تعلیم کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ جدید تعلیم ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ ہمارے ضلع میں پاک فوج نے تین آرمی سکول قائم کئے ہیں، ایک گورنر پبلک سکول بھی بہت اچھی تعلیم مہیا کر رہا ہے۔ میں نے ہمیشہ اپنے علاقے میں تعلیم کی ترویج پر زور دیا ہے اور اپنے خاندان کے بچوں کو بھی اعلی تعلیم دلوائی ہے۔
ہلال: ہم دیکھ رہے ہیں کہ قبائلی اضلاع میں لڑکوں کی تعلیم پر تو توجہ دی جارہی ہے لیکن کیا بچیوں کے لئے بھی تعلیم کی مناسب سہولیات موجود ہیں؟
ملک اختر محمد خان مقبل : جی ، یہاں بچیوں کی تعلیم پر بھی اب زور دیا جارہا ہے۔ میری اپنی ایک بھتیجی ڈاکٹر ہے، دیگر بچیاں بھی مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنی بچیوں کو دینی تعلیم سے بھی آراستہ کر رہے ہیں۔ اب دور بہت بدل گیا ہے اور لوگ بچیوں کی تعلیم کی اہمیت کو سمجھ گئے ہیں۔
ہلال: قبائلی اضلاع کی ترقی و خوشحالی کے لئے آپ کے ذہن میں مزید کیا تجاویز ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر مزید بہتری لائی جاسکتی ہے؟
ملک اختر محمد خان مقبل : میں یہ کہوں گا کہ کرم ، پاراچنار کاروباری مرکز ہے۔ یہاں کے لوگوں کی اکثریت کاروبار سے وابستہ ہے۔ حکومت کو چاہئیے کہ اس علاقے میں کاروباری ماحول کو فروغ دے، لوگوں کو کاروباری سہولیات اور آسانیاں مہیا کرے۔ خاص طور پر سی پیک میں شمولیت سے اس علاقے کے کاروبار کو زبردست فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ میری حکام سے اپیل ہے کہ وہ اس بارے میں اقدامات کریں تاکہ ہم تیزی سے ترقی کے منازل طے کرسکیں۔ ||
مضمون نگار ایک معروف صحافتی ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں۔
تبصرے