سبی تا کوئٹہ پُراسرار سرنگوں اور تاریخی ریلوے ٹریک کے سفرکے حوالے سے پرویز قمر کی تحریر
پاکستان حسین وادیوں ،برف پوش پہاڑوں،شور مچاتے دریائوں ،گیت گاتے چشموں، سونی جیسے صحرائوں، دھنک رنگ آبشاروں اور روشن تہذیب وتمدن کی سرزمین ہے جس کا ثانی ساری دنیا میں کہیں نہیں۔
رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان غیور ، جفاکش ، مہمان نواز لوگوں کی سرزمین ہے۔ یوں تو پاکستان کا گوشہ گوشہ دھنک رنگوں سے مزین ہے لیکن بلوچستان پاکستان کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں قدرتی نظارے اور فطرت کے تمام رنگ اپنی پوری آ ب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں ۔
صوبے کے ایک جانب اگر صاف نیلگوں پانی کے بحیر ئہ عرب میں گوادر جیسی بندرگاہ موجود ہے تو دوسری طرف ضلع ژوب میں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا چلغوزے کا جنگل آپ کو اپنی طرف کھینچتا ہے ۔
ایک جانب اگر سبی جیسا گرم ترین خطہ ہے تو کچھ ہی گھنٹے کی مسافت پر پاکستان کا سب سے پر فضا مقام زیارت آپ کو دعوت نظارہ دیتا ہے جہاں صنوبر کے قدیم درخت اپنی مثال آپ ہیں۔ ایک جانب ہنگول نیشنل پارک جو کہ پاکستان کا سب سے بڑا پارک ہے، تو دوسری طرف گزشتہ تہذیب وتمدن کے آثار مہر گڑھ میں موجود ہیں جو بلوچستان کی عظمت رفتہ کی یاد تازہ کرتی ہے۔
یوں تو لا تعداد کوچز روزانہ کراچی سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہوتی ہیں اور محض دس سے بارہ گھنٹے میں کوئٹہ شہر پہنچادیتی ہیں۔لیکن اس دفعہ ہم بلوچستان کا سفر بولان کے عظیم پہاڑی سلسلوں میں بذریعہ ٹرین کریں گے ۔کراچی سے سیہون شریف تک بذریعہ ٹرین ہم اس ٹریک پر پہلے بھی سفر کرچکے ہیں لیکن اس سے آگے کا سفر ٹرین پر نہیں کیا اور یہ جاننے اور دیکھنے کے لیے کہ آخر اس ٹریک پر کس طرح کے چھوٹے قصبے ، شہراور زرعی زمینیں موجود ہیں اور خاص طور پر جب ٹرین انگریز سرکار کے دور حکومت میں تعمیر کی گئیں بولان کی تاریخی سرنگوں میں سے گزرے گی تو کیا ماحول ہو گا۔ یہ وہ تمام عوامل ہیں جن کی وجہسے ہم نے چوبیس گھنٹے پر محیط ٹرین کے سفر کو ترجیح دی۔
کوئلے کے وسیع ذخائر یہاں کی اہم پہچان ہیں۔ سارا سال یہاں کا موسم خشک رہتا ہے ۔ سال میں تین چار بار تیز بارش ہوتی ہے ۔ سردیوں میں یہاں شدید سردی اور گرمیوں میں بہت زیادہ گرمی پڑتی ہے ۔ یہ قصبہ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ قومی شاہراہ این ۔ 65سے بھی منسلک ہے۔ مچھ شہر سے تھوڑا آگے ایک بہت بڑا لوہے کا پل آتا ہے اور غالباً سیلابی ریلہ یہاں سے گزرتا ہے جس کی وجہ سے اکثر مقامات پر پانی کے چھوٹے بڑے جوہڑ نظر آتے ہیں اور سنگلاخ آسمان سے باتیں کرنے والے پہاڑوں کے درمیان ان پانی کے جوہڑوں کی وجہ سے اچھی خاصی ہریالی نظر آتی ہے ۔
سفر کی مسافت طویل ہونے کے باوجود یہ سفر نہایت رنگین ہے اور ارگرد کے خوبصورت مناظر آپ کو اپنی جانب کھینچے رکھتے ہیں۔چنانچہ بذریعہ بولان میل شام چھ بج کر پندرہ منٹ پر ہم کراچی سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہوئے اور مختلف بڑے چھوٹے شہروں اور قصبوں سے ہوتے ہوئے صبح آٹھ بجے کے قریب جیکب آباد سندھ پہنچ گئے ۔جیکب آباد سندھ کا آخری شہر ہے ۔ جیکب آباد ریلوے جنکشن کو اردو میں تھل نائو ریلوے سٹیشن کہا جاتا ہے۔یہ شہر جرنیل جون جیکب نے 1848میں آباد کیا اور اسی کے نام سے اس شہر کا نام جیکب آباد پڑا۔8 یونین کونسل پر مشتمل یہ شہر2017 کی مردم شماری کے مطابق تقریباً 2 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔جیکب آبادسندھ کا گرم ترین شہر ہے اور گرمیوں میں درجۂ حرارت50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی اوپر چلا جاتا ہے۔ اس شہر میں بارش کا تناسب انتہائی کم ہے۔جیکب آباد شہر قومی شاہراہ این65 سے بھی منسلک ہے۔ پنجاب ، سندھ اور سرحد سے ٹرینیں اسی جنکشن سے گزر کر بلوچستان میں داخل ہوتی ہیں۔بذریعہ ریل اگر سند ھ کا آخری شہر جیکب آباد ہے تو جب ہم ڈیرہ اللہ یار کے ریلوے سٹیشن پر پہنچتے ہیں تو یہ بلوچستان کا پہلا قصبہ نما شہر ہے۔ڈیرہ اللہ یارسٹیشن میں ٹرین تقریباً5 سے 10 منٹ قیام کرتی ہے اور اپنی اگلی منزل ڈیرہ مراد جمالی کی جانب چل پڑتی ہے۔
مزید آگے سفر کے دوران آپ محسوس کرسکتے ہیں کہ اب آپ کا باقاعدہ سفر بلوچستان میں شروع ہوچکا ہے اور جابجا سکیورٹی کے انتظامات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اب ہمارا سفر ڈیرہ مراد جمالی سے سبی شہر کی جانب تیزی سے جاری ہے اور ٹرین مختلف سٹیشنوں سے ہوتے سبی شہر پہنچ جاتی ہے۔ڈیرہ مراد جمالی سے سبی شہر کے درمیان کا زیادہ تر علاقہ خشک اور میدانی ہے۔
سبی بلوچستان کا تاریخی شہر ہے 2017کی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی کل آبادی تقریباً ایک لاکھ 36ہزار نفوس پر مشتمل ہے جہاں بلوچستان کے مختلف برادریوں کے لوگ آباد ہیں ۔یہاں ہر سال قدیم سبی میلہ باقاعدگی سے منعقد کیا جاتا ہے اور شہر کی رونق اس دوران دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
سبی شہر سے جب آپ کوئٹہ کی جانب سفر کرتے ہیں تو ایک لمحے کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرین پیچھے کی جانب سفر کررہی ہو لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ ٹرین کے انجن کو تبدیل کردیا جاتا ہے اور ٹرین تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر مشکاف کے پہاڑی سلسلے میں داخل ہو جاتی ہے۔
سبی شہر سے کوئٹہ تک کا سفر اپنے اندر ایک پراسرار داستان لیے ہوئے ہے جو نہایت ہی دلچسپ اور تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔
انگریز دور حکومت میں یہاں ریلوے ٹریک بچھانے کے منصوبے پر کام شروع کیا گیا ۔1857میں ولیم اینڈریو چیئرمین پنجاب ۔دہلی ریلوے نے اس عظیم منصوبے کا خاکہ پیش کیا کہ کوئٹہ اور فرنٹیئرکے ساتھ منسلک کرنے کا آسان طریقہ یہ ریلوے ٹریک ہی ہو گا۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہوں کہ سنگلاخ چٹانوں کو کاٹ کر سرنگیں نکالنا اور اس پر پٹری بچھانا تھی۔ یہ نہایت ہی مشکل ترین پروجیکٹ تھا جو انگریز سرکار کے لیے چیلینج کی حیثیت رکھتا تھا۔یہاں کے جفاکش مزدوروںنے یہ کام آسان کردیا اور ریلوے ٹریک مکمل کرنے میں کامیاب ہوگئے جو اب تک قائم ہے۔سرنگوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کہ یہ کچھ سال قبل ہی تعمیر کی گئی ہوں لہٰذا اس کا جتناکریڈٹ انگریز انجینئر کو جاتاہے اس سے کہیں زیادہ مقامی محنت کشوں کو جاتا ہے جنہوں نے سنگلاخ چٹانوں کا سینہ چیر کر ناممکن پروجیکٹ کو ممکن بنادیا۔چنانچہ اس پروجیکٹ پر سب سے پہلے 215 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک ''رت تا سبی'' ٹریک پر4 ماہ میں تیز رفتاری سے کام مکمل کیا گیا اور ایک عظیم تاریخی منصوبے کے پہلے حصے کا آغاز ہوا اور2 مئی 1880 کو اس ٹریک پر پہلی ٹرین سبی ریلوے سٹیشن پہنچی ۔
سبی شہر سے آگے کا سفر پہاڑی سلسلوں پر محیط ہے اور یہاں ریلوے لائن کی تنصیب ایک سحر انگیز اور دلچسپ کہانی ہے۔
وادیٔ بولان میں ریلوے لائن بچھانے کا آغاز1880 میں ہوا۔ اس ٹریک پر ٹرین 350 چھوٹے بڑے خوبصورت پلوں اور21 تاریخی سرنگوں سے گزرتی ہے جو 19ویں صدی کا اس خطے میں سب سے بڑا شاہکار مانا جاتا ہے۔
اب ہم واپس اپنے سفر کی جانب آتے ہیں۔ سبی ریلوے جنکشن سے نکلتے ہی منظر یکسر تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ بلند وبالا پہاڑ ی سلسلے آپ کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں اور ماحول میں خنکی کا عنصر غالب آنے لگتا ہے۔اب ہم 'آب گم' ریلوے سٹیشن کی جانب محو سفر ہیں۔ ٹرین سرنگوں میں داخل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اردگرد کے مناظر آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں ۔ بلوچستان کی یہ حسین وادیاں اور اس کی پرسرار خوصورتی آپ کے دل کے تار بجانے لگتی ہے ۔
اس دلکش سفر کے دوران آپ کبھی دائیں کھڑکی سے باہر کے مناظر کو کیمرے کی آنکھوں میں قید کررہے ہوتے ہیں کہ بائیں جانب کے مناظر آپ کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں اور اسی کشمکش میں ٹرین ایک جھٹکے کے ساتھ ایک چھوٹے سے مگر خوبصورت سٹیشن پر رک جاتی ہے ۔
'آب گم' نامی سٹیشن آپ کو ٹرین سے باہر نکلنے پر مجبور کردے گا ۔ اس مقام پر ٹرین کو ایک اضافی انجن لگایا جاتا ہے۔ یہاں سے آگے ریلوے لائن بلند پہاڑوں پر بچھائی گئی ہے ۔
آب گم ایک چھوٹا قصبہ ہے ۔ بلوچستان کے ضلع کچھی میں واقع یہ قصبہ کوئٹہ شہر کے جنوب مشرق سمت 75 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ابھی ہم اس علاقے کی پراسراریت میں گم تھے کہ ٹرین کی سیٹی ہمیں خواب سے باہر لے آئی اور ٹرین آہستہ آہستہ اپنی اگلی منزل کی جانب محو سفر ہوگئی ۔
آب گم سے نکلتے ہی ٹرین ایک بہت بڑا موڑ کاٹتی ہے۔ یہ ایک خوبصورت اور دل موہ لینے والا نظارہ ہوتا ہے اور سیاح سوچتا ہے کہ میرے سارے پیسے تو شائد یہیں وصول ہو گئے ۔
ریلوے ٹریک انتہائی زیادہ گھوما ہوا ہے اور پاکستان میں یہ واحد ریلوے ٹریک ہے جہا ں آخری ڈبے میں بیٹھا شخص انجن میں بیٹھے ٹرین ڈرائیور کو دیکھ سکتا ہے ۔چاروں طرف بلند وبالا فطرت سے ہم آہنگ پہاڑی سلسلے آپ کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتے ہیں اور زبان سے بے ساختہ اللہ کی تعریف نکلنے لگتی ہے اور کیا ہی کمال منظر ہوتا ہے یہاں کی خوبصورتی اور محل وقوع کو لفظوں میں بیا ن نہیں کیا جا سکتا ۔
آب گم سے نکلنے کے بعد ٹرین کی اگلی منزل مچھ شہر ہے۔ مختلف سرنگوں اور برساتی نالوں پر بنائے گئے لوہے کے دیدہ زیب پلوں اور آسمان سے باتیں کرتے پہاڑوں سے گزرتی ہوئی ٹرین مچھ شہر کے سٹیشن پر پہنچ جاتی ہے ۔ اور جیسے ہی ٹرین کے پہییے جام ہوتے ہیں آپ یکدم سے سٹیشن پر کیمرے سمیت کود پڑتے ہیں اور کیوں نہ ہو کہ یہاں کا منظر سب سے مختلف جو ہوتاہے۔ یہ پہچان بلوچستان ہے اور ہم اس ر یلوے ٹریک کی خوبصورتی میں مدہوش ہیں ۔
مچھ ضلع کچھی کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو کوئٹہ کے جنوب مشرق میں 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔مچھ جیل سارے پاکستان میں مشہور ہے۔اسے 1929 میں انگریز سرکار نے بنایا جہاں سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو آج بھی رکھا جاتا ہے۔
کوئلے کے وسیع ذخائر یہاں کی اہم پہچان ہیں۔ سارا سال یہاں کا موسم خشک رہتا ہے ۔ سال میں تین چار بار تیز بارش ہوتی ہے ۔ سردیوں میں یہاں شدید سردی اور گرمیوں میں بہت زیادہ گرمی پڑتی ہے ۔ یہ قصبہ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ قومی شاہراہ این ۔ 65سے بھی منسلک ہے۔ مچھ شہر سے تھوڑا آگے ایک بہت بڑا لوہے کا پل آتا ہے اور غالباً سیلابی ریلہ یہاں سے گزرتا ہے جس کی وجہ سے اکثر مقامات پر پانی کے چھوٹے بڑے جوہڑ نظر آتے ہیں اور سنگلاخ آسمان سے باتیں کرنے والے پہاڑوں کے درمیان ان پانی کے جوہڑوں کی وجہ سے اچھی خاصی ہریالی نظر آتی ہے ۔ بڑی تعداد میں کھجوروں کے درخت موجود ہیں جو یہاں کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتے ہیں ۔مچھ سٹیشن میں کچھ دیر قیام کے بعد ہماری ٹرین اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہو جاتی ہے۔
اب ہم درہ بولان میں سفر کریںگے۔ اس ریلوے لائن کو روہڑی ۔ چمن ریلوے کہتے ہیں ۔ یہ ریلوے ٹریک ناگن کی طرح درہ بولان میں بل کھاتی رینگتی ہے اور این 65 نیشنل ہائی وے کبھی دائیں تو کبھی بائیں آنکھ مچولی کھیلتی رہتی ہے ۔
درہ بولان کا یہ پہاڑی سلسلہ ''طوبہ کاکڑ '' رینج کہلاتا ہے جو سطح سمندر سے تقریباً 1793میٹر بلندی پر واقع ہے ۔
اب ہم دوزا ن اور کول پور کی جانب محو سفر ہیں- ٹرین ایک سرنگ سے نکلتی ہے اور آپ آس پاس کے حسین قدرتی مناظر کو کیمرے میں قید بھی نہیں کر پاتے کہ اچانک اندھیرا چھا جاتا ہے جو اس بات کا غماز ہوتا ہے کہ ایک نئی سرنگ آپ کو اپنے اندر سموچکی ہے اور ایسے سحر انگیز د لفریب نظاروں کو روح میں سموتے ہوئے ہم کول پور ریلوے سٹیشن پہنچ جاتے ہیں ۔
کول پور ریلوے سٹیشن پر موسم یکسر تبدیل ہو جاتا ہے اور سردی میں اچانک اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہاں سردی میں اضافے کی بنیادی وجہ اس کی سطح سمندر سے بلندی ہے۔
کول پور سطح سمندر سے تقریباً 2087 میٹر بلندی پر واقع ہے اور اتنی زیادہ بلندی کی وجہ سے ہی کول پور کوئٹہ شہر سے بھی زیادہ ٹھنڈا ہے۔
سردیوں میں یہاں بہت زیادہ برف باری ہوتی ہے اور ریلوے سٹیشن سفید چادر اوڑھ لیتا ہے ۔ کول پور میں آپ کو جگہ جگہ سبزہ نظر آئے گا یہاں مختلف پھلوں کے باغات ہیں جو دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ موسمی سبزیاں بھی کافی مقدار میں کاشت کی جاتی ہیں ۔ یہ اس ریلوے ٹریک کا سب سے زیادہ سرسبز علاقہ ہے۔
کول پور سے نکلنے کے بعد ٹرین پہاڑی سلسلوں میں ہچکولے کھاتی اس ریجن کے عظیم ریلوے پروجیکٹ کی آخری سرنگ میں داخل ہو جاتی ہے اس آخری ٹنل کا نام " SUMMIT 1894 " ہے ۔
ٹرین اپنی منازل طے کرتی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی مضافاتی بستی میں داخل ہو جاتی ہے اور ٹرین اب آخری سٹیشن کی جانب رواں دواں ہے۔
کوئٹہ کو "FRUIT GARDEN" کے نا م سے بھی پہچانا جاتا ہے ۔ جب ٹرین کوئٹہ شہر میں داخل ہوتی ہے اور اس سفر کے آخری سٹیشن پر پہنچتی ہے تو سٹیشن کے صدر دروازے کے بالکل سامنے ایک یادگاری تختی لگی نظر آتی ہے جس میں 1935 میں آئے شدید زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کے نام درج ہیں اور یہ وہ افراد ہیں جو محکمہ ریلوے سے منسلک تھے۔ ان مرنے والوں میں تمام مذاہب کے لوگ شامل تھے ۔کوئٹہ ریلوے سٹیشن میں ایک عجائب گھر بھی موجود ہے جس میں اس ریلوے پروجیکٹ کی یادگار اشیاء بڑے سلیقے سے رکھی گئی ہیں ان اشیاء کو دیکھ کر آپ ماضی کے حسین جھروکوں میں چلے جاتے ہیں ۔
موسم سرما میں تو آپ فیملی کے ساتھ ریلوے کے اس عظیم پروجیکٹ کے ذریعے بہترین اور سستی تفریح حاصل کرسکتے ہیں ۔ کراچی اور اندرون سندھ کے لوگوں کے لیے تو یہ یہ ا یک نعمت سے کم نہیں۔ مر ی جانے کی ضرورت نہیں۔ موسم سرما میں یہ ریلوے ٹریک شدید برف باری کی زد میں ہوتا ہے۔
کول پور کا ریلوے سٹیشن سفید چادر اوڑھ لیتا ہے۔ چاروں طر ف بلند وبالا پہاڑ روئی کے سفید گالوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور کیا ہی حسین اور کما ل منظر آپ کا منتظر ہوتا ہے۔
سیاحوں کو اگر خاطر خواہ سہولیات بہم پہنچائی جائیں تو سبی تا کوئٹہ ریلوے کا یہ سفر مزید دلکش اور حسین بن سکتا ہے اور کم بجٹ کی وجہ سے ایک بہترین تفریحی مقا م کا درجہ حاصل کر سکتا ہے۔ ||
مضمون نگار مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے