بھارتی فوج کے معصوم اور نہتے کشمیریوں پر ظلم و استبداد کے پس منظر میں لکھی گئی مریم صدیقی کی کہانی
اس کے ہاتھ میں ایک پھٹا ہوا، چر مر سا کا غذ تھا جو اس نے مٹھی میں دبا رکھا تھا اور ایک جلی ہوئی لکڑی کا ٹکڑا جو اس نے دوسرے ہاتھ میں چھپایا ہوا تھا، گویا بہت قیمتی شے ہو۔ وہ سرک سرک کر آگے بڑھا اور ایک دیوار کے سائے تلے آکر بیٹھ گیا۔ فضا میں بارود کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ وقفے وقفے سے گولیوں کی بوچھاڑ کی جارہی تھی۔ اس نے نم آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا اور اس سے مخاطب ہوا جو اس کائنات کا مالک و خالق ہے، ''میرا یہ خط تجھ تک پہنچ جائے تو مجھے جواب ضرور دینا۔ ماں کہتی تھی کہ اگر کوئی اسے سچے دل سے پکارے تو وہ جواب ضرور دیتا ہے''۔
جب میں پیدا ہوا اور میں نے آنکھیں کھولیں تو خود کو سر سبز باغات کی جنت میں پایا، جہاں بادل پہاڑوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلا کرتے۔ ایسی جنت کا تو تصور بھی نہیں کیا تھا میں نے دنیا میں۔ میں سمجھتا تھا کہ میں اور یہاںرہنے والے لوگ بہت خوش نصیب ہیں جنہیں اللہ نے دنیا میں ہی جنت میں پیدا کیا۔ میں بہت خوش تھا، اماں ابا سب مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔
پھر ایک دن اچانک جنت جہنم میں بدل گئی،جب ہمارے گھر کچھ لوگ ایک تابوت لے کر آئے اور اماں کو بتایا کہ یہ ابا ہیں۔ میں حیرت سے کبھی اماں کو دیکھتا اور کبھی اس تابوت میں لیٹے ابا کو۔ میں حیران تھا کہ ابا آج اس میں کیوں سورہے ہیں وہ تو ہمیشہ اپنے بستر پر ہی سوتے تھے۔ میں نے اماں کی آنکھوں سے آنسو گرتے دیکھے تو مجھے خوف محسوس ہوا۔ آج سب کچھ الگ الگ سا کیوں تھا، ابا جو ہمیشہ بستر پر سوتے تھے آج یہاں کیوں سوئے ہوئے تھے اور اماں جو کبھی نہیں روتی تھیں، ہمیں بہادر بننے کی تلقین کرتی تھیں، وہ رو رہی تھیں۔ میں آنکھیں پھاڑے وہاں موجود لوگوں کو دیکھتا رہا اور تھوڑی دیر بعد وہ لوگ ابا کو لے گئے۔
اماں نے مجھے اور بہن بھائیوں کو سینے سے لگایا اور رونے لگیں۔ ہم سب کو بتایا کہ ابا آپ کے پاس چلے گئے ہیں۔ مجھے اپنی یہ جنت بری لگنے لگی تھی۔ ابا کے بغیر بھی بھلا کوئی جنت ہوتی ہے۔ ابا کے جانے کے بعد گھر میں سب ڈر ے ڈرے سے رہنے لگے تھے۔ مجھے حیرت ہوتی تھی کہ ہم سب ابا کے بغیر کیسے زندہ ہیں۔ پھر ایک دن میں نے دیکھا کہ علی بھائی امی سے لڑ رہے ہیں۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آیا، بھائی تو امی کی بہت عزت کرتے تھے تو اب ان سے کیوں لڑ رہے ہیں۔ کشف باجی نے سکول جانا چھوڑ دیا۔ اب وہ گھر پر رہنے لگی تھیں۔ وہ مجھ سے بہت ساری باتیں کرتیں لیکن مجھے لگتا تھا وہ سکول جانا چاہتی ہیں مگر کسی سے کہتی نہیں ہیں۔
جنت میں تو سب خوش رہتے ہیں اماں بتاتی تھیں کہ جنت میں کسی کو کوئی غم نہیں ہوگا۔ پھر یہ کیسی جنت تھی کے یہاں کوئی خوشی ہی نہ تھی۔ اب میں کچھ کچھ باتیں سمجھنے لگا تھا۔ اماں کا ڈر، بھائی کا لڑنا اور کشف باجی کا سکول نہ جانا مجھے سمجھ آنے لگا تھا۔ ایک دشمن تھا جو ہماری جنت کو ہم سے چھین لینا چاہتا تھا اور جو بھی اس دشمن سے لڑتا وہ اس کو مار دیتا تھا جیسے میرے بابا، شفیق چچا، مظہر چچا، احد انکل، ظہیرچچا، صابر بھائی، علیم بھائی اور بھی نہ جانے کتنے لوگ۔ تو تو دیکھ رہا تھا نا اللہ! تونے کیوں نہیں بچایا انہیں دشمن سے؟ ہم کیوں دے دیتے ان دشمنوں کو اپنی جنت۔ پھر ایک دن وہی تابوت دوبارہ ہمارے گھر آیا لیکن اب اس میں ابا نہیں بلکہ علی بھائی سورہے تھے۔ وہ بھی دشمنوں سے اپنی جنت بچانے کے لیے لڑنے گئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کشف باجی سکول جائیں۔ ہم خوش رہیں لیکن وہ دشمن ہم سے ہماری خوشیاں چھین لینا چاہتا تھا اور اس نے ہم سے ابا کے بعد اب علی بھائی کو بھی چھین لیا۔ اب گھر میں صرف ہم چار لوگ بچے تھے اماں، امداد بھائی، کشف باجی اور میں۔
ساتھ والی سکینہ خالہ کے گھر بھی ایسے دو تابوت آئے تھے۔ پھر سکینہ خالہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھیں لیکن دشمن پھر بھی ہماری جنت کو چھوڑ کر نہیں گیا۔ ایک دن میں نے دیکھا اماں رورو کر امداد بھائی سے کچھ کہہ رہی تھیں لیکن امداد بھائی کچھ سننے پر آمادہ نہ تھے ،مجھے انہیں دیکھ کر ڈر لگنے لگا۔ ایک دن گھر واپس آئے تو شدید زخمی تھے۔ سر اور ہاتھ پیر پٹیوں میں جکڑے ہوئے تھے، درد سے کراہ رہے تھے۔ ان کی ایک آنکھ بھی زخمی تھی۔ اماں ان کے پاس بیٹھ کر رو رہی تھیں جب انہوں نے کہا کہ وہ آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان بھی دے دیں گے۔ تب مجھے سمجھ نہیں آیا تھا کہ یہ آزادی کیا ہوتی ہے؟ اور اسے حاصل کرنے کے لیے جان کیوں دینی پڑتی ہے؟ اگر جان دے کر آزادی مل جائے گی تو ابا اور علی بھائی کی جان کے بدلے کیوں نہیں ملی؟ امداد بھائی کی جان کے بدلے ہی کیوں ملے گی؟ اتنے سارے سوال سوچ کر میری بھوک بھی مر گئی تھی۔
میں خاموشی سے اٹھ کر کشف باجی کے کمرے میں چلا آیا، جہاں وہ خاموش لیٹی چھت کو تک رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر اٹھ کر بیٹھ گئیں۔
''آؤوہاں کیوں کھڑے ہو؟''
''آپ سے کچھ پوچھنے آیا ہوں''۔ میں نے سر جھکا کر کہا ۔
''ہاںیہاں آکر پوچھو''، انہوں نے اشارے سے پاس بلایا۔
''یہ آزادی کیا ہوتی ہے؟'' میرے سوال پر انہوں نے مجھے چونک کر اور قدرے گھبرا کر دیکھا کہ کہیںمیں بھی تو علی بھائی اور امداد بھائی کی طرح آزادی کے لیے جان دینے کا تو نہیں سوچ رہا۔
''آپ مجھے بس یہ بتادیں کہ کیا آزادی جان دیے بغیر نہیں ملتی؟'' انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔
''آزادی حاصل کرنا بہت مشکل ہے اس کے بدلے سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ جیسے پاکستان کے لیے آزادی حاصل کرنے والوں نے کیا تھا''۔
''انہوں نے کیا قربان کیا تھا؟''
''اپنا سب کچھ، اپنا گھر، جائیداد، زمین، اولاد، اپنی جان سب کچھ قربان کردیا تھا''۔
''پھر انہیں آزادی مل گئی تھی؟'' ''ہاں پھر انہیں آزادی مل گئی تھی کیوں کہ اللہ نے ان کی دعا قبول کر لی تھی''۔
''اللہ ہماری دعا کب قبول کرے گا؟''
''ایک دن ضرور کرے گا'' کشف باجی نے عزم سے کہا اور اس دن سے یہ میرا یقین بن گیا کے جب تو قبول کرلے گا اے اللہ تو ہمیں آزادی مل جائے گی۔
میں نے کشف باجی سے لکھنا سیکھا تھا تاکہ میں تجھے خط لکھ کر اپنی گزارش پہنچا سکوں، ان دشمنوں نے ابا اور علی بھائی کے بعدکشف باجی، امداد بھائی اور اماں کی جان بھی لے لی اورمیری ٹانگوں پر بھی چار گولیاں ماری ہیں اور آزادی بھی نہیں دی۔ سب لوگ کہتے ہیں کہ ہم دنیا والوں سے انصاف مانگیں لیکن اے اللہ! ہم تو تیرے بندے ہیں اور تو سب سے بڑا منصف ہماری سب کی جان کے بدلے تو میرے باقی کشمیری بہن بھائیوں کو آزادی دے دے۔ دشمن نے ہم سے ہمارے سارے رشتے چھین لیے۔ میں بھی ابھی مرجاؤں گا لیکن مجھے یاد ہے کشف باجی نے کہا تھا کے جب آپ دعائیں قبول کرلیںگے تو ہمیں آزادی مل جائے گی۔ ہمیں ان دنیا کے منصفوںسے کچھ نہیں لینا دینا بس آپ کا انصاف چاہیے۔
فقط
ایک مظلوم کشمیری
کاغذ پھڑ پھڑا کر دور جاگرا اور اس کا نیم جاں وجود ایک جانب ڈھلک گیا۔ ایک اور جان کشمیر کی آزادی کے لیے دے دی گئی تھی لیکن آج نہ کوئی تابوت لے جانے والا تھا اور نہ ہی کوئی آنسو بہانے والا۔ ||
تبصرے