بلوچستان معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے ، یہاں ترقی کے بہترین اور آگے بڑھنے کے لئے متعدد مواقع موجود ہیں ، سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے اگرہر دورِ حکومت میں اقدامات اٹھائے جاتے تو آج حالات بہت بہتر ہوتے اوربلوچستان میں ترقی وخوشحالی کا دور دورہ ہوتا۔ بہرطور جس طرح ان دنوں سی پیک پر کام جاری ہے، جنوبی بلوچستان کے لئے پیکیج کا اعلان کیاگیا ہے، سڑکوں کے کام سمیت صحت وتعلیم کے خصوصی منصوبوں پر کام جاری ہے، اس سے مستقبل میں صوبہ بلوچستان ترقی اور خوشحالی کے میدان میں بہت آگے ہوگا۔ وفاق نے بھی عندیہ دیاہے کہ بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کی تعلیم ، صحت کے حوالے سے ترقی سمیت گیس وبجلی بحران کے خاتمے اور جاری منصوبوں کی تکمیل کے لئے وفاق صوبے کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گا۔بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں ترقی کے لئے ہر ممکن وسائل کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اسی طرح بلوچستان میں ہیلتھ کارڈ کے اجراء میں وفاق کی جانب سے پچاس فیصد حصہ ڈالنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ دوسری جانب صوبائی حکومت نے بھی اعادہ کیا ہے کہ بلوچستان کے تمام اضلاع کے مسائل کا حل اولین ترجیحات میں شامل ہے ،مراکز صحت اورتعلیمی اداروں کی بہتری کے لئے ہر ممکن اقدامات کو یقینی بنایا جائے گا۔ صوبے کے اضلاع میں سرکاری محکموں بالخصوص تعلیمی اداروں اور مراکز صحت کی بہتری و فعالی کے لئے ہر ممکن اقدامات کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
ادھر صوبائی حکومت کی جانب سے جعلی ادویات کی روک تھام کے لیے گوادر کے تمام میڈیکل سٹورز کی انسپکشن کی گئی ہے۔ اسی طرح محکمہ صحت کی بہتری کے لئے بھی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعلیٰ بلوچستان کے مشن اور ویژن کے مطابق محکمہ صحت کے لئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیںجس میں صوبے میں تمام سرکاری ہسپتالوں اور طبی مراکز کو جدید خطوط پر استوار کیا جارہا ہے۔ کرونا کے وقت تمام سرکاری افسران اور ڈاکٹرز کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں اور ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، تاہم صوبے میں ڈاکٹرزکو صحت کے شعبے کی بہتری کے لئے بھی اپنا بھرپور کردار اد ا کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت تمام ہسپتالوں میں جدید مشینری اور ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے عملی اقدامات کر رہی ہے تاکہ بلوچستان کے عوام کو صحت کی بہترین سہولیات میسر ہوں۔ادھر بچوں کو معذوری سے محفوظ رکھنے اور صوبہ بھر میں پولیو جیسے موذی مرض کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے ہنگامی طور پر بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلائے جا رہے ہیں۔ تاہم صوبے کے دوردراز علاقوں میں پولیو مہم شروع ہونا خوش آئند اقدام ہے ۔ پولیو مہم سے متعلق شعور اور آگہی کو فروغ دینے اور اس کی کامیابی میں علمائے کرام، قبائلی عمائدین و معتبرین اور سول سوسائٹی کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ صوبے بھر میں پانچ سال کی عمر سے کم 23 لاکھ بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلانے والی 11084 کے قریب ٹیمیں صوبے کے طول و عرض میں اپنے اہداف مکمل کرنے کے درپے ہیں اور اس مہم میں پولیو کے قطروں کے ساتھ ساتھ بچوں کو وٹامن اے کے قطرے پلانا بھی اچھا اقدام ہے۔ بلوچستان کے وسیع وعریض رقبے پر پھیلی آبادی تک محکمہ صحت کی رسائی ایک مشکل عمل ضرور ہے، تاہم ناممکن نہیں۔ اس لئے صحت عامہ پر کوئی سمجھوتہ قابل قبول نہیں ہونا چاہیے ۔ کوویڈ ویکسین کرونا کی موذی وبا سے بچنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ کم شرح خواندگی کے باعث کوویڈ ویکسین سے متعلق منفی اور بے بنیاد پروپیگنڈوں کو زائل کرکے اس کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔
یہ قابلِ ستائش امر ہے کہ بلوچستان میں ایک ایک کرکے پرانے منصوبے مکمل کئے جا رہے ہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں صوبے کے معاملات کو سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت کے تعاون سے پاک ایران بارڈر پر مند کے مقام پر بارڈر مارکیٹ کے قیام کا آغاز ہوگیا ہے اور عنقریب گبد اور مکران ڈویژن کے دیگر علاقوں میں بارڈر مارکیٹ پر کام کا آغاز ہو جائے گا جس سے بارڈر تجارت میں مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ وفاقی حکومت نے بھی اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 60 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ مغربی بلوچستان پیکج کے تحت وفاق اور صوبائی فنڈز سے مختلف شاہراہوں اور ڈیموں کی تعمیر کیلئے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو 180ارب روپے مالیت کے منصوبے پر کام کرنے کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ تعلیمی حوالے سے گوادر یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی تعیناتی کر دی گئی اور کلاسز کا آغاز بھی عنقریب کر دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ گوادر کے تعلیمی اداروں میں نان ٹیچنگ سٹاف کی تعیناتی کے لیے سلیکشن پراسیس مکمل ہوگیا ہے جس پر جلد آرڈرز جاری ہو جائیں گے۔ صوبے میں سیاسی سطح پر ہونے والی تبدیلی ایک سوچ اور مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے عمل میں آئی ہے جس کا مقصد گورننس کی بہتری کے ذریعے عام آدمی کی بھلائی ہے۔صوبے اور حکومت کی ترقی اور نیک نامی کے لئے پرعزم جدوجہدسمیت بلوچستان کی ترقی کے لئے مل کر ایک ٹیم کے طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان ایک وسیع وعریض صوبہ ہے جس کی آبادی منتشر ہے۔ زیادہ تر حصہ دیہی علاقوں پرمشتمل ہے جس میں صوبے کا ستر فیصد حصہ شامل ہے،جہاں عوام آج بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔ صحت وتعلیم،آبپاشی، پانی کی نکاسی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں دیگر صوبوں کی نسبت سیاسی نظام مختلف رہا ہے، صوبے کے سیاسی کلچر نے پسماندگی اورکرپشن کو دوام بخشا اور یہی وجہ ہے کہ صوبہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔سات دہائیوں سے ترقیاتی فنڈز شخصیات کی خواہشات کے مطابق خرچ ہوئے،عوامی مفادات اور ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی بھی ترقیاتی کام نہیں کیا گیا۔ اس وجہ سے بلوچستان کے عوام نہ صرف بنیادی سہولیات سے محروم ہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان بے روزگار ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ عوام سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو گئے ہیں۔ویسے اگر دیکھا جائے تو پورے ملک کی سیاسی جماعتوں نے عوام کو مایوس کیا ہے، اپنے من پسند لوگوں کو ترقی اور روزگار ودیگر سہولیات مہیا کرکے باقی عوام کو سوائے مایوسی کے کچھ نہیں دیا۔ مصنوعی اور دکھاوے کی سیاست نے بلوچستان سمیت پاکستان کی عوام کو مایوس کیا ہے۔ ||
تبصرے