''ڈپریشن'' معمولی اداسی کی کیفیت یا تنہا ئی کی طلب کا نام نہیں ہے بلکہ یہ معاشرے میں تیزی سے بڑھنے والی ایسی بیماری ہے ۔ جو انسان کے دماغ کو اس انداز میں جکڑ لیتی ہے کہ اس کے گردمنفی سوچوں اور مایوسی کا جالہ بننے لگتا ہے۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا، ایسے شخص کو ہر ایک شخص اپنا دشمن نظر آتا ہے۔ ہمارے یہاں اکثر نفسیاتی بیماریوں پر بات نہیں کی جاتی، انہیں اہمیت نہیں دی جاتی اور نہ ہی انہیں بیماری تصور کیا جاتا ہے۔ کسی متاثرہ شخص کا علاج محض اس لیے نہیں کروایا جاتا کہ لوگ کیا کہیں گے، رشتہ کیسے ہوگا، جاب کیسے ملے گی وغیرہ یعنی ہمیں اس شخص کی زندگی سے زیادہ عزیز لوگوں کی سوچ اور نظریات ہوتے ہیں۔ اول تو ہم نفسیاتی بیماریوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے نہ ہی ان کے معائنہ و علاج پر توجہ دیتے ہیں اور اگر بالفرض کسی ڈاکٹر سے رجوع کر بھی لیا تو شرمسار ہو کر دوسروں کو بتانے سے گریز کرتے ہیں جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ ہم اپنے ارد گرد کسی بھی متاثرہ شخص کو دیکھیں تو ہمیں چاہیے ہم اس کی مدد کریں۔ بیمار شخص کی مدد اس کا علاج کروانے میں ہے۔
یہ بیماری کن لوگوں کو ہوسکتی ہے اس کے جواب میں ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کسی بھی عمر کے افراد کو ہوسکتا ہے۔ اگر آپ اداس یا مایوس رہتے ہیں، طبیعت میں بے زاری یا چڑ چڑاپن ہے، گھبراہٹ، بے بسی یا بے چینی کی کیفیت ہے اور روز مرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا تو شاید آپ بھی ڈپریشن کا شکار ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ ڈپریشن کو وقتی کیفیت سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں اور یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ڈپریشن ایک باقاعدہ بیماری ہے جس کا علاج کیا جانا ضروری ہے ۔
ڈپریشن کی علامات و تشخیص:
ڈپریشن کی تشخیص کے لیے باقاعدہ کوئی لیبارٹری ٹیسٹ نہیں ہے بلکہ طبی ماہرین اسکی درست تشخیص کے لیے علامات پر انحصار کرتے ہوئے اس کی جانچ کرتے ہیں۔مریضوں سے ان کے مزاج میں اتار چڑھاؤ، خوراک، نیند اور روز مرہ کی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے اس سے بھی ڈپریشن کی تشخیص میں مدد ملتی ہے۔
ڈپریشن کی علامات کی بات کریں تو اس کی علامات میں ٹھیک سے نیند نہ آنا یا نیند کی زیادتی،توانائی میں کمی، بھوک کی کمی یا زیادتی، وزن میں کمی، یادداشت اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا متاثر ہونا ، مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت اور خود کشی پر مبنی خیالات کا آناواضح علامات ہیں۔ اس کے علاہ طبی ماہرین کی رائے میں ہاضمے کی خرابی، جبڑوں اور سر میں مستقل درد، سانس کے مسائل اور اس جیسی دیگر علامات کا ظاہر ہونا بھی ڈپریشن کی نشانی ہوسکتی ہے۔ ان کیفیات کے مستقل رہنے سے انسان اپنی زندگی سے اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور اپنی جان لینے کے خیالات اسے سنجیدگی سے خود کشی جیسا عمل قبیح کرنے پر اکساتے ہیں۔ اسے طبی اصطلاح میں ''کلینکل ڈپریشن'' کہتے ہیں۔ تشخیص کے وقت ان تمام علامات کا بیک وقت موجود ہونا ضروری نہیں لیکن چند علامات کا مستقل ہونا ڈپریشن کو ظاہر کرتا ہے۔ اکثر مریض سماجی و معاشرتی علیٰحدگی اختیار کرلیتے ہیں اور تنہا رہنے کو فوقیت دیتے ہیں یہ بھی ابتدائی علامات میںسے ایک بنیادی علامت ہے۔ ماہرین کے مطابق عمومی طور پر ڈپریشن کی تشخٰیص کے لیے ان علامات کے مستقل موجود رہنے کی مدت دو ہفتے سے دو سال تک ہے۔
ڈپریشن کی شرح اور یہ کن افراد کو ہوسکتا ہے؟
پاکستان کے مختلف شہروں میں ڈپریشن کے مریضوں کی شرح 22 سے 60 فیصد تک نوٹ کی گئی ہے جو زیادہ آبادی والے شہروں جیسے کراچی اور لاہور میں بلند ترین ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ذہنی امراض کی شرح اگر اسی طرح بڑھتی رہی تو 2050 تک پاکستان ذہنی مسائل و بیماریوں کے حوالے سے عالمی ریکنگ میں چھٹے نمبر پر ہوگا۔آغا خان یونیورسٹی کراچی کی جانب سے جاری کردہ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ڈپریشن اور اینزائٹی پاکستان میں تیزی سے پھیلنے والے امراض یا مسائل میں شامل ہیں جن کا سب سے زیادہ شکار نوجوان نسل ہے۔
اگرچہ ڈپریشن کا مرض ہر عمر کے افراد میں نوٹ کیا گیا ہے مگر عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق 2011 کے بعد سے18 سے 30 سال کی عمر کے نوجوانوں میں اس مرض کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہے۔
ڈپریشن کی وجوہات:
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور دن بدن جنم لیتی غربت نے ڈپریشن کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ کیا ہے۔ کہیں پیسوں کی دوڑ ہے، تو کہیں فیشن اورسٹائل کا مقابلہ،بچے امتحانات اور ڈگریوں کے سبب پریشان ہیں اور ڈگری یافتہ بے روزگاری کے سبب ڈپریشن کا شکار، کہیں رسم و روایات کی بھینٹ چڑھتے والدین ہیں تو کہیں غریب مزدور، الغرض یہاں ہر دوسرا فرد کسی نہ کسی سبب ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہے۔ چڑچڑا پن، ناکامی کا خوف اور لوگوں کی باتوں نے کس کس طرح لوگوں کو ذہنی طور پر پریشان کر رکھا ہے۔
گزشتہ چار پانچ دہائیوں کے دوران سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی کرکے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے گھر گھر میں رسائی حاصل کرلی ہے۔ اس ترقی نے جہاں بے شمار فائدے پہنچائے ہیں وہیں ہر شے کا منٹوں میں حصول یقینی بنا کر نوجوان نسل میں قوت برداشت ، تحمل اور اعتدال پسندی کو ختم کیا ہے جس کے سبب نوجوان نسل میں ڈپریشن و اینزائٹی کی شرح تیزی سے بڑھی ہے۔دوسری جانب نئی نسل کے والدین بھی اپنی ذمے داریاں صحیح طور پر ادا کرنے اور بچوںپر توجہ دینے کے بجائے سوشل میڈیا اور موبائل پر وقت گزارنا پسند کرتے ہیں جو آنے والی نسل میں ڈپریشن اور اینزائٹی سے بھی سنگین نفسیاتی عوارض کا ریڈ سگنل ہے۔
کیا ڈپریشن کا علاج ممکن ہے؟
جی بالکل، دیگر بیماریوں کی طرح بر وقت تشخیص ہوجانے پر ڈپریشن کا علاج ممکن ہے۔ اس سلسلے میں ماہر نفسیات ڈاکٹر علی ہاشمی کا کہنا ہے'' اگر ڈپریشن کی نوعیت زیادہ نہیں اور آپ بہت زیادہ مسائل کا شکار نہیں ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی خوراک ٹھیک رکھ کر، نیند پوری کرکے اور باقاعدگی سے ورزش کرکے خود بھی اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کر سکتے ہیںلیکن اگر ڈپریشن کی علامات میں شدت اتنی ہے کہ آپ کے روزمرہ کے معمولات متاثر ہو رہے ہیں یا گھر والے، دوست یا آس پاس کے افراد کہہ رہے ہیں کہ آپ میں کوئی واضح تبدیلی آئی ہے تو اس کی صحیح تشخیص کے لیے آپ کو پروفیشنل کی مدد لینی چاہیے''۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ پروفیشنل آپ کا جنرل فزیشن، ماہرِ نفسیاتی امراض، نفسیاتی امراض کا تھراپسٹ بھی ہو سکتا ہے۔
اگر آپ خود یا آپ کے ارد گرد کوئی شخص ڈپریشن کا شکار ہے تو آپ کسی بھی سائیکالوجسٹ یا سائیکائیٹرسٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔سائیکالوجسٹ عام طور پر سائیکوتھراپی، کونسلنگ یا سائیکالوجیکل سیشن سے علاج کرتے ہیں جبکہ سائیکائیٹرسٹ کچھ مخصوص ٹیسٹوں کے بعد آپ کے لیے دوائی تشخیص کرتے ہیں۔ عام طور پر ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں علاج ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
اگر آپ والدین ہیں تو اپنے بچوں کو وقت دیں، اسی طرح اولاد کوشش کرے کہ دن کا ایک حصہ ماں باپ کے ساتھ کسی بھی صحت مند سرگرمی میں ضرور گزارے ۔ دوست ہیں تو دوستوں کو وقت دیں۔اس کے علاوہ بھی اگر آپ کو اپنے ارد گرد کوئی شخص پریشان دکھائی دے یااس میں درج بالا علامات میں سے کوئی علامت پائی جائے تو اس شخص کو سماجی بائیکاٹ نہ کرنے دیں بلکہ اس سے گفتگو کریں، ایک اچھے سامع ہونے کا کردار نبھاتے ہوئے اس وقت اسے کوئی بھی نصیحت یا ہمدردی کرنے کے بجائے حوصلہ دیں اور یہ یقین دہانی کروائیں کہ آپ ہر صورت اور ہر قسم کے حالات میں اس شخص کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اپنے ساتھ چہل قدمی پر لے جائیں، روز مرہ کی سرگرمیوں میں اس کا ساتھ دیں۔ اگر ہم اسی طرح کسی نہ کسی کا ان حالات میں ساتھ دیں تو یقینا ہم کئی قیمتی زندگیاں بچا سکتے ہیں۔ ||
تبصرے